غلہ،پھل،شہد،معدنیات اورمدفون مال کی زکاۃ کابیان
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اے ایمان والو! اپنی پاکیزه کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لئے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا، جسے تم خود لینے والے نہیں ہو، ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو، اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بے پرواه اور خوبیوں والاہے"[1]
قرآن مجید میں زکاۃ کو"نفقہ"(خرچ کرنا) بھی کہا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور جو لوگ سونے،چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔[2]"یعنی وہ زکاۃ نہیں دیتے۔
احادیث صحیحہ مشہورہ میں غلہ اور پھلوں کی زکاۃ نکالنے کا حکم اور اس کی مقدار وغیرہ کا بیان موجود ہے،نیز مسلمانوں کااجماع ہے کہ گندم،جو،کھجور،منقیٰ، میں زکاۃ فرض ہے۔علاوہ ازیں چاول،چنا وغیرہ غلے میں بھی زکاۃ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"کھجور اور اناج کے پانچ وسق سے کم میں زکاۃ نہیں۔"[3]
نیز فرمایا:
"جس کھیتی کو بارش اور چشموں کا پانی ملے یاجونمی والی زمین ہو،اس میں "عشر" ہے۔"[4]
(1)۔کھجور،منقیٰ وغیرہ ان تمام پھلوں میں زکاۃ فرض ہے جن کا وزن کیاجاتا ہو اور انھیں ذخیرہ کیا جاسکتاہو۔علاوہ ازیں وہ نصاب زکاۃ کی مقدار تک پہنچ جائیں۔سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" پانچ وسق سے کم میں زکاۃ نہیں۔"[5]
واضح رہے ایک وسق ساٹھ نبوی کاہوتا ہے اور ایک نبوی صاع میں درمیانے آدمی کے چار لپ(دونوں ہاتھوں کے بھرنے کے بقدر) اناج ہوتا ہے(جس کا تحقیقی وزن دو کیلو اور ایک سوگرام ہے۔)
(2)۔اناج اور پھلوں میں زکاۃ کے وجوب کی دو شرطیں ہیں:
1۔نصاب زکاۃ کی مقدار،یعنی پانچ وسق(630 کلو گرام) یا اس سے زیادہ اناج ہو۔
2۔وجواب زکاۃ کے وقت اس کی ملکیت میں ہو،وجوب زکاۃ کا وقت وہ ہے جب پھل میں پختگی آجائے یاکھیتی میں دانہ سخت ہوجائے۔اگرمذکورہ وقت کے بعد وہ مالک ہواتو اس میں زکاۃ فرض نہیں،مثلاً:اس نے اناج خریدا ہویا کٹائی کی اجرت میں حاصل کیا ہویامختلف جگہوں سے جمع کیا یاچنا ہو۔
(3)۔اناج اور پھلوں میں سے نکالی جانے والی زکاۃ کی مقدار مختلف ہے جس کا دارومدار کھیتی کو پانی دینے کے ذرائع کی نوعیت پر ہے۔تفصیل درج ذیل ہے:
اگر کھیت کو پانی دینے میں مشقت نہ ہو اور اسے سیلاب کا پانی یاسطح زمین پر بہنے والا بارش وغیرہ کا پانی ملتا ہویا پودے اپنی جڑوں کے ذریعے سے زمین سے پانی حاصل کرلیں تو اس کی پیداوار میں عشر،یعنی دسواں حصہ ہے۔
صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"جس کھیتی کو بارش اور چشموں کا پانی ملے یاجونمی والی زمین ہو،اس میں "عشر" ہے۔"[6]
سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"جس زمین کو دریاؤں یابادلوں کاپانی ملے اس میں عشر ہے۔"[7]
اگر کھیت کو کنویں وغیرہ سے مشقت اٹھاکر پانی دیا جائے تو اس میں نصف عشر، یعنی بیسواں حصہ زکاۃ ہے۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"جس کھیت کو رہٹ وغیرہ سے پانی پلایاجائے اس میں نصف عشرزکاۃ ہے۔"[8]
مسلم میں بھی سیدناجابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےایسی ہی روایت آئی ہے۔
"اور جس کو رہٹ سے پانی دیاجائے اس میں نصف عشر ہے۔"[9]
(4)۔وجوب زکاۃ کاوقت وہ ہے جب پھل پک کر سرخ یا زرد ہوجائے یا دانہ سخت ہوجائے۔اگر کسی شخص نے ایسی کیفیت وحالت ہوجانے کے بعد پھل یا اناج بیچ دیا تو زکاۃ اناج فروخت کرنے والے کےذمہ ہوگی۔خریدار کے ذمے نہ ہوگی۔
(5)۔اناج کی زکاۃ کی ادائیگی کے لیے لازم ہے کہ اسے چھلکے یا بھوسے سے نکال کر صاف کرلیا جائے۔اگر میوہ ہوتو وہ خشک ہوجائے۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انگوروں کی زکاۃ کا اندازہ خشک انگور،یعنی منقیٰ کی صورت میں لگایا جائے۔اور زکاۃ خشک انگوروں کی صورت میں لی جائے ،جیسا کہ کھجور کے درخت لگی کھجوروں کی زکاۃ تیار اورپکی ہوئی کھجوروں کی صورت میں دی جاتی ہے۔واضح رہے،زبیب یا تمر(منقیٰ اور خشک کھجور) ہی کوکہتے ہیں۔
(6)۔شہد میں زکاۃ تب ہے جب اسے اپنی ملکیت والی جگہ سے حاصل کرلیا گیا ہو یاغیر آباد غیر مملوک جگہ سے،جیسے پہاڑ کی چوٹیاں۔اور نصاب یعنی تیس صاع(60۔62 کلوگرام)سے کم نہ ہوتب اس میں عشر ،یعنی دسواں حصہ زکاۃ ہے۔
(7)۔معدنیات(جو دھاتیں اور جواہر زمین سے حاصل ہوں) میں زکاۃ اناج اور پھلوں کی طرح واجب ہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"(اےایمان والو!) اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو اور ان میں سے بھی جو ہم نے زمین میں سے نکالی ہیں۔"[10]
اگر وہ دھات سونا یا چاندی ہے تو اس میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے،بشرط یہ کہ وہ سونے یا چاندی کے نصاب تک پہنچ جائے۔ اگر زمین سے سرمہ،زرنیخ(ایک قسم کازہر) گندھک،نمک اور پٹرول وغیرہ حاصل ہوتو اگر سونے یا چاندی کے نصاب کی مقدار یا اس سے زیادہ حاصل ہوتو اس کی قیمت میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے۔
(8)۔رکاز،یعنی زمانہ جاہلیت میں کفار کی مدفون اشیاء دستیاب ہوں،وہ کثیر مقدار میں ہوں یا قلیل،اس میں خمس،یعنی پانچواں حصہ زکاۃ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"رکاز میں پانچواں حصہ زکاۃ ہے۔"[11]
کفار کے اموال کی پہچان ان کی کسی مخصوص علامت سے ہوگی،مثلاً:اس مال پر ان کے کسی بادشاہ کا نام کندہ ہو یا صلیب وغیرہ کا نقش ہو۔جب اس کا پانچواں حصہ ادا کردیا جائے تو باقی چار حصے اس شخص کے ہوں گے جسے وہ مال ملاتھا۔
اگرسارے یا بعض مدفون مال پر مسلمانوں کے عہد کی علامت ہویا اس مال پر سرے سے کوئی علامت ہی نہ ہوتو اس کا حکم لقطہ کا ہے جیسے راستے میں کسی کا گرا پڑا ہوا مال ملا ہے۔[12]حاصل شدہ کفار کے مدفون مال کی زکاۃ مال فے کی طرح مسلمانوں کی فلاح وبہبود پر صرف کی جائے۔
(9)۔گزشتہ بحث سے واضح ہوا کہ زمین سے نکلنے والی متعدد اشیاء یہ ہیں:
1۔اناج اور پھل۔
2۔مختلف معدنیات۔
3۔شہد۔
4۔اور زمانہ جاہلیت کی مدفون اشیاء۔یہ تمام انواع اللہ تعالیٰ کے اس حکم میں داخل اور شامل ہیں:
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو!تم ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کروجوتم کماتے ہو اور ان میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لیے زمین میں سے نکالی ہیں۔"[13]
اورارشاد ہے:
"اور اس میں جو(اللہ کا) حق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو۔"[14]
(10)۔زکاۃ زمین کی اس پیداوار میں ہے جس کو ماپا(یا وزن کیا) جاتا ہو اور ذخیرہ ہوسکے۔اگر اس کو نہ ماپا جاتا ہو اور نہ ذخیرہ کیا جاتا ہو تو اس پر زکاۃ فرض نہیں ہے،مثلاً:اخروٹ،سیب،خوبانی،بہی اور انار وغیرہ۔اسی طرح سبزیوں اورترکاریوں ،مثلاً:مولی،لہسن،پیاز،گاجر،تربوز،خربوز،کھیر اوربینگن وغیرہ میں زکاۃ نہیں۔سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"سبزیوں میں زکاۃ نہیں۔"[15]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:"پانچ وسقوں سے کم میں زکاۃ نہیں"۔ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے نکلنے والی اشیاء میں ماپنے کے قابل ہونا اور ان کا ذخیرہ ہونے کے لائق ہونایہ دونوں شرطیں معتبر ہیں،لہذا جن اشیاء کوماپا تولانہ جاسکے یا انھیں ذخیرہ نہ کیا جاسکے ان میں زکاۃ بھی نہیں ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء نے ایسی ہی اشیاء کو نظر انداز کردیا تھا،حالانکہ انھیں وہاں بویا اور کاشت کیا جاتا تھا۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"کھیرا،ککڑی،پیاز،خوشبو دار نباتات وغیرہ میں زکاۃ نہیں،البتہ انھیں فروخت کیا جائے اور ان کی قیمت پر ایک سال بیت جائے تو ان کی قیمت میں زکاۃ ہے۔"[16]
جان لیجئے!نقدی مال سے مراد سونا،چاندی،کرنسی،سونے اور چاندی کے زیور،اور ان سے بنے ہوئے برتن وغیرہیں۔
(1)۔سونے،چاندی میں زکاۃ کی فرضیت کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اور جو لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ،انھیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔"[17]
اس آیت مبارکہ میں اس شخص کے لیے سخت عذاب کی وعیدہے جوسونا اور چاندی رکھتے ہوئے ان سے زکاۃ نہیں نکالتا۔صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں روایت ہے:
"ہر وہ شخص جو سونے چاندی کا مالک ہے اور ان کا حق(زکاۃ) ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کے لیے اسی سونے چاندی سے آگ کے تختے بنادیے جائیں گے۔"[18]
ائمہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت مذکورہ میں کلمہ"کنز"سے مراد وہ مال ہے جو زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جائے لیکن اس میں زکاۃ ادا نہ کی جائے۔اگراس میں سے زکاۃ اداکردی جائے تو وہ"کنز" نہیں ہے۔اور "کنز"کےلغوی معنی ہیں ہر وہ شے جس کوجمع کیا گیا ہو،خواہ زمین کے اندر ج مع ہویاباہر۔
(2)۔جب سونا کم ازکم بیس مثقال(ساڑھے سات تولے) ہو اور چاندی دو سو اسلامی درہم(ساڑھے باون تولے) ہوتوان میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے۔یہ سونا،چاندی سکے کی صورت میں ہویا اس کےعلاوہ کسی اور شکل میں ہو۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہربیس یا بیس سے زائددینار میں سے نصف دینار زکاۃ لیاکرتے تھے۔"[19]
سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"خالص چاندی میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے۔"[20]
سعودی عرب کی کرنسی جُنیہ (گئی) کے مطابق سونے کا نصاب 11.143 گئی ہے جبکہ سعودی عرب کی کرنسی ریال کے حساب سے چاندی کا نصاب چھپن ریال یا اس کی قیمت کے برابر چاندی ہے۔سونا یا چاندی مقرر نصاب تک یا اس سے زیادہ ہوتو اس میں سے چالیسواں حصہ زکاۃ ہے۔
[1]۔البقرۃ:267۔
[2]۔التوبۃ 9/34۔
[3]۔ صحیح مسلم الزکاۃ باب لیس فیمادون خمسۃ اوسق صدقۃ حدیث 979۔
[4]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب العشر فیما یسقی من ماء السماء والماء الجاری حدیث 1483۔
[5]۔ صحیح البخاری الزکاۃ باب ما ادی زکاتہ فلیس بکنز حدیث 1405۔ صحیح مسلم الزکاۃ باب لیس فیمادون خمسۃ اوسق صدقۃ حدیث 979۔
[6]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب العشر فیما یسقی من ماء السماء والماء الجاری حدیث 1483۔
[7]۔صحیح مسلم الزکاۃ باب ما فیہ العشر اونصف العشر حدیث 981۔
[8]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب العشر فیھا یسقی من ماء السماءوالماء الجاری حدیث 1483۔
[9]۔صحیح مسلم الزکاۃ باب مافیہ العشر اونصف العشر حدیث 981۔
[10]۔البقرہ:267۔
[11]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب فی الرکاز الخمس حدیث 1499 وصحیح مسلم الحدود باب جرح العجماء والمعدن والبشر جبار حدیث 1710۔
[12]۔ایسے مال کا ایک سال تک اعلان عام کیا جائے،اگرمالک آجائے تواسے واپس کردیا جائے ،ورنہ اٹھانے والا اسے اپنے مصرف میں لاسکتا ہے۔(صارم)
[13]۔البقرۃ 2/267۔
[14]۔الانعام 7/141۔
[15]۔(ضعیف) سنن الدارقطنی الزکاۃ باب لیس فی الخضروات صدقۃ 2/94 حدیث 1890 وتلخیص الجیر باب زکاۃ المعشرات 2/165۔
[16]۔المغنی والشرح الکبیر 2/548۔
[17]۔التوبۃ 9/34۔
[18]۔صحیح مسلم الزکاۃ باب اثم مانع الزکاۃ حدیث 987۔
[19]۔سنن ابن ماجہ الزکاۃ باب زکاۃ الورق والذھب حدیث 1791۔
[20]۔صحیح البخاری الزکاۃ باب زکاۃ الغنم حدیث 1454۔