سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(6) شراکت اور اس کی اقسام

  • 23728
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 16044

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شراکت اور اس کی اقسام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شراکت کے مسائل سے واقفیت نہایت ضروری ہے کیونکہ تجارت میں لوگوں کو اکثر طور پر ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ شراکت مالی فوائد حاصل کرنے اور اسے بڑھانے میں باہمی تعاون کا نام ہے اس طرح ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

تجارت وغیرہ میں شراکت کے جواز کے دلائل کتاب و سنت میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ وَإِنَّ كَثيرًا مِنَ الخُلَطاءِ لَيَبغى بَعضُهُم عَلىٰ بَعضٍ... ﴿٢٤﴾... سورة ص

"اور بلاشبہ اکثر حصے دار (شریک ایسے ہوتے ہیں کہ) ایک دوسرے پرظلم کرتے ہیں۔[1]

درج بالا آیت کریمہ شراکت کے جواز پر دلالت کرتی ہے نیز شریک کو دوسرے شریک پر ظلم کرنے سے روکتی ہے۔شراکت کے جواز پر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ آپ نے فرمایا:

"إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ أَنَا ثَالِثُ الشَّرِيكَيْنِ مَا لَمْ يَخُنْ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ فَإِذَا خَانَهُ خَرَجْتُ مِنْ بَيْنِهِمَا "

"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں دو حصے داروں میں تیسرا ہوں جب تک ان میں ایک شخص دوسرے کی خیانت نہیں کرتا۔ اگر ایک شخص خیانت کرے تو میں ان کے درمیان سے نکل جاتا ہوں۔"[2]

اس حدیث میں جہاں شراکت کے جواز کا بیان ہے وہاں ایک دوسرے کی خیانت نہ کرنے کی بھی تاکید ہے۔ شراکت میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون مقصود ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کے ساتھ تعاون کرتا رہتا ہے۔"[3]

کاروباری اشتراک میں حلال اور پاک مال شامل ہونا چاہیے حرام یا حرام کی آمیزش سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہیے۔

اگر شراکت میں خریدو فروخت کی نگرانی واشراف مسلمان کے ہاتھ میں ہے تو شراکت میں کافر کے حصے دار ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لیے کہ اس صورت میں سودی کاروبار یا حرام مال کے شام ہونے کا اندیشہ نہیں ہے۔

شراکت کی دو قسمیں ہیں۔(1)شراکت املاک(2)شراکت عقود۔

شراکت املاک یعنی استحقاق میں اشتراک مثلاً زمین یا فیکٹری یا گاڑیوں وغیرہ کی ملکیت میں اشتراک کا ہو نا شراکت عقود یعنی تصرف میں اشتراک مثلاً: شے کی خریدو فروخت یا اسے کرائے پر دینے میں ہر ایک کو اختیار حاصل ہو۔ اور یہ اشتراک یا تو مال اور محنت دونوں کو شامل ہو یا صرف محنت میں اشتراک ہو مال میں نہ ہو اس کی  پانچ قسمیں ہیں جو درج ذیل ہیں۔

1۔دونوں حصہ داروں کا مال اور محنت کرنے میں اشتراک اسے"شرکت عنان"کہتے ہیں۔

2۔ایک کا مال مہیا کرنا اور دوسرے کا محنت کرنا ۔ اسے"مضاربت" کہا جاتا ہے۔

3۔بغیر مال کے ذمے داری اٹھانے میں دونوں شریک ہوتے ہیں اس کا نام "شرکت وجوہ" ہے۔

4۔بدنی محنت میں دونوں کا اشتراک ہو۔ یہ قسم"شرکت ابدان"کے نام سے مشہور ہے۔

5۔مذکورہ تمام چیزوں میں شریک ہونا یعنی جس میں ہر حصے دار دوسرے کو مالی اور بدنی  اشتراک کے جملہ اختیارات تفویض کر دیتا ہے اور ہر شریک خریدو فرخت کے اختیارات کا حامل ہوتا ہے۔ یہ قسم شرکت عنان و جوہ اور ابدان کے علاوہ مضاربت کو بھی شامل ہے۔ اس قسم کا نام "شرکت مفاوضہ" ہے۔

یہ مذکورہ بیان شراکت کی انواع کا مجمل خاکہ تھا۔ ان کی اہمیت اور ضرورت کے پیش نظر اب ہم آپ کو ہر ایک کی تفصیل سے آگا کریں گے۔

شراکت عنان

دو یا زیادہ شریکوں کا مال اور تصرف میں برابر ہونے کو "شراکت عنان"کہتے ہیں۔شراکت عنان میں دونوں شریک اپنا مال اور محنت برابر پیش کرتے ہیں۔

دو شخص (یا زیادہ) اپنا اپنا مال ایک مال کی طرح یکجا کر لیں اور معاہدہ کریں کہ سب مل کر کاروبار کریں گے یا ایک کاروبار کرے گا تو اسے دوسرے کی نسبت زیادہ نفع ملے گا۔

مذکورہ اعتبار سے "شراکت عنان"بالا جماع جائز ہے جیسا کہ ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ  نے بیان کیا ہے البتہ اس قسم کی شراکت کی بعض شرائط میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔

فریقین میں سے ہر ایک اس اجتماعی مال میں اصالتاً اور وکالتاً تصرف کر سکتا ہے۔ کسی کو دوسرے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔

علماء کا اتفاق ہے کہ شراکت کے کاروبار میں ہر ایک کا اصل مال سونے چاندی کے سکوں (کرنسی) کی شکل میں ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے لے کر اب تک لوگ بلا اعتراض اس کے ساتھ ہی شراکت کا کاروبار کرتے آرہے ہیں اور کسی عالم نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔

شراکت عنان میں اصل مال سامان کی شکل میں ہو تو اس میں شراکت کے جواز یا عدم جواز میں علماء کا اختلاف ہے۔ عدم جواز کے قائلین کی دلیل یہ ہے کہ ایک سامان کی قیمت میں کمی و بیشی  کا امکان ہے لہٰذا ہر حصے دار میں نفع برابر تقسیم نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک شخص کے مال میں اضافہ ہو ااور دوسرا اس منافع میں بلا وجہ شریک ہو گیا نیز حقوق کے ضائع ہونے کا اندیشہ اور باطل ذریعے سے مال کھانے کا امکان بھی ہے۔

جواز کے قائلین کا کہنا ہے کہ شراکت کا مقصد تمام حصے داروں کا پورے مال میں تصرف ہے اور پورے نفع کو آپس میں تقسیم کرنا ہے اور وہ نقدی کی طرح مال سامان سے بھی حاصل ہو جاتا ہے اور یہی قول صحیح ہے۔

شراکت عنان کے جواز کے لیے یہ شرط ہے کہ حصے داروں میں منافع کی تقسیم ان کے حصص کے مطابق ہو۔ مثلاً تہائی یا چوتھائی حصہ وغیرہ کیونکہ نفع ان کے درمیان مشترک ہے۔ ہر ایک کا حصہ طے شدہ شرط کے مطابق ہی ممتاز ہو سکے گا۔ اگر نفع میں سے ہر ایک کا حصہ مجہول ہو یا کسی کے لیے کسی مخصوص مال کا نفع لینے کی شرط لگائی گئی ہو یا کسی محدود وقت یا مخصوص سفر کے نفع کی شرط مقرر کی گئی ہو تو ان تمام صورتوں میں شراکت عنان جائز نہیں ہے کیونکہ کسی مخصوص حصے میں کبھی نفع ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا اسی طرح کبھی متعین نفع سے زائد حاصل ہوتا ہے۔

الغرض یہ صورت نزاع واختلاف کا باعث ہے۔ اسی طرح ایک فریق کی محنت ضائع ہونے کا اندیشہ بھی ہے لہٰذا شریعت اسلامی ہمیں اس سے منع کرتی ہے اور وہ دھوکے اور نقصان سے لوگوں کو بچانے کے لیے ہی نازل ہوئی ہے۔

مضاربت کا بیان

"مضاربت"ضرب سے ماخوذ ہے جس کے لغوی معنی زمین میں(تجارت کی خاطر) سفر کرنے کے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿وَءاخَرونَ يَضرِبونَ فِى الأَرضِ يَبتَغونَ مِن فَضلِ اللَّهِ...﴿٢٠﴾... سورة المزمل

"اور بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ کا فضل (روزی بھی )تلاش کریں گے۔"[4]

مضاربت کے شرعی معنی ہیں۔"ایک شخص مال فراہم کرے اور دوسرا اس میں کاروبار کرے جبکہ منافع طے شدہ حصوں کے مطابق دونوں میں تقسیم ہو۔" واضح رہے کہ مضاربت کی صحت کی شرط یہ ہے کہ کام کرنے والے کا نفع میں حصہ مقرر ہو کیونکہ وہ شرط کی وجہ سے اس کو وصول کرنے کا حق رکھتا ہے۔

کاروبار کی یہ صورت بالا جماع جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد میں مضاربت ہوتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے قائم رکھا۔سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ،علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس کے بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں۔نیز صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔

(قیاس اور) حکمت بیع مضاربت کے جواز کی متقاضی ہے کیونکہ لوگوں کو اس کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے نیز درہم و دینار تجارت اور کاروبار کرنے ہی سے تو بڑھتے ہیں۔

علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔"مضاربت میں کاروبار کرنے والا شخص امانت دار ،مزدور، وکیل اور حصے دار ہوتا ہے اس اجمال کی وضاحت یوں ہے کہ جب وہ مال قبضے میں لیتا ہے تو وہ امین ہے۔جب وہ مال میں تصرف کرتا ہے تو وکیل ہے۔اور بعض اعمال خود انجام دینے کی وجہ سے مزدور ہے جبکہ نفع حاصل ہونے کی صورت میں مال مہیا کرنے کا حصے دار اور شریک ہے مضاربت کے صحیح ہونے کی یہ شرط ہے کہ عامل (محنت کرنے والے) کا حصہ مقرر ہو کیونکہ وہ اس حصے کا شرط کے ساتھ ہی مستحق ہو گا۔[5]

ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"علمائے کرام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ کاروبار کرنے والے کو چاہیے کہ وہ مالک مال سے تہائی یا چو تھائی نفع لینے کی شرط طے کر لے یا دونوں کی رضا سے نفع کی تقسیم میں جو معاہدہ بھی ہو جائے درست ہے۔ اگر صاحب مال نے کاروبار کرنے والے کے لیے سارا نفع مقرر کر دیا یا نفع دینے کی رقم متعین کر دی (مثلاً ہزار روپے) یا مجہول حصہ طے رکھا تو یہ معاہدہ فاسدہ ہوگا۔"[6]

کاروبار کرنے والے والے شخص کے نفع کی تعیین دونوں کی رضا مندی سے ہو گی ۔ اگر صاحب مال نے محنت کرنے والے سے کہا کہ تم تجارت کرو۔ نفع ہم دونوں کے درمیان تقسیم ہوگا تو ہر ایک کو نفع کا نصف نصف حصہ ملے گا ۔کیونکہ اس کے جملے کا یہی واضح مطلب ہے جیسے ایک شخص دوسرے سے کہتا ہے۔ یہ گھر میرے اور تمھارے درمیان مشترک ہے تو دونوں کا نصف نصف استحقاق ہو گا۔

اگر صاحب مال نے کاروبار کرنے والے سے کہا: تم تجارت کرو۔ اور نفع میں میرا حصہ تین چوتھائی یا تہائی ہو گا یا تجھے تین چوتھائی یا تہائی ملے گا تو یہ بھی درست ہے۔ جب ایک فریق کا حصہ طے ہو گیا تو وہ لے لے گا اور باقی حصہ دوسرے فریق کا ہو گا کیونکہ نفع میں دونوں کا استحقاق ہے اور الفاظ کا بھی یہ تقاضا  ہےکہ جب ایک فریق اپنا مقرر حصہ وصول کر لے تو باقی دوسرے فریق کا ہوگا (صاحب مال کی بات کا یہی مفہوم ہے۔)

اگر ان میں اختلاف ہو جائے کہ طے شدہ حصہ (مثلاً ایک تہائی ) کس کے لیے طے ہوا تھا تو وہ کار کن کے لیے سمجھا جائے گا خواہ کم ہو یا زیادہ کیونکہ کار کن اپنے کام کی وجہ سے اس حصےکا حقدار قرارپایا ہے اور وہ کم یا زیادہ مقرر ہو سکتا ہے بعض اوقات کام آسان ہوتا ہے تو عامل کا حصہ کم مقرر کر دیا جاتا ہے بعض اوقات کام مشکل ہوتا ہے تو عامل کا حصہ زیادہ مقرر کر دیاجاتا ہے۔ اسی طرح ایک ہی کام کرنے والے دو کار کنوں کا حصہ ایک دوسرے سے مختلف متعین ہو سکتا ہے کیونکہ ایک آدمی کام میں ماہر ہوتا ہے ایک نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ کہ عامل کا حصہ شرط کی بنیاد پر طے ہوتا ہے جبکہ صاحب مال اپنے مال کی وجہ سے نفع کا مستحق ہے شرط کی وجہ سے نہیں ۔

اگر مضاربت فاسدہ ہو جائے تو مال کا نفع مال کے مالک کو ملے گا کیونکہ نفع اسی کے مال سے حاصل ہوا کہ۔ کام کرنے والے کے لیے مزدوری کی وہ اجرت ہے جو اس جیسے کام کرنے والے عام شخص کو ملتی ہے کیونکہ اس کا استحقاق شرط کے ساتھ تھا جو مضاربت میں فساد کی وجہ سے فاسد ہو گئی۔

ایک محدود وقت کے لیے بھی مضاربت ہو سکتی ہے مثلاً مالک مال کہے میں تجھے یہ درہم ایک سال تک مضاربت کے لیے دیتا ہوں۔ اسی طرح مضاربت کسی جائز شرط سے معلق بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاً صاحب مال کہے جب فلاں مہینہ آئے تو اس مال سے مضاربت کیجئے یا وہ کہے۔ جب تم زید سے میرا مال وصول کر لو تو وہ مضاربت کے لیے تمھارے پاس ہی رہے گا اس کے جواز کی وجہ یہ ہے کہ مضاربت مال میں تصرف کرنے کی اجازت کا نام ہے لہٰذا اسے ایسی شرط سے معلق کیا جا سکتا ہے جس کا تعلق مستقبل ہی سے ہے ۔

مضاربت میں کاروبار کرنے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے شخص کا بھی مال نے کر مضاربت شروع کرے الایہ کہ مضارب اول اس کی اجازت دے دے تو جائز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر دوسرے مضارب کا مال زیادہ ہوا جو اسے سارا وقت مشغول رکھے گا تو پہلے کی تجارت متاثر ہوگی۔ اگر پہلے مضارب کا مال زیادہ ہے جو اسے ہر وقت مصروف رکھتا ہے تو بھی دوسرے مضارب کاکاروبار کرنے سے پہلے شخص کے کاروبار میں تعطل پیدا ہو گا اور یہ غلط ہے البتہ اگر مضارب اول اجازت دے دے یا اس سے نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو عامل کسی دوسرے شخص کے ساتھ بھی مضاربت کر سکتا ہے۔

اگر عامل نے پہلے مضارب کی اجازت کے بغیر دوسرے شخص سے مضاربت کر لی جس سے پہلے کا نقصان ہے تو دوسرے مضاربت والے کے نفع میں سے اس کا حصہ دیا جائے گا پھر عامل کا حصہ پہلے مضاربت والے کے نفع میں ملا کریہ مجموعی رقم ان دونوں (عامل اور پہلے مضاربت والے)میں طے شدہ شرط کے مطابق تقسیم ہوگی کیونکہ دوسرے مضارب سے حاصل ہونے والے عامل کے نفع میں پہلے مضارب کا حق شامل ہے۔

عامل (کاروبار کرنے والا) مضاربت کے مال میں سے اپنے سفر اور خوراک کا الگ خرچہ نہ کرے البتہ اگر مالک کے ساتھ شرط طے ہو تو کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ نفع کا ایک  مخصوص حصہ معاہدے کے مطابق وصول کر رہا ہےلہٰذا اسے بلا شرط زیادہ لینے کا حق نہیں الایہ کہ ایسا کرنا وہاں کے باسیوں میں معروف و معمول ہو۔

جب تک عقد مضاربت قائم رہے منافع تقسیم نہ کیا جائے الایہ کہ دونوں تقسیم پر رضا مند ہوں کیونکہ نفع کی وجہ ہی سے راس المال محفوظ رہتا ہے اور کسی تجارتی معاملے میں نقصان بھی ہو سکتا ہے چنانچہ اگر کسی سودے میں نقصان بھی ہو گیا تو وہ کمی حاصل نفع سے پوری کر لی جائے گی۔ اگر عقد مضاربت کے دوران نفع تقسیم کر لیا جائے تو نقصان پورا کرنے کی کوئی صورت نہیں رہتی ۔چونکہ نفع سے اصل سرمائےکو کمی سے بچایا جاتا ہے لہٰذا عامل تب ہی معاوضے کا مستحق ہوگا جب اصل سرمایہ پورا رہے گا۔

عامل ایک امانت کا کا نگہبان ہے اسے اپنی ذمے داری میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ مال کے نقصان یا تلف ہونے کی صورت میں اس کی بات معتبر ہوگی۔ اگر اختلاف ہو جائے کہ عامل نے فلاں شے ذاتی طور پر خریدی ہے یا مضاربت میں خریدی ہے تو عامل کے بیان کو سچ سمجھا جائے گا کیونکہ اسے امین یعنی قابل اعتماد سمجھا گیا تھا۔

شراکت وجوہ ،ابدان اور مفاوضہ کا بیان،شراکت وجوہ

دویا زیادہ اشخاص ایک چیز مشترکہ ذمہ داری پر خریدتے ہیں۔ پھر جب اسے فروخت کرتے ہیں تو اس میں جو نفع حاصل ہو اسے طے شدہ شرائط کے مطابق تقسیم کر لیتے ہیں( اس طرح نقصان سے بھی دونوں متاثر ہو سکتے ہیں)اس عقد کو" شراکت وجوہ" اس لیے کہتے ہیں کہ اس کاروبار میں دونوں کا اصل سرمایہ نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کی ذمہ داری ، مارکیٹ میں اثر و رسوخ اور لوگوں کا اس پر اعتماد وغیرہ کام آتا ہے۔ دونوں شخص انھی اوصاف کی بنیاد پر سامان خریدتے اور فروخت کرتے ہیں اور جو نفع حاصل ہو حسب شرائط تقسیم کر لیتے ہیں۔(یہ عقد درست ہے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"المُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ"

"مسلمان طے شدہ شرائط کی پاسداری کریں۔"[7]

شراکت کی یہ قسم"شراکت عنان"سے مشابہت رکھتی ہے اسی لیے اس کا حکم بھی وہی ہے۔

شراکت کی اس قسم میں ہر حصے دار اپنے ساتھی کا وکیل اور قیمت میں کفیل ہوتا ہے لہٰذا اس شراکت کا تعلق وکالت اور کفالت سے بھی ہے۔

دونوں کے درمیان نفع کی تقسیم حسب شرط اور شے کی ملکیت کے حساب سے ہو گی مثلاً: نصف یا کی کمی و بیشی کے ساتھ اسی طرح ہر ایک شراکت میں شے کی ملکیت کے حساب ہی سے خسارہ برداشت کرے گا۔ یعنی شراکت کی شے میں کوئی نصف کا مالک ہے تو وہ نصف خسارہ برداشت کرے گا۔ خلاصہ یہ کہ ہر شریک کو اس کا نفع حسب شرائط ملے گا۔ مثلاً:نصف چوتھائی یا تہائی حصہ کیونکہ کوئی دوسرے کی نسبت مارکیٹ میں زیادہ  بااعتماد ہوتا ہے یا تجارت کا زیادہ تجربہ رکھتا ہے۔ اسی طرح کسی کی زیادہ محنت یا زیادہ کردار ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ زیادہ نفع لینے کی خواہش رکھتا ہے اس میں باہم طے شدہ شرائط کی پاسداری کی جائے گی۔

شراکت وجوہ میں ہر شریک کی صلاحیت و قابلیت کا لحاظ ضرور کیا جائے گا جیسا کہ" شراکت عنان" میں ہوتا ہے۔

شراکت ابدان

اس میں دو یا زیادہ اشخاص باہمی سمجھوتہ کرتے ہیں کہ وہ بدن کے ذریعے سے کام کریں گے اور جو بھی حاصل کریں گے اس آمدن میں سب برابر کے حصے دار ہوں گے یا جس نسبت سے طے کر لیں۔ اس کے جواز کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔

"میں سعد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بدر کے دن سمجھوتہ کیا کہ آج جو ہمیں مال غنیمت حاصل ہو گا اس میں ہم سب برابر کے حصے دار ہوں گے چنانچہ سعد  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  دو قیدی لے آئے جب کہ میں (عبد اللہ ) اور عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کوئی چیز نہ لائے۔"[8]

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔"نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور عمار  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  مشارکت کو بحال رکھا۔"[9]

شرکاء کے اتفاق اور معاہدہ کر لینے کے بعد اگر ان میں سے کسی ایک نے کسی کام کو کرنے کی ذمہ داری اٹھالی تو باقی شرکاء کو چاہیے کہ وہ بھی اس کام کو انجام دیں کیونکہ اس معاہدے کا یہی تقاضا ہے۔

اگر شرکاء کے ہنر اور کام مختلف ہوں تو بھی شراکت ابدان جائز ہے۔ مثلاً:ایک کپڑے کی سلائی کرتا ہے اور دوسرا لوہے کاکام کرتا ہے نیز آجر سے اپنے کام کی اجرت طلب کرنے اور لینے کا ہر ایک کو اختیار ہے۔ اسی طرح آجر کام کی اجرت کسی بھی ایک شخص کو دے سکتا ہے کیونکہ ہر ایک دوسرے کا وکیل ہے چنانچہ حاصل شدہ اجرت تمام شرکاء میں برابر برابر تقسیم ہوگی۔

مباح چیزوں میں شراکت ابدان (کئی آدمیوں کی شراکت ) درست ہے مثلاً: لکڑیاں جمع کرنا پہاڑوں سے پھل چننا، کان (معدن )سے کچھ نکالنا۔

اگر کوئی ایک شریک بیمار ہوگیا تو دوسرے کو جو محنت و مزدوری ملے گی وہ دونوں میں تقسیم ہو گی جیسا کہ سیدنا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دو قیدیوں میں اس کے دوسرے ساتھی حصے دار ہوئے تھے۔[10]

اگر تندرست نے مریض (شریک) سے اپنا نائب مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تو اسے پورا کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں شراکت کے دائرہ میں کام کرنے کے معاہدے کے ساتھ داخل ہوئے تھے اگر مریض وہ کام کرنے سے معذور ہوا ور اپنا نائب بھی مقرر نہیں کرتا تو اس کے دوسرےشریک معاہدہ فسخ کرنے کا حق حاصل ہے۔

اگر دو یا زیادہ اشخاص (جن کے پاس اپناپنا جانور یا گاڑی ہے) معاہدہ کر لیں کہ ہم اپنے اپنے جانور یا گاڑی پر بوجھ کویا لوگوں کو کرایہ لے کے سوار کریں گے اور ہر ایک جو کچھ آمدن حاصل کرے گا وہ سب میں برابر تقسیم ہو گی تو یہ شراکت بھی درست ہے کیونکہ یہ بھی کمائی کی ایک نوعیت ہے۔ اس طرح کسی کو جانور یا گاڑی دینا تاکہ وہ اس سے کام لے کر مال کمائے پھر وہ آمدن کو باہم تقسیم کر لیں تو جائز ہے۔

اگر تین افراد مل جاتے ہیں ایک کا گھوڑا ہے دوسرے کا تانگہ اور تیسرا کو چوان بن کر محنت کرتا ہے تو حاصل شدہ آمدن تینوں برابر تقسیم کر لیں تو درست اور جائز ہے۔

اگر دو یا زیادہ اشخاص دلالی میں شراکت کر لیں مثلاً: سامان بیچنے کے لیے دونوں آواز لگائیں یا گاہگ تلاش کریں تو بھی جائز ہے اور حاصل ہونے والا مال دونوں میں برابر برابر تقسیم ہو گا۔

شراکت مفاوضہ

اس میں ہر حصے دار دوسرے کو مالی اور بدنی اشتراک کے جملہ اختیارات تفویض کرتا ہے۔ یہ شراکت عنان مضاربت وجوہ اور ابدان سب شراکتوں کو محیط  ہے۔ یعنی سب شرکاء تمام حقوق اور فرائض میں برابر شریک ہوں گے۔

شراکت کی یہ نوع جائز ہے کیونکہ یہ شراکت کی تمام ان انواع پر مشتمل ہے جو فرداًفرداًجائز ہیں لہٰذا اگر ایک قسم دوسری کے ساتھ جمع ہو جائے تو بھی جائز ہے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔

منافع کی شرح کا جووہ باہم طے کر لیں گے۔ اسی کے مطابق نفاذ ہو گا البتہ خسارہ ہونے کی صورت میں وہ اپنے سرمائے کی نسبت  سے برداشت کریں گے۔

شریعت اسلامیہ نے مباح کی حدود میں رہ کر کسب و کمائی کا دائرہ وسیع کر دیا ہے اور مباح قراردیا ہے کہ انسان انفرادی طور پر کمائی کرے یا دوسرے کا شریک بن جائے البتہ لوگ طے شرائط کی پاسداری کرتے ہوئے عمل کریں الایہ کہ کوئی ناجائز اور حرام شرط شامل ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت ہر زمانے کے لیے قابل عمل ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی شریعت پر چلائے اور اس پر قائم رکھے اتباع اور عمل صالح کی توفیق دے۔ بے شک وہی سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔


[1] ۔ص24۔38۔

[2] ۔(ضعیف )سنن ابی داؤد البیوع فی الشرکۃ حدیث 3383وسنن الدارقطنی :3/31حدیث 2910والسنن الکبری للبیہقی :6/78واللفظ لھما

[3] ۔صحیح مسلم الذکر و الداعاء باب فضل الا جتماع علی تلاوۃ القرآن و علی الذکر ۔حدیث2699۔

[4] ۔المزمل 73۔20۔

[5]۔زاد المعاد:1/161۔

[6] ۔المغنی والشرح الکبیر :5/140۔

[7] ۔جامع الترمذی الاحکام باب ماذکر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فی الصلح بین الناس حدیث :1352۔

[8] ۔(ضعیف )سنن ابی داؤد البیوع باب فی الشرکاۃ علی غیر راس مال حدیث :3388وسنن النسائی البیوع باب الشرکہ بغیر مال حدیث :4701۔

[9] ۔المغنی والشراح الکبیر:5/111۔

[10] ۔سنن ابی داود البیوع باب فی الشرکۃ علی غیر راس مال حدیث 3388۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

شراکت کے احکام و مسائل:جلد 02: صفحہ 103

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ