ایام تشریق اور الوداعی طواف کے احکام
عید الاضحیٰ کے روز طواف افاضہ کرنے کے بعد واپس منی میں پہنچ جائیں منی میں رات گزارتا واجب ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے:"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی حاجی کو مکہ میں رات گزارنے کی اجازت نہیں دی تھی البتہ سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس وجہ سے اجازت دی تھی کہ انھوں نے حجاج کرام کو پانی پلانا تھا۔"[1]
اگر حاجی کو جلدی نہ ہو تو وہ منیٰ میں تین راتیں گزارے ۔ ذوالحجہ کی گیارہ اور بارہ تاریخ کی دوراتیں منیٰ میں گزارنا ضروری ہیں۔
منیٰ میں ہر نماز اپنے اپنے وقت پر قصر کر کے ادا کریں۔
ایام تشریق زوال کے بعد ہر روز تینوں جمرات کی رمی کریں ۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذوالحجہ کو چاشت کے وقت رمی کی باقی دنوں میں زوال آفتاب کے بعد رمی کی۔"[2]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کہنا ہے:"ہم رمی کے وقت کا انتظار کرتے جب زوال آفتاب ہوتا تب ہم جمرات کی رمی کرتے۔"[3]نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
"(مجھ سے) حج کے احکام سیکھو۔"[4]
ایام تشریق میں رمی کا وقت آفتاب کے ڈھل جانے سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے رمی جائز نہیں۔ جس طرح وقت سے پہلے (بلا عذر ) نماز ادا کرنا جائز نہیں کیونکہ عبادات تو قیفی ہیں یعنی ان کی ادائیگی کے اوقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رمی کرنے کی تفصیل یوں بیان فرماتے ہیں:"آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف افاضہ کرنے کے بعد اسی دن واپس منی پہنچ گئے تھے وہاں رات بسر کی اگلا دن ہوا تو زوال آفتاب کا انتظار کرنے لگے جب آفتاب ڈھل گیا تو اپنے خیمے سے پیدل چلے اور جمرہ اولیٰ جو مسجد خیف کے قریب ہے کی طرف آئے ایک ایک کر کے اسے سات کنکریاں ماریں ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہتے پھر آگے بڑھے تشیب میں آئے۔قبلہ کی طرف رخ کیا اور ہاتھ اٹھا کر سورۃ بقرہ کے بقدر طویل دعا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ وسطی پر پہنچے اسے بھی جمرہ اولیٰ کی طرح سات کنکریاں ماریں پھر بائیں جانب وادی کے قریب نشیب میں اترے ۔ قبلہ رو ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی پھر تیسرے جمرے (جمرہ کبری) کو سات کنکریاں ماریں۔ رمی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کو بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب رکھا۔"[5]
موصوف آگے لکھتے ہیں:"جب آپ نے تینوں جمرات کی رمی مکمل کر لی تو نہ تیسرے جمرے کے پاس ٹھہرے اور نہ دعا کی۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ پہاڑ کی وجہ سے جگہ تنگ تھی یا اس میں یہ حکمت ہو کہ عموماً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا موقع و محل عبادت کے اندر ہوتا تھا نہ کہ فراغت پر چنانچہ جب جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماری گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمی والی عبادت سے فارغ ہوگئے اس لیے دعا نہ کی۔اس کی مثال اسی طرح ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے اندر دعا مانگتے تھے فراغت پر نہیں۔"[6]
(یہ دوسری بات ہی درست معلوم ہوتی ہے۔)
تینوں جمرات کو بالترتیب کنکریاں مارنا ضروری ہے یعنی پہلے جمرہ اولیٰ پھر جمرہ وسطی اور پھر جمرہ عقبہ یعنی بڑے جمرے کی رمی کرے۔ ہر جمرے کو سات سات کنکریاں ماری جائیں۔
مریض عمر رسید ہ حاملہ عورت یا ایسا کمزور شخص جسے ہجوم میں کچلے جانے کا خوف ہو اگر یہ حضرات جمرات کی رمی کے لیے کسی شخص کو نائب بنالیں جو ان کی طرف سے کنکریاں مارے تو جائز ہے۔
جب نائب جمرہ کے پاس جائے تو ایک ہی وقت اور ایک ہی جگہ پر کھڑے ہو کر پہلے اپنی پھر دوسرے کی کنکریاں مارے پھر دوسرے اور تیسرے جمرے پر اسی طرح کرے۔یہ ضروری نہیں کہ پہلے تینوں جمرات کی رمی اپنی طرف سے کرے پھر دوسرے شخص کی طرف سے رمی کرنے کے لیے دوبارہ پہلے جمرے کے پاس جائے کیونکہ اس میں بھیڑ کی وجہ سے نہایت مشکل اور مشقت ہے۔ واللہ اعلم۔
بارہ ذوالحجہ کو تینوں جمرات کی رمی کر کے اگر کوئی جلد مکہ لوٹنا چاہے تو غروب آفتاب سے پہلے پہلے نکل جائے اور اگر کوئی تاخیر کرنا چاہیے تو تیرہ ذوالحجہ کی رات وہاں گزارے اور زوال آفتاب کے بعد تینوں جمروں کو کنکریاں مار کر منی سے مکہ مکرمہ واپس آجائے اور یہ افضل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"پھر جس نے دودنوں میں( منی سے مکے کی طرف واپسی میں) جلدی کی تو اس پر کوئی گناہ نہیں جو (ایک دن کے لیے) پیچھے رہ جائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ پر ہیزگاری اختیار کرے۔"[7]
اگر بارہ ذوالحجہ کو منی سے نکلنے سے پہلے سورج غروب ہو گیا تو اس پر لازم ہے کہ وہ تیرا ذوالحجہ کی رات بھی وہیں گزارے اور اگلے روز زوال کے بعد رمی کر کے واپس لوٹے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں(يَوْمَيْنِ) کہا ہےتو یوم دن کہتے ہیں۔ اگر رات ہو جائے تو وہ (يَوْمَيْنِ) دودن میں جلدی کرنے والا تو نہ ہوا۔
اگر کسی عورت کو حالت احرام باندھا پھر اسے حیض یا نفاس خون آگیاپھر اس نے احرام اختیار کر لی یا اس نے طہر کی حالت میں احرام باندھا پھر اسے حیض یا نفاس آگیا تو وہ حالت احرام ہی میں رہے اور وہی کچھ کرے جو دوسرے حجاج کرام کریں گے یعنی عرفہ میں وقوف مزدلفہ میں شب بسری جمرات کی رمی اور منی ٰ میں قیام وغیرہ البتہ وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی وسعی تب تک نہ کرے جب تک حیض و نفاس سے پاک نہ ہو جائے۔
اگر اس نے طہر کی حالت میں طواف کر لیا پھر اسے حیض آگیا تو وہ صفاو مروہ کی سعی کرے۔سعی کے لیے حیض یا نفاس مانع نہیں ہے کیونکہ سعی کے لیے طہارت کی شرط نہیں۔
جب حاجی مکہ مکرمہ میں تمام امور مکمل کر لے حتی کہ اپنے شہر یا وطن کی طرف پلٹنے کی مکمل تیاری کر لے تو اس وقت تک مکہ سے نہ نکلے جب تک بیت اللہ کا (سات چکر لگا کر) طواف نہ کر لے مکہ مکرمہ میں حاجی اپنے آخری لمحات بھی بیت اللہ کے پاس بصورت طواف گزارے یہ طواف "طواف وداع" ہے۔ حائضہ عورت پر طواف وداع نہیں وہ طواف وداع کیے بغیر ہی مکہ مکرمہ سے روانہ ہو جائے جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنے وطن لوٹنے سے پہلے مکہ مکرمہ میں آخری وقت بیت اللہ کے پاس (بصورت طواف)گزارنا چاہیے البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ کو طواف وداع میں رخصت دی ہے۔"[8]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورت کو مکہ سے نکلنے سے پہلے طواف ودع کرنے میں رخصت دی بشرطیکہ وہ طواف افاضہ کر چکی ہو۔"[9]
سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے انھوں نے کہا:
"سیدہ صفیہ بنت حُیی رضی اللہ تعالیٰ عنہا طواف افاضہ کے بعد حائضہ ہو گئیں ۔ میں (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ تو ہمیں روکے رکھے گی۔میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے جب طواف افاضہ کر لیا تھا تب اس کا حیض شروع ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو وہ چلے اور مکہ سے نکلے۔"[10]
قربانی کی مشروعیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"خالق کے لیے قربانی اس جان کے فدیے کے قائم ہے جو گناہوں کی وجہ سے تباہی کی مستحق ہو گئی تھی۔" اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور ہرا امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں دے رکھے ہیں:"[11]
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کرنا اور خون بہانا تمام شریعتوں میں مشروع عمل رہا ہے۔
قربانی کے جانوروں کی دو قسمیں ہیں:
جو جانور جیسے اونٹ گائے وغیرہ حرم کی طرف لایا جائے اور وہیں ذبح کیا جائے اسے ہدی کہتے ہیں ۔اس کا نام ہدی اس لیے ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے قربان کیا جاتا ہے۔
اس جانور کو کہتے ہیں جو اللہ کے تقرب کے لیے عید کےروز اور ایام تشریق میں ذبح کیا جائے۔
سب سے افضل قربانی اونٹ کی قربانی ہے پھر گائے کی بشرطیکہ اکیلے شخص کی طرف سے ہو کیونکہ یہ جانور قیمت کے لحاظ سے مہنگے ہوتے ہیں نیز ان میں فقراء مساکین کا فائدہ بھی زیادہ ہوتا ہے اونٹ، گائے، کے بعد بکرے مینڈھے یا دنبے کا درجہ ہے۔
پھر ہر جنس میں سے جو جانور خوب موٹا تازہ ہو اور زیادہ قیمتی ہو وہ افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور جو شخص اللہ کی (عظمت کی) نشانیوں کی تعظیم کرے تو بلا شبہ یہ دلوں کی پرہیز گاری کی وجہ سے ہے۔"[12]
دنبہ یا مینڈھا جذع یعنی چھ ماہ کا ہو جائے تو اس کی قربانی جائز ہے(جمہور کے نزدیک "جذع "ایک سال کے دنبے یا مینڈھے کو کہتے ہیں) البتہ اونٹ گائے ، بکری کا دودانتا ہونا ضروری ہے۔ واضح رہے اونٹ چھٹے سال میں گائے تیسرے سال میں اور بکری بھیڑ، دنبہ دوسرے سال میں داخل ہوجائے تو عموماً دودانتا ہو جاتا ہے۔
حج میں بطور ہدی بکرایا مینڈھا صرف ایک شخص کی طرف سے قربان کیا جا سکتا ہے جبکہ عید الاضحیٰ میں ایک شخص اور اس کے اہل و عیال کی طرف سے کافی ہوتا ہے البتہ اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔
"(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) ہمیں حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات سات افراد شریک ہو جائیں۔"[13]
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک شخص اپنے اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا جو سارے گھر والے کھاتے اور دوسروں کو کھلاتے تھے۔[14]
واضح رہے اونٹ یا گائے میں ساتویں حصے کی نسبت ایک بکری یا بکرے کی قربانی افضل ہے۔
قربانی کے جانور کا صحیح و سلامت اور تندرست ہونا ضروری ہے یعنی وہ کمزور ، کانا، اندھا، بیمار، لنگڑا اور زیادہ بوڑھا نہ ہو۔ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"چار قسم کے جانور کی قربانی جائز نہیں جو نمایاں طور پر کانا، مریض، لنگڑا اور ٹانگ ٹوٹا ہوا بغیر گودے والا ہو۔"[15]
جانور کی قربانی کرنے کا وقت نماز عید ادا کرنے کے بعد سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کو غروب آفتاب تک ہے اور یہی قول صحیح ہے۔
حج تمتع یا حج قران کی قربانی ہو یا عید الاضحیٰ کا موقع اس میں مستحب یہ ہے کہ اس گوشت کے تین حصے کیے جائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"پس تم آپ بھی کھاؤ اور( بھوکے فقیروں کو بھی) کھلاؤ۔"[16]
البتہ حج کے موقع پر کسی واجب کے ترک یا کسی ممنوع کام کے کرنے پر کفارے کی قربانی کے گوشت سے خود کچھ نہ کھائے۔
جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر جانور ذبح کرنے تک اپنے جسم کے بال اور ناخن نہ کاٹے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جس کے پاس قربانی کا جانور ہو۔جسے وہ ذبح کرنا چاہتا ہو۔ جب ذوالحجہ کا چاند نظر آجائے تو وہ اپنے بال اور ناخن قربانی دینے تک نہ کٹوائے۔"[17]
اگر کسی نے قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے کچھ بال یا ناخن کاٹ لیے تو وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اس پر کوئی فدیہ نہیں۔
عقیقہ کرنا حقوق اولاد میں سے والد کے ذمے ایک حق ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے تقرب کی خاطر ایک جانور (بکرایا چھترا) ذبح کرنا ہو تا ہے۔
عقیقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں کا عقیقہ کیا تھا جیسا کہ سنن ابو داؤد میں ہے۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عقیقہ ایک ایک مینڈھا ذبح کر کے کیا ۔"[18] سنن نسائی میں ہے" آپ نے دو دو مینڈھے ذبح کیے۔"[19]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور ان کے بعد تابعین اپنی اولاد (کی طرف سے) کے عقیقے کرتے آئے ہیں۔
بعض اہل علم عقیقے کو واجب قراردیتے ہیں ان حضرات کی دلیل سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے۔"[20]
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ وہ بچہ اپنے والدین کے حق میں سفارش کرنے کا اہل نہ ہو گا جب تک اس کا عقیقہ نہیں کیا جاتا۔"[21]
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"بچے کا عقیقہ اس کے حسن اخلاق اور اعلیٰ عادات کا سبب ہے۔"
صحیح اور درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ عقیقہ سنت مؤکدہ ہے۔ عقیقے میں جانور ذبح کرنا اس کی قیمت کے صدقہ کرنے سے افضل ہے کیونکہ جانور ذبح کرنے میں اللہ تعالیٰ کے تقرب کا حصول ہے فقراء پر صدقہ ہے اور نومولود بچے کا فدیہ ہے۔
لڑکے کے عقیقے میں دو بکریاں ذبح کی جائیں جو عمر و شکل میں دونوں ایک جیسی ہوں لڑکی کے عقیقے میں ایک بکری ذبح کی جائے۔ سیدہ اُم کرزکعبیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا:
"لڑکے کی طرف سے عقیقے میں دو بکریاں ذبح کی جائیں جو دونوں ایک جیسی ہوں لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے۔ [22]
لڑکے اور لڑکی کے عقیقے کی مقدار میں جو فرق ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ بہت سے احکام شرعیہ میں لڑکی لڑکے سے نصف درجہ اور حیثیت رکھتی ہے نیز لڑکا والد کے لیے ایک کامل نعمت ہے اور اس سے والد کو خوشی و مسرت زیادہ حاصل ہوتی ہے اسی لیے اس کا شکر بھی زیادہ ادا کرنا چاہیے۔
عقیقے کے لیے افضل اور مسنون وقت بچے کی ولادت کا ساتواں دن ہے البتہ اگر ساتویں دن سے پہلے یا بعد میں بھی عقیقہ ہوا تو بھی جائز ہے۔
ساتویں روز ہی بچے کا نام رکھنا افضل ہے چنانچہ سنن وغیرہ میں روایت ہے۔
"ساتویں روز بچے کا عقیقہ کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔"[23]
اگر بچے کی ولادت کے دن ہی اس کا نام رکھ دیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بلکہ بعض حضرات کے نزدیک ایسا کرنا بہتر ہے۔
نام اچھا رکھنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"تم( قیامت کے روز) اپنے باپ کے نام کے ساتھ پکارے اور بلائے جاؤ گے لہٰذا اپنے نام اچھے رکھو۔"[24]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھا نام پسند کرتے تھے اور جس نام میں غیر اللہ کی عبدیت ہوتی اسے حرام قراردیتے تھےمثلاً:عبدالکعبہ النبی ،عبدالمسیح عبد علی، اور عبدالحسین وغیرہ۔
امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ہر وہ نام رکھنا حرام ہے جس میں غیر اللہ کی طرف عبدیت کی نسبت ہو مثلاً: عبد عمر ، عبد الکعبہ وغیرہ اسی طرح غیر مناسب نام رکھنا بھی مکروہ ہے مثلاً: عاصی کلیب حنظلہ مرہ (کڑوا) حزن (غم سخت) اسی طرح اپنی اولاد کے وہ نام رکھنے جو برے اشخاص یا بری جگہوں کے ہوں مکروہ ہیں۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمھارے ناموں میں سے پسندیدیہ نام"عبداللہ"اور "عبدلرحمٰن"ہیں۔"[25]
الغرض ہر مسلمان کے لائق ہے کہ وہ اپنے نومولود کا اچھا سا نام رکھے اور حرام و مکروہ قسم کے نام سے اجتناب کرے کیونکہ یہ والد کے ذمے اولاد کا حق ہے۔"[26]
عقیقہ میں وہی جانور کفایت کرتا ہے جو قربانی میں کفایت کرتا یعنی مناسب عمرہو(دودانتا ہونا ضروری نہیں) اچھی خوبیوں سے آراستہ ہو عیب و مرض سے محفوظ ہو۔ جسمانی حالت خوب اور کامل ہواور موٹا تازہ ہو۔اس کا گوشت خود کھانا کسی کو ہدیہ دینا اور صدقہ کے طور پر دینا مستحب ہے۔ بہتر یہ ہے کہ قربانی کے جانور کی طرح اس کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں۔[27]
عقیقے کے بعض احکام عید الاضحیٰ کی قربانی سے مختلف ہیں۔ عقیقے کی قربانی میں شراکت جائز نہیں لہٰذا اونٹ یا گائے عقیقے میں کامل طور پر قربان کی جائے کیونکہ عقیقہ جان کا فدیہ ہے جس میں شراکت درست نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کسی نے ایسا نہیں کیا۔[28]
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی طرح تربیت کرنے اور انھیں محاسن واخلاق سے آراستہ کرنے میں دلچسپی لیں کیونکہ بچپن میں ایسی تربیت زیادہ کار گر اور مؤثر ہوتی ہے ورنہ بڑی عمر میں اس کی تلافی نہ ہو سکے گی آپ دیکھیں گے کہ بہت سے بچوں کے اخلاق و کردار کے بگاڑ کا سبب بچپن میں اس کی صحیح تربیت نہ کرنا ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے۔
وينشأ ناشئُ الفتيان منا على ما كان عَّودهُ أبوهُنوجوان اسی طریقے پر پروان چڑھتے ہیں جس طرح ان کے والد نے ان کی تربیت کی ہو۔
اولاد کو غلط لہو ولعب سے اور برے دوستوں کی مجالس سے دور رکھنا نہایت ضروری ہے۔ والدین اپنی اولاد کو گھر میں اچھا ماحول مہیاکریں کیونکہ بچے کے لیے گھر اس کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے جس میں اس کے والدین اور دیگر اہل خانہ رہتے ہیں۔ بچوں میں شراور خرابی پیدا کرنے والے اسباب کو گھروں سے دور ہی رکھنا چاہیے (مثلاً:مخرب اخلاق رسالے اور ڈائجسٹ فلمی گانوں اور فحش لطیفوں والی کیسٹیں ٹی وی ،وی سی آر،ڈش ،کیبل وغیرہ سے جن میں فحش لچراور لادینی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔)
علاوہ ازیں بچوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ ان کا دل و دماغ عبادات ،اطاعت احترام دین اور قرآن وحدیث کی تعلیم کی طرف مائل ہو جائے کیونکہ یہ چیزیں دنیا و آخرت کی سعادت کا باعث ہیں۔
الغرض ایک والد اور سر پرست پر لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے ان کے اخلاق و معاملات اور عادات کے سنوار نے میں خود اچھا نمونہ بنے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے اعمال کی توفیق دے جو اسے محبوب اور پسندہوں ۔آمین۔
[1]۔صحیح البخاری الحج باب سقابۃ الحاج حدیث 1634۔وسنن ابن ماجہ المناسک باب البیتوتہ بمکہ لیالی منی حدیث 3066۔
[2] ۔صحیح البخاری الحج باب رمی الجمار قبل حدیث1746۔ معلقاً وصحیح مسلم الحج باب بیان وقت استحباب الرمی بعد حدیث1299۔
[3]۔صحیح البخاری الحج باب رمی الجمار حدیث1746۔
[4]۔صحیح مسلم الحج باب استحباب رمی جمرہ العقیقہ یوم النحر راکبا حدیث 1297۔
[5] ۔صحیح البخاری الحج باب اذا رمی جمرتین یقوم مستقبل القبلہ وبسہل وباب الدعاء عند الجمرتین حدیث 1751۔1751۔وصحیح مسلم الحج باب رمی جمرۃ العقبہ من بطن الوادی حدیث 1296 وداز المعاد 2/285۔
[6] ۔زاد المعاد:2/286۔
[7]۔البقرۃ:2/203۔
[8] ۔صحیح البخاری الحج باب طواف الوداع حدیث 1755۔وصحیح مسلم الحج باب وجوب طواف الوداع و سقوطا عن الحائض حدیث1328۔
[9] ۔مسند احمد 1/370۔
[10] ۔صحیح الا بخاری باب الادلاج من المحصب حدیث:1771 وصحیح مسلم الحج باب وجوب طواف الوداع و سقوطا عن الحائض حدیث(382)1211واللفظ لہ
[11]۔الحج 22۔34۔
[12]۔الحج 22۔32۔
[13]۔صحیح مسلم الحج باب بیان وجوہ الاحرام حدیث 1213۔ومسند احمد 3/292۔293۔
[14]۔جامع الترمذی الاضاحی باب ماجاء ان الشاۃ الواحدۃ تجزی عن اھل البیت حدیث 1505۔وسنن ابن ماجہ الاضاحی باب من ضحی بشاۃ عن اھلہ حدیث 3147۔
[15]۔سنن ابن داؤد الضحایا باب یکرہ من الضحایا حدیث :2802۔ وسنن النسائی الضحایا باب ما نھی عنہ من الاضاحی حدیث4374۔
[16]۔الحج 22۔28۔ آیت سے قربانی کے گوشت کے تین حصے بنانے کا استدلال محل نظر ہے۔(صارم)
[17] ۔صحیح مسلم الاضاحی باب نہی من دخل علیہ عشر ذی الحجہ حدیث (42)1977۔
[18]۔سنن ابی داود الضحایا باب فی العقیقہ حدیث 2841۔
[19]۔سنن النسائی العقیقہ باب کم یعق عن الجاریہ حدیث4224اور یہی راجح ہے دیگر صحیح احادیث کے بھی موافق ہے۔ دیکھیے ارواء الغلیل 4/379۔(ع۔د)
[20]۔سنن ابن ماجہ الذبائح باب العقیقہ حدیث 3165۔
[21]۔زاد المعاد 2/326۔
[22]۔سنن ابی داود الضحایا باب فی العقیقہ حدیث 2836۔وجامع الترمذی الاضاحی باب الاذان فی اذن المولود حدیث 1516۔وسنن ابن ماجہ الذبائح باب العقیقہ حدیث 3162 واللفظ لہ۔
[23]۔وجامع الترمذی الاضاحی باب العقیقہ حدیث1522۔
[24]۔ضعیف سنن ابی داؤد الادب باب فی تغیر الاسماء حدیث 4946وسلسلہ الاحادیث الضعیفہ حدیث 5460۔
[25]۔صحیح مسلم الادب باب النھی عن التکنی بابی القاسم حدیث2132۔
[26]۔بچوں کے نام رکھنے سے متعلق مکمل راہنمائی کے لیے کتاب "پیارے نام"کا مطالعہ فرمائیں نیز"اسلامی ناموں کی ڈکشنری طبع دارالسلام کا مطالعہ فرمائیں۔(ادارہ)
[27]۔مؤلف رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے متعلق کوئی دلیل پیش نہیں کی۔(صارم)
[28]۔ عقیقے میں اونٹ گائے کا ذبح کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔ حدیث شریف میں صرف شاۃ کا ذکر ہے جس کا اطلاق بکری بکرے مینڈھے یا دنبے وغیرہ پر ہوتا ہے(صارم)