بیع صرف،یعنی نقدی کا باہمی تبادلہ کرنا،جنس متحد ہو یا مختلف
نقدی سونے کی ہو یا نوٹوں کی صورت میں سب کا ایک ہی حکم ہے کیونکہ اس میں علت سود)ثمنیت) پائی جاتی ہے۔
بیع صرف کی مختلف صورتوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:
جب کسی کرنسی کی بیع(ہم جنس) کرنسی کے ساتھ کی جائے،مثلاً:سونے کی سونے کے ساتھ بیع ہو یا چاندی کی چاندی کے ساتھ یانقدی نوٹوں کی بیع ہو جو ایک ہی ملک کے ہوں،مثلاً:ڈالر کی بیع ڈالر سے یا سعودی عرب کے کرنسی نوٹ(ریال) کا تبادلہ سعودی ریال سے ہوتوضروری ہے کہ تبادلے میں دونوں طرف سے مقدار برابر ہو اور مجلس میں لین دین نقد ہو۔
اگرایک ملک کی کرنسی کا تبادلہ کسی دوسرے ملک کی کرنسی کےساتھ ہو یاجنس اورقسم تبدیل ہوگئی،مثلاً:سعودی ریال کا تبادلہ امریکی ڈالروں سے ہویا سونے کا لین دین چاندی کے عوض میں ہوتو مجلس میں نقد لین دین(قبضہ) ضروری ہے،البتہ جنسوں میں کمی بیشی جائز ہے۔اسی طرح سونے کے زیورات کی بیع چاندیکے در اہم کے عوض کا کاغذی نوٹ کے عوض جائز ہے بشرط یہ کہ مجلس میں لین دین نقد ہو۔اسی طرح چاندی کے زیورات سونے کے بدلے میں کمی بیشی کےساتھ خریدنا جائز ہے۔
جب سونے کے زیورات کی بیع سونے کے عوض ہو یاچاندی کے زیورات کی بیع چاندی کےعوض ہو یا ایک ہی ملک کی کرنسی ہوتو اس میں دو چیزیں،یعنی وزن میں برابری اور بیع کی مجلس میں نقد لین دین ہوناضروری ہے۔
سود انتہائی خطرناک ہے ،اس سے بچنا تبھی ممکن ہے جب اس کے مسائل کاعلم ہو۔جومسلمان سود کے مسائل کو جاننے کی طاقت نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ اہل علم سے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔وہ بیع کا کوئی بھی معاملہ اس وقت تک طے نہ کرے جب تک اسے یقین نہ ہوجائے کہ اس میں سود کی آمیزش نہیں تاکہ اس کا دین سلامت رہے اور اللہ تعالیٰ کے اس عذاب سے بچ جائے جس کی اس نے سود خوروں کو دھمکی دے رکھی ہے۔لوگ بیع کے معاملات میں عقل وبصیرت سے کام لیے بغیر جو کچھ کررہے ہیں وہ ان کی اندھی تقلید نہ کرے۔بالخصوص اس دور میں لوگ کمائی کے ذرائع کی پروا اور خیال نہیں رکھتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"لوگوں پر ایسا وقت آئے گا کہ وہ سود کھائیں گے تو جس نے سود نہ بھی کھایا اسے اس کا گردوغبار پہنچے گا۔"[1]
موجودہ دور میں سودی کا روبار کی جو شکلیں ہیں ان میں سے ایک مشکل یہ ہے کہ اگر تنگ دست آدمی قرضے کی رقم واپس کرنے سے قاصر ہوتو مدت ومہلت کی مناسبت سے قرضے کی رقم بڑھادی جاتی ہے۔ سود کی یہ شکل زمانہ جاہلیت سے چلی آرہی ہے جس کے حرام ہونے پر اہل اسلام کا اجماع ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو (278) اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا (279) اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم میں علم ہو"[2]
اس آیت کریمہ میں سود کی اس قسم سے متعلق متعدد تنبیہات ذکر ہوئی ہیں:
1۔سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اہل ایمان کہہ کر پکارا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ سود کا لین دین ایک مومن شخص کے شایان شان نہیں۔
2۔ "اتَّقُوا اللَّـهَ"کے کلمات اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ سود کالین دین کرنے والا اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر اور خوف نہیں رکھتا۔
3۔اللہ تعالیٰ کا فرمان:(وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا) "جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو۔"میں سود چھوڑنے کا حکم ہے جو وجوب کا متقاضی ہے۔اس سے واضح ہوا کہ سودی معاملہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے۔
4۔جو شخص سودی لین دین ختم نہیں کرتا،اللہ کی طرف سے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
"اگر تم(سود) نہیں چھوڑتے تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیارہوجاؤ۔"
5۔اللہ تعالیٰ کے فرمان:
"چنانچہ تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے،نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔"سے صراحت ہوتی ہے کہ سود خور شخص ظالم ہے۔
قرضہ دے کر اس پر منافع لینا بھی سودی معاملات میں شامل ہے۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کسی کو اس شرط پر قرضہ دیا جائے کہ جب وہ قرضہ واپس کرے گا تو قرضے کی رقم سے زیادہ دے گا یا وہ اتنے فیصد بڑھا کر قرضے کی رقم کے ساتھ ادا کرے گا جیسا کہ آج کل بینکوں میں ہورہا ہے۔
بینک کا وجود اس نظام پر قائم ہے کہ بینک ضرورت مندوں،تاجروں،کارخانوں اور فیکٹریوں کے مالکان،ہنر مندوں اور پیشہ وروں کو اس شرط پر قرضے کی رقم دیتاہے کہ قرضہ لینے والا قرض کی رقم پر اتنے فیصد نفع بھی بینک کو ادا کرے گا۔اگر مدت معینہ کے اندر وہ قرض کی رقم کی قسط ادا نہ کرے گا تو اتنے فیصد نفع کی رقم مزید بڑھ جائے گی۔یہ سراسر سود ہے جس میں سود کی دونوں ہی صورتیں(جو پیچھے گزرچکی ہیں) جمع ہوجاتی ہیں۔
بینکوں کے سودی نظام اور معاملات میں سے ایک سودی نظام بچت کھاتہ(سیونگ اکاؤنٹ) بھی ہے،یعنی اگر کوئی شخص اپنی رقم مقررہ مدت کے لیے بینک میں رکھتا ہے تو بینک اسے پوری مدت تک اپنے استعمال میں لاتا ہے اور امانت رکھنے والے(کھاتہ دار) کو دس یا پانچ فیصد نفع(سود) دیتا ہے۔
سودی کاروبار میں سے ایک صورت"بیع عینہ" کی ہے جس کی صورت یہ ہے کہ کسی کو اپنی چیز ادھار بیچ دیتا ہے،پھر اس کو کم رقم دے کر نقد خرید لیتا ہے تو اس معاملے(خریدوفروخت) کو "بیع عینہ" کہتے ہیں کیونکہ ادھار سامان خریدنے والا اس کے بدلے میں عین(نقد) مال وصول کرلیتاہے اس طرح کی بیع صرف سود کمانے کا ایک حیلہ ہے جبکہ بہت زیادہ احادیث میں اس کی نہی وارد ہوئی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:"جب تم"بیع عینہ" کرنے لگ جاؤ گے اور بیلوں کی دُمیں پکڑ لوگے(زراعت میں مشغول ہوجاؤ گے) اور کھیتی باڑی پر راضی ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑدوگے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت ورسوائی مسلط کردےگا حتیٰ کہ تم اپنے دین کی طرف پلٹ آؤ۔"[3]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:" لوگ پر ایک ایسا وقت آئے گا جب وہ بیع کا نام دے کر سود کو حلال قراردیں گے۔"[4]
مسلمانو! اپنے معاملات میں سود کو داخل نہ ہونے دو۔اپنے مال کو سود کی ملاوٹ سے بچاؤ کیونکہ سود لینا اور دینا کبیرہ گناہ ہے۔جس قوم میں سود اورزنا ظاہر ہوتے ہیں ان میں فقر ومحتاجی اور مختلف ناقابل علاج بیماریاں جنم لیتی ہیں۔اللہ تعالیٰ ان پر ظالم حکمران مسلط کردیتاہے۔سود مال کو تباہ کرتا ہے اور خیروبرکت کو مٹادیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے سود کھانے پر سخت وعید بیان فرمائی ہے اور سود کھانے کو شرمناک اور کبیرہ گناہ شمار کیا ہے ۔سود کھانے والے کی سزا دنیا اور آخرت میں بیان کردی ہے،نیز سودخور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرتا ہے۔اسی سود کی وجہ سے مال کی برکت اٹھ جاتی ہے اور سود کا مال عموماً ہلاک اور برباد ہوتارہتاہے۔کتنے ہی واقعات ایسے ہیں کہ سودخوروں کا بڑا بڑا مال جل جاتا ہے ،تباہ ہوجاتا ہے یا سمندروں اورسیلابوں کی نذر ہوجاتا ہے اور سود خور کنگال ہوجاتے ہیں۔اگر یہ مال سودخوروں کے پاس رہے تو بھی اس میں کوئی خیروبرکت نہیں ہوتی۔
اس سے تو وہ کوئی فائدہ نہیں حاصل کرپاتا جبکہ وہ اس کے حساب وکتاب میں پھنسا رہتا ہے اور اسی کے دکھ میں مبتلا رہتا ہے۔
سودی کاروبار کرنے والے اللہ تعالیٰ کے ہاں اور اس کی مخلوق کے ہاں ناپسندیدہ ہوتے ہیں،اس لیے کہ وہ لوگوں سے مال چھینتے ہیں ان کو دیتے نہیں،جمع کرکے اپنے پاس روکے رکھتے ہیں،نہ تو اس سے صدقہ وخیرات کرتے ہیں اور نہ اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔وہ انتہائی حریص اور لالچی ہوتے ہیں ،بیت زیادہ مال کو جمع کرنے والے اور بہت زیادہ روکنے والے ہوتے ہیں۔دل ان سے متنفر ہیں جبکہ یہ لوگ معاشرے کے دھتکارے ہوتے ہیں۔یہ تو ان کی دنیاوی سزا ہے جبکہ اخروی سزا تو بہت سخت اور دائمی ہے۔جس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کردی ہے۔اور یہ صرف اس لیے ہے کہ سود کی کمائی ناپاک ،حرام اور نقصان وہ ہوتی ہے اور یہ انسانی معاشرے پر ایک بھاری بوجھ ہے۔
اصول سے مراد مکانات،زمینیں اور درختوں کی بیع ہے۔ان چیزوں کی خریدوفروخت کے وقت جو اشیاء ان سے ملحق ہوں گی وہ بھی مشتری کو ملیں گے اور جو اشیاء ملحق نہ ہوں گی وہ(بیع کے بعد بھی) بائع کی ملکیت میں رہیں گی۔اس باب میں مشتری اوربائع ہرایک کو یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کا حق کیا ہے اور کیا نہیں تاکہ ان کے مابین کوئی اختلاف اور جھگڑا کھڑا نہ ہو۔
واضح رہے جن امور میں ہمارے لیے کوئی مصلحت یا نقصان ہے ،دین اسلام نے ہمیں ان سے متعلق اندھیرے میں نہیں رکھا بلکہ وضاحت کے ساتھ ان میں ہماری راہنمائی کردی ہے۔جب کوئی قوم اسلامی احکام پر عمل پیرا ہوگی تو ان کے جھگڑے اور اختلافات ختم ہوجائیں گے۔ان احکامات میں سے بیع کے احکام بھی ہیں۔
بسااوقات انسان ایک چیز فروخت کرتا ہے توکچھ اشیاء اس میں شامل نہیں ہوتیں،بائع اور مشتری میں ان متعلقات کے بارے میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔جو لڑائی جھگڑے کا سبب بنتاہے ،لہذا اس کے بارے میں فقہائے کرام"اسلامی فقہ" میں"اصول کی بیع کے مسائل" کے عنوان سے ایک باب مقرر کرتے ہیں جن میں اس اختلاف کا حل پیش کیا جاتا ہے۔ہم یہاں ان مسائل کا خلاصہ آپ کے سامنے رکھیں گے۔
اگر کوئی شخص گھر بیچتاہے تو اس بیع میں دیواریں اور چھت شامل ہے۔کیونکہ انھی چیزوں کو گھر کہا جاتا ہے گھر میں وہ اشیاء بھی شامل ہیں جن سے گھر کی تکمیل ہوتی ہے،مثلاً:بجلی کی لگی ہوئے دروازے ،سیڑھیاں ،میخوں کے ساتھ لگائی ہوئی شیلفیں ۔اسی طرح گھر کا ضروری سامان،مثلاً:بجلی کی لگی ہوئیں اشیاء لٹکتے ہوئے فانوس،پانی کی ٹینکی اور پانی پہنچانے والے پائپ،ایگزاسٹ فین،گیزر،گھر میں لگے ہوئے درخت،پودے،سایہ حاصل کرنے کے لیے بنی ہوئی اشیاء وغیرہ۔علاوہ ازیں گھر کی زمین کے نیچے اگر معدنیات جامدہ ہوں تو وہ بھی مشتری کی ملکیت میں آجائیں گی۔
جو اشیاء گھر میں شامل نہیں بلکہ الگ سمجھی جاتی ہیں وہ گھر کی بیع میں شامل نہ ہوں گی،مثلاً:پڑی ہوئی لکڑی،رسیاں،برتن،قالین کارپٹ اورگھر کی جس چیز کو زمین میں حفاظت کی خاطر دفن کیا گیا ہو،مثلاً قیمتی پتھر،خزانہ وغیرہ،البتہ چابی تالابیع میں شامل ہوگا۔
جب کسی نے زمین فروخت کی تو جو اشیاء زمین سے متصل ہوتی ہیں وہ بھی بیع میں شامل ہوں گی،مثلاً :پودے،درخت اور عمارت۔اسی طرح اگر کسی نے باغ فروخت کیا تو یہ بیع باغ کی زمین،درختوں،باڑوں اور اس میں موجود کمروں کو بھی شامل ہوگی۔
اگر کسی نے زمین فروخت کی جس میں ایسی فصل ہو جس کی سال میں ایک مرتبہ کٹائی ہوتی ہے مثلاً: گندم ،جو وغیرہ تو وہ فصل بائع کی ہوگی،لہذا بیع کااطلاق فصل پر نہ ہوگا۔اور اگر ایسی فصل ہو جو سال میں ایک سے زائد مرتبہ کاٹی جاتی ہو،مثلاً:سبز چارہ یا اس کاسال میں کئی مرتبہ چناؤ ہوتا ہو،مثلاً ککڑیاں،بینگن وغیرہ تو زمین کے ساتھ ہی وہ فصل بھی مشتری کی ہوگی،البتہ جو سبزی وغیرہ بیع کے وقت چنے جانے کے قابل ہے وہ ایک بار بیچنے والا چنے گا۔اس کےبعد خریدنے والے کی ہوگی۔
گزشتہ تفصیل میں ہم نے جو ذکر کیا ہے کہ بعض اشیاء بائع کے پاس رہیں گی اور بعض مشتری کے حوالے ہوں گی،یہ تب ہے جب بائع اورمشتری کے مابین کوئی شرط طے نہ ہو۔اگران اشیاء کے بارے میں کوئی شرط طے ہوئی تو وہ چیز اس ملے گی جس کو دینے کی شرط لگائی گئی ہے،دوسرے کو نہیں ملے گی۔اس شرط کو پورا کرنا لازم ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"مسلمان باہمی شرائط کے پابند رہیں۔"[5]
جو شخص کھجور کا درخت فروخت کرتا ہے اور اس کی تآبیر [6] بھی ہوچکی ہے تو پھل"بائع" کو ملے گا الایہ کہ مشتری شرط کرلے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جس نےتآبیر کے بعد کھجور کے درخت کی بیع کی تو اس کا پھل بائع کے لیے ہے الایہ کہ مشتری اس کی شرط کرلے۔"[7]
انگور،شہتوت اور انار کےدرختوں کا پھل پک جائے تو ان کا حکم بھی وہی ہے جو کھجور کے درخت کاہے،یعنی وہ بائع ہی کا ہے۔اگر کھجور کے درخت کی تآبیر اور انگور وغیرہ کی بیل پر پھل کے ظہور سے قبل بیع ہوئی تو پھل مشتری کا ہے۔کھجور کے درخت کے بارے میں جو روایت گزرچکی ہے اس کا یہی مفہوم ہے ،نیز قیاس بھی اس کا متقاضی ہے۔
اس گزشتہ تفصیل کو دیکھ کر شریعت اسلامیہ کا کمال سمجھ میں آتا ہے کہ اس میں لوگوں کی مشکلات کاکس قدر حل ہے۔شریعت ہر حق والے کو اس کاحق اس طرح دیتی ہے کہ دوسروں پر ظلم وزیادتی بھی نہیں ہوتی۔اس میں ہرمشکل کا ایسا حل ہے جو مصلحت وحکمت پر مبنی ہے کیونکہ یہ شریعت ایسی ذات کی طرف سے جو حکیم وحمید ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ ہرزمان ومکان میں اس کے بندوں کا نفع اور ان کا نقصان کس صورت میں ہے۔
اللہ تعالیٰ سچ فرماتا ہے:
"اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے"[8]
لوگوں کے درمیان اختلاف ونزاع کا خاتمہ ،مصالح کا تحقق اور ایمان دار نفوس کا اطمینان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم وفیصلے پر عمل کیے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ انسانی نظام انسانی مسائل کے حل سے قاصر ہے،اس میں خواہشات اور نزاعات کا دخل ہوتا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
"اگر حق ہی ان کی خواہشوں کا پیروکار ہوجائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہرچیز درہم برہم ہوجائے۔"[9]
ان اذہان وقلوب کے لیے تباہی وبربادی ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کو چھوڑ کر انسانوں کا بنایا ہوا قانون اختیار کرتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"کیا یہ لوگ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں،یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟"[10]
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے دین کی مدد فرمائے اور اپنے کلمے کو بلند کرے۔مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے مکروفریب سے محفوظ رکھے۔بے شک وہی سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔
پھلوں سے مراد وہ پھل ہیں جو درختوں پر لگے ہوں اور کھائے جاتے ہوں۔ان کے احکام درج ذیل ہیں:
جب درختوں پر لگا ہوا صرف پھل ہی بیچا جائے (درخت شامل نہ ہوں) تو اس عقد کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ اس پھل کی صلاحیت ظاہر ہو چکی ہو ورنہ بیع جائز نہ ہو گی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل کی درستی ظاہر ہونے سے قبل اس کی بیع سے منع فرمایا ہے(اس سے) بائع اور مشتری دونوں کو منع کر دیا ہے۔"[11]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائع کو منع فرمایا کہ وہ درختوں پر پھل کی صلاحیت ظاہر ہوئے بغیر فروخت کرے تاکہ وہ لوگوں کا مال حرام اور باطل طریقے سے نہ کھائے۔ اسی طرح آپ نے مشتری کو بھی منع کیا کیونکہ وہ باطل طریقے سے مال کھلانے میں مددگار ثابت ہو گا۔ صحیحین میں روایت ہے۔
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل کی درستی ظاہر ہونے تک اور کھجور کے بڑھنے تک سودا کرنے سے منع کیا۔ پوچھا گیا:بڑھنے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ سرخ یا زرد ہو جائے۔"[12]
درج بالا دونوں حدیث میں جونہی وارد ہوئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ درستی ظاہر ہونے سے پہلے پھل کی بیع کرنا درست نہیں۔
اسی طرح کھیتی کی بیع دانہ سخت ہونے سے پہلے جائز نہیں کیونکہ صحیح مسلم میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درختوں پر لگی ہوئی کھجوروں کی بیع سے منع فرمایا الایہ کہ وہ بڑی ہو جائیں اور گندم وغیرہ کی بالیوں کی بیع سے منع کیا الایہ کہ وہ سفید ہو جائیں اور ان پر آفت آنے کا خطرہ نہ رہے ۔ اس بارے میں آپ نے بائع اور مشتری دونوں کو منع کیا۔"[13]
درخت پر پھل کی صلاحیت ظاہر ہونے یا کھیتی دانہ سخت ہونے سے قبل بیع کی نہی میں حکمت یہ ہے اس دوران میں عموماً آندھیاں اور آفتیں آتی ہیں جن کے سبب اکثر پھل ضائع ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
"بتاؤ تو سہی ! اگر اللہ تعالیٰ نے پھل روک دیا تو تم میں سے کوئی چیز کے بدلے اپنے بھائی کا مال لے گا؟[14]
درج بالا ارشاد نبوی میں لوگوں کے ساتھ انتہائی ہمدردی اور شفقت ہے ان کے اموال کو محفوظ کرنا ہے اور لوگوں کے درمیان اس اختلاف و نزاع کو ختم کرنا ہے جو باہمی عداوت اور بغض و عناد تک پہنچادیتا ہے۔
درج بالا روایت میں ان لوگوں کے لیے زجرو تنبیہ ہے جو مختلف حیلوں سے لوگوں کے مال پر قبضہ کرتے ہیں ۔نیز اس حدیث میں مسلمان کو رغبت دلائی گئی ہے کہ وہ اپنے مال کی حفاظت کرے اور اسے ضائع نہ ہونے دے۔اس لیے کہ اگر مشتری نے درختوں پر پھل کی درستی ظاہر ہونے سے قبل ہی خرید لیا اور آفت کی صورت میں اس کا مال ضائع ہو گیا تو بائع سے اس کی واپسی نہایت مشکل ہو گی۔
اس حدیث شریف سے اصول فقہ کا ایک مسئلہ مستنبط ہوتا ہے وہ کہ حکم کا دارومدار اکثری و عمومی حالات پر ہوتا ہے کیونکہ پھل درستی ظاہر ہونے سے پہلے زیادہ ترضائع ہی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی فروخت جائز نہیں اور درستی ظاہر ہونے کے بعد عام طور پر پھل سلامت رہتا ہے۔ اس لیے اس صورت میں بیع جائز ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مال کو خطرے میں ڈالنا جائز نہیں۔ اگرچہ مال کے بدلے مال ہی کی صورت کیوں نہ ہو، جب اس کا نتیجہ غیر یقینی ہو۔
گزشتہ بحث سے ہمیں معلوم ہوا کہ جب تک درختوں پر پھل کی درستی ظاہر نہ ہو اس کی بیع جائز نہیں لیکن یہ تب ہے جب صرف درختوں پر لگے ہوئے پھل کی بیع ہوا اور اس میں یہ شرط ہو کہ پھل ابھی نہیں اتارا جائے گا البتہ جب پھل کی بیع درخت سمیت ہو یا مذکورہ بالا شرط نہ ہو تو (پھل کی درستی ظاہر ہونے سے قبل بھی)جائز ہے۔ فقہائے کرام نے اس کی تین صورتیں بیان کی ہیں جو درج ذیل ہیں:
1۔درخت پر پھل کی درستی ظاہر ہونے سے قبل درخت سمیت پھل کی بیع جائز ہے کیونکہ اس میں پھل درخت کے ضمن میں فروخت ہو جائے گا۔اسی طرح جب کوئی سر سبز کھیتی بمع زمین فروخت کرے تو جائز ہے۔ اس صورت میں سر سبز کھیتی زمین کے ضمن ہی میں فروخت ہو گی۔
2۔اگر درخت پر پھل کی درستی ظاہر ہونے یا سر سبز کھیتی میں دانہ پڑنے سے قبل ہی وہ درخت یا کھیتی اصل (درخت زمین)کے مالک کو فروخت کی گئی تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ جب یہ دونوں چیزیں اصل کے مالک کو فروخت کی گئیں تو خریدار کو چیز کی ادائیگی مکمل طور پر ہو گئی کیونکہ وہ اصل(درخت یا کھیتی ) کا مالک ہو گیا اور موجود چیز (پھل اور غلہ کا بھی ) لہٰذا بیع صحیح ہو گی۔ واضح رہے اس صورت کے جواز یا عدم جواز میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض علماء اس صورت کو اسی منع کردہ صورت ہی میں شامل کرتے ہیں کیونکہ درخت پر پھل کی درستی ظاہر ہونے سے قبل فروخت کرنے کی نہی میں عموم ہے۔
3۔درخت پر پھل کی درستی ظاہر ہونے سے قبل یا کھیت کے پودوں میں دانہ سخت ہونے سے پہلے اس شرط پر فروخت کرنا کہ پھل بیع کے فوراً بعد کاٹ یا اتار لیا جائےگا تو یہ بھی جائز ہے۔ لیکن یہ تب ہے جب کٹائی کے فوراً بعد پھل سے یا دانے سے کسی قسم کا فائدہ حاصل کرنا ممکن ہو کیونکہ بیع کے منع کی وجہ پھل کے تلف ہونے کا خوف تھا۔
جب فوراً کٹائی یا چناؤ کر لینے سے اندیشہ ختم ہو گیا تو یہ صورت جائز ہوئی، البتہ جب معلوم ہو کہ فوراً کٹائی یا چناؤ کے بعد پھل فائدہ مند نہیں ہو گا بیع ناجائز ہو گی کیونکہ اس صورت میں مال کے ضائع اور برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو ضائع کرنے سے منع کیا ہے۔
جو پھل سال میں متعدد بار کاٹا یا چنا جاتا ہو اس کی موجودہ اور آئندہ چنائی کو( بیک وقت) فروخت کرنا جائز ہے، مثلاً: ترکاری ، ککڑی،بینگن وغیرہ اس میں اگرچہ علماء کا اختلاف ہے لیکن ہمارے نزدیک صحیح قول جواز کا ہے ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ دونوں بزرگ اس کے جواز کے قائل ہیں۔[15]
اگر بیع کی جائز صورت میں درخت پر لگا ہوا پھل فروخت کر دیا گیا پھر مشتری کے اتار لینے سے پہلے کسی آسمانی آفت نے جس میں کسی انسان کا عمل دخل نہیں ہوتا اسے ضائع کر دیا مثلاً آندھی شدید گرمی خشک سالی ، کثرت بارش ، شدید سردی یا ٹڈی دل کا حملہ وغیرہ جس نے اس قدر پھل ضائع کر دیا کہ مشتری کچھ حاصل نہ کر سکا تو مشتری بائع کے پاس جا کر اپنی قیمت کی واپسی کا مطالبہ کرے گا کیونکہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے۔
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانی آفت کے سبب نقصان معاف کرنے کا حکم دیا ہے۔[16]
اس روایت سے واضح ہوا کہ ضائع ہونے والا پھل بائع کی ملکیت میں ہے لہٰذا اس کی قیمت مشتری کے ذمے نہیں ۔ اگر سارا پھل تلف ہو تو مشتری سے لی گئی پوری قیمت واپس کی جائے اور اگر کچھ پھل تلف ہوا ہو تو جس قدر تلف ہوا مشتری اتنی رقم بائع سے واپس لے کیونکہ حدیث نبوی میں عموم ہے نیز اس عموم کا تقاضا ہے کہ پھل کی درستی ظاہر ہونے کے بعد بیع ہوئی ہو یا اس سے پہلے دونوں صورتوں کا حکم ایک ہی ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
" تم اپنے بھائی کا مال نا حق کیوں لیتے ہو؟[17]
اگر معمولی نقصان ہو تو وہ بائع کی بجائے مشتری کے ذمے ہو گا کیونکہ ایسا عموماً ہوتا رہتا ہے جس سے بچنا ممکن نہیں۔ اسے عرف میں آفت بھی نہیں کہا جاتا ،مثلاً:پرندوں کا پھل کھا جانا یا اس کا زمین پر گرجانا وغیرہ ۔ بعض علماء نے معمولی نقصان کی حد"تہائی سے کم ہونا" مقرر کی ہے لیکن مناسب اور صحیح یہی ہے کہ اس کے بارے میں کوئی حد مقرر نہیں بلکہ اس کا اعتبار عرف پر ہو گا جبکہ تحدید کے لیے دلیل کی ضرورت ہے جو وارد نہیں۔
کسی آسمانی آفت میں پھل کے نقصان کی ذمے داری جو بائع پر ہے بعض علماء کے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ درختوں پر لگے ہوئے پھل پر مشتری کا قبضہ ناقص ہے۔ یہ ایسے ہے گویا اس کا قبضہ ہوا ہی نہیں اس لیے وہ نقصان کا ذمہ دار بھی نہیں۔
درج بالا صورت میں پھل کے ضیاع کا تعلق آسمانی آفت سے ہے۔ اگر پھل کا ضیاع کسی آدمی کے عمل یا کوتاہی کی وجہ سے ہو، مثلاً: آگ لگانا تو مشتری کو اختیار ہو گا۔ چاہے تو بیع کو فسخ قراردے کر بائع سے اپنی رقم کا مطالبہ کرے بائع نقصان پہنچانے والے انسان سے نقصان کا معاوضہ مانگے۔ اور یہ صورت بھی درست ہے کہ مشتری بیع کو قائم رکھے اور نقصان پہنچانے والے سے خود معاوضہ طلب کرے۔
کھجور کے درخت کے علاوہ دیگر پھلوں کے صحیح طور پر تیار ہونے کی علامت (جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع کے جواز یا عدم جواز کے لیے معیار قراردیا ہے)مختلف ہے۔ مثلاً: انگور کا تیار ہونا یہ ہے کہ پکنے کے لیے تیار ہو کر رس میں مٹھاس شروع ہو جائے جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوروں کی بیع سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ سیاہ ہو جائیں۔"[18]
سیب ،تربوز ،انار،خوبانی، اخروٹ کا تیارہونا ،اس کا پک جانا اور ذائقے کا درست ہونا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ خوش ذائقہ ہو جائے۔"[19]
ککڑیوں کا تیار ہونا ان کا کھانے کے قابل ہونا ہے۔ اناج کا تیار ہونا یہ ہے کہ دانہ سخت و سفید ہو جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اناج کی بیع کی صحت کے لیے یہی معیار قراردیا ہے۔
یہاں ہم ان اشیاء کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو فروخت شدہ شے کے ساتھ ملحق ہوتی ہیں۔ یعنی ان پر مشتری ہی کا حق ہوتا ہےالایہ کہ بائع شرط لگا کر اسے مستثنی قراردے۔
جس نے غلام یا جانور فروخت کیا تو غلام کی بیع کے ساتھ اس کے جسم کے وہ کپڑے شامل ہوں گے جو عادۃ ًپہنے جاتے ہیں۔ اسی طرح جانور کی بیع میں اس کی لگام نکیل اور اسے لگی ہوئی کھریاں بھی شامل ہوں گی کیونکہ عرف میں یہ چیزیں شامل ہوتی ہیں اور جو چیز عرف میں بکنے والی چیز کے ساتھ ملحق نہ ہواور بکنے والی چیز کی ضرورت میں سے نہ ہو تو وہ فروخت شدہ چیز کے ساتھ شامل بھی نہیں ہو گی مثلاً: غلام کا مال یا غلام کی خوبصورتی کے کپڑے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"جس نے ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہے تو اس کا مال بائع کے لیے ہوگاالایہ کہ مشتری اس کی شرط کر لے۔"[20]
واضح رہے کہ مال غلام سے زائد چیز ہے لہٰذا وہ غلام کی بیع میں شامل نہ ہوگا ۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی کے پاس دو غلام ہوں اور ان میں سے ایک فروخت کردے نیز غلام اور مال آقا کا ہوتا ہے جب اس نے غلام کو بیچ دیا تو مال آقا کے پاس باقی رہے گا۔
اگر مشتری نے بیع میں غلام کے ساتھ مال کی بھی شرط لگادی تو غلام کی بیع میں مال بھی شامل ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"اگر خریدار شرط لگادے تو درست ہے۔[21]
بیع سلم کو بیع سلف بھی کہتے ہیں جس میں قیمت نقد اور شے ادھار ہوتی ہے۔فقہائے کرام نے بیع سلم کی تعریف یوں کی ہے:
"موصوف في الذمة مؤجل بثمن مقبوض في مجلس العقد""یہ مجلس عقد میں نقد ادا کردہ رقم کے عوض ایک ایسی چیز عقد ہے جس کے اوصاف طے بائع کے ذمہ میں ہے اور مدت معلوم و مقرر ہے۔"
قرآن و سنت اور اجماع کی روشنی میں بیع سلم جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
"اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔"[22]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے۔"میں شہادت دیتا ہوں کہ بیع سلف (سلم) جس کی ذمے داری ایک مقررہ مدت کے لیے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے (قرآن مجید میں) حلال قراردیا ہے اور اس کی اجازت دی ہے پھر وہ (درج بالا) آیت تلاوت کرتے۔"[23]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں" جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ (اہل مدینہ) دوسال اور تین سال کی میعاد پر پھلوں کی" بیع سلم"کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" جو شخص کسی سامان میں بیع سلم کرتا ہے تو وہ معین ناپ اور مقرر وزن میں ایک متعین مدت تک کے لیے " بیع سلم "کرے۔"[24]
اس روایت سے واضح ہوا کہ بیع سلم مذکورہ شرائط کے ساتھ جائز ہے۔
ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اس کے جواز پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے نیز لوگوں کو اس کی ضرورت بھی پیش آتی ہے کیونکہ اس میں بائع کو قیمت اور مشتری کو سامان بوقت ضرورت مل جاتا ہے۔
بیع سلم درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1۔ مجلس معاہدہ میں مبیع (فروخت ہونے والی)شے کا تعین صفات کے ساتھ اس طرح ہو کہ اس کی جنس نوع اور مقدار واضح ہو جائے تاکہ بعد میں فریقین کے مابین کسی قسم کا اختلاف پیدا نہ ہو جو جھگڑے کی صورت اختیار کر جائے جس چیز کی صفات مختلف فیہ ہوں ان میں بیع سلم جائز نہیں مثلاً:ترکاریاں چمڑے مختلف برتن اور جو اہر وغیرہ۔
2۔ شے کی جنس اور اس کی نوع کا ذکر ہو، مثلاً: جنس چاول ہوگی اور اس کی قسم" باسمتی" ہو گی۔
3۔شے کا ماپ وزن اور پیمائش کا تذکرہ ہو جیسا کہ اوپرروایت میں گزر چکا ہے۔ اگر چیز کی مقدار معلوم و متعین نہ ہو گی تو اس کی وصولی مشکل ہوگی۔
4۔شے کی ادائیگی کی مدت متعین ہو۔ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
"إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ" ہے، یعنی اس کی مدت متعین ہو۔[25]
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔"[26]
5۔مدت ادا ئیگی کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت شے کی جنس کا پایا جانا ممکن ہوتا کہ بائع وقت مقرر پر اسے مشتری کے حوالے کر سکے ورنہ بیع سلم جائز نہ ہو گی ، مثلاً: تازہ انگور کی ادائیگی کا وقت موسم سرما مقرر نہ کیا جائے کیونکہ اس میں ادائیگی ممکن نہیں۔
6۔ بیع سلم میں مجلس میں مقرر قیمت مکمل طور پر نقد ادا کر دی جائے جیسا کہ گزشتہ روایت میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:" جو بیع سلم (سلف) کرے وہ معلوم ماپ کے ساتھ کرے۔" [27]"فَلْيُسْلِفْ"کا مطلب ہے ادائیگی کردے۔
اس کی وجہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ یہ بیان فرماتے ہیں۔کہ"اس عقد کو بیع سلم اس وقت تک نہیں کہا جاسکتا جب تک مشتری بیع کی مجلس میں اٹھنے سے پہلے تمام رقم ادا نہ کر دے اگر بائع مجلس میں رقم وصول نہ کرے گا تو دین (قرض) کی بیع دین( قرض) ادھار کے ساتھ ہو گی جو ناجائز ہے۔
7۔جس شے میں بیع سلم ہو وہ متعین بالذات نہ ہو بلکہ بائع کے ذمہ میں ہو اسی وجہ سے متعین گھر اور درخت میں سلم جائز نہیں کیونکہ متعین چیز ادا ئیگی سے قبل تلف بھی ہو سکتی ہے لہٰذا مقصد فوت ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں اگر ممکن ہو تو" مسلم فیہ" (جس سامان میں بیع سلم ہوئی ہے) کی ادائیگی "محل عقد" جہاں معاہدہ طے پایا ہے) میں کی جائے اور اگر ممکن نہ ہو مثلاً:انھوں نے کسی جنگل یا سمندر میں معاہدہ کیا ہو تو چیز کی ادائیگی کی جگہ کا ذکر اور تعین کرنا ضروری ہے جس جگہ ادائیگی پر دونوں متفق ہوں اس کے مطابق عمل کیا جائے ۔اگر دونوں میں اختلاف ہو تو"محل معاہدہ"ہی ادائیگی کی جگہ طے پائے گا بشرطیکہ وہاں ادائیگی ممکن ہو۔
بیع سلم کے احکام میں یہ بھی ہے کہ جس چیز میں بیع سلم ہوئی ہو خریدار اسے وصول کرنے سے پہلے کسی اور ہاتھ فروخت نہیں کر سکتا کیونکہ حدیث میں ہے۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے والی شے کی بیع کرنے سے اس وقت تک منع فرمایا جب تک وہ قبضہ میں نہ آجائے۔"[28]
بیع سلم میں حوالہ جائز نہیں یعنی فروخت کرنے والا خریدار کو کہے کہ یہ چیز مجھ سے وصول کرنے کے بجائےفلاں شخص سے وصول کر لینا۔ یہ منع ہے کیونکہ حوالہ ایک ثابت قرض کے بارے میں ہو سکتا ہے جبکہ سلم میں فسخ کا امکان ہے۔
بیع سلم کا ایک حکم یہ ہے کہ جب وقت مقرر پر مسلم فیہ (سامان یا چیز) میسر نہ ہو مثلاً: کسی پھل کی ادائیگی کے بارے میں بیع سلم ہوئی تھی لیکن اس سال درختوں پر پھل نہ لگا تو مشتری ایک سال صبر کرے حتی کہ بائع کو پھل حاصل ہو جائے۔ پھر اس کا مطالبہ کرے یا بیع کو فسخ قراردے کر اپنی رقم کا مطالبہ کرے کیونکہ جب معاہدہ قائم نہ رہا تو رقم کی واپسی ضروری ہے۔ اگر رقم ضائع یا خرچ ہو گئی تو اس کے بدلے میں اور رقم ادا کرے۔
"بیع سلم" کے معاملے کی اباحت و جواز شریعت اسلامیہ کی طرف سے لوگوں کے لیے سہولت و آسانی ہے اور ان کے لیے خیرو مصلحت ہے نیز بیع کی یہ صورت سو اور ممنوعات سے منزہ و مبرا ہے۔
قرض کے"لغوی معنی" کاٹنے" کے ہیں۔چونکہ قرض دینے والا اپنے مال میں سے کچھ حصہ کاٹ کر قرض مانگنے والے کو دیتا ہے اس لیے اسے" قرض" کہتے ہیں قرض کے شرعی معنی ہیں۔ "کسی شخص کو مال دینا تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کرے اور مقرر وقت میں اس کا متبادل لوٹادے۔"
قرض تعاون اور ہمدردی کرنے کا نام ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے" عطیہ " قراردیا ہے جسے مقروض فائدہ اٹھا کر قرض خواہ کو واپس کر دیتا ہے۔
کسی کو قرض دینا مستحب ہے اس میں اجر عظیم ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرض دیتا ہے تو(اللہ تعالیٰ کے ہاں) وہ ایک بار کے صدقے کے برابر شمار ہوتا ہے۔[29]
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرض صدقہ کرنے سے بھی افضل ہے کیونکہ قرض ہمیشہ محتاج شخص ہی لیتا ہے۔صحیح حدیث میں ہے۔
"جس شخص نے کسی کی دنیاوی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کی تو اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی پریشانیوں میں سے بڑی پریشانی دور کرے گا۔[30]
قرض دینا نیکی کاکام ہے کیونکہ اس سے مقصود کسی مسلمان کی تنگی اور تکلیف کو دور کرنا ہے اور اس کی حاجت و ضرورت کو پورا کرنا مطلوب ہے۔ جہاں تک قرض لینے کا تعلق ہے تو قرض لینا جائز ہے شرعاً مکروہ نہیں اس لیے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لیا تھا۔
قرض کے درست اور صحیح ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ قرض وہ شخص دے جو اس مال کو صدقے کے طور پر دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ لہٰذا یتیم کے سر پرست کے لیے جائز نہیں کہ وہ یتیم کے مال میں سے کسی کو قرض دے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ قرض کے مال کی مقدار اور اس کی صفت معلوم ہوتا کہ مقروض ویسی ہی چیز یا مال قرض خواہ کو واپس کر سکے ۔چنانچہ قرض مقروض کے ذمہ دین بن جاتا ہے۔اس پر واجب ہے کہ جب واپسی کی طاقت ہو بلاتا خیرادا کرے۔
قرض خواہ کا مقروض پر یہ شرط عائد کرنا حرام ہے کہ وہ ادائیگی کے وقت اصل قرض سے زیادہ رقم ادا کرے گا۔علمائے کرام نے بالا تفاق اسے"سود"قراردیا ہے۔
لہٰذا آج کل بنک والے جو قرضہ کی رقم دیتے ہیں وہ قرضہ کسی ذاتی کام میں خرچ کے لیے ہو یا کسی نفع بخش کام میں لگایا جائے تو مقروض سے زیادہ رقم لینے کی شرط پر دیتے ہیں یہ سراسر سود ہے۔ یہ شرط بنک کی طرف سے ہو یا کسی فرد یا کسی کمپنی کی طرف سے ہو یہ سود ہی ہےچاہے اس کا نام کوئی بھی رکھ دیا جائے ۔ مثلاً: منافع (PROFIT)فائدہ یا ہدیہ وغیرہ حدیث میں ہے۔
"جو قرض نفع لائے وہ سود ہے۔"[31]
سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب کوئی کسی کو قرض دے تو اس کے بدلے میں اگر مقروض قرض خواہ کوکوئی ہدیہ دے یا اسے جانور پر سوار کرے تو (قرض خواہ) سوار نہ ہو اور ہدیہ قبول نہ کرے الایہ کہ ان دونوں کے درمیان قرض سے پہلے ایسا معاملہ چلتا ہو۔"[32]
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
"جب کسی آدمی پر آپ کا حق ہو تو اگر وہ تجھے بھوسے کی ایک گٹھڑی بطور ہدیہ دے تو مت لو کیونکہ وہ سود ہے۔"[33]
یہ روایت مرفوع کے حکم میں ہے۔
ان روایات کی روشنی میں قرض خواہ کو چاہیے کہ مقروض سے(قرضہ دینے کے سبب) کسی قسم کا ہدیہ یا نفع وغیرہ قبول نہ کرے کیونکہ اس کی ممانعت ہے نیز قرضہ دینے کا مقصد مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اور اللہ تعالیٰ سے اجرو ثواب حاصل کرنا ہے۔اگر کسی نے قرض سے زیادہ وصول کرنے کی شرط لگا دی یا زیادہ لینے کی کوشش کی یا اس کی حرص رکھی تو قرض دینے کا( درج بالا) مقصد ختم ہوگیا بلکہ وہ قرض بھی نہ رہا۔
ہر مسلمان کو حرام کاموں سے بچنا چاہے۔قرض دیتے وقت ثواب کی خالص نیت ہونی چاہیے کیونکہ قرض دینے کا مقصد مال بڑھانا نہیں بلکہ محتاج کی حاجت کو پورا کرنے اور اس المال واپس لینے کے ذریعے سے اجروثواب اور قرب الٰہی حاصل کرنا ہے۔ اگر یہ مقاصد پیش نظر رہیں تو اللہ تعالیٰ قرض خواہ کے مال میں برکت کرے گا اور اسے بڑھائے گا۔
واضح رہے کہ قرض کی واپسی کےو قت زیادہ مال لینا ممنوع ہے جبکہ قرض دیتے وقت شرط رکھی جائے مثلاً: کوئی کہے:" میں تجھے اس شرط پر قرضہ دیتا ہوں کہ میرا قرض واپس کرتے وقت تمھیں اس قدر رقم زیادہ دینا ہو گی یا قرضہ واپس کرنے تک اپنا گھر رہائش کے لیے مجھے دینا ہو گا یا دوکان دینا ہوگی یا مجھے فلاں چیز ہدیہ میں دیناہوگی یا اس قسم کی شرط جو زبان سے تو کہی نہ جائے لیکن اس کی خواہش یا حرص رکھے۔ یہ سب کام حرام ہیں۔
اگر مقروض محض جذبہ احسان و تشکر کے طور پر اپنی طرف سے قرض سے زیادہ رقم لوٹاتا ہے تب کوئی حرج نہیں بلکہ یہ عمل حسن ادائیگی میں شامل ہو گا کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ ادھار خریدلیا تو اس کی ادائیگی اس سے بہتر اونٹ کی شکل میں کی تھی۔اور فرمایا:
"تم میں سے بہتر وہ ہے جو سب سے اچھی ادائیگی کرے۔"[34]
علاوہ ازیں یہ برتاؤ عرفاً اور شرعاً اچھے اور اعلیٰ اخلاق میں شمار ہوتا ہے اور یہ سود بھی نہیں کیونکہ قرض خواہ کی طرف سے یہ شرط نہ تھی نہ ان میں یہ بات باہم اتفاق سے طے پائی تھی بلکہ یہ زیادہ مال مقروض نے خوش دلی کے ساتھ دیا ہے۔
اسی طرح اگر مقروض قرض خواہ کو قرضہ لینے سے پہلے کوئی تحفہ دیتا یا کوئی نفع مہیا کرتا ہو تو قرض دینے کے بعد قرض خواہ حسب معمول اس کا تحفہ یا نفع قبول کر سکتا ہے ممانعت کی کوئی وجہ نہیں۔
مقروض شخص پر لازم ہے کہ استطاعت کے وقت قرض خواہ کو اس کا قرض اچھے طریقے سے لوٹا دے اور اس میں ٹال مٹول نہ کرے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے۔"[35]
بعض لوگ حقوق العباد میں عموماً اور قرض کے معاملہ میں خصوصاً سستی و کوتاہی کر جاتے ہیں جو کہ نہایت مذموم خصلت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سے لوگ قرض دینے سے کتراتے ہیں۔ محتاجوں کے ساتھ وسعت ظرفی سے پیش نہیں آتے۔جب محتاجوں کو قرضہ دینے والا کوئی نہیں ملتا تو یہ لوگ سودی بنکوں کا رخ کرتے ہیں ان سے حرام لین دین کرتے ہیں کیونکہ ضرورت مند کوکوئی قرض حسنہ دینے پر تیار نہیں ہوتا اور قرض دینے والے کو اچھے انداز سے واپس کرنے والا قرض دار نہیں ملتا اس لیے لوگوں میں ایک دوسرے سے حسن سلوک کا رواج ختم ہو گیا ہے۔
[1]۔(ضعیف) سنن ابی داود البیوع باب فی اجتناب الشبھات 3331،وسنن النسائی البیوع باب اجتناب الشبھات فی الکسب حدیث 4460 واللفظ لہ۔
[2]۔البقرۃ:2/278۔280۔
[3]۔سنن ابی داود البیوع باب فی النھی عن العینۃ حدیث 3462۔
[4]۔(ضعیف) غایۃ المرام فی تخریج احادیث الحلال والحرام حدیث 13 واغاثۃ اللھفان من مصائد الشیطان 1/486۔
[5]۔جامع الترمذی الاحکام باب ماذکر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الصلح بین الناس،حدیث :1352۔
[6]۔کھجوروں میں ایک درخت نر ہوتا ہے ایک مادہ،نر کے پھول(بارآور ہونے کی غرض سے) مادہ پر چڑھانے (چھڑکنے) کو تآبیر کہتے ہیں(اردو لغت کراچی)
[7]۔صحیح البخاری المسافاۃ باب الرجل یکون لہ ممر او شرب فی حائط او فی نخل حدیث 2379 وصحیح مسلم البیوع باب من باع نخلا علیھا تمر حدیث 1543 واللفظ لہ۔
[8]۔النساء:59۔
[9]۔المومنون 23:71۔
[10]۔المائدۃ 5/50۔
[11] ۔صحیح البخاری ، البیوع ،باب بیع الشمار قبل ان یبدو صلاحہا ، حدیث 2194وصحیح مسلم، البیوع باب النھی عن بیع الشمار قبل بدو وصلاحہا بغیر شرط القطع ،حدیث 1534۔
[12] ۔صحیح البخاری البیوع باب بیع النخل قبل ان بیدووصلاحہا حدیث :2197و صحیح مسلم ، البیوع باب وضع الجوائح ،حدیث 1555)
[13] ۔ صحیح مسلم، البیوع ،باب النھی عن بیع الشمار قبل ان یبدو صلاحہا بغیر شرط القطع ،حدیث 1534۔صحیح البخاری، البیوع باب ااذاباع الشمار قبل ان بیدو صلاحہا۔حدیث 2198۔
[14]۔صحیح البخاری البیوع باب اذا باع الشمار قبل ان یبدوصلاحھا۔۔۔حدیث 2198۔
[16] ۔صحیح مسلم المساقاۃ باب وضع الجوائع حدیث 1554بعد حدیث:1555۔
[17] ۔ صحیح مسلم المساقاۃ باب وضع الجوائع حدیث 1554۔
[18] ۔سنن ابی داؤد البیوع باب فی الشمار قبل ان بیدو وصلاحہا حدیث 3371ومسند احمد 3/221۔
[19] ۔صحیح البخاری ، البیوع ، باب بیع الشمر علی رؤوس النخل بالذھب اوالفضہ ،حدیث:2189،وصحیح مسلم البیوع باب النھی عن بیع الشمار قبل بدوصلاحها بغیر شرط القطع حدیث :1536۔
[20] ۔صحیح البخاری المساقاۃ باب الرجل یکون لہ معراً اوشرب فی حائط اوفی نخل حدیث :2379وصحیح مسلم البیوع باب من باع نخلاً علیھا تمرحدیث:1543۔
[21] صحیح البخاری المساقاۃ باب الرجل یکون لہ معراً اوشرب فی حائط اوفی نخل حدیث :2379وصحیح مسلم البیوع باب من باع نخلاً علیھا تمرحدیث:1543۔
[22] ۔البقرۃ 2/282۔
[23]۔تفسیر الطبری :3/117،حدیث:4947، والمستدرک للحاکم 2/314،حدیث:3130۔
[24] ۔صحیح البخاری ، السلم باب السلم فی وزن معلوم حدیث :2240۔
[25] ۔ صحیح البخاری ، السلم باب السلم فی کیل معلوم حدیث :2240،وجامع الترمذی البیوع باب ماجاء فی السلف فی الطعام والثمر حدیث:1311۔
[26] ۔البقرۃ:2/282۔
[27] صحیح البخاری ، السلم باب السلم فی کیل معلوم حدیث :2240،وجامع الترمذی البیوع باب ماجاء فی السلف فی الطعام والثمر حدیث:1311۔
[28] ۔المعجم الکبیر للطبرانی :11/12۔حدیث:10875۔
[29] ۔سنن ابن ماجہ الصدقات باب القرض حدیث:2430۔
[30] ۔صحیح مسلم الذکر والدعاء باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن ولی الذکر حدیث:2699۔
[31] ۔کنز العمال :6/238۔حدیث:15516۔یہ حدیث ضعیف ہے دیکھئے ارواءالغلیل 5/235۔236۔حدیث:1398۔
[32] ۔ سنن ابن ماجہ الصدقات باب القرض حدیث:2432۔
[33] ۔صحیح البخاری مناقب الانصار باب مناقب عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدیث: 3814۔
[34] ۔صحیح البخاری الاستقراض باب استقراض الابل حدیث 2390وصحیح مسلم ،
المساقاۃ جواز اقتراض الحیوان۔حدیث (122)۔1600۔
[35] الرحمٰن :55۔60۔