رمضان کے روزوں کی فرضیت اور وقت کا بیان
ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ فرائض میں سے ایک فریضہ ہے جو دین اسلام سے بدیہی اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔
رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بارے میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل کے علاوہ اجماع بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو (183) گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وه اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے وه اسی کے لئے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو (184) ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والاہے اور جس میں ہدایت کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزه رکھنا چاہئے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ کا اراده تمہارے ساتھ آسانی کا ہے، سختی کا نہیں، وه چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو "[1]
واضح رہے کہ آیت مذکورہ (كُتِبَ) کے معنی ہیں"فرض کیا گیا ۔"اور اللہ تعالیٰ کے فرمان(فَلْيَصُمْهُ)میں روزہ رکھنے کا حکم آیا ہے جو فرض ہونے پر دلالت کرتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں ماہ رمضان المبارک کا روزہ رکھنا بھی ذکر فرمایا ہے:[2]
الغرض رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت اور فضیلت میں بہت سی مشہور اور صحیح احادیث وارد ہیں علاوہ ازیں تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں اور ان کا منکر کافر ہے۔
روزے کی مشروعیت میں حکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے نفس انسانی کو ردی خیالات اور ذیل اخلاق سے پاک کیا جائے اور اس کا تزکیہ اور تطہیر ہو۔ یہ ایک ایسا مقصد ہے جس کے حصول سے انسانی بدن کے وہ رخنے تنگ ہو جاتے ہیں جن کے ذریعے سے شیطان انسان کے جسم میں سرایت کرتا ہے کیونکہ۔
"شیطان خون کی طرح انسان کے رگ وپے میں چلتا ہے۔"[3]
جب کوئی شخص خوب کھاپی لیتا ہے تو اس کا نفس خواہشات کی پیروی میں آگے بڑھنا چاہتا ہے جس سے انسان کی قوت ارادی کمزور پڑجاتی ہے عبادات میں رغبت کم ہو جاتی ہے جبکہ روزہ اس کے برعکس کیفیت پیدا کرتا ہے۔
روزہ دنیا کے حصول کی تمنا اور اس کی فاسد خواہشات کو کم کرتا ہے آخرت کی طرف رغبت پیدا کرتا ہےمساکین کے ساتھ ہمدردی اور ان کے دکھ درد کا احساس دلاتا ہے کیونکہ روزے دار روزے کی حالت میں بھوک اور پیاس کی تکالیف کا ذائقہ خود چکھتا ہے یاد رہے عربی زبان میں روزے کوصوم کہتے ہیں جس کے شرعی معنی میں "نیت کر کے کھانے پینے اور اجماع وغیرہ سے رکنا۔" نیز بے حیائی اور نافرمانی کی باتوں اور کاموں سے رکنا اس میں شامل ہے۔
روزے کا وقت صبح صادق کے طلوع ہونے سے شروع ہوتا ہے اور غروب آفتاب کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"اس لیے اب تم ان سے ہم بستری کر سکتے ہو اور اللہ نے تمھارے لیے جو لکھ رکھا ہے وہ تلاش کرو اور کھاؤ اور پیو حتی کہ تمھارے لیے صبح کی سفید دھاری کالی دھاری سے واضح (روشن) ہو جائے پھرتم روزے کو رات تک پورا کرو۔"[4]
جب ماہ رمضان کے شروع ہونے کا علم ہو جائے تو اس کے روزوں کی فرضیت شروع ہو جاتی ہے ماہ رمضان المبارک کے شروع ہونے کا علم تین طریقوں سے ہوتا ہے۔
رمضان المبارک کا چاند دیکھنے سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"چنانچہ جو شخص اس مہینے کو پائے تو وہ اس کا روزہ رکھے۔"[5]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"رمضان کا چاند دیکھ کر روزے رکھو۔"[6]
لہٰذا جس نے رمضان کا چاند دیکھ لیا اس پر روزہ رکھنا فرض ہے۔
چاند دیکھنے کی شہادت سے۔جب رمضان المبارک کے چاند دیکھنے کی شہادت یا خبر مل جائے تو ماہ رمضان کا آغاز سمجھے۔ اس کے لیے ایک ایسے شخص کی گواہی کافی ہے جو عاقل ،بالغ اور معتبر ہو۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے:
"لوگوں نے ماہ رمضان کا چاند دیکھنے کی کوشش کی چنانچہ مجھے نظر آگیا تو میں نے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ مجھے چاند نظر آگیا ہے تو آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔"[7]
ماہ شعبان کے تیس دن مکمل ہونے سے انتیس شعبان کا سورج غروب کے بعد مطلع صاف ہونے کے باوجود چاند نظر نہ آئے توتیس دن مکمل ہونے پر ماہ رمضان کا آغاز ہو جائے گا کیونکہ اسلامی مہینہ تیس دنوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے جب چاند دیکھو تب روزے رکھو اور چاند دیکھ کر روزے چھوڑدو۔اگر بادل وغیرہ ہوتو شعبان کے تیس دن پورے کر لو۔"[8]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔[9]
روزہ ہر اس شخص پر فرض ہے جو مسلمان ،عاقل بالغ ہواور اس کی طاقت رکھتا ہو۔ کافر شخص پر روزہ نہ فرض ہے اور نہ اس کی طرف سے درست ۔ اگر وہ دوران رمضان میں توبہ کر کے مسلمان ہو جائے تو باقی ایام کے روزے رکھے اور حالت کفر کے گزشتہ ایام کی قضا اس پرلازم نہیں۔
چھوٹے بچے پر روزہ فرض نہیں۔ اگر سمجھ دار چھوٹا بچہ روزہ رکھے گا تو اس کے حق میں وہ روزہ نفلی ہو گا۔
پاگل اور دیوانے شخص پر روزہ فرض نہیں ۔اگر وہ دایونگی کی حالت میں روزہ رکھے گا تو درست نہ ہو گا کیونکہ اس میں نیت شامل نہیں ہوئی جو ضروری تھی۔
عاجز مریض اور مسافر پر عجز و سفر کی حالت میں روزہ رکھنا فرض نہیں۔ جب مرض اور سفر کی حالت ختم ہو جائے تو دونوں شخص چھوٹ جانے والے رزوں کی قضا دیں گے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے۔"[10]
روزہ رکھنے کا حکم الٰہی مقیم مسافر تندرست مریض اور پاکیزہ حائضہ نفاس والی عورت بے ہوش شخص سب کو شامل ہے۔ ان سب پر فرض ہے کہ عذر ختم ہونے پر چھوٹ جانے والے روزے رکھیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا خطاب ان لوگوں کو بھی شامل ہے اور خطاب اسی لیے ہے تاکہ وہ اس کی فرضیت کا عقیدہ رکھیں اور اس کی قضا یا ادا کرنے کا عزم بالجزم رکھیں ۔بعض لوگوں کو اس ماہ رمضان میں روزوں کو ادا کرنے کا حکم ہے اور وہ ایسے لوگ ہیں جو تندرست اور مقیم ہیں۔اور بعض لوگوں کو قضا کا حکم ہے اور وہ حائضہ اور نفاس والی عورت یا وہ مریض شخص ہے جو روزے کو ادا کرنے پر قادر نہیں البتہ قضا پر قادر ہے بعض لوگوں کو ماہ رمضان میں روزہ رکھنے یا نہ رکھنے (دونوں کا اختیار ہے اور وہ مسافر شخص ہے یا ایسا مریض ہے جسے روزہ رکھنے میں مشقت تو ہے لیکن مرنے یا بیماری کے بڑھنے کا اسے ڈرنہیں۔
جس شخص نے کسی عذر کی بنا پرروزہ چھوڑ دیا پھر دن کے کسی حصے میں اس کا عذر جاتا رہا مثلاً:دن کے کسی حصے میں مسافر سفر سے واپس آگیا یا حائضہ یا نفاس والی عورت دن کے کسی حصے میں پاک ہو گئی کوئی کافر مسلمان ہو گیا مجنون کو افاقہ ہوا یا بچہ بالغ ہو گیا تو یہ تمام لوگ دن کے بقیہ حصے میں کھانے پینے سے رکے رہیں اور روزے کی قضا بھی دیں۔"[11]اسی طرح دن کے کسی حصے میں مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ آج تو رمضان المبارک کا پہلا روزہ ہے جو ہم نے (بوجہ مغالطہ ) نہیں رکھا تو یہ لوگ بقیہ دن کھانے پینے سے رکے رہیں اور اس دن کی قضا ماہ رمضان المبارک کے بعد دیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لئے حلال کیا گیا، وه تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو، تمہاری پوشیده خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے، اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرمالیا، اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاه دھاگے سے ظاہر ہوجائے۔ پھر رات تک روزے کو پورا کرو اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں، تم ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وه بچیں" [12]
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک رخصت دی ہے یعنی اس میں ابتدائے اسلام کا وہ ایک مشکل حکم ختم کر دیا گیا جس کی بنا پر روزہ افطار کر لینے کے بعد عشاء کی نماز یا اس سے پہلے سونے تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت تھی۔ سونے کے بعد یا عشاء کی نماز ادا کر لینے کے بعد ان میں سے کوئی کام نہیں کیا جا سکتاتھا۔ ظاہر بات ہے یہ پابندی سخت تھی اور اس پر عمل مشکل تھا لہٰذا مذکورہ بالا آیت نے یہ پابندی ختم کر دی تب لوگ بہت خوش ہوئے کہ ان کے رب نے انھیں رات کے ہر حصے میں طلوع فجر تک کھانے پینے اور جماع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔[13]
اس آیت کریمہ سے روزے کے ابتدائی اور آخری وقت کی حد بندی بھی واضح ہو گئی کہ روزے کا ابتدائی وقت صبح صادق کے طلوع ہونے سے ہے جبکہ آفتاب غروب ہونے پر اس کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔"[14]
علاوہ ازیں سحری کھانے کی ترغیب میں بہت سی روایات آئی ہیں اگرچہ پانی کا گھونٹ ہی کیوں نہ ہو نیز طلوع فجر کے قریب (تاخیر سے)سحری کھانا مستحب ہے۔
اگر کوئی شخص طلوع فجر سے پہلے بیدار ہوا ہو اور وہ جنبی ہو یا اس وقت حائضہ عورت حیض سے پاک ہوئی ہو تو وہ پہلے سحری کھائیں اور روزہ رکھیں اور پھر غسل کریں۔
بعض لوگ رات کااکثر حصہ جاگ کر گزارتے ہیں۔ پھر وہ طلوع فجر سے چند گھنٹے قبل سحری کھا کر سو جاتے ہیں۔یہ لوگ ایسا کر کے درج ذیل غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں:
1۔ یہ لوگ وقت سے پہلے روزہ رکھ لیتے ہیں۔
2۔ اکثر نماز فجر باجماعت ادا نہیں کرتے۔ اس طرح فرض نماز باجماعت چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں۔
3۔ کبھی یہ لوگ نماز فجر اس حد تک مؤخر کر دیتے ہیں کہ طلوع آفتاب کے بعد ادا کرتے ہیں جو گناہ اور جرم ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"چنانچہ ان نمازیوں کے لیے تباہی (اور ویل نامی جہنم کی جگہ)ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔"[15]
فرض روزے کی نیت رات کے وقت کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی نے رات کو روزہ رکھنے کی نیت کر لی لیکن وہ طلوع آفتاب کے بعد بیدار ہواتو وہ کھانے پینے سے رک جائے تو ان شاء اللہ اس کا روزہ درست ہو گا۔
جب مشاہدے یا غالب گمان(اذان وغیرہ سننے )سے سورج غروب ہونے کا یقین ہو جائے تو روزہ کھولنے میں جلدی کرنا مستحب ہے۔ سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تک لوگ روزہ جلدی افطار کرتے رہیں گے تب تک وہ خیر و بھلائی کے ساتھ رہیں گے۔"[16]
نیز فرمایا:
"اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے محبوب ترین بندے وہ ہیں جو روزہ جلدی افطار کرتے ہیں۔"[17]
مسنون یہ ہے کہ تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کیا جائے۔ اگر وہ میسر نہ ہوں تو خشک کھجوریں ہو جائیں ورنہ پانی پر اکتفا کیا جائے ۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز(مغرب)ادا کرنے سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے۔ اگر وہ نہ ہوتیں تو خشک کھجوریں کھالیتے تھے وگرنہ پانی کے چند گھونٹوں پر اکتفا کر لیتے تھے۔"[18]
اگر کھجوریں نہ ملیں اور پانی بھی نہ ہو تو کھانے پینے کی جو چیز ملے اس سے افطار کر لیں۔
یہاں ایک اہم بات کی طرف توجہ مبذول کروانا نہایت ضروری ہے اور وہ یہ کہ بعض لوگ افطاری کے لیے دسترخوان پر بیٹھ جاتے ہیں اور شام کا کھانا مکمل طور پر کھاکر اٹھتے ہیں پھر وہ نماز مغرب باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد میں نہیں جاتے۔ اس طرح یہ لوگ باجماعت نماز چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف اجر عظیم سے محروم ہوتے ہیں بلکہ خود کو سزا کے لائق بناتے ہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ روزہ افطار کریں اور ادائیگی نماز کے لیے مسجد کی طرف نکل جائیں اور نماز سے فارغ ہو کر کھانا کھائیں۔
روزہ افطار کرنے سے پہلے کوئی بھی پسندیدہ دعا کرنا مستحب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"افطاری کے وقت روزے دار کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔"[19]
علاوہ ازیں یہ مسنون دعا بھی پڑھے۔
"اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق کے ساتھ افطار کیا۔"[20]
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ افطار کر لیتے تو یہ کلمات کہتے:
"پیاس ختم ہو گئی آنتیں ترہو گئیں اور ان شاء اللہ ، اجر محفوظ ہو گیا۔"[21]
ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ روزہ رکھنے اور افطار کرنے کے مسائل سیکھے تاکہ وہ مسنون طریقے سے روزہ رکھ سکے اس کا روزہ درست ہو اور اللہ تعالیٰ کے ہاں عمل مقبول ہو۔ یہ چیز نہایت اہم کاموں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"یقیناً تمھارے لیے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )میں نمونہ (موجود) ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ کو یاد کرتا ہے۔"[22]
[1]البقرۃ:2/183۔185۔
[2]۔صحیح البخاری الایمان باب دعاؤ کم ایمانکم حدیث 8 وصحیح مسلم الایمان باب ارکان الاسلام ودعائمہ العظام حدیث :16۔
[3]صحیح البخاری الاعتکاف باب ھل یدر المعتکف عن نفسہ ؟ حدیث 2039۔
[4]۔البقرۃ:2/187۔
[5]۔البقرۃ:2/185۔
[6]۔صحیح البخاری الصوم باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم (اذا رایتم الحلال فصو مواواذارایتموہ فانظرو) حدیث 1909
[7]۔سنن ابی داؤد الصیام باب فی شہادۃ الواحد علی رویہ حلال رمضان حدیث2342۔
[8]۔صحیح مسلم الصیام باب وجوب صوم رمضان لرویہ الحلال حدیث1080۔
[9]۔صحیح مسلم الصیام باب وجوب صوم رمضان لرویہ الحلال حدیث1081۔
[10]۔البقرۃ:2/184۔
[11]۔مؤلف رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ جن پر ابتدائے دن میں روزہ فرض نہیں ہوا ان پر دن کے آخری حصے میں امساک ضروری قراردینا کیسے درست ہے جبکہ وہ قضا بھی ادا کریں گے(تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: المحلی لا بن جزم 6/241)
[12]۔البقرۃ:2/187۔
[13]۔تفسیر ابن کثیر البقرۃ: 2/187۔
[14]۔صحیح البخاری الصوم باب برکۃ السجود من غیر ایجاب حدیث1923۔
[15]۔الماعون 107۔4۔5
[16]۔صحیح البخاری الصوم باب تعجیل الفطار حدیث1957۔
[17]۔(ضعیف) جامع الترمذی تعجیل الافطار حدیث 700۔
[18]سنن ابی داؤد الصیام باب مایفطر علیہ حدیث 2356وجامع الترمذی الصوم باب ماجاء ما یستحب علیہ الافطار حدیث 696ومسند احمد:3/164۔
[19]۔(ضعیف) سنن ابن ماجہ الصیام باب فی الصائم لا ترد دعوتہ حدیث:1753وارواء الغلیل 4/41۔ حدیث 921۔
[20]۔(ضعیف) سنن ابن ماجہ الصیام باب القول عند الافطار حدیث2358۔
[21]۔(ضعیف) سنن ابن ماجہ الصیام باب القول عند الافطار حدیث2357 ۔
[22]۔الاحزاب:33۔21۔