احرام باندھنے کا طریقہ
مناسک حج میں سب سے پہلا اہم کام احرام باندھنا ہے جو حج میں داخل ہونے کی نیت ہے احرام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس سے مسلمان اپنے آپ پر ہر وہ چیز حرام کر لیتا ہے جو احرام سے پہلے مباح تھی جیسے نکاح کرنا خوشبولگانا ،ناخن تراشنا ،حجامت بنوانا یا عام معمول کا لباس پہننا وغیرہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" کوئی شخص محض دل کی نیت اور ارادے سے محرم نہیں ہوتا۔ ارادہ تو اس وقت ہی شامل ہو گیا تھا جب وہ اپنے شہر سے چل پڑا تھا بلکہ نیت کے ساتھ ایسا قول و عمل بھی ضروری ہے جس سے وہ محرم قرارپائے(اور تلبیہ و احرام باندھنا ہے۔)[1]
حج کے لیے احرام باندھنے سے قبل درج ذیل چیزوں کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ حج جیسی عظیم عبادت کا استقبال شایان شان طریقے سے ہو سکے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کے لیے غسل کیا تھا غسل سے بدن کی طہارت و نظافت خوب طرح سے ہو جاتی ہے اور بدبو کا ازلہ ہو جاتا ہے۔ بہر حال احرام کے وقت غسل کرنا مطلوب و مقصود ہے حتی کہ حیض یا نفاس کا دوران ہو تو بھی عورت غسل کرے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ اُم سماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ایام نفاس کے دوران میں غسل کرنے کا حکم دیا تھا اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی غسل کا حکم دیا حالانکہ ان کے ایام حیض جاری تھے اس غسل میں حکمت یہ ہے کہ نظافت حاصل ہواور بدبو کا ازلہ ہو۔ نیز حیض اور نفاس والی عورت کی ناپاکی و پلیدی میں تخفیف ہو جائے۔
جب احرام باندھنے کا ارادہ ہو تو مستحب یہ ہے کہ جسم کی خوب اور اچھی طرح صفائی کر لی جائے۔
بڑھی ہوئی مونچھیں بغلیں اور زیر ناف بال صاف کر لیے جائیں تاکہ احرام کے دنوں میں اس صفائی کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ اگر احرام باندھنے سے پہلے ایسی مخصوص صفائی کی ضرورت نہ ہو تو اسے رہنے دیا جائے کیونکہ یہ چیز احرام کا حصہ نہیں بلکہ یہ کام ایک ضرورت کی وجہ سے ہے:
احرام باندھنے سے پہلے جو خوشبو میسر ہو اسے استعمال کیا جائے مثلاً: کستوری ،پرفیوم عرق گلاب یا کسی خوشبو دار لکڑی کی دھونی وغیرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام باندھنے سے قبل میں خوشبو لگاتی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کھول دیتے تو بیت اللہ کا طواف (طواف زیارت) کرنے سے پہلے بھی آپ کو خوشبو لگاتی۔"[2]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" اگر محرم احرام باندھنے سے پہلے اپنے بدن پر خوشبو لگانا چاہے تو اچھا اور بہتر ہے لیکن اسے کسی کو حکم نہیں دینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسا کیا تھا لیکن لوگوں کو اس کا حکم نہیں دیا تھا۔"[3]
محرم مرد کو چاہیے کہ وہ احرام کی چادریں پہننے سے پہلے اپنے جسم پر موجود سلاہو لباس قمیص شلوار وغیرہ اتاردے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا دو سفید اور صاف ستھری چادریں یعنی ازاد اور اوپر والی چادر بطور احرام باندھ لے۔ سفید کے علاوہ او کوئی رنگ دار احرام بھی ہو سکتا ہے جو رنگ عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان زینت سے دوررہے اور خشوع وخضوع اور عاجزی کی حالت میں رہے اور اس یاد رہے کہ وہ ہر وقت حالت احرام میں ہے تاکہ احرام کے ممنوعات سے بچا رہے نیز اسے موت اور لباس کفن یادرہے اور روز قیامت کو اٹھنا اور حشر و نشر وغیرہ ذہن نشین رہے۔
احرام کی نیت کرنے سے پہلے سلا ہوا لباس اتاردینا سنت ہے اور احرام کی نیت کے بعد اتارنا واجب ہے اگر کسی نے سلا ہوا لباس پہنے ہوئے احرام کی نیت کی تو اس کا احرام درست ہے البتہ نیت کے بعد اسے اتاردے۔
احرام سے قبل کوئی مخصوص نماز نہیں ہے البتہ اگر کسی فرض نماز کا وقت ہو تو اسے ادا کر کے احرام کی نیت کر لے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ذوالحلیفہ میں) ظہر کی نماز ادا کر کے سواری پر سوارہوئے تھے اور تلبیہ کہنا شروع کیا تھا۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں پڑھ کر احرام کی نیت کی تھی اس کے لیے کوئی الگ اور خاص نماز ادا نہیں کی تھی۔"[4]
یہاں ہم ایک مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں اور وہ یہکہ کئی حجاج کرام یہ سمجھتے ہیں کہ میقات کے مقام پر بنی ہوئی مسجد میں جانا اور اس کے اندر احرام باندھنا ضروری ہے۔ اس خیال کی بنا پر مرد عورتیں مسجد کی طرف بھاگتے ہیں۔ مسجد میں اچھا خاصا رش ہو جاتا ہے۔ کئی لوگ مسجد کے اندر ہی کپڑے اتارتے اور احرام کے کپڑے پہنتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کی کوئی دلیل نہیں۔ اصل چیز میقات سے احرام باندھنا ہے زمین کا کوئی مخصوص حصہ نہیں۔ مسجد کے اندر یا باہر جہاں بھی آسانی ہوا حرام کے لیے وہی جگہ درست ہے بلکہ اس موقع پر محفوظ اور الگ جگہ زیادہ مناسب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ مساجد نہ تھیں اور نہ یہ احرام باندھنے کی خاطر بنائی گئی ہیں۔بلکہ یہ مساجد وہاں قرب وجوار میں رہنے والے لوگوں کے لیے ہیں تاکہ وہ نماز ادا کر سکیں۔
حج کرنے والے شخص کو اختیار ہے کہ وہ تمتع قران یا افراد میں سے جس قسم کا حج کرنا چاہے کر سکتا ہے۔"[5]
حج تمتع یہ ہے کہ کوئی حج کے مہینوں میں اولاً عمرے کا احرام باندھے پھر عمرہ کر کے احرام کھول دے اور اسی سال حج کا احرام باندھے۔
حج افراد یہ ہے کہ میقات سے صرف حج کا احرام باندھے اور حج مکمل ہونے تک اسی احرام میں رہے اس میں عمرہ شامل نہیں ہوتا۔
حج قران یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھا احرام باندھا جائے یا اولاً عمرے کا احرام باندھے پھر طواف عمرہ سے پہلے پہلے حج کی نیت بھی اس میں شامل کر لے۔
الغرض حج قران کرنے والا میقات سے دونوں (حج اور عمرہ ) کی نیت کر کے احرام باندھے یا عمرے کا طواف شروع کرنے سے پہلے ہی حج کی نیت کر لے تو دونوں طرح درست ہے۔ یہ شخص حج اور عمرے (دونوں) کا ایک ہی طواف اور سعی کرے گا۔
متمتع اور قارن دونوں پر قربانی لازم ہے اگر وہ مسجد حرام کے پاس رہنے والے نہ ہوں حج کی ان تینوں قسموں میں سے افضل قسم حج تمتع ہے اس کے حق میں بہت سے دلائل ہیں۔
جب حج کی کسی بھی قسم کی نیت کر کے احرام باندھاجائے تو اس کے بعد تلبیہ کہنا شروع کر دینا چاہیے تلبیہ بلند آواز سے اور زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے۔ کلمات تلبیہ یہ ہیں۔
کچھ کام ایسے ہیں جو حالت احرام میں محرم پر حرام ہیں ان سے اجتناب کرنا نہایت ضروری ہے یہ کام نو(9) ہیں جو درج ذیل ہیں۔
1۔ بال مونڈنا یا کاٹنا:محرم کے لیے حرام ہے کہ وہ اپنے بدن کے کسی بھی حصے سے بلا عذر شرعی بال مونڈے یا کاٹے یا اکھاڑے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور اپنے سرنہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے۔"[6]
محرم کے لیے سر منڈوانے کی نہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ واضح حکم موجود ہے اس نص شرعی کا اطلاق بالا تفاق جسم پر موجود تمام بالوں پر ہوتا ہے کیونکہ وہ بھی سر کے بالوں کی طرح ہیں نیز سر کے بالوں کی طرح ان کو زائل کرنے سے بھی زینت و صفائی حاصل ہوتی ہے جو احرام کی حالت کے منافی ہے کیونکہ ایک محرم کا پراگندہ بالوں والا اور غبارآلود ہ ہونا اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے۔
اگر محرم کی آنکھ میں بال اُگ آئیں (جنھیں پڑبال کہتے ہیں) تو انھیں اکھاڑ دینے سے کوئی فدیہ لازم نہ آئے گا کیونکہ آنکھ بالوں کا محل نہیں نیز وہ بال تکلیف کا باعث ہیں۔
2۔ہاتھ یا پاؤں کے ناخن کاٹنا ہاتھ پاؤں کے ناخن کاٹنے منع ہیں البتہ اگر کسی ناخن کا کچھ حصہ خود بخود ٹوٹ گیا پھر محرم نے تکلیف کی وجہ سے باقی ناخن بھی کاٹ کر الگ کر دیا یا ناخن خود ہی ٹوٹ کر الگ ہو گیا تو اس پر کوئی فدیہ نہیں کیونکہ اس کے بارے میں محرم معذور ہے۔
اگر کسی نے جوئیں پڑجانے یا دردسر وغیرہ کی وجہ سے سر منڈوالیا تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے:
"پھر اگر کوئی شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو( اور وہ سر منڈوالے) تو فدیے میں روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔"[7]
علاوہ ازیں سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میرے سر میں جوئیں پڑنے کی وجہ سے مجھے تکلیف تھی چنانچہ مجھے اس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میں تو نہیں سمجھتا تھا کہ تمھیں اس قدر تکلیف ہو گی۔ تم بکری ذبح کرنے کی طاقت رکھتے ہو؟میں نے کہا نہیں !تب آیت کریمہ :﴿ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ﴾"تو وہ فدیے میں روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔" نازل ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تین روزے رکھو یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ ہر مسکین کو نصف صاع کھانا دو۔ اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں۔یا ایک بکری ذبح کرو۔"[8]
محرم کے لیے بالوں کو بیری وغیرہ کے پتے ڈال کر پانی سے دھونا جائز ہے۔"[9]چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں اپنا سر مبارک دھویا تھا اور اسے آگے پیچھے سے اپنے دونوں ہاتھوں سے ملا بھی تھا۔"[10]
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" محرم احتلام کی صورت میں غسل جنابت کرے گا۔ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ اسی طرح وہ غیر جنابت میں بھی غسل کر سکتا ہے۔"
3۔سر ڈھانپنا : مرد کے لیے (حالت احرام میں) سرڈھانپنا منع ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کو پگڑی اور ٹوپی والا کوٹ پہننے سے منع فرمایا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" جو چیز سر کے ساتھ لگتی ہو اور سر چھپانے کے کام آتی ہو جیسے پگڑی ، کپڑا اور ٹوپی وغیرہ تو اس کا استعمال بالا تفاق ناجائز اور ممنوع ہے۔"[11]
واضح رہے پگڑی کی طرح سر پر کاغذ چپکانا، مٹی ،مہندی لگانا یا رومال باندھنا سب کا ایک ہی حکم ہے محرم خیمے درخت یا گھر کے سائے میں ٹھہر سکتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خیمہ لگایا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں اس میں ٹھہرے تھے۔ اسی طرح محرم کے لیے چھتری کا سایہ حاصل کرنا جائز ہے۔ چھت والی بس میں سوار ہونا جائز ہے۔ اور سر پر سامان اٹھانا (جس میں سر ڈھانپنا مقصد نہ ہو)درست ہے۔
4۔سلا ہوا کپڑا پہننا : محرم مرد کے لیے پورے جسم یا جسم کے کچھ حصے پر سلا ہوا لباس پہننا منع ہے مثلاً: قمیص پگڑی ،شلوار ، موزے اور دستانے وغیرہ استعمال کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ محرم کیا کچھ پہن سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"محرم قمیص ،پگڑی ، کوٹ، شلوار اور ایسا کپڑا نہ پہنے جسے خوشبو ورس اور زعفران لگی ہو اور نہ وہ موزے پہنے۔"[12]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کو قمیص ،کوٹ شلوار، موزے اور پگڑی کے استعمال سے منع فرمایا ہے۔اور لوگوں کو منع فرمایا کہ فوت ہونے پر اس کا سر ڈھانپا جائے۔ ایک شخص نے حالت احرام میں جبہ پہنا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتارنے کا حکم دیا الغرض مذکورہ صورتوں میں سلے ہوئی لباس کا استعمال محرم کے لیے جائز نہیں نہ خود پہنے نہ کسی دوسرے کو پہنائے۔ لباس پھٹا ہوا ہو یا سالم ہر صورت منع ہے۔اسی طرح جبہ اور انڈروئیر کا استعمال بھی درست نہیں۔"[13]
اگر محرم کو پہننے کے لیے جوتا میسر نہ ہوتو موزے پہن لے یا ازار کے لیے چادر نہ ملے تو چادر ملنے تک شلوار پہن لے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو شلوار پہننے کی اس وقت تک اجازت دی تھی جب اسے چادر نہ مل سکی۔[14]
عورت حالت احرام میں جیسا لباس چاہے پہن لے کیونکہ اسے پردے کی شدید ضرورت ہوتی ہے البتہ عورت برقعہ اور نقاب نہ پہنے ۔عرب عورتوں کا نقاب ایسا کپڑا تھا جسے وہ چہرے پر باندھتی تھیں اور اس میں دیکھنے کے لیے آنکھوں کے سامنے دو سوراخ ہوتے تھے۔عورت اپنا چہرہ دوپٹے یا چادر سے بصورت گھونگھٹ ڈھانپ سکتی ہے۔ عورت دستانے نہ پہنے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
"محرم عورت نقاب نہ کرے اور دستانے نہ پہنے۔"[15]
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"عورت کو نقاب اور دستانے پہننے سے جو منع کیا گیا ہے یہ دلیل ہے کہ عورت کا چہرہ مرد کے بدن کی طرح ہے سر کی طرح نہیں لہٰذا عورت کے لیے چہرے کی مقدار کا خصوصی کپڑا استعمال کرنا ناجائز ہے۔جیسے نقاب یا برقعہ وغیرہ ۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ چادر وغیرہ سے بھی چہرہ نہ ڈھانپے اور یہی رائے درست ہے:"
عورت کے لیے مردوں سے اپنا چہرہ چھپانا نقاب اور برقعے کے سوا کسی چیز کے ذریعے سے واجب ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے:
"قافلے ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت احرام میں ہوتی تھیں۔
جب لوگ ہمارے سامنے آتے تو ہر ایک اپنے چہرے پر چادر کا کپڑا لٹکا لیتی جب وہ گزر جاتے تو ہم چہرہ کھول لیتی تھیں۔"[16]
کسی عورت کے چہرے پر لٹکتا ہوا کپڑا اگر چہرے کو لگ جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ صرف برقعے اور نقاب سے روکا گیا ہے ان کے علاوہ کسی اور کپڑے سے چہرہ ڈھانپنے سے نہیں روکا گیا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"عورت کو یہ تکلیف نہ دی جائے کہ وہ کسی لکڑی یا ہاتھ وغیرہ کے ساتھ چہرے سے کپڑا ہٹا کر رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے چہرے اور ہاتھوں کو ایک ہی حکم میں رکھا ہے۔ عورت کے یہ دونوں اعضاء مرد کے جسم کے حکم میں ہیں نہ کہ اس کے سر کے حکم میں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجات محترمات اپنے چہروں پر کپڑا لٹکالیتی تھیں اگر وہ چہرے کو لگتا تو اسے خاطر میں نہ لاتی تھیں ۔" نیز موصوف فرماتے ہیں:"چہرہ ڈھانپتے ہوئے اگر کپڑا چہرے کے ساتھ لگ جائے تو بھی کوئی حرج نہیں جبکہ وہ نقاب اور برقعے کا استعمال نہ کرے۔"[17]
5۔خوشبو لگانا:محرم کے لیے بدن یا کپڑے پر یا کھانے پینے کی اشیاء میں خوشبو کا استعمال حرام ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یعلی بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں آدمی کو خوشبو دھوڈالنے کا حکم دیا تھا۔"[18]اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جسے سواری نے گرا کر مارڈالا تھا۔
"اسے بیری کے پتوں والے پانی سے غسل دینا اور احرام کے کپڑوں ہی میں دفن کرنا اور خوشبو نہ لگانا ۔"[19]
محرم کو خوشبو کے استعمال سے روکنے میں شاید حکمت یہ ہے کہ وہ آسائش کی اشیاء اور دنیوی زینت اور اس کی لذتوں سے دور رہے اور آخرت کی طرف متوجہ رہے۔ حالت احرام میں خوشبو کا سونگھنا اور خوشبو دار تیل استعمال کرنا بھی جائز نہیں۔
6۔خشکی میں شکار کرنا:محرم کے لیے خشکی یعنی جنگل و میدان میں کسی جانور کا شکار کرنا اور اسے قتل کرنا منع ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"اے ایمان والو!(وحشی) شکار کو قتل مت کرو۔ جب تم حالت احرام میں ہو۔"[20]
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
"اور خشکی کا شکار پکڑنا تمھارے لیے حرام کیا گیا ہے جب تک تم حالت احرام میں ہو۔"[21]
محرم کے لیے شکار کرنا اس میں تعاون کرنا یا اسے ذبح کرنا منع ہے ۔ اسی طرح اپنے ہی شکار کیے ہوئے سے کھانا یا جو جانور اس کے لیے شکار کیا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے کیونکہ یہ اس کے لیے مردار کی طرح ہے۔
سمندر دریا کا شکار محرم پر حرام نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
"تمھارے لیے دریا (اور سمندر) کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال ہے۔"[22]
اسی طرح گھریلو جانور:مرغی ،بکری،گائے، وغیرہ ذبح کرنا بھی حرام نہیں کیونکہ یہ شکار کرنے کے جانور نہیں ۔
اور جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے اور وہ لوگوں کو نقصان پہنچاسکتے ہیں انھیں بھی قتل کرنا حرام نہیں۔ مثلاً:شیر، چیتا،وغیرہ اسی طرح اپنے مال و جان کی حفاظت کے لیے حملہ آور جانور کو قتل کرنا جائز ہے۔
اگر کوئی محرم حالت احرام میں ممنوعات میں سے کسی چیز کو کرنے میں مجبور ہو تو وہ کام کر لے لیکن فدیہ ادا کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"پھر تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو(جس کی وجہ سے سر منڈالے)تو اس پر فدیہ ہے خواہ روزے رکھ خواہ صدقہ دے دے خواہ قربانی کر لے۔"[23]
7۔نکاح کرنا:محرم نہ خود کسی عورت سے نکاح کرے اور نہ ولی اور وکیل بن کر کسی کا نکاح کرے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔
"محرم نہ خود نکاح کرے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرائے۔"[24]
8۔جماع کرنا: محرم کے لیے حالت احرام میں اپنی بیوی سے جماع کرنا حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"چنانچہ جس شخص نے ان (مہینوں ) میں حج کو لازم کر لیا تو حج کے دوران میں وہ جنسی باتیں نہ کرے۔"[25]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں(رَفَثَ) سے مراد "جماع" ہے جس شخص نے دس ذوالحجہ کو طواف افاضہ (طواف زیارت )سے پہلے پہلے جماع کر لیا تو اس کا حج فاسد ہو گیا۔ وہ حج کے بقیہ ارکان کی ادائیگی جاری رکھے اور آئندہ سال اس حج کی قضا دے اور ایک جانور ذبح کرے اگر محرم نے دس ذوالحجہ کو طواف زیارت کے بعد جماع کیا تو اس کا حج فاسد نہ ہو گا بلکہ وہ ایک بکری بطور فدیہ ذبح کرے۔
9۔ مباشرت کرنا:جماع کے علاوہ بصورت شہوت معانقہ بوس و کنار کرنا درست نہیں کیونکہ یہ چیزیں جماع کا سبب ہیں محرم پر واجب ہے کہ وہ جماع ،نافرمانی اور لڑائی کے کاموں سے اجتناب کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
"چنانچہ جس شخص نے ان (مہینوں ) میں حج کو لازم کر لیا تو حج کے دوران میں وہ جنسی باتیں نہ کرے۔اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور کسی سے جھگڑا نہ کرے۔"[26]
آیت میں مذکورہ لفظ(رَفَثَ) سے مراد جماع یا جماع کے اسباب ہیں مثلاً: مباشرت بوس وکناراور جماع کی باتیں کرنا وغیرہ اور(فُسُوقَ) سے مراد معصیت کے جملہ کام ہیں جو خاص طور پر حالت احرام میں بہت قبیح اور شدید ہیں کیونکہ محرم اطاعت وانکسار کی حالت میں ہوتا ہے۔( جِدَالَ) سے مراد ساتھیوں کے ساتھ بے مقصد بحث و تکرار حتی کہ گالی گلوچ کرنا ہے البتہ حق بات کی وضاحت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خاطر بحث و تکرار مستحسن ہے بلکہ اس کا تو حکم ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیے۔"[27]
محرم کے لیے مسنون یہ ہے کہ وہ غیر مفید بے مقصد اور دنیوی کلام کم ازکم کرے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔"[28]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے مقصد باتیں چھوڑدے۔"[29]
محرم تلبیہ ذکر الٰہی تلاوت قرآن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کاموں میں خود کو مصروف رکھے اور وقت کو ضائع ہونے سے بچائے رضائے الٰہی کے حصول میں مگن رہے اجرو ثواب کا شوق رکھے ۔نیت خالص رکھے کیونکہ وہ احرام کی حالت میں ہے اور عظیم عبادت کی ادائیگی کے لیے اور مقدس و بابرکت مقامات کی زیارت کے لیے نکلا ہے۔
جب وہ مکہ مکرمہ پہنچ جائے تو اگر اس نے حج تمتع کی نیت کی ہے تو وہ عمرہ ادا کرے یعنی بیت اللہ کے سات چکر لگائے مقام ابراہیم پر دو رکعتیں ادا کرے ممکن ہو تو مقام ابراہیم کے پیچھے اور قریب کھڑا ہو ورنہ مسجد حرام کی کوئی بھی جگہ درست ہے پھر صفاو مروہ کے درمیان سعی کرنے کے لیے جائے اور وہاں سات چکر لگائے صفا سے شروع کرے اور آخری چکر مروہ پر ختم کرے۔ صفا سے مروہ تک جانے سے ایک چکر اور مروہ سے واپس آنے سے دوسرا چکر شمار ہو گا۔ طواف وسعی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دعا جاری رکھے سعی کے آخری چکر کے بعد مردسر کے تمام بال کتروائے جبکہ عورت اپنے سر کی چوٹی سے ایک پور بال کاٹ لے۔
حجامت کے بعد عمرہ کرنے والا ) حالت احرام سے آزاد ہو گیا ہے۔ اب اس کے لیے وہ تمام کام جائز ہیں جو حالت احرام میں منع تھے مثلاً: جماع کرنا خوشبو لگانا سلا ہوا لباس پہننا، ناخن تراشنا،مونچھیں کاٹنا اور بغلوں کے بال اکھاڑ نا وغیرہ اب وہ آٹھ ذوالحجہ تک حالت احرام سے آزاد ہی رہے گا پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ کر منی کی جانب جائے۔ اس کی تفصیل اگلے صفحات پر ملاحظہ فرمائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔
جو شخص حج قران یا حج افراد کی نیت کر کے مکہ میں آیا ہو وہ طواف قدوم کرے اور اگر چاہے تو حج کی سعی سے بھی فارغ ہو جائے(تاکہ دس ذوالحجہ کو رش سے بچ جائے) اور وہ یوم النحر تک حالت احرام ہی میں رہے گا جس کی تفصیل آگے آئے گی ان شاء اللہ تعالیٰ۔
[1]۔صحیح البخاری الحج باب الطیب عند الاحرام حدیث 1539۔
[2]۔مجموع الفتاوی لا بن تیمیہ26/108۔
[3] ۔مجموع الفتاوی13/234۔
[4]۔زاد المعاد:2/107۔
[5]۔البتہ احادیث میں حج تمتع اور قران کی فضیلت وارد ہوئی ہے دیکھئے حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی رحمۃ اللہ علیہ
[6]البقرہ:2/196۔
[7]۔البقرۃ:2/196۔
[8]۔صحیح البخاری والمحصر باب الاطعام فی الفدیۃ نصف صاع حدیث 1816۔وصحیح مسلم الحج باب جواز حلق الراس للمحرم اذا کان بہ اذی حدیث 1201 واللفظ لہ۔
[9]۔اگر سر وغیرہ کو دھونے یا کھجلاتے وقت جسم کے چند بال ٹوٹ کر گر جائیں تو اس صورت میں فدیہ نہیں (الموطا للامام مالک الحج باب مایحوز للمحرم ان یفعلہ )
[10]۔صحیح البخاری جزاء الصید باب الاعتسال للمحرم حدیث 1840۔وصحیح مسلم الحج باب جواز غسل المحرم بدنہ وراسہ حدیث1205۔
[11]۔زاد المعاد لا بن القیم 2/243۔
[12] ۔صحیح البخاری العلم باب من اجاب السائل باکثر مما سالہ حدیث 134وصحیح مسلم الحج باب ما بیاح للمحرم یحج اوعمرۃ لبسہ ؟حدیث177واللفظ لہ
[13]۔مجموع الفتاوی 26/10۔111۔
[14]۔صحیح البخاری جزاء الصید باب اذالم یجد الازار فلیلیس السراویل حدیث1843۔
[15]۔صحیح البخاری جزاء الصید باب ما ینھی من الطیب للمحرم والمحرم والمحرمۃ حدیث1838۔
[16]۔(ضعیف)سنن ابی داؤد المناسک باب فی المحرمۃ وجہہا حدیث 1833 ومسند احمد :6/30۔
[17]۔مجموع الفتاوی:26/112۔113۔
[18]۔۔صحیح البخاری الحج غسل الخلوق ثلاث مرات من الشیاب حدیث 1536۔
[19]۔صحیح البخاری جزاء الصید باب سنۃ المحرم اذا مات حدیث1851۔
[20]۔المائدہ:5/96۔
[21]۔المائدہ:5/96۔
[22]۔المائدہ:5/96۔
[23]۔البقرۃ:2/196۔
[24]۔صحیح مسلم النکاح باب تحریم نکاح المحرم وکراھۃ خطبتہ حدیث 1409۔
[25]۔البقرۃ:2/197۔
[26]۔البقرۃ:2/197۔
[27]۔النحل16/125۔
[28]۔صحیح البخاری الادب باب من کان یا من باللہ الیوم الاخر فلا یؤذ جارہ حدیث:60،19،60،18۔وصحیح مسلم الایمان باب الحث علی کرام الجار الضیف حدیث47۔
[29]۔جامع الترمذی الزھد باب حدیث من حسن اسلام المرء حدیث 2317 ومسند احمد 1/201۔