صدقۂ فطرکا بیان
صدقہء فطر (فطرانہ) کاتعلق ماہ رمضان المبارک سے ہے ۔اسے صدقہء فطر اس لیے کہاجاتا ہے کہ اسے روزوں کے مکمل ہونے پر دیاجاتا ہے۔
صدقہ فطر کی فرضیت کی دلیل کتاب وسنت اور اجماع ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"بے شک فلاح پاگیا جوپاک ہوا۔"[1]
بعض سلف صالحین کاکہناہے یہاں(تَزَكَّىٰ) سے مراد صدقہ فطر کاادا کرنا ہے۔علاوہ ازیں آیت(وَآتُوا الزَّكَاةَ) کے حکم عام میں صدقۃ الفطر بھی شامل ہے۔
حدیث نبوی ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور کا یاایک صاع جو(وغیرہ) کا صدقہء فطر کے طور پر مسلمان غلام،آزاد،مرد،عورت ،بچے اور بالغ پر فرض قراردیا ہے۔"[2]
علماء نےاس پر اہل اسلام کااجماع نقل کیا ہے۔
(1)۔صدقہء فطر کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ بشری کمزوریوں کی وجہ سے روزے دار کے روزوں میں واقع ہونے والے گناہوں اور لغویات کے آثار ختم ہوجاتے ہیں اور روزے دارپاک صاف ہوجاتا ہے،نیز مساکین کے کھانے کا بندوبست ہوجاتا ہے اور روزوں کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا ہوجاتاہے۔
(2)۔صدقہ ء فطر کی مشروعیت میں یہ حکمت ہے کہ بشری کمزوریوں کی وجہ سے روزے دار کے روزوں میں واقع ہونے والے گناہوں اور لغویات کے آثار ختم ہوجاتے ہیں اور روزے دار پاک صاف ہوجاتاہے،نیزمساکین کے کھانے کا بندوبست ہوجاتا ہے اور روزوں کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا ہوجاتا ہے۔
(3)۔صدقہ فطر ہر مسلمان مرد،عورت،بچے،بالغ،آزاد اورغلام پر فرض ہے جیسا کہ اوپرروایت میں بیان ہوچکا ہے۔
(4)۔صدقہ فطر کی مقدار ایک صاع نبوی ہے۔باقی رہی جنس تو وہ کوئی ایک دی جاسکتی ہے جو علاقے کے لوگوں میں بطورخوراک عام استعمال ہوتی ہو،مثلاً:گندم،جو،کھجور،منقیٰ،پنیر،چاول اور مکئی وغیرہ۔
(5)۔صدقہء فطر کا افضل وقت یکم شوال ،یعنی عید کی رات غروب آفتاب سے لے کر نماز عید کی ادائیگی سے پہلے تک ہے،البتہ عید سے ایک دوروز پہلے بھی دیا جاسکتا ہے۔صحیح بخاری میں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین فطرانہ عید سے ایک دو دن پہلے ادا کردیا کرتے تھے۔[3]گویا اس مسئلے پر ان کا یہ اجماع تھا۔
(6)۔صدقہ فطر کی ادائیگی نماز عید کی ادائیگی سے پہلے پہلے افضل ہے۔اگر کوئی شخص کسی وجہ سے نماز عید سے قبل ادانہ کرسکا تو عید کے بعد بطور قضا اداکردے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے:
"جس نے نماز عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کردیا تو وہ مقبول صدقہ ہوگا اور جس نے نماز کے بعد اداکیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔"[4]
ایسا شخص مقرروقت میں تاخیر کرنے کی وجہ سے ضرور گناہ گار ہوگا کیونکہ اس میں حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہوئی ہے۔
(7)۔ایک مسلمان اپنی طرف سے اورجن کے نان ونفقے کاوہ ذمہ دار ہے مثلاً:بیویاں ،اولاد اوراقارب سب کی طرف سے صدقہء فطر اداکرے کیونکہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر(فطرانہ) ہرچھوٹے،بڑےاور مردوعورت،جن کے تم نان ونفقے کے ذمہ دار ہو،پرفرض کیا ہے۔"[5]
(8)۔حمل میں جو بچہ ہے اس کا صدقہ فطر ادا کرنا مستحب ہے۔سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہی عمل تھا۔
(9)۔اگر کسی نے کسی دوسرے شخص کی طرف سے صدقہ فطراداکرنے کی ذمہ داری اٹھالی لیکن اس دوسرے شخص نے ذمے دار کی بات اجازت کے بغیر اپنا صدقہ فطر خود ہی ادا کردیا تو وہ کافی ہوگا کیونکہ اصل میں ادا کرنے والے پرفرض تھانہ کہ ذمے دار پر۔اگر کسی شخص نے ایسے شخص کی طرف سے صدقہ فطر ادا کیا جس کانفقہ اس کے ذمے نہ تھا تو یہ جائز ہے بشرط یہ کہ اس کی اجازت ہو،اگر اس کی اجازت کےبغیر ادا کیاگیا تو وہ ادا نہیں ہوگا۔
(10)۔ہم چاہتے ہیں کہ یہاں ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا وہ کلام نقل کریں جو انھوں نے صدقہ فطر کی اجناس سے متعلق کیا ہے،چنانچہ موصوف فرماتے ہیں:"حدیث میں پانچ اجناس ،یعنی گندم،جو،کھجور،منقیٰ،اورپنیر کاذکر ہے۔یہ اجناس اہل مدینہ کی عموماً خوراک تھی۔اگر کسی علاقے کی خوراک ان اجناس کے علاوہ ہے تو وہ وہی اشیاء ایک صاع کی مقدار صدقہ فطر ادا کریں گے،مثلاً:دودھ گوشت یامچھلی وغیرہ۔یہ جمہور علماء کا قول ہے جو درست ہے کیونکہ صدقہ فطر کا مقصد عید کے روزمساکین اشیاء کی ادائیگی ہی سے کماحقہ حاصل ہوسکتاہے۔بنا بریں صدقہ فطرمیں آٹادینا بھی درست ہے اگرچہ اس بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں۔پکی ہوئی روٹی یاتیار کھانا دینے میں اگرچہ مساکین کے لیے زیادہ فائدہ ہے اور اس میں ان کے لیے محنت ومشقت بھی ختم ہوجاتی ہے لیکن غلہ اور اناج بہتر ہے کیونکہ وہ ذخیرہ بھی ہوسکتا ہے۔"[6]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اگرچہ حدیث شریف میں مقرر(پانچ) اجناس کا بیان ہے لیکن مناسب یہ ہے کہ صدقہ فطر میں وہ جنس ادا کی جائے جو اس علاقے کے لوگوں کی عام خوراک ہو،مثلاً:چاول وغیرہ۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ایک قول یہی ہے بلکہ یہ اکثر علماء کا قول ہے جو صحیح ہے کیونکہ صدقات کے وجوب کااصل مقصد فقراء مساکین کی ہمدردی ہے۔"[7]
(11)۔صدقہ فطر میں غلہ اور اجناس کے بدل میں اس کی نقد قیمت(روپے) دینا خلاف سنت ہے،لہذا کافی نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ایسا منقول نہیں کہ وہ صدقہ فطر میں اجناس کی قیمت دیتے ہوں،چنانچہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"صدقہ فطر میں نقد قیمت نہ دی جائے۔کسی نے کہا:کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نقد قیمت دینے لینے کے قائل تھے۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے:یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو چھوڑ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں نے یوں کہا؟حالانکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (گندم،جو۔۔۔کاایک صاع صدقہ فطر) فرض قراردیاہے۔"[8]
(12)۔صدقہ فطر مقررہ وقت میں مستحقین کے پاس خود یا کسی بااعتماد نائب کے ذریعے سے پہنچا دینا چاہیے۔اگرکسی خاص مسکین کوصدقہ فطر دینے کے لیے جا نہ سکایا اسے اس تک پہنچانے والاکوئی شخص بھی نہ ملاتو وہ کسی اور مسکین یا فقیر کو دے دے۔
بعض لوگ اس موقع پر ایک غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں ،وہ اس طرح کہ صدقہ فطر ایسے شخص کے سپردکر دیتے ہیں جو مستحق شخص کی طرف سے نائب وذمہ دار نہیں ہوتا۔صدقہ فطر ایسے شخص کے حوالے کرنا درست نہیں ،چنانچہ اس مسئلے پر توجہ دلانا نہایت ضروری ہے۔
احکام زکاۃ میں سے سب سے اہم حکم زکاۃ کے مصارف شرعیہ کو جانناہے تاکہ زکاۃ اپنے موقع ومحل یامستحق شخص تک پہنچ جائے اور ادا کرنے والااپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہوجائے۔
میرے مسلمان بھائی! جب مال میں زکاۃ واجب ہوجائے تو اس کی ادائیگی وجوب کے ساتھ ہی بلاتاخیر کردینی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کے فرمان:"وَآتُوا الزَّكَاةَ"میں" وَآتُوا"امر کا صیغہ ہے۔جوفوراً ادائیگی کامتقاضی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
"جب زکاۃ مال کے ساتھ مل جاتی ہے(اسے نکال کر ادا نہیں کیا جاتا) تو وہ سارے مال کوتباہ کردیتی ہے۔"[9]
اس روایت کی روشنی میں مال کی تباہی سے بچنے کے لیے زکاۃ جلد از جلد الگ کرکے ادا کردینی چاہیے۔علاوہ ازیں مساکین وفقراء کی ضروریات اس امر کی متقاضی ہیں کہ مالِ زکاۃ مستحقین تک فوراً پہنچادیا جائے۔تاخیر میں ان کا نقصان ہے ،نیز ممکن ہے کہ زکاۃ فرض ہونے کے بعد اس کی ادائیگی میں سستی کرنے والا کسی رکاوٹ یا موت کاشکار ہوجائے اور فرض قرض بن جائے۔مال ِزکاۃ کی جلد ادائیگی زکاۃ ادا کرنے والے کے بخل سے پاک اور اس کے ذمے دار ہونے کی علامت ہے اور یہ چیز رب تعالیٰ کی رضاوخوشنودی کے حصول کا سبب ہے۔
بنا بریں جب زکاۃ فرض ہوجائے تو اسےفوراً نکال کرادا کردینا چاہیے،البتہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر تاخیر ہو سکتی ہے،مثلاً:زکاۃ ادا کرنے والے کا خیال ہو کہ چند دن کی تاخیر سے مال زکاۃ زیادہ ضرورت مند شخص تک پہنچ جائےگا یا اس وقت اس کے پاس مال موجود نہ ہو وغیرہ۔
(1)۔بچے اور مجنون کے مال میں زکاۃ واجب ہے کیونکہ دلائل میں عموم ہے ،استثنا کی کوئی دلیل نہیں۔ان کے مال کے سرپرست زکاۃ کی ادائیگی کے ذمے دار ہیں کیونکہ یہ حق بوجہ نیابت ان کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔
(2)۔زکاۃ نکالتے وقت نیت کرناضروری ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔"[10]اور ادائیگی زکاۃ ایک عمل ہے۔
(3)۔افضل اور بہتر یہ ہےکہ صاحب مال خودزکاۃ تقسیم کرے تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ زکاۃ مستحق لوگوں تک پہنچ گئی ہے،البتہ اس کے لیے وہ کسی بااعتماد شخص کو اپنا نمائندہ بھی بناسکتا ہے۔اگر مسلمانوں کاخلیفہ خودتقسیم کرنے کے لیے زکاۃ طلب کرے تو اسے یا اس کے نمائندے کے حوالے کردینی چاہیے۔
(2)۔زکاۃ کی ادائیگی کے وقت ادا کرنے والا اور وصول کرنے والا دونوں دعائیہ کلمات کہیں،مثلاً:زکاۃ دینے والا کہے:
"اے اللہ! اسے باعث غنیمت بنا،باعث نقصان نہ بنانا۔"[11]
اور زکاۃ وصول کرنے والا یوں کہے:
"جو تم نے دیا ہے اللہ تمھیں اس کا اجر دے اور جو تمہارے پاس ہے اس میں برکت کرے اور تمہارے لیے اسے ذریعہ پاکیزگی بنائے۔"[12]
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"(اے نبی!) ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے(تاکہ) اس کے ذریعے سے انھیں پاک کریں اور ان کا تذکیہ کریں اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"[13]
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کا بیان ہے کہ جب کوئی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال زکاۃ لے کرآئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے یوں دعا دیتے:"اے اللہ! ان پر رحمت فرما۔"[14]
(3)۔اگر کوئی شخص محتاج ہو اور زکاۃ لینا اس کا معمول ہوتو اسے زکاۃ دیتے وقت یہ کہنا ضروری نہیں کہ یہ مال زکاۃ ہے تاکہ اسے تکلیف نہ ہو،البتہ اگر کسی محتاج شخص کا زکاۃ وصول کرنا معمول نہیں تو اسے مالِ زکاۃ دیتے وقت آگاہ کردیا جائے۔
(4)۔بہتر صورت یہ ہے کہ زکاۃ دینے والا مال زکاۃ اپنے محلے یا شہر میں تقسیم کرے،البتہ کسی شرعی مصلحت اور ضرورت کے پیش نظر دوسرے شہر منتقل کرسکتا ہے،مثلاً:کسی کے محتاج رشتے دار دوسرے شہر میں رہتے ہوں یا اس کے اپنے شہر کے فقراء کی نسبت دوسرے زیادہ حاجت مند ہوں۔عہدنبوی میں مختلف اطراف سے مالِ زکاۃ مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستحق مہاجرین اور انصار میں تقسیم کردیتے تھے۔
(5)۔مسلمانوں کے امیر پر لازم ہے کہ مسلمانوں کے ظاہری مال،یعنی جانور،غلہ اور پھل وغیرہ کی زکاۃ کی وصولی کے لیے اپنے نمائندے روانہ کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
اس کا فائدہ یہ ہے کہ مالِ زکاۃ کی ادائیگی میں سست لوگ سستی نہ کریں گے اور اگر کوئی وجوب زکاۃ سے ناواقف ہوگا تو اسے مسائل کا علم ہوجائے گا۔علاوہ ازیں اس میں لوگوں کے لیے سہولت ہے اور فرض کی ادائیگی میں ان کے ساتھ تعاون بھی ہے۔
(6)۔ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ زکاۃ فرض ہوجانے کے بعد اس کی ادائیگی میں جلدی کرے اور اس میں بلاوجہ تاخیر نہ کرے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے،البتہ ایک سال کی پیشگی زکاۃ ادا کردینا جائزہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ن سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دوسال کی زکاۃ وصول کی تھی(اس میں ایک سال کی زکاۃ پیشگی تھی۔)[15]
جمہور علماء کے نزدیک پیشگی زکاۃ کی وصولی اس شرط پر ہے کہ جب وجوب کا سبب قائم ہوچکا ہو۔اس میں جانور،غلہ،سونا،چاندی اور سامان تجارت وغیرہ سب کی زکاۃ کا حکم یکساں ہے بشرط یہ کہ اسے نصاب زکاۃ اوراس کی ملکیت حاصل ہو۔پیشگی زکاۃ نہ لینا بہتر ہے تاکہ آدمی دائرہ اختلاف سے نکل جائے۔واللہ اعلم۔
قرآن مجید میں آٹھ مصارف زکاۃ بیان ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راه میں اور راہرو مسافروں کے لئے، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے"[16]
مال زکاۃ ادا کرنے کے یہی مذکورہ مقامات ہیں ان کے علاوہ بالاجماع کوئی اورمصرف نہیں ہے۔سیدنا زیاد بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے زکاۃ کے آٹھ مصارف خود ہی بیان کردیے ہیں اور اس بارے میں اپنے نبی یا کسی اور شخص کی مداخلت پسند نہیں فرمائی۔"[17]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سائل کو فرمایا:
"اگر تو(بھی) ان آٹھ مصارف میں سے ہے تو میں تجھے مال ِ زکاۃ دے دیتا ہوں۔"[18]
واضح رہے کہ اس فرمان کا موقع محل یہ ہے کہ جب بعض منافقین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقات وزکاۃ کی تقسیم کے بارے میں اعتراض کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"یہ تقسیم اللہ تعالیٰ نے خود فرمائی ہے اور اسی نے اس کا حکم اور فیصلہ صادر فرمایا ہے اور خود ہی اس کاذمہ لیاہے اور کسی دوسرے کو اس کی تقسیم کا اختیار نہیں دیا۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اگر آٹھ مصارف موجود ہوں تو زکاۃ ان میں تقسیم کی جائے۔اگر تمام مصارف موجود نہ ہوں تو جتنے موجود ہوں،ان میں تقسیم کردی جائے۔اگر کوئی بھی مصرف موجود نہ ہوتو جہاں موجود ہو وہاں پہنچادی جائے۔"[19]
نیز شیخ موصوف فرماتے ہیں:" مالِ زکاۃ اس شخص کو دیناچاہیے جو موحد اورنیک ہوتا کہ وہ اسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زکاۃ اسی لیے فرض کی ہے کہ ایسے ہی لوگوں کے ساتھ تعاون ہو،جو فقراء ومساکین وغیرہ نماز ادا نہیں کرتے انھیں تب تک زکاۃ نہ دی جائے جب تک وہ توبہ کرکے نماز کی ادائیگی کا التزام نہیں کرتے۔"
(1)۔اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ان آٹھ مصارف کے علاوہ کسی اور جگہ پر مال ِزکاۃ اور صدقات خرچ نہ کیا جائے،مثلاً: مساجد ومدارس کی تعمیر کےلیے کیونکہ آیت میں کلمہ انما حصر کافائدہ دیتا ہے،ان آٹھ کے لیے ثابت کرتا ہے اور ان کے سوا سے اس کی نفی کرتا ہے،لہذا مصارف یہ آٹھ ہیں،ان کے علاوہ اور نہیں۔ان مصارف کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم:ضرورت مند مسلمان۔
دوسری قسم :وہ لوگ مال دینا اسلام کی تقویت کاباعث ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راه میں اور راہرو مسافروں کے لئے، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے"[20]
اس آیت میں صرف آٹھ مصارف کا تذکرہ ہے جہاں مال زکاۃ خرچ ہونا چاہیے۔ان کے علاوہ کسی اور مصرف میں مال زکاۃ خرچ کرنا جائز نہیں۔اب ان مصارف کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
1۔فقراء:فقراء مساکین سے زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے فقراء کا ذکر کیا ہے اور اللہ تعالیٰ "الاهم فالاهم" سے ابتدا کرتا ہے،پھر درجہ بدرجہ دوسروں کا ذکر کیا ہے۔
فقراء وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی معیشت اور گزران کو قائم رکھنے کے لیے کچھ نہیں پاتے،اور ان میں کمانے کی ہمت وطاقت بھی نہیں ہوتی یا انھیں کچھ مال ملتا ہے تو وہ نہایت معمولی ہوتا ہے،لہذا ایسے لوگوں کو اس قدر زکاۃ دی جائے کہ ایک سال تک ان کی بنیادی ضروریات پوری ہوسکیں۔
2۔مساکین:مساکین ،فقراء سے بہتر حالت میں ہوتے ہیں۔مسکین وہ شخص ہے جسے مالی آمدن تو ہولیکن ا س سے اس کا گزارا بہت مشکل سے ہو۔ایسےشخص کو مال ِزکاۃ میں سے اس قدر دیاجائے کہ اس کی ایک سال کی ضروریات پوری ہوجائیں۔
3۔زکاۃ جمع کرنے والے:خلیفہ المسلمین کےحکم سے جو لوگ زکاۃ جمع کرتے ہیں،اس کی نگرانی کرتے ہیں اور مستحقین پر تقسیم کرنے کا بندوبست کرتے ہیں،اسی مالِ زکاۃ سے ان لوگوں کی اجرت اور معاوضہ دیا جائے۔اگر امیر بیت المال میں سے ان کی تنخواہ مقرر کردے تو مالِ زکاۃ میں سے مال وصول کرنا ان کے لیے جائز نہیں جیسا کہ آج کل ہورہا ہے کہ حکومت کی جانب سے تنخواہیں بھی مقرر ہیں اور اس کے علاوہ بھی زکاۃ کے مال میں سے کچھ مراعات حاصل کرلیتے ہیں،چنانچہ مال ِزکاۃ میں سے حصہ لینا ان پر حرام ہے کیونکہ انھیں اپنے کام کامعاوضہ دوسری طرف سے مل رہاہے۔
4۔تالیف قلوب:اس مصرف سے متعلق دو قسم کے لوگ ہیں:
1۔وہ کافرشخص جو اسلام کی طرف راغب ہو اور اس کے اسلام قبول کرنے کی امید وتوقع ہو۔ایسےشخص کو زکاۃ دے دی جائے تاکہ اسلام کی طرف اس کامیلان زیادہ ہوجائے یا وہ کافر جس کو مال دینے سے اس کے شر سے یا اس کی وجہ دے دوسروں کی شرارتوں اورفتنوں سے مسلمان محفوظ ہوتے ہوں۔
2۔کسی نو مسلم کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے اسے زکاۃ دینا درست ہے۔اسی طرح اگر اسے زکاۃ دینے سے اس جیسے دوسرے غیر مسلم کو اسلام کی رغبت پیدا ہونے کی امید ہوتو بھی اس نو مسلم کی زکاۃ دے دی جائے۔
اسی طرح جن اغراض ومقاصد میں اسلام اور اہل اسلام کو فائدہ ہووہ سب اس مصرف میں شامل اور داخل ہیں ۔واضح رہے اس مصرف میں صدقات وزکاۃ کامال تب صرف کیاجائے جب اس کی شدید ضرورت ہوورنہ اس سے صرف نظر کیا جائے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اورعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، نے تالیف قلوب کا مصرف ختم کردیا تھا کیونکہ اس وقت اس کی ضرورت نہ تھی۔
5۔غلام اورلونڈیاں آزاد کرنا:اس مصروف میں وہ لوگ شامل ہیں جو غلام مکاتب ہوں،یعنی جنھوں نے آزادی کے لیے اپنے مالکوں سے اپنی قیمت دینے کامعاہدہ کرلیا ہو لیکن ان کے پاس اس قیمت کی ادائیگی کے لیے تھوڑا مال ہو یا بالکل نہ ہو۔ ایسے شخص کو مال ِزکاۃ سے دیا جائے تاکہ وہ آزادی حاصل کرسکے۔
اسی طرح کوئی شخص مال زکاۃ میں سے کسی غلام کو اس کے مالک سے خرید کرآزاد کرسکتا ہے۔علاوہ ازیں کسی قیدی کے زمے کوئی فدیہ یادیت ہوتو وہ ادا کرکے اسے رہائی دلاسکتاہے۔یہ بھی گردن کو(قید سے) چھڑانا ہی ہے۔
6۔غارم:غارم سے مراد مقروض ہے ،اس کی دو قسمیں ہیں:
1۔غارم لغیرہ:اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے دیکھا کہ دو شخصوں یا دو قبیلوں یادو بستیوں کے درمیان خون یا مال کے معاملے میں شدید نزاع پیدا ہوچکا ہے جو آگے چل کر سخت عداوت ودشمنی بلکہ لڑائی کاسبب بن سکتاہے۔اس شخص نے فریقین میں فتنے کو مٹانے اورمصالحت پیدا کرنے کی خاطر مداخلت کی جو عظیم نیکی کا کام ہے،اس کام میں اس نے مال کی ادائیگی کی ذمے داری قبول کرلی۔ایسے شخص کی مال ِ زکاۃ سے مدد کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ وہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآہوسکے۔اس میں اس کی حوصلہ افزائی بھی ہے اور ایسے عظیم کام کرنے کی دوسروں کو ترغیب بھی ہے تاکہ فتنے اور فساد کاسدباب ہو۔شارع علیہ السلام نے تو ایسے شخص کے لیے ایسی عظیم غرض کی خاطر کسی سے سوال کرنے کی بھی اجازت دی ہے،چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا قبیصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ،جب اس نے اپنی اس طرح کی ذمہ داری میں مقروض ہونے کا ذکر کیا،کہا:
"آپ یہیں(مدینہ میں) قیام کریں،ہمارے پاس صدقہ وزکاۃ کامال آئے گا تو ہم آپ کو دلوادیں گے۔"[21]
2۔غارم لنفسہ:ایک شخص اپنے آپ کا فدیہ دے کر کفار کی ماتحتی سے نکلنا چاہے یا کسی شخص پر اس قدر قرضہ ہے جسے وہ ادا نہ کرسکتا ہو تو ایسے لوگوں کی زکاۃکے مال سے مدد کی جائے تاکہ وہ اپنی مشکل سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔
7۔فی سبیل اللہ:جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد وقتال میں مصروف ہیں اور ان کو بیت المال سے کوئی تنخواہ وغیرہ نہیں ملتی،ایسے لوگوں کی بھی مال ِزکاۃ سے مدد کی جائے۔واضح رہے قرآن مجید میں جہاں کلمہ "فی سبیل اللہ" مطلق طور پر استعمال ہوا ہےتو اس سے مراد جہاد وقتال ہی ہے،[22]چنانچہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"بے شک اللہ(تعالیٰ) ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ جہادکرتے ہیں۔"[23]
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور تم لڑو اللہ کی راہ میں۔"[24]
8۔مسافر:ایسا مسافر جس کامال وخرچ دوران سفرختم ہوجائے یا کسی وجہ سے ضائع یاگم ہوجائے۔یہ مسافر اس قدر مال ِ زکاۃ لے سکتاہے جس سے وہ اپنی منزل تک اور پھر واپس گھر تک پہنچ جائے۔مسافر کےحکم میں مہمان بھی داخل ہے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے ہے۔
اگر مسافر،مجاہد،مقروض یامکاتب نے اپنی ضروریات کی خاطر مال زکاۃ لیا لیکن ضرورت پوری ہوجانے کے بعد کچھ مال بچ گیا تو ان پر لازم ہے کہ اسے اپنے پاس نہ رکھیں کیونکہ انھوں نے جو کچھ لیاتھا،اس کے مطلقاً مالک نہیں ہوسکتے تھے،وہ تو کسی سبب کی وجہ سے بقدر ضرورت مال کےمالک ہوئے ،لہذا جب وہ سبب ختم ہوگیاتو استحقاق بھی نہ رہا۔
(2)۔مذکورہ آٹھ مال میں سے کسی ایک مصرف میں زکاۃ کاسارا مال دیاجاسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور اگر تم سے پوشیدہ مسکینوں کو دے دوتو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔"[25]
علاوہ ازیں سیدنا معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن روانہ کیا تو فرمایا:
"ان کے علم میں لاؤ کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مال دار لوگوں سے وصول کی جائے گی،اوران کے نادارلوگوں پر خرچ کی جائےگی۔"[26]
گزشتہ آیت وروایت میں صرف ایک صنف(فقراء) کا ذکر ہوا ہے۔اس بنا پر ایک صنف کو سارا مال زکاۃ دینا جائز ہے۔
(3)۔زکاۃ دینے والا اپنا سارا مال ِزکاۃ ایک شخص کو بھی دے سکتا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنوزریق کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنا مال زکاۃ سلمہ بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دیں۔[27]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا قبیصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کہا تھا:
"آپ یہیں(مدینہ میں) قیام کریں،ہمارے پاس صدقہ وزکاۃ کامال آئے گا تو ہم آپ کو دلوادیں گے۔"[28]
ان دونوں روایتوں سے واضح ہوا کہ مال ِزکاۃ آٹھ مصارف میں سے کسی ایک مصرف پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔
(4)۔محتاج اقرباء یعنی ان نادار رشتے داروں کو مال زکاۃ دینا مستحب ہے جن کے نان ونفقہ کی ذمہ داری مال ِ زکاۃ دینے والے پر نہ ہو۔اس میں زیادہ قریبی زیادہ حق رکھتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"تیرا رشتے دار کو صدقہ دینا،صدقہ ہے اور صلہ رحمی بھی ہے۔"[29]
(5)۔بنو ہاشم(یعنی آل عباس،آل علی،آل جعفر،آل عقیل،آل حارث اور آل ابولہب) کو صدقہ وزکاۃ دیناجائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
بے شک صدقہ(زکاۃ) آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز نہیں یہ لوگوں(کے مال) کا میل ہے۔"[30]
(1)۔کسی اسی محتاج عورت کو زکاۃ دینادرست نہیں جو مال دار خاوند کے نکاح میں ہو اور وہ اسے نان ونفقہ دیتاہو۔اسی طرح کسی ایسے فقیر کو بھی مال زکاۃ نہ دیا جائے جس کا قریبی سرپرست مال دار ہو اوروہ اس پر خرچ کرتا ہو۔یہ لوگ اخراجات میسر ہونے کیوجہ سے مال زکاۃ کے حقدار نہیں ہیں۔[31]
(2)۔اگر کسی شخص کے اعزہ اقارب کا نان ونفقہ اس کے ذمے ہوتو اسے ان کو مال زکاۃ دینا جائز نہیں ورنہ سمجھا جائے گا کہ یہ شخص اپنا اصل بچانا چاہتاہے جو اس کے لائق نہیں،البتہ اگر اس پر کسی کے اخراجات لازم نہیں بلکہ وہ ہمدردی کی وجہ سے ادا کررہاہے تو وہ اس مال ِ زکاۃ خرچ کرسکتا ہے۔صحیح بخاری میں ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان یتیم بھتیجوں کے بارے میں سوال کیا جو اس کے زیر پرورش ہیں کہ کیا انھیں زکاۃ کا مال دے دے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا"ہاں" یعنی دے دو۔[32]
(3)۔اپنے باپ،دادا یااپنی اولاد اور اولاد کی اولاد کو زکاۃ دینا جائز نہیں۔
(4)۔اپنی بیوی کو زکاۃ دیناجائز نہیں کیونکہ اس کا نان ونفقہ خاوند کے ذمے ہے۔اگر کوئی بیوی کو زکاۃ دے گا تو سمجھا جائےگا کہ وہ اپنا مال بچارہا ہے۔
(5)۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ زکاۃ دینے سے پہلے دیکھ لے کہ وہ شخص واقعی مستحق ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو شخص آئے انھوں نے مال ِ زکاۃ طلب کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے وجود پر نگاہ دوڑائی تو انھیں باہمت اور طاقتور محسوس کیاتوفرمایا:
"اگر تم چاہو تو میں تمھیں مال ِزکاۃ دے دیتا ہوں لیکن یادرکھو!مالدار اور کمانے والے طاقتورشخص کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔"[33]
کتاب وسنت میں مال کی فرض زکاۃ کے ساتھ نفلی صدقات کی ترغیب بھی ہے اور اس کے لیے کوئی وقت بھی مقرر نہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مجید کی متعدد آیات میں اس طرف توجہ دلائی ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اور مال سے محبت کے باجود اُسے رشتے داروں،یتیموں،مسکینوں،مسافروں ،سوال کرنے والوں اور گردنیں چھڑانے کےلیے خرچ کرے۔"[34]
اور فرمان الٰہی ہے:
"اور تم صدقہ کروتو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔"[35]
ایک اورمقام پرفرمایا:
"کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے،پھر اللہ اس کے لیے وہ مال بہت بڑھا چڑھا کرعطا فرمائے؟"[36]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
صدقہ رب تعالیٰ کے غضب کو ختم کردیتا ہے اور بُری موت سے بچاتا ہے۔"[37]
صحیح حدیث میں ہے:
"جس روز کوئی سایہ نہ ہوگا اللہ تعالیٰ سات(قسم کے) افراد کو اپنے عرش کا سایہ نصب کرے گا(ان میں سے ایک شخص وہ ہوگا) جس نے اس قدر چھپا کر صدقہ دیا کہ اسکے بائیں ہاتھ کو بھی علم نہ ہوا کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔"[38]
اس مضمون کی اور بھی بہت سی روایات ہیں۔
(1)۔سراً(چھپاکر) صدقہ دینا افضل ہے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"اور اگر تم اسے پوشیدہ پوشیدہ مسکینوں کو دے دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔"[39]
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صورت ریاکاری سے پاک ہے،البتہ اگر صدقے کے اظہار میں کوئی خاص مصلحت اور فائدہ ہو(مثلاً: کسی کا صدقہ دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اس کی اقتدا کریں گے) تو کوئی مضائقہ نہیں۔
(2)۔صدقہ دل کی خوشی سے اور رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر دینا چاہیے ،محتاج پراحسان جتلانا مقصد نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اے ایمان والو!اپنی خیرات کو احسان جتا کر اورایذا پہنچا کربرباد نہ کرو!جس طرح وہ شخص جواپنامال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے۔"[40]
(3)۔تندرستی اور صحت کی حالت میں صدقہ کرنا افضل ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا: کون سا صدقہ افضل ہے؟
تو آپ نے فرمایا:
"تو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تو تندرست اورضرورت مند ہوتنگ دستی کا خوف رکھتا ہواورغنا کا متمنی ہو۔"[41]
(4)۔حرمین شریفین(مکہ ومدینہ) میں صدقہ دیناافضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کاحکم ہے:
"پھر تم خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔"[42]
(5)۔ماہ رمضان المبارک میں بھی صدقہ کرنا افضل ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کابیان ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے۔اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے مہینے میں) اس وقت زیادہ سخاوت کرتے جب جبریل علیہ السلام ملاقات کے لیے آتے تھے۔جب جبریل علیہ السلام ملاقات کے لیے آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کی رفتار تیز ہوا سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔"[43]
(6)۔جب لوگوں کے اوقات مشکل ہوں تو اس وقت صدقہ کرنا سب سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
" یا بھوک والے دن کھانا کھلانا،کسی رشتہ دار یتیم کو،یا خاکسار مسکین کو۔"[44]
(7)۔دور والوں کی نسبت اقارب اور پڑوسیوں کو صدقہ دینا افضل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بہت سی آیات میں صدقات وخیرات میں اقرباء کا حق مقرر کیا ہے،چنانچہ ارشاد باری ہے:
"اوررشتے داروں کا حق ادا کرتے رہو"[45]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تیرا رشتے دار کو صدقہ دینا،صدقہ ہے اور صلہ رحمی بھی ہے۔"[46]
صحيح بخاری اورصحیح مسلم میں ہے:
"۔۔۔۔۔رشتے دار کو صدقہ دینے سے دوگنا اجر ہے ،قرابت کا اجر اور صدقے کا اجر۔"[47]
(8)۔مال میں زکاۃ کے علاوہ اور بھی حقوق ہیں،مثلاً:اقرباء سے ہمدردی ،بھائیوں کی صلہ رحمی کے لیے مال دینا،سائل کی مدد کرنا،کسی ضرورت مند کو اس کی مطلوبہ چیزعاریتاً دے دینا،کسی تنگ دست کوقرض کی وصولی میں مہلت دینا،کسی قرض خواہ کوقرض دینا۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"اور ان کے اموال میں سوالی اور محروم(نہ مانگنے والے) شخص کا حق(حصہ) ہوتا تھا۔"[48]
(9)۔کسی بھوکے کوکھاناکھلانا،مہمان کی مہمان نوازی کرنا،برہنہ شخص کو لباس دینا،پیاسے کو پلانا،یہ سارے کام واجب ہیں۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے کہ قیدیوں کا فدیہ دے کر انھیں چھڑانا بھی مسلمانوں پر واجب ہے اگرچہ اس کے لیے ان کا تمام مال خرچ ہوجائے۔
(9)۔اگر مال کے حصوں(یااس کی تقسیم) کے وقت وہاں فقراء ومساکین موجود ہوں تو ان پر بھی صدقہ کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اور اس میں جو(اللہ کا) حق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو۔"[49]
اورفرمايا:
"جب تقسیم کے وقت قرابت دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو تم اس میں سے تھوڑا بہت انہیں بھی دے دو اور ان سے نرمی سے بولو"[50]
میرے بھائی! یہ دین اسلام کے محاسن اور اس کی خوبیاں ہیں۔اسلام ،ہمدردی،رحمت،باہمی تعاون اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بھائی چارے کا نام ہے۔یہ کس قدر اچھادین ہے۔اسکے احکام کتنے ہی محکم اور اعلیٰ ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپن دین میں بصیرت دے اور احکام شریعت کی پیروی وتمسک کی توفیق دے،بے شک وہ سننے والااور قبول کرنے والا ہے۔
[1]۔الاعلیٰ 14/87۔
[2]۔صحیح البخاری صدقۃ الفطر باب فرض صدقۃ الفطر حدیث 1503 وصحیح مسلم الزکاۃ باب زکاۃ الفطر علی المسلمین من التمر والشعیر حدیث 984۔
[3]۔صحیح البخاری صدقۃ الفطر باب فرض صدقہ الفطر حدیث 1503 وصحیح مسلم الزکاۃ باب زکاۃ الفطر علی المسلمین من التمر والشعیر حدیث 984۔
[4]۔سنن ابن داود الزکاۃ باب زکاۃ الفطر حدیث 1609۔
[5]۔سنن الدارقطنی 2/140۔141۔حدیث 2058۔2059۔
[6]۔اعلام الموقعین 3/15۔
[7]۔مجموع الفتاویٰ 13/43۔بتصرف یسیر۔
[8]۔المغنی والشرح الکبیر 2/671۔یہ ایک موقف ہے جبکہ دوسرا موقف یہ بھی ہے کہ صدقۃ الفطر میں قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔(ع۔و)
[9]۔(ضعیف) المسند لامام الحمیدی 1:115 حدیث 237 وھدایۃ الرواۃ۔2/254 حدیث 1733۔
[10]۔صحیح البخاری بدء الوحی باب کیف کان بدءالوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،حدیث:1۔
[11]۔(موضوع) سنن ابن ماجہ الزکاۃ باب مایقال عند اخراج الزکاۃ؟حدیث 1797 وارواء الغلیل 3/343 حدیث 852۔
[12]۔الام للشافعی 2/316 وشرح النووی علی صحیح مسلم 17/259۔
[13]۔التوبہ 9/103۔
[14]۔صحیح البخاری المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ حدیث 4166 وصحیح مسلم الزکاۃ باب الدعاء لمن اتی بصدقۃ حدیث 1078۔
[15]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب قول اللہ تعالیٰ :"وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ"حدیث 1468 وصحیح مسلم الزکاۃ باب فی تقدیم الزکاۃ ومنعھا حدیث 983۔
[16]۔التوبۃ9/60۔
[17]۔سنن ابی داود الزکاۃ باب من یعطی من الصدقۃ وحد الغنی حدیث 1630۔
[18]۔سنن ابی داود الزکاۃ باب من یعطیٰ من الصدقۃ وحدالغنی حدیث 1630۔
[19]۔الفتاویٰ الکبریٰ لابن تیمیہ الاختیارات العلمیۃ 5/373۔
[20]۔التوبۃ9/60۔
[21]۔صحیح مسلم،الزکاۃ باب من تحل لہ المسالۃ حدیث 1044۔
[22]۔تفصیل کے لیے دیکھئے ابحاث ھیۃ کبار العلماء 1/61 ومسند احمد 3/56۔
[23]۔الصف 61/4۔
[24]۔البقرۃ:2/190۔
[25]۔البقرۃ 2/271۔
[26]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب وجوب الزکاۃ حدیث 1395 وصحیح مسلم الایمان باب الدعاء الی الشھادتین وشرائع الاسلام حدیث 19۔
[27]۔سنن ابی داود الطلاق باب فی الظھار حدیث 2213 ومسند احمد 4/37۔
[28]۔صحیح مسلم،الزکاۃ باب من تحل لہ المسالۃ حدیث 1044۔
[29]۔(ضعیف) جامع الترمذی الزکاۃ باب ماجاء فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ حدیث 658۔ومسنداحمد 4/214 واللفظ لہ۔
[30]۔صحیح مسلم الزکاۃ باب ترک استعمال آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی الصدقۃ حدیث 1072۔
[31]۔یہ مسئلہ بلادلیل ہے۔
[32]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب الزکاۃ علی الزوج والایتام فی الحجر حدیث 1466۔
[33]۔ سنن ابی داود الزکاۃ باب من یعطی من الصدقۃ وحد الغنی حدیث 1633 وسنن النسائی الزکاۃ باب مسالۃ القوی المکتسب حدیث 2599۔
[34]۔البقرۃ 2/177۔
[35]۔البقرہ 2/280۔
[36]۔البقرۃ 2/245۔
[37]۔(الضعیف) جامع الترمذی الزکاۃ باب ماجاء فی فضل الصدقۃ حدیث 664۔
[38]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب الصدقۃ بالیمین حدیث 1423 وصحیح مسلم الزکاۃ باب فضل اخفاء الصدقۃ حدیث 1031۔
[39]۔البقرہ 2/271۔
[40]۔البقرۃ 2/264۔
[41]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب فضل صدقۃ الشحیح الصحیح حدیث 1419۔وصحیح مسلم الزکاۃ باب بیان ان افضل الصدقۃ۔۔۔حدیث 1032۔
[42]۔الحج 22/28۔
[43]۔صحیح البخاری الصوم باب اجود ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یکون فی رمضان حدیث 1902۔
[44]۔البلد 90/14۔16۔
[45]۔بنی اسرائیل 17/26۔
[46]۔(ضعیف) جامع الترمذی الزکاۃ باب ماجاء فی الصدقۃ علی ذی القرابۃ حدیث 658۔ومسنداحمد 4/214 واللفظ لہ۔
[47]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب الزکاۃ علی الزوج والایتام فی الحجر حدیث 1466 ،وصحیح مسلم الزکاۃ باب فضل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین ۔۔۔حدیث 1000۔
[48]۔الذریت 51/19۔
[49]۔الانعام 7/141۔
[50]۔النساء:4/8۔