سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) حج کی فرضیت و اہمیت

  • 23719
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 9954

سوال

(44) حج کی فرضیت و اہمیت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حج کی فرضیت واہمیت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِىٌّ عَنِ العـٰلَمينَ ﴿٩٧﴾... سورة آل عمران

"اللہ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پاسکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ(اس سے بلکہ ) تمام دنیا سے بے پرواہ ہے۔"[1]

اس آیت کریمہ میں کلمہ (عَلَى) سے حج کی فرضیت واضح ہوتی ہے نیز  آیت کے آخری کلمات(وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ)میں تارک حج کو کافر قراردیا گیا ہے۔ اس سے بھی حج کی فرضیت اور اس کی تاکید خوب واضح ہوتی ہے۔ بنابریں جو شخص حج کی فرضیت کا عقیدہ نہیں رکھتا وہ بالا جماع کافر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام  کو فرمایا:

"وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ"

"اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے۔"[2]

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

"مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ وَلَمْ يَحُجَّ . ... فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا"

"جس شخص کے پاس بیت اللہ تک پہنچانے کے لیے زادراہ اور سواری ہو لیکن اس نے حج نہ کیا تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ یہودی یا عیسائی ہو کر مر جائے۔"[3]

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے۔

"عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم «بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ"

"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے کلمہ شہادت کہنا نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا۔"[4]اور بیت اللہ کا حج کرنا بشرطیکہ وہاں جانے کی طاقت ہو۔"[5]

واضح رہے کہ بیت اللہ تک جانے کی طاقت سے مراد بیت اللہ تک پہنچنے اور واپس اپنے گھر آنے تک خرچ اور سواری کے بندوبست کا ہونا ہے۔

حج کی مشروعیت میں حکمت اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کی ہے:

﴿لِيَشهَدوا مَنـٰفِعَ لَهُم وَيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ عَلىٰ ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـٰمِ فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا البائِسَ الفَقيرَ ﴿٢٨ ثُمَّ ليَقضوا تَفَثَهُم وَليوفوا نُذورَهُم وَليَطَّوَّفوا بِالبَيتِ العَتيقِ ﴿٢٩﴾... سورة الحج

"تاکہ وہ اپنے منافع کے لیے حاضر ہوں اور معلوم ایام میں(ذبح کرتے وقت ) ان چوپائے مویشیوں پر اللہ کا نام پڑھیں جو اللہ نے انھیں دیے ہیں پھر تم (خود بھی) ان کا گوشت کھاؤ اور کھلاؤ ہر بھوکے فقیر کو۔ پھر چاہیے کہ وہ اپنا میل کچیل دور کر یں اور چاہیے کہ اپنی نذریں پوری کریں اور چاہیے کہ قدیم گھر (بیت اللہ) کا طواف کریں۔"[6]

یادرہے کہ اس آیت میں جن منافع کا ذکر ہے وہ بندوں کو حاصل ہوتے ہیں نہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ان چیزوں سے مستغنی ہے۔

حج کی فرضیت کو نماز زکاۃ اور روزے سے مؤخر کرنے میں حکمت یہ ہے کہ نماز دین کا ستون ہے اور وہ ایک دن میں پانچ مرتبہ ادا کی جاتی ہے پھر نماز کے بعد زکاۃ کی فرضیت ہے کیونکہ متعدد مقامات پر نماز اور زکاۃ کو ملا کر بیان کیا گیا ہے پھر روزہ ہے جو ہر سال ہی آجاتا ہے لیکن حج زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے اور وہ بھی تب جب طاقت ہو۔

جمہور علماء کے قول کے مطابق دین اسلام میں حج نو ہجری کو فرض ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سن دس ہجری میں ایک ہی حج (حجۃ الوداع ) کیا تھا جبکہ عمر ے چار کیے تھے۔

حج اور عمرہ کرنے کا مقصد ان مقامات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے جہاں اس کی عبادت کرنے کا حکم خاص ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"إِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ"

"بیت اللہ کا طواف صفاو مروہ کی سعی اور جمروں کی رمی اللہ کے ذکر کی صورتیں ہیں۔"[7]

اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ حج فرض ہے اور دین اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے حج کی طاقت رکھنے والے شخص پر زندگی میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔ اور ہر سال حج مسلمانوں پر مجموعی طور پر فرض کفایہ ہے البتہ ہر شخص کے لیے زندگی بھر میں ایک بار فرض حج ادا کر لینے کے بعد دوبارہ حج کرنا نفل ہے۔

اکثر علماء کے نزدیک "عمرہ" فرض ہے ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال ہوا کیا عورتوں پر جہاد کرنا فرض ہے تو آپ نے فرمایا:

نَعَمْ ، عَلَيْهِنَّ جِهَادٌ لا قِتَالَ فِيهِ ، الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ "

"ہاں!ان پر ایسا جہاد فرض ہے جس میں لڑائی نہیں اور وہ حج اور عمرہ کرنا ہے۔"[8]

اس روایت کی بنا پر عورتوں پر عمرہ فرض ہے تو مردوں پر بالا ولیٰ فرض ہے نیز رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایک شخص نے پوچھا کہ میرا باپ اس قدر بوڑھا ہے کہ وہ حج اور عمرہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ سفر کرنے کے قابل ہےتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"حُجَّ عَنْ أَبِيكَ وَاعْتَمِرْ"

"تم اپنے باپ  کی طرف سے حج اور عمرہ کرو۔"[9]

ہر مسلمان پر زندگی میں ایک بار حج اور عمرہ کرنا فرض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے۔

"الْحَجُّ مَرَّةٌ فَمَنْ زَادَ فَهُوَ تَطَوُّعٌ"

"حج عمر میں ایک بار ہے جس نے زیادہ کیے وہ نفلی ہیں۔"[10]

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"قَدْ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ الْحَجَّ فَحُجُّوا فَقَالَ رَجُلٌ أَكُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَسَكَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى فَسَكَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ قُلْتُ : نَعَمْ لَوَجَبَتْ ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ"

"اے لوگو!اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے تم حج کرو۔ ایک شخص نے کہا: کیا ہر سال ؟ اے اللہ کے رسول !تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔"[11]

ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ جب اس پر حج فرض ہو جائے تو حتی الامکان اسے ادا کرنے میں جلدی کرے اگر وہ بلا عذر تاخیر کرے گا تو گناہ گار ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"تَعَجَّلُوا إِلَى الْحَجِّ ، يَعْنِي الْفَرِيضَةَ ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لا يَدْرِي مَا يَعْرِضُ لَهُ "

"فرضی حج کے لیے جلدی روانہ ہو جاؤ۔تمھیں نہیں معلوم کب کوئی حادثہ پیش آجائے۔"[12]

حج کے فرض ہونے کی پانچ شرائط ہیں:اسلام عقل ،بلوغت ، آزادی اور استطاعت جس شخص میں یہ پانچ شرائط موجود ہوں تو اس پر حج فرض ہے جسے حتی الامکان جلد ادا کرنا چاہیے۔

بچے کا حج عمرہ نفلی ہو گا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔" ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے ایک بچہ پیش کیا اور کہا: کیا اس کا حج ہو جاتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: "نَعمْ وَلَكِ أَجْرٌ""ہاں !اور تیرے لیے اجر ہے۔"[13]

اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ اگر بچے نے بلوغت سے قبل حج کر لیا تو بلوغت کے بعد بشرط استطاعت اس پر حج کرنا فرض ہو گا پہلا حج یا عمرہ کافی نہ ہو گا۔

اگر بچہ سمجھ بوجھ نہ رکھتا ہو تو اس کا سر پرست اسے احرام باندھے اس کی طرف سے نیت کرے اسے ممنوعات احرام سے بچائے اور اسے اٹھا کر طواف وسعی کرے عرفہ مزدلفہ اور منی میں اپنے ساتھ رکھے اور اس کی طرف سے جمرات کی رمی وغیرہ کرے۔

اگر بچہ سمجھ بوجھ رکھتا ہو تو وہ اپنے ولی کی اجازت سے خود نیت کرے اور جس قدر مناسک حج خود ادا کر سکتا ہو ادا کرے اور جن کی ادائیگی سے قاصر ہوانھیں اس کا ولی ادا کرے مثلاً: جمرات کی رمی وغیرہ اگر بچہ چلنے سے عاجز ہو تو اسے سواری پر یا اٹھا کر طواف وسعی کروائی جائے۔

تمام وہ کام جو بچہ سمجھ دار خود کر سکتا ہے وہ خود ہی کرے جیسے عرفات میں ٹھہرنا منیٰ میں راتیں گزارنا وغیرہ ۔ یہ کام اگر دوسرا کوئی کرے گا تو درست نہ ہو گا اور بچے کے لیے ممنوعات وہی ہیں جو کسی بڑے کے لیے ہیں۔

حج کرنے کی اسطاعت شرعاً اس شخص کو حاصل ہے جو جسمانی اور مادی اعتبار سے ادا کر سکتا ہو یعنی سواری پرسوار ہو سکتا ہو۔ سفر کی مشکلات برداشت کر سکتا ہو۔ حج کے لیے جانے اور آنے کا خرچہ برداشت کر سکتا ہو اہل وعیال کا خرچہ بھی پورا کر سکتا ہو۔ نیز راستہ محفوظ ہو جان کا خطرہ نہ ہو۔

اگر کسی کے پاس مال ہے لیکن جسمانی قوت نہیں مثلاً: بہت بوڑھا ہے یا اسے کوئی مرض لاحق ہے جس میں صحت مند ہونے کی امید نہیں ہے تو لازم ہے کہ وہ کسی مسلمان کو اپنا نائب بنا کر حج یا عمرہ کے لیے روانہ کرے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرے باپ پرحج فرض ہو چکا ہے لیکن وہ اس قدر بوڑھا ہے کہ سواری پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"نَعَمْ وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ"

"ہاں!(اس کی طرف سےحج کرو) اور یہ حجۃ الوداع کے وقت تھا۔"[14]

حج و عمرے میں کسی کی نیابت (حج بدل) کرنے والے کے لیے لازم ہے کہ اس نے پہلے خود اپنا حج کیا ہو کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو سنا وہ کہہ رہا تھا میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا:

"حَجَجْتَ عن نَفْسِكَ؟ "قال: لا. قال:"حُجَّ عَنْ نَفْسِكَ، ثم حُجَّ عن شُبْرُمَةَ "

"کیا تونے خود حج کیا ہے؟اس نے کہا: نہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" پہلے خود اپنا حج کر،پھر شبرمہ  کی طرف سے حج کر۔"[15]

حج بدل کرنے والے (نائب) کو اس قدر اخراجات دیے جائیں کہ وہ آسانی سے سفر میں آنے جانے کی تمام ضروریات پوری کر سکے ۔ کسی کو اجرت پر حج کے لیے روانہ کرنا درست نہیں۔ اسی طرح حج بدل کو مال کی کمائی کا ذریعہ بنانا بھی درست نہیں بلکہ نائب کا مقصود و مطلوب یہ ہو کہ وہ اپنے بھائی کو دینی نفع دینا چاہتا ہے لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بیت اللہ کا حج کرے گا۔ حج کے مقامات کی زیارت کرے گا۔ اس کا حج صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہوگا نہ کہ دنیا کے لیے اگر اس نے محض مال کے حصول کی خاطر حج کیا تو وہ حج صحیح نہ ہو گا۔

عورت پر حج فرض ہونے کی شرائط اور اس کی نیابت کے احکام

ہر مسلمان مرد اور عورت پر حج کرنا اس وقت فرض ہو جاتا ہے جب وہ تمام شرائط موجود ہوں جن کا ذکر گزشتہ باب میں ہو چکا ہے البتہ عورت کے لیے ایک مزید شرط یہ ہے کہ دوران سفر اس کا خاوند یا کوئی محرم ساتھ ہو کیونکہ عورت کے لیے خاوند یا محرم کے بغیر حج یا کوئی اور سفر کرنا جائز نہیں۔اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے۔

"لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ وَلَا يَدْخُلُ عَلَيْهَا رَجُلٌ إِلَّا وَمَعَهَا مَحْرَمٌ"

"کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے اور کسی عورت کے پاس کوئی آدمی اس وقت تک نہ جائے جب تک اس کاکوئی محرم موجود نہ ہو۔"[16]

ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا میں جہاد کرنے کے لیے لشکر کے ساتھ جا رہا ہوں اور میری بیوی حج کے لیے جانا چاہتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" تم اپنی بیوی کے ساتھ جاؤ۔"[17]صحیحین کی روایت یوں ہے میری بیوی حج کے لیے روانہ ہو چکی ہے اور میرا نام فلان غزوہ کے مجاہدین میں لکھا جا چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"انطلق فحج مع امرأتك"

"جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج میں شریک ہو جاؤ۔"[18]

صحیح مسلم میں ہے:

"لا يَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاَللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إلاَّ وَمَعَهَا حُرْمَةٌ"

"کسی مومنہ عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ محرم کے بغیر ایک دن رات کا سفر کرے۔"[19]

ان مذکورہ روایات سے واضح ہوا کہ محرم کے بغیر عورت کا سفر کرنا حرام ہے وہ سفر حج کا ہو یا حج کے علاوہ کا ہو۔اس حکم کا مقصد خود عورت کو اس کی وجہ سے سدا ہونے والے فتنہ و فساد کے امکان کو روکناہے۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے:"اللہ تعالیٰ کے فرمان: "مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ " [20]میں عورت کے لیے محرم کا ہونا بھی سبیل میں شامل ہے اور جس عورت کا محرم نہ ہوتو نہ خود اس پر حج کرنا فرض ہے اور نہ کسی کو اپنی طرف سے حج کروانا فرض ہے۔"[21]

عورت کے محرم سے مراد اس کا خاوند یا اس کا وہ قریبی مرد ہے جس کے ساتھ نسب کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکاح کرنا حرام ہے مثلاً: عورت کا بھائی باپ چچا ، بھتیجا اور ماموں وغیریا کسی اور شرعی سبب سے نکاح حرام ہو جیسے رضاعی بھائی یا نکاح کی وجہ سے محرم بننے والا مرد ہو مثلاً: ماں کا خاوند یا خاوند کا بیٹا ۔صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ سَفَرًا يَكُونُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَصَاعِدًا إِلَّا وَمَعَهَا أَبُوهَا أَوْ ابْنُهَا أَوْ زَوْجُهَا أَوْ أَخُوهَا أَوْ ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا"

"جو عورت اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے ہر گز جائز نہیں کہ وہ اپنے باپ بیٹے خاوند بھائی یا کسی اور محرم کے بغیر تین دن یا زیادہ کا سفر کرے۔"[22]

سفر میں محرم کے جملہ اخراجات عورت کے ذمہ ہوں گے چنانچہ عورت پر حج فرض ہونے کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ اپنے اور اپنے محرم کے سفر حج (میں آنے جانے ) کے تمام اخراجات ادا کرنے کی استطاعت رکھتی ہو۔

جس عورت نے حج کے لیے محرم کا بندوبست کر لیا پھر عورت کی مالی استطاعت کے باوجود کسی وجہ سے وہ محرم شریک سفر نہ ہو سکا تو وہ اس محرم کی شرکت کا انتظار کرے پھر اگر وہ عورت مایوس ہو جائے تو حج بدل کے لیے کسی کو  اپنا نائب بنا کر روانہ کردے۔

جس شخص پر حج فرض ہو چکا تھا پھر وہ حج ادا کرنے سے پہلے ہی فوت ہو گیا تو اس کے اصل مال یعنی ترکہ سے اس قدر رقم الگ کر لی جائے جو حج کے لیے کافی ہو۔ اس سے میت کی طرف سے کسی کو حج کے لیے روانہ کیا جائے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی تو وہ حج کرنے سے پہلے ہی وفات پاگئی تو کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"نعم حجي عنها أرأيت لو كان على أمك دين أكنت قاضية اقضوا الله فالله أحق بالوفاء"

"ہاں!اس کی طرف سے حج کرو۔ پھر فرمایا: اگر تمھاری والدہ پر کسی کا قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا قرض بھی ادا کرو اور اللہ کا قرض ادا کرنا زیادہ لائق ہے۔"[23]

اس روایت سے واضح ہوا کہ جو شخص فوت ہو گیا اور اس پر حج کرنا فرض تھا تو اس کی اولاد یا ولی میت کی طرف سے حج کرے یا کسی اور شخص کو میت کی طرف سے حج کے لیے بھیج دے جس طرح ورثاء کی ذمہ داری ہے کہ میت کے اصل مال سے اس کا قرض ادا کریں اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قرض بھی میت کے مال سے ادا کرنا ضروری ہے۔ اہل علم کا اجماع ہے کہ اس کا قرض اصل مال ہی سے ادا کیا جائے۔ ایک اور روایت میں ہے:" میری بہن نے حج کی نذر مانی تھی۔"[24]

سنن دارقطنی کی ایک روایت میں ہے:"میرے والد فوت ہو گئے ہیں ان پر حج فرض تھا۔"[25]

ان روایات سے واضح ہوا کہ میت کی زندگی میں جو حج فرض ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہو یا خود نذر مان کر فرض کر لیا ہو۔ بہر صورت فرض ایک قرض ہے جو ادا کیا جائے گا خواہ میت نے اس کو ادا کرنے کی وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔

اگر کسی شخص نے کسی کو اپنا نائب بنا کر حج کے لیے بھیجا تو گویا اس نے خود حج کیا حج کرنے والا بمرتبہ وکیل ہے لہٰذا نائب بھیجنے والے کی طرف سے نیت کرے اس کی طرف سے تلبیہ کہے اس کی طرف سے قربانی کی نیت کرے۔ نام نہ بھی لے تو کوئی حرج نہیں۔ اگر اس کا نام و نسب معلوم نہ ہو تو دل میں یہ نیت کر لے۔ کہ میں اس شخص  کی طرف سے حج کر رہا ہوں جس نے مجھے حج کا خرچ دیا ہے یہی نیت کافی ہو گی۔

والدین وفات پا چکے ہوں یا زندہ ہوں لیکن حج کرنے کی ہمت نہ رکھتے ہوں تو ان کے لیے حج کرنا مستحب ہے اس میں والدہ کو مقدم رکھا جائے کیونکہ حسن سلوک کی وہ زیادہ حق دار ہے۔

حج کی فضلیت اور اس کی تیاری کرنا

حج کی بہت زیادہ فضیلت اور اس کا بہت اجرو ثواب ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"تَابِعُوا بَيْنَ الحَجِّ وَالعُمْرَةِ، فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ، وَالذَّهَبِ، وَالفِضَّةِ، وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ المَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الجَنَّةُ"

"حج اور عمرہ کرتے رہو کیونکہ یہ دونوں تنگ دستی اور گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے سونے اور چاندی کے میل کو ختم اور صاف کر دیتی ہے حج مبرور کا اجر جنت ہی ہے۔"[26]

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا بیان ہے کہ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم جہاد کرنا افضل عمل سمجھتی ہیں تو کیا ہم جہاد کے لیے نہ نکلیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لَكِنَّ أَفْضَلَ الْجِهَادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ "

"تمھارے(عورتوں کے) لیے سب سے افضل جہاد حج مبرور ہے۔[27]

واضح رہے"حج مبرور" سے مراد ایسا حج ہے جس میں کسی گناہ کے عمل کی آمیز ش نہ ہو ۔کتاب وسنت کے احکام کے مطابق ہو۔ نیز حج مبرورکو"حج مقبول " بھی کہا گیا ہے۔

جب کسی کا حج کے لیے جانے کا پختہ عزم وارادہ بن جائے تو وہ اولاًتمام معاصی سے توبہ کرے اور اگر بندوں کے حقوق غصب کیے ہیں تو انھیں معذرت کے ساتھ واپس لوٹائے لوگوں کی امانتیں اور عاریتاً لی ہوئی اشیاء اور لیے ہوئے قرضے ادا کرے کسی پر ظلم و زیادتی کی ہوتو اس سے معافی مانگے کوئی وصیت کرنی ہو تو تحریری وصیت کر دے۔جن حقوق کو ادا نہیں کر سکا ان کی ادائیگی کے لیے کسی کو اپنا نائب مقرر کردے اپنے اہل و عیال اور جن کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے واپس آنے تک کے جملہ اخراجات کا بندوبست کر کے بے فکر کرے۔ پوری کوشش کرے کہ یہ خرچ حلال کی کمائی سے ہو اور سفر کے لیے زادراہ لے جو اسے کافی ہوتاکہ کسی کے آگے دست سوال نہ بڑھائے زادراہ حلال اور پاک ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبـٰتِ ما كَسَبتُم ...﴿٢٦٧﴾... سورةالبقرة

"اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو۔"[28]

سفر میں کوئی ایسا شریک سفر تلاش کرے جو نیک ہو سفر اور مناسک حج کی ادائیگی میں معاون ہو اور راہنما ہو۔کہیں بھول چوک ہو جائے تو اصلاح کردے۔

نیت کا درست اور صحیح ہونا ضروری ہے ایک مسلمان حج کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا حصول سمجھے وہ نرمی اور حسن اخلاق کو اپنا ئے ۔جھگڑا کرنے لوگوں کو راستوں میں تنگ کرنے سے اجتناب کرے اپنی زبان کو گالی غیبت اور تمام ان امور سے محفوظ رکھے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاں ناپسندیدہ ہیں۔

مواقیت حج کا بیان

"مواقیت"میقات کی جمع ہے میقات کا لغوی معنی"حد"ہے جب کہ شریعت کی اصطلاح میں"عبادت کی جگہ یا اس کا وقت"ہے مواقیت حج کی دو قسمیں ہیں۔(1)زمانیہ یعنی جن کا تعلق زمانے اور وقت سے ہے اور(2)مکانیہ یعنی جن کا تعلق مکان   اور جگہ سے ہے۔

مواقیت زمانیہ کا ذکر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں موجود ہے:

﴿الحَجُّ أَشهُرٌ مَعلومـٰتٌ فَمَن فَرَضَ فيهِنَّ الحَجَّ فَلا رَفَثَ وَلا فُسوقَ وَلا جِدالَ فِى الحَجِّ... ﴿١٩٧﴾... سورة البقرة

"حج کے مہینے معلوم و مقرر ہیں چنانچہ جو شخص ان میں حج لازم کر لے تو وہ شہوانی باتوں گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑا کرنے سے بچتا رہے۔"[29]

اور حج کے مہینے یہ ہیں:" شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے ابتدائی دس ایام جو شخص ان مہینوں میں حج کے لیے حرام باندھ لے تو اسے ان تمام برے اور مذموم اقوال وافعال سے بچنا چاہیے جو حج و عمرہ میں خلل اور خرابی پیدا کرتے ہیں علاوہ ازیں اسے نیکی و خیر کے امور میں مشغول رہنا چاہیے اور تقوے کا التزام کرنا چاہیے۔

مواقیت مکانیہ یعنی وہ مقامات جنھیں حج اور عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ جانے والا شخص احرام کے بغیر عبور نہیں کر سکتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان مقامات کی نشاندہی خود فرمائی ہے چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت ہے:

"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما :  أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم وَقَّتَ لأَهْلِ الْمَدِينَةِ : ذَا الْحُلَيْفَةِ . وَلأَهْلِ الشَّامِ: الْجُحْفَةَ . وَلأَهْلِ نَجْدٍ : قَرْنَ الْمَنَازِلِ . وَلأَهْلِ الْيَمَنِ : يَلَمْلَمَ . هُنَّ لَهُنّ وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِهِنَّ , مِمَّنْ أَرَادَ الْحَجَّ أَوْ الْعُمْرَةَ . وَمَنْ كَانَ دُونَ ذَلِكَ : فَمِنْ حَيْثُ أَنْشَأَ , حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ مِنْ مَكَّةَ"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اہل شام کے لیے جحفہ اہل نجد کے لیے قرن المنازل اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر کیا جو لوگ ان علاوقوں میں سے کسی علاقے کا باشندہ نہ ہو تو وہ ان مواقیت میں سے جس میقات کے پاس سے گزرے وہاں سے احرام کی نیت کرے۔ اور جو شخص ان مواقیت کے اندر رہتا ہو تو وہ جہاں سے چلے وہاں ہی سے احرام باندھ لے حتی کہ اہل مکہ مکے سے احرام باندھیں۔"[30] 

سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے:

"وَمَهَلُّ أَهْلِ الْعِرَاقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ"

"اہل عراق کی میقات ذات عرق ہے۔"[31]

ان مواقیت کی تعیین میں حکمت یہ ہے کہ بیت اللہ عظمت و شان والا مقام ہے تو مکرمہ ایک قلعے کا درجہ رکھتا ہے جبکہ حرم کو"ممنوعہ علاقہ"قراردیا ۔ اور حرام(مکہ ) سے مراد وہ مواقیت ہیں جن کو حج یا عمرہ کرنے والے کے لیے بیت اللہ کی تعظیم کی کی خاطر حالت احرام کے بغیر عبور کرنا جائز نہیں۔

مواقیت میں سے سب سے دور میقات ذوالحلیفہ مدینے کا میقات ہے اس کے اور مکے کے درمیان دس دن پید (420کلو میٹر تقریباً)کی مسافت ہے۔

اہل شام اور مصر اور تمام مغرب سے آنے والوں کا میقات جحفہ (رابع شہر کے قریب) ہے۔ اس کے اورمکے کے درمیان تین مراحل یعنی تین دن کا پیدل سفر ہے۔

اہل یمن کا میقات یلملم ہے جسے آج کل السعدیہ کہتے ہیں اس کا اور یکے درمیان فاصلہ دو مرحلے ہے۔ اہل نجد کا میقات قرن المنازل مکے سے دو مرحلے پر ہے جسے آج کل السیل کہتے ہیں۔

اہل عراق اور تمام مشرق سے آنے والوں کے لیے"ذات عرق" میقات ہے جو کہ مکے سے دومرحلے پر واقع ہے۔

یہ مذکورہ مواقیت ان حضرات کے لیے ہیں جو ہاں رہتے ہیں یا ان مواقیت کے قریب رہتے ہیں اور جوان کے علاوہ لوگ ہیں وہ جب ان مواقیت میں سے کسی میقات کے پاس سے گزریں تو وہاں سے احرام باندھیں بشرطیکہ وہ حج یا عمرے کا ارادہ رکھتے ہوں۔

جو شخص میقات کے اندر رہتا ہے تو وہ حج اور عمرے کے لیے احرام کی نیت اپنی رہائش گاہ سے کرے اور اہل مکہ میں سے جو حج کرنا چاہے تو وہ مکہ مکرمہ ہی سے احرام باندھ نیت کرے۔اسے حج کے احرام کے لیے قریب ترین حِل پر جانے کی ضرورت نہیں البتہ عمرے کے احرام کے لیے کسی قریب ترین حِل پر جائے۔[32] 

اگر کسی شخص کا ان مواقیت میں سے کسی میقات پر گزرنہ ہو تو جب اسے علم ہو کہ وہ کسی قریب ترین میقات کے برابر پہنچ چکا ہے تو وہاں سے احرام کی نیت کرے۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہا کرتے تھے:" بس یہی دیکھ لو کہ تم اپنے قریب ترین میقات کے برابر آچکے ہو تو احرام کی نیت کر لو۔"[33]

حج اور عمرے کے لیے ہوائی جہاز پر جانے والے مسافر کو چاہیے کہ سوار ہونے سے پہلے نہا دھو کر احرام کےکپڑے پہن لے جب وہ میقات کے برابر آئے تو احرام کی نیت کرے اور جہاز ہی میں تلبیہ کہنا شروع کردے۔ بعض حجا ج کرام ہوائی جہاز سے اتر کر جدہ یا بحرہ کے مقام پر احرام باندھتے ہیں حالانکہ اس قدر تاخیر کرنا ان کے لیے قطعاً جائز نہیں کیونکہ جدہ بحرہ نہ کوئی میقات ہیں اور نہ احرام کا مقام وہاں احرام باندھنا صرف ان کے لیے جائز ہے جو وہاں کے رہنے والے ہیں یا جو وہاں سے حج یا عمرہ کی نیت کر کے چلتے ہیں اور جو ان کے علاوہ ہیں اگر ان میں سے کسی نے جدہ سے احرام باندھا تو اس نے واجب کو ترک کیا (جو کہ میقات سے احرام باندھنا تھا) لہٰذا اس پر فدیہ لازم ہے۔ اس غلطی کا ارتکاب بہت سے لوگ کرتے ہیں اس لیے ہم نے اس پر تنبیہ کرنا ضروری سمجھا ۔

بعض لوگ احرام کے لیے غسل ضروری سمجھتے ہیں پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم جہاز میں غسل وغیرہ نہیں کر سکتے لہٰذا جب جدہ ائر پورٹ پر اتریں گے تو غسل کر کے احرام باندھ لیں گے ان حضرات کو علم ہونا چاہیے کہ احرام کا مطلب"نیت کے ساتھ مناسک حج میں داخل ہونا اور احرام کے ممنوعات سے حتی الامکان بچنا ہے۔" باقی رہا غسل اور خوشبو کا استعمال تو یہ اعمال سنت کا درجہ رکھتے ہیں نیز یہ کام جہاز میں سوار ہونے سے پہلے آسانی سے ہو سکتے ہیں بلکہ ان کے بغیر بھی احرام کی نیت کر لی جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔ ایسا شخص میقات کے برابر ہونے پر یا اس سے تھوڑی دیر پہلے احرام کی نیت کرے اور اپنی سیٹ پر بیٹھا تلبیہ کہتا رہے۔ واضح رہے کہ میقات کا علم جہاز کے عملے سے پوچھ کر ہو سکتا ہے یا وہ اندازہ اور کوشش کر کے معلوم کر لے اگر اس نے ایسا کیاتو اس نے حسب طاقت واجب ادا کر دیا اگر اس نے اس کے بارے میں سستی اور لاپروائی کی تو وہ خطا کا مرتکب ہو گا اور بغیر عذر کے واجب کا تارک ہو گا جس سے اس کے حج اور عمرے میں نقص واقع ہو گا۔

جس شخص نے احرام کے بغیر ہی میقات کو عبور کر لیا تو وہ واپس لوٹے اور میقات پر آکر احرام باندھے کیونکہ یہ ایسا واجب ہے جس کا تدارک ممکن ہے لہٰذا اس کا ترک جائز نہیں۔ اگر وہ واپس نہ لوٹا اور جدہ وغیرہ ہی سے احرام باندھ لیا تو اس پر ایک سالم بکری اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ بطور فدیہ ہے جسے وہ خود نہ کھائے بلکہ حرم کے مساکین میں تقسیم کر دے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ دینی امور کو اہمیت دے کہ ہر عبادت کو مسنون طریقے سے ادا کرے انھی میں سے حج عمرے کا احرام ہے مقررہ میقات پر احرام کی نیت کرے اور احرام باندھے بغیر احرام کے میقات عبور نہ کرے۔


[1]۔آل عمران 3۔97۔

[2]۔الحج 22۔27۔

[3](ضعیف) جامع الترمذی الحج باب ماجاء من التغلیظ فی ترک الحج حدیث 821۔

[4]۔صحیح البخاری الایمان باب دعاؤ کم ایمانکم حدیث 8۔وصحیح مسلم الایمان باب بیان ارکان الاسلام ودعائمہ حدیث 16۔

[5]۔صحیح مسلم الایمان باب السوال عن ارکان الاسلام حدیث 12۔وسنن النسائی الصیام باب وجوب الصیام حدیث 2093۔

[6]۔الحج 22۔28۔29۔

[7]۔سنن ابن ماجہ المناسک باب الحج جہاد النساء حدیث 2901 ومسند احمد 6/75۔165۔وفی صحیح البخاری معناہ الحج باب فضل الحج المبرور حدیث 1520۔

[8]۔(ضعیف) سنن ابی داؤد المناسک باب فی الرمل حدیث 1888۔وجامع الترمذی الحج باب ماجاء کیف ترمی الجمار؟حدیث:902۔

[9]۔سنن ابی داؤد المناسک باب الرجل یحج عن غیرہ حدیث 1810۔وجامع الترمذی الحج باب منہ ماجاء فی الحج عن المیت حدیث 930ومسند احمد 4/12۔10۔

[10]۔سنن ابی داؤد المناسک باب فرض الحج حدیث: 1721ومسند احمد 1/291۔

[11]۔صحیح مسلم باب فرض الحج مرۃ فی العمر حدیث 1337۔

[12]۔صحیح مسلم باب فرض الحج مرۃ فی العمر حدیث 1337۔ومسند احمد 13/314۔واللفظ لہ۔

[13]۔صحیح مسلم الحج باب صحہ حج الصبی واجر من حج بہ حدیث1336۔

[14] ۔صحیح البخاری الحج باب وجوب الحج وفضلہ حدیث 1513وصحیح مسلم الحج باب الحج عن العاجز لزمانۃ وحرم ونحوھما اوللموت حدیث 1334۔

[15]سنن ابی داؤد المناسک باب الرجل یحج عن غیرہ حدیث 1811 والسنن الکبری للبیہقی 4/336۔

[16]۔صحیح البخاری جزاء الصید باب حج النساء حدیث 1862۔ومسند احمد 1/222۔346۔

[17]۔صحیح البخاری جزاء الصید باب حج النساء حدیث 1862۔

[18]۔صحیح البخاری الجہاد والسیر باب من اکتب فی حیش فخر جت امرتہ حاجۃ حدیث 3006۔وصحیح مسلم الحج باب سفر المراۃ مع محرم الی حج وغیرہ حدیث:1341واللفظ لہ۔

[19]صحیح مسلم الحج باب سفر المراۃ مع محرم الی حج وغیرہ حدیث:1339

[20]آل عمران3/97۔

[21] ۔شرح منتہی الارادات 3/428۔

[22] صحیح مسلم الحج باب سفر المراۃ مع محرم الی حج وغیرہ حدیث:1340

[23]۔صحیح البخاری جزاء الصید باب الحج والنذور عن المیت حدیث 1852۔

[24]۔مسند احمد 1/240۔345۔

[25]۔(ضعیف) سنن الدارقطنی 2/260حدیث2586۔

[26]۔جامع الترمذی الحج باب ماجاء فی ثواب الحج والعمرۃ حدیث 810۔

[27]۔صحیح البخاری الجہاد باب فضل الجہاد والمسیر حدیث 2787۔

[28]۔البقرۃ:2/287۔

[29]۔البقرۃ:2/197۔

[30]۔صحیح البخاری الحج باب مھل اھل مکہ للحج والعمرۃ حدیث1524۔و صحیح مسلم الحج باب مواقیت الحج حدیث :1181

[31]۔صحیح مسلم الحج باب مواقیت الحج حدیث :1183

[32]۔مطالعہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم مکے میں رہنے والے مسافر کے لیے ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو آپ نے حکم دیا تھا اور حدیث "أَهْلُ مَكَّةَ مِنْ مَكَّةَ" "اہل مکہ سے احرام باندھیں ۔"میں حج اور عمرہ دونوں کا حکم مقیم کو ہے وہ مستقل اقامت پذیر ہو یا مسافر ہو لیکن مدت سفر سے زیادہ دن ٹھہرنے کی وجہ سے مقیم ہو لہٰذا وہ حج اور عمرہ دونوں کا احرام اپنی رہائش گاہ سے باندھ سکتے ہیں چاہے وہ حرم کے اندر ہو۔(صارم)

[33]۔صحیح البخاری الحج باب ذات عرق لا ھل العراق حدیث1531۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

حج  کے مسائل:جلد 01: صفحہ 333

تبصرے