مرد کے لیے کس قدر سونا،چاندی استعمال کرنا جائز ہے؟
مرد کے لیے چاندی کی انگوٹھی کا استعمال جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور استعمال کی تھی۔[1]
(1)۔مرد کے لیے سونے کی انگوٹھی کا استعمال حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو سونے کا زیور استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے بلکہ نہایت سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے فرمایا:
"تم میں سے ایک شخص(سونا پہن کر) جہنم کی آگ کے انگارے کا قصد کرتا ہے،پھر اسے اپنے ہاتھ میں رکھتا(پہنتا) ہے۔"[2]
(2)۔کسی شدید ضرورت میں مرد کے لیے سونے کااستعمال مباح ہے،مثلاً:سونے کی ناک ،یادانتوں کے جوڑ کے لیے سونے کے تار کا استعمال درست ہے۔سیدنا عرفجہ بن اسعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جنگ کلاب کے روزناک کٹ گئی تو انھوں نے چاندی کی ناک بنوالی جوبعد میں بدبودار ہوگئی،تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سونے کی ناک بنوانے کی اجازت دی۔[3]
(1)۔عورتوں کے لیے رواج کے مطابق سونے چاندی کاپہننا مباح ہے کیونکہ شارع علیہ السلام نے ان کے لیے اسے مطلق طور پر جائز قراردیاہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میری اُمت کی عورتوں پر سونے چاندی کا استعمال حلال ہے جبکہ مردوں پر حرام ہے۔"[4]
(3)۔عورتوں کے سونے اور چاندی کے زیورات میں زکاۃ نہیں،بشرط یہ کہ انھیں استعمال کرنے،پہننے یا کسی کو عاریتاً دینے کے لیے بنوایاگیا ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
"زیور میں زکاۃ نہیں۔"[5]
اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے لیکن جمہور علماء کا عمل اس کا مؤید ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہی رائے ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"یہ پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا مذہب تھا،نیز یہ مال بڑھتا بھی نہیں بلکہ گھستا ہے۔یہ مال استعمال کے کپڑوں،خدمت کے غلاموں اور رہائشی گھروں کی طرح ہے۔"[6]
اگر زیورات بنوانے کی غرض انھیں کرایہ پر دینایاکسی ضرورت یااہم کام کو پورا کرنا یا انھیں کاروبار میں لانایا ذخیرہ کرنا اور سنبھال کررکھنا ہوتواس میں ذکاۃ واجب ہے کیونکہ سونے اور چاندی پر زکاۃ واجب تھی اور وجوب کا یہ حکم تب ساقط ہوگا جب زیور استعمال یاعاریتاً دینے کے لیے بنوایا گیا ہوکیونکہ جب یہ مقصد نہ رہا تو ادائیگی کے وجوب کااصل حکم باقی اور قائم رہا،بشرط یہ کہ وہ نصاب زکاۃ کی حد تک بنفسہ پہنچ جائے یا اسے دوسرے مال میں شامل کرکے نصاب زکاۃ تک پہنچ جائے۔اوراگر وہ زیورات نصاب زکاۃ کی مقدار تک بنفسہ یا دوسرے مال سے ملاکر نہ پہنچ جائیں تو اس میں زکاۃ بھی نہیں،وہاں!اگر وہ سونا تجارت کے لیے ہوتو اس کی قیمت میں زکاۃ ہے۔
درودیوار یا چھت پر سونے چاندی کی ملمع سازی یا کاروغیرہ کی کسی چیز پر یا اس کی چابیوں پر سونے چاندی کا ملمع کروانا ایک مسلمان شخص پر حرام ہے،اسی طرح سونے چاندی کا قلم یادوات بنوانا یا اس پر پالش کروانا بھی حرام ہے کیونکہ یہ فضول خرچی اور تکبر میں شامل ہے۔سونے یاچاندی کے برتن بنوانا یا ان پر پالش چڑھانا بھی حرام ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"جوشخص سونے چاندی کے برتنوں میں پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ ڈالتاہے۔"[7]
گزشتہ روایت میں مردوں کے لیے سونے کے استعمال کی حرمت اور وعید واضح ہے لیکن اس کے باوجود مقام افسوس ہے کہ آپ کئی مسلمان مردوں کودیکھیں گے کہ وہ اپنے ہاتھوں میں سونے کی انگوٹھیاں پہنے ہوئے ہوتے ہیں،سینوں پر زنجیریں لٹکاتے پھرتے ہیں۔یہ لوگ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود وعیدشدید کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے یا پھرانھیں ایسی روایات کا علم ہی نہیں۔ان لوگوں کو سونے کےزیورات پہننے سے توبہ کرنی چاہیے اورصرف چاندی کی انگوٹھی پر اکتفا کرنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مباح قراردی ہے۔حلال کےہوتے ہوئے حرام استعمال کرنے کی کیاضرورت ہے؟اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے (2) اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کرکے ہی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازه مقرر کر رکھا ہے"[8]
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے دین کی بصیرت اور اس کافہم دے اور عمل واخلاص کی دولت سے مالا مال کردے۔
سامان تجارت میں زکاۃ فرض ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"(اے نبی!)ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے(تاکہ) اس کے ذریعے سے انھیں پاک کریں اور ان کا تزکہ کریں۔"[9]
نیزارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور جن کے مالوں میں مقررہ حصہ ہے۔مانگنے والوں کا بھی اور سوال سے بچنے والوں کابھی۔"[10]
علاوہ ازیں مال زیادہ ترسامان تجارت ہی کی صورت میں ہوتا ہے،اس لیے مذکورہ آیات کے عمومی حکم میں یہ بالاولیٰ شامل ہے۔سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیاکرتے تھے کہ ہم تجارت کےمال میں سے زکاۃ ادا کریں۔[11]
علاوہ ازیں جنگل میں چرنےوالے جانوروں کی طرح مال تجارت بڑھنے والا مال ہے۔بنا بریں مال تجارت میں زکاۃ فرض ہے بشرط یہ کہ اس پر ایک سال گزر گیا ہو۔متعدد علمائے کرام نے اس پر اہل علم کااجماع نقل کیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ائمہ اربعہ اوردیگر علمائے امت کا(ماسواچند افراد کے) اس امر پر اجماع ہے کہ اموال تجارت میں زکاۃ فرض ہے،تاجر مقیم ہویامسافر کسی نے مال تجارت رکھ چھوڑا ہو اور وہ اس کی قیمت کے بڑھنے کا منتظر ہویا کوئی دوکاندار ہو،نیز وہ مال تجارت نیا کپڑا ہویامستعمل لباس وغیرہ۔کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا پھل پھول ،اچار مربے وغیرہ ہوں یا کوئی اور چیز مٹی کے برتن(خواہ چینی مٹی کے ہوں یاعام) ہوں یا غلام ،گھوڑے،خچر،گدھے اور بھیڑ بکریاں ہوں،خواہ انھیں گھر میں چار الا کر ڈالاجائے یاوہ خود چرچگ لیتی ہوں تمام پر زکاۃ ہے کیونکہ ہر علاقے کے لوگوں کاباطنی مال زیادہ ترسامان تجارت پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ان کا ظاہری مال زیادہ تر مویشیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔"[12]
(1)۔سامان تجارت میں زکاۃ کی فرضیت کی چند شرائط ہیں:
1۔وہ اپنے کسی عمل کے نتیجے میں اس کا مالک بنا ہو،مثلاً:خریدوفروخت ،قبول ہبہ،وصیت،حصول اجرت یاکسی اور کمائی کے طریقے سے مالک بنا ہو۔
2۔تجارت کی نیت سے کسی سامان کامالک ہو،یعنی اس مال کے ذریعے سے مزید مال کمانے کی نیت رکھتا ہو کیونکہ اعمال کادارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور تجارت عمل ہے،لہذا دیگر اعمال کی طرح اس میں بھی نیت کو شامل کرنا ضروری ہے۔
3۔اس مال کی قیمت سونے یاچاندی کے نصاب کو پہنچ جائے۔
4۔اس مال پر ایک سال گزرگیا ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"کسی مال میں زکاۃ تب ہے جب اس پر ایک سال گزرگیا ہو۔"[13]
اگر کسی نے زکاۃ کے نقدی نصاب کے عوض کوئی اور سامان تجارت خرید لیا یا ایسے سامان کے بدلے میں اور سامان خریدا جوزکاۃ کے نصاب تک پہنچ چکا تھا تو مدت سال کی ابتدا اسی مال سے شمار ہوگی جس کے عوض نیا سامان تجارت خریدا گیا ہے۔
(2)۔مال تجارت میں سے زکاۃ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ سال مکمل ہونے پر اس کی قیمت کرنسی کے ساتھ بنالی جائے (اس میں فقراء کی بہتری کا لحاظ رہے) اور وہ سونے یا چاندی کی کرنسی کے نصاب تک پہنچ جائے تو چالیسواں حصہ اس میں زکاۃ ہے۔واضح رہے مال کابھاؤ وہ نہیں لگے گا جو ایک سال قبل تھا بلکہ موجودہ قیمت کااعتبارہوگا۔تاجر اور زکاۃ وصول کرنے والے دونوں کے درمیان یہی عدل وانصاف ہے۔
(3)۔مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ سامان تجارت کی زکاۃ نکالتے وقت وہ اپنے اموال تجارت کی ایک ایک چیز کا اچھی طرح باریک بینی سے حساب وکتاب کرے جیسا کہ شراکت کی صورت میں ایک حریص اور بخیل شخص کاروبار میں شریک اپنے ساتھی کے ساتھ مین میکھ نکال کر ہر چیز کاحساب کرتا ہے۔اسے چاہیے کہ جو بھی مختلف انواع کا سامان تجارت اس کے پاس ہے وہ شمار کرے،پھر اس کی صحیح اورمناسب قیمت لگائے،مثلاً:جنرل سٹور کےمالک کے پاس دکان میں مختلف اقسام کی جو اشیاء ہیں حتیٰ کہ ڈبوں میں بند سامان،چھوٹی چھوٹی اور ہرقسم کی اشیاء وغیرہ سب کا حساب کرے اور اوزار،مشینری سپیئر پارٹس اور گاڑیاں جو فروخت کے لیے ہیں ان کی قیمت لگائی جائے،
اسی طرح فروخت کے لیےجو پلاٹ اور عمارات ہوں ان کی بھی قیمت لگائے جائے،البتہ جو عمارات ،گھر اور کاریں وغیرہ کرائے کے لیے ہوں،ان میں زکاۃ نہیں۔ان اشیاء کے کرائے کی آمدن میں زکاۃ ہے بشرط یہ کہ اس پرایک سال گزر جائے۔
رہائشی مکانات،ضروری اور سواری میں استعمال ہونے والی گاڑیوں میں زکاۃ نہیں۔اسی طرح گھر یا دکان کا سامان،تاجر کے آلات ،مثلاً:پیمائش،ناپ اور وزن کرنے کی اشیاء عطارکی شیشیاں ان تمام اشیاء میں زکاۃ نہیں کیونکہ انھیں تجارت کی خاطررکھا نہیں جاتا۔
(4)۔میرے مسلمان بھائیو! خوشی کے ساتھ پورا پورا حساب کرکے ثواب کی نیت سے زکاۃ نکالو۔اسے دنیا وآخرت میں اپنے لیے غنیمت سمجھو،تاوان وجرمانہ نہ سمجھو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور ان دیہاتیوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو جرمانہ سمجھتے ہیں اور تم مسلمانوں کے واسطے برے وقت کے منتظر رہتے ہیں، برا وقت ان ہی پر پڑنے والا ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے (98) اور بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو عنداللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں، یاد رکھو کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان کے لیے موجب قربت ہے، ان کو اللہ تعالیٰ ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے"[14]
اس آیت سے واضح ہواکہ دونوں گروہ زکاۃ دیتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر ایک سے معاملہ اس کی نیت کے حساب سے ہوگا۔پہلے گروہ نے زکاۃ کو تاوان سمجھالیکن ادا اس لیے کہ کی کہ ان(منافقین) کے بارے میں اسلام کو جوحکم(تغلیظ وجہاد) تھا اس سے خود کو بچالیں اور محفوظ کرلیں۔اور وہ منتظر تھے کہ مسلمانوں پر کوئی برا وقت آئے تو ان سے انتقام لیں لیکن انھیں سزایہ ملی کہ انھی پر برے دن آئے اور ثواب سےمحروم ہوئے اور اموال میں نقصان اٹھایا۔دوسرا گروہ اہل ایمان کاتھا جو اللہ تعالیٰ کے قرب اورحصول ثواب کی نیت سے زکاۃ دیتے تھے۔ان کے لیے پورا پورا اجر ہے جو انھوں نے خرچ کیا اسکے بدلے میں انھیں خیروبھلائی ملے گی کیونکہ ان کی نیت اچھی تھی اور مقصد بلند تھا۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"یاد رکھو کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان کے لیے موجب قربت ہے، ان کو اللہ تعالیٰ ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا"[15]
اے مسلمان بھائی !اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ اور اس آیت کے معانی پر غوروخوض کرو۔
"اوراللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو۔ اور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر سے بہتر اور ﺛواب میں بہت زیاده پاؤ گے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والامہربان ہے"[16]
[1]۔صحیح البخاری اللباس باب خاتم الفضۃ حدیث 5866 وصحیح مسلم،اللباس باب لبس النبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتما من ورق۔قبل حدیث 2092۔
[2]۔صحیح مسلم اللباس باب تحریم خاتم الذھب علی الرجال۔حدیث 2090۔
[3]۔سنن ابی داود الخاتم باب ماجاء فی ربط الاسنان بالذھب حدیث 4232 والسنن الکبریٰ للبیہقی الصلاۃ باب الرخصۃ فی اتخاذ الانف۔2/425۔426۔
[4]۔جامع الترمذی اللباس باب ماجاء فی الحریر والذھب للرجال حدیث 1720 وسنن النسائی الزینۃ باب تحریم لبس الذھب حدیث 5267 ومسنداحمد 4/392۔393 واللفظ لہ۔
[5]۔(ضعیف) سنن الدارقطنی 2/106 حدیث 1937۔
[6]۔المغنی والشرح الکبیر 2/603۔605۔بتصرف۔بہت سے علمائے کرام سونے چاندی کے زیورات کی زکاۃ کے قائل ہیں اور ان کے دلائل قوی اور زیادہ صحیح ہیں۔(صارم)۔
[7]۔صحیح البخاری الاشربۃ باب آنیۃ الفضۃ حدیث 5634 وصحیح مسلم اللباس والزینۃ باب تحریم استعمال اوانی الذھب والفضۃ حدیث 2065 واللفظ لہ۔
[8]۔الطلاق 65/2۔3۔
[9]۔التوبۃ 9/103۔
[10]۔المعارج 70/24۔25۔
[11]۔سنن ابی داود الزکاۃ باب العروض اذا کانت للتجارۃ ھل فیھازکاۃ؟ حدیث 1562۔
[12]۔مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ 25/45۔
[13]۔سنن ابی داود الزکاۃ باب فی رکعۃ السائمۃ حدیث 1573۔
[14]۔التوبۃ:9/98۔99۔
[15]۔التوبۃ:9/99۔
[16]۔المزمل 20/73۔