جنازے کے احکام
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری شریعت ہے جو انسان کی زندگی اور موت کے بعد تمام مصلحتوں پر مشتمل ہے۔ ان میں جنازے کے وہ احکام بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جاری و ساری فرمائےہیں جن کا تعلق انسان کی بیماری اور موت سے لے کر قبر میں دفن کرنے تک ہے یعنی مریض کی بیمارپرسی کرنا۔ اسے کلمہ اخلاص کی تلقین کرنا، غسل دینا ، کفن پہنانا ، اس کی نماز جنازہ ادا کرنا اور دفن کرنے کے سب احکام ہیں اور ان کے ضمن میں ادائیگی قرض اجرائے وصیت تقسیم ترکہ اور اس کی ضعیف وناتواں اولاد کی نگہداشت اور سر پرستی کے مسائل بھی ہیں۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جنازہ اور اس سے متعلق جملہ امور کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی مکمل ہدایات دی ہیں جو ہمیں دیگر امتوں سے ممتاز کرتی ہیں اور مکمل احوال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت پر مشتمل ہیں نیز میت کے ساتھ احسان کرنے اور اس کے ساتھ ایسا معاملہ کرنے پر مشتمل ہیں جو اسے قبر اور آخرت میں فائدہ دیں۔مثلاً:مریض کی عیادت کرنا میت کو کلمہ خیر کی تلقین کرنا اسے پاک صاف کرنا ادب واحترام کے ساتھ قبرستان لے جانا۔ پھر میت کے مسلمان بھائی صف بندی کر کے اس کی نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے رب کےحضور کھڑے ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر درود شریف بھیجتے ہیں۔ پھر میت کے لیے مغفرت رحمت اور اسے معاف کرنے کی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں پھر اس کی قبر پر کھڑے ہو کر قبر کے امتحان کے موقع پر اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں علاوہ ازیں وقتاً فوقتاً اس کی قبر کی زیارت کی جاتی ہے اور دعا ہوتی ہے۔ ان تمام امور میں اس کا ایسے خیال رکھا جاتا ہے جس طرح زندگی میں ایک شخص اپنے ساتھی کا خیال رکھتا ہے پھر اس کے اہل وعیال اقارب وغیرہ سے احسان و بھلائی کی جاتی ہے۔"[1]
مسنون یہ ہے کہ ہر مسلمان موت کو کثرت سے یاد کرے گناہوں اور معاصی سے توبہ کرے۔ آخرت کی تیاری کرے ظلم وزیادتی کر کے جن کے حقوق غصب کیے ہیں انھیں واپس کرے اور موت کے اچانک حملے سے قبل اعمال صالحہ انجام دینے میں خود کو مصروف رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
"لذتوں کو توڑنے والی (موت) کو زیادہ سے زیادہ کرو۔"[2]
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ سے کماحقہ حیا کرو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا:اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اللہ تعالیٰ سے حیا کرتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس طرح نہیں بلکہ جواللہ تعالیٰ سے کماحقہ حیا کرتا ہے وہ سر کی اور جو سر (دماغ) میں(سوچ) ہے اس کی حفاظت کرے۔ پیٹ اور جو پیٹ نے جمع کیا ہے اس کا خیال رکھے۔ (کہ اس میں حرام تو نہیں داخل ہو رہا) موت اور بوسیدگی کو یاد رکھے جو آخرت کا طالب ہوتا ہے وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دیتا ہے جس شخص نے ایسا کیا اس نے اللہ تعالیٰ سے اس طرح حیا کی جس طرح اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔"[3]
جب کسی انسان کوکوئی مرض لاحق ہو جائے تو وہ ثواب کی نیت سے صبر سے کام لے جزع فزع نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر پر ناراضی کا اظہار نہ کرے البتہ اپنی بیماری کا سبب یا اس کی نوعیت سے متعلق کسی کو بتائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اسے بہر صورت اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے۔ہاں اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے مرض کا شکوہ کرنا اور اس سے شفا کی درخواست کرنا صبر کے منافی نہیں بلکہ یہ امر شرعاً مطلوب اور مستحب ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنے رب کو یوں پکارا تھا:
"(اے میرے پروردگار !) بے شک مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والا ہے۔"[4]
جائز ادویات کے ذریعے علاج کروانے میں حرج نہیں بعض علماء تو اسے ضروری قرار دیتے ہیں حتی کہ وہ اس کے وجوب کے قائل ہیں علاج و معالجہ کا حکم بہت سی احادیث میں بھی مذکور ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ علاج تو کل علی اللہ کے منافی نہیں جیسا کہ بھوک پیاس دور کرنے کے لیے کھانا پینا تو کل کے خلاف نہیں۔
حرام اشیاء کے ذریعے سے علاج کروانا قطعاً جائز نہیں کیونکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نشہ آور شے کے بارے میں فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کردہ اشیاء میں تمھارے لیے شفا نہیں رکھی ۔"[5]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے بیماری اور دوانازل کی اور ہر دوا مقرر کی ہے لہٰذا تم علاج کرو لیکن تم حرام چیزوں کے ساتھ علاج نہ کرو۔"[6]
صحیح مسلم میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب سے متعلق فرمایا: "إِنَّهُ لَيْسَ بِدَوَاءٍ وَلَكِنَّهُ دَاءٌ""یہ دوانہیں بلکہ بیماری ہے۔"[7]
ایسی اشیاء سے علاج کروانا جو عقیدہ اسلام کے منافی ہوں قطعاً حرام ہے مثلاً: شرکیہ یا مجہول الفاظ پر مشتمل تعویز لٹکانایا منکے دھاگے کا استعمال کرنا گلے میں میں مختلف اشیاء کے ہار ڈالنا ،بازو کلائی میں کڑے وغیرہ پہننا اور اس سے شفا کا عقیدہ رکھنا نظر و بلا کے لیے دافع سمجھنا سب کام حرام ہیں کیونکہ اس میں حصول نفع اور ازالہ ضرر کے لیے انسان کے دل کا تعلق اللہ تعالیٰ کی بجائے غیر اللہ کی طرف ہو جاتا ہے لہٰذا یہ تمام کام شرک ہیں یا شرک کے وسائل اور ذرائع ہیں۔ نیز کاہنوں، نجومیوں ، جادو گروں اور جنوں سے خدمت لینے والوں کے ذریعے سے علاج کروانا بھی حرام ہے۔ ایک مسلمان کا عقیدہ اس کی صحت سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء میں شفا رکھی ہے جو جائز ہیں اور بدن ،عقل اور دین کے لیے مفید ہیں۔ سب سے اہم چیز قرآن مجید اور مسنون دعاؤں کے ذریعے سے دم کرنا ہے۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"سب سے بہتر علاج ذکر و دعا کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے فریاد کرنا اور توبہ استغفار کرنا ہے۔ ان کا اثر دواؤں کے اثر سے بڑھ کر ہے لیکن اس کا دارومدار اس امر پر ہے کہ نفس انسانی اس کے لیے کس حد تک تیار ہے اور اسے قبول کرتا ہے۔"[8]
علاوہ ازیں ہسپتالوں وغیرہ میں تشخیص علاج میں ماہر ڈاکٹروں سے جائز ادویہ کے ذریعے سے علاج کروانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
مریض کی بیمار پرسی کرنا مسنون ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ہر مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں۔"[9] ان میں سے ایک حق بیمار کی بیمارپرسی ہے۔
جب آپ بیمار پرسی کے لیے جائیں تو بیمار کا حال دریافت کریں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم مریض کے قریب جاتے اور اس کا حال دریافت کرتے تھے۔ بیمار پرسی ایک دن چھوڑ کر کبھی دو دن چھوڑ کر کرنی چاہیے البتہ اگر مریض کی خواہش ہو تو روزانہ بھی عیادت کی جا سکتی ہےمریض کی رغبت کے بغیر اس کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھے اور مریض سے یوں کہے:
"تم پر کوئی حرج نہیں "إنْ شَاءَ اللهُ" (بیماری کی وجہ سے) گناہوں سے پاک ہو جاؤ گے۔"[10]
مریض کے پاس بیٹھ کر ایسی باتیں کریں جن سے اسے خوشی ہو اس کی شفا کے لیے دعا کریں آیات قرآنیہ کے ساتھ دم کریں ۔خاص طور پر سورۃ فاتحہ ،اخلاص اور معوذتین پڑھ کر دم کریں۔
یہ بھی مسنون ہے کہ مریض اپنے مال کے بارے میں وصیت کرے کہ اسے اچھے کاموں میں صرف کیا جائے اگر اس پر قرضہ ہو یا اس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہوں تو اس سے ورثاء کو آگاہ کرے بلکہ ان باتوں کی فکر اسے حالت صحت میں بھی ہونی چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
"ہر مسلمان شخص کا حق ہے کہ اگر وہ کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو دوراتیں بھی نہ گزرنے دے مگر اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی محفوظ ہونی چاہیے۔[11]
واضح رہے حدیث میں دو راتوں کا ذکر بطور تاکید کے ہے یہ کوئی حد بندی نہیں مطلب یہ ہے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہونی چاہیے کیونکہ کوئی پتہ نہیں کہ موت کا وقت کب آجائے۔
بیمار شخص اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق رویہ اختیار کرتا ہوں۔"[12]
جب کسی بندے کو اپنے خالق کے پاس جانے کا احساس ہو جائے تب اس "حسن ظن " کی زیادہ ہی ضرورت ہے ۔
جو شخص قریب الوفات ہواسے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید دلائی جائے حتی کہ اللہ تعالیٰ سے امید کا پہلو خوف کے پہلو پر غالب آجائے البتہ حالت صحت میں امید اور خوف کے دونوں پہلو مساوی رہنے چاہئیں کیونکہ اگر خوف کا پہلو غالب ہو گا تو وہ مایوس ہو جائے گا اور اگر امید کا پہلو غالب ہو گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی اچانک آجانے والی سزا سے بے خوف ہو جائے گا۔
جب کوئی قریب الوفات ہو تو اسے "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ"پڑھنے کی تلقین کرنے چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"اپنے فوت ہونے والوں کو" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ "کی تلقین کرو۔[13]
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی موت کلمہ اخلاص پر واقع ہوجائے اور یہ کلمہ اس کی دنیوی زندگی کا آخری کلمہ ہو ۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس کا آخری کلام لا الہ الااللہ ہواوہ جنت میں داخل ہو گیا۔"[14]
واضح رہے کہ کلمہ اخلاص کی تلقین اسے بڑے پیار اور نرمی کے ساتھ کی جائے اس پر زیادہ تکرار و اصرار نہ کیا جائے تاکہ وہ موت کی تکلیف کی بنا پر انکار نہ کردے۔
اس کا رخ قبلہ کی طرف کر دینا چاہیے۔
قریب الوفات شخص کے پاس سورۃ یس کی تلاوت کی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"اقْرَءُوا يس عَلَى مَوْتَاكُمْ""اپنے فوت ہونے والوں کے پاس سورۃ یس پڑھو۔"[15]
واضح رہے جب کوئی شخص فوت ہو جائے تب اس کے پاس سورۃ یس پڑھنا بدعت ہے جب کہ قریب الوفات شخص کے پاس اسے پڑھنا مسنون ہے۔ اسی طرح جنازہ کے وقت یا قبر پر یا ایصال ثواب کے لیےسورۃ یس وغیرہ پڑھنا بدعت ہے کیونکہ کتاب و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔[16]لہٰذا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سنت کے مطابق عمل کرے اور بدعت سے اجتناب کرے۔
احکام وفات جب کوئی شخص فوت ہو جائے تو مستحب یہ ہے کہ اس کی آنکھیں بند کر دی جائیں چنانچہ جب سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھیں بند کر دی تھیں اور فرمایا:
"جب روح قبض کی جاتی ہے تو نگاہ اس کا پیچھا کرتی ہے تو ان کے گھر کے کچھ لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم زبان سے سوائے خیر کے کچھ نہ کہنا کیونکہ تم جو کہو گے فرشتے اس پر آمین کہیں گے۔"[17]
وفات کے بعد میت کو ڈھانپ دینا چاہیے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے:
"جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو یمن کی دھاری دار چادر وں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک ڈھانپ دیا گیا۔"[18]
جب کسی شخص کی وفات کا یقین ہو جائے تو اس کی تجہیز و تکفین میں دیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"کسی مسلمان کی نعش کو اس کے اہل وعیال میں زیادہ دیر روک کر نہ رکھا جائے۔"[19]
اس کی وجہ یہ ہے کہ میت کسی قسم کے تغیر و تبدل سے محفوظ ہو جاتی ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے:"میت کی عزت وتکریم اس کو قبرستان کی طرف جلدی لے جانے میں ہے۔"[20]البتہ اگر میت کی جسمانی ہئیت بدلنے کا اندیشہ نہ ہوتو اس کے اقرباء وغیرہ کا انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ وہ قریب رہتے ہوں۔
مسلمان کی موت کا اعلان کرنا مباح ہے تاکہ اس کی تیاری میں جلدی ہو۔ اس کی نماز جنازہ میں حاضری زیادہ ہو اور دعا میں لوگوں کی شرکت ہو۔ البتہ نوحہ بین یا قابل فخر کارناموں کے ساتھ اعلان کرنا جاہلیت کاکام ہے اسی طرح تعزیتی اجلاس منعقد کرنا اور ماتمی مجالس کا انعقاد کرنا واہتمام کرنا عہد جاہلیت کو واپس لانا ہے۔
مستحب امر یہ ہے کہ میت کی وصیتوں کو جلد نافذ کیا جائے تاکہ اس کو جلد ازجلد اجرو ثواب مل جائے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اجرائے وصیت کا ذکر ادائیگی قرض کے ذکر سے پہلے کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کو واضح کرنا اور اس کے اجرا پر رغبت دلانا ہے۔
وصیتوں کے اجرا کے بعد میت پر جو قرضے ہیں انھیں جلد از جلد اداکیا جائے۔[21]خواہ وہ اللہ تعالیٰ کے قرضے ہوں مثلاً: زکاۃ حج، جائز نذر یا کفارہ یا لوگوں کے قرضے ہوں مثلاًٍ:امانت یا غصب شدہ یا عارضی طور پر مانگی ہوئی اشیاء وغیرہ ۔ میت نے ان کی وصیت کی ہو یا نہ کی ہو بہر صورت ان کی ادائیگی ہونی چاہیے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"مومن کی جان اس کے قرض کے ساتھ لٹکی رہتی ہے حتی کہ اسے ادا کر دیا جائے۔"[22]
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قرضہ میت کے ذمے رہتا ہے اور اس وجہ سے اسے جنت میں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔ اس حدیث شریف میں میت کے قرضے کی ادائیگی پر رغبت دلائی گئی ہے لیکن یہ تب ہے جب میت کا مال ہو جس سے اس کا قرضہ ادا ہو سکے ۔اگر کسی میت کے پاس زندگی میں مال نہ تھا اور وہ قرض کی ادائیگی کا پختہ ارادہ رکھتا تھا تو احادیث میں ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے خود ادا کردے گا۔"[23]
میت کو غسل دینے کا طریقہ اور اس کے مسائل
احکام جنازہ میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ میت کو وہ شخص غسل دے جو اس کا سلیقہ و طریقہ جانتا ہو اور غسل دے سکتا ہو۔ ایک شخص اونٹنی سے گر کر مر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اسے پانی میں بیری کے پتے ڈال کر غسل دو۔"[24]
میت کوغسل دینے کے بارے میں اہل اسلام کا قول اور عمل تواتر سے چلا آرہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے بعد غسل دیا گیا ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری اور باطنی طور پر پاک تھے تو پھر کسی دوسرے مسلمان کو غسل کیوں نہ دیا جائے؟ غسل میت ان لوگوں پر فرض کفایہ ہے جنھیں اس کی وفات کا علم ہو جائے۔
میت مرد ہو تو اسے مرد ہی غسل دے۔ بہتر اور افضل یہ ہے کہ میت کو غسل دینے کے لیے کسی باعتماد اور مسائل غسل سے واقف شخص سے کام لیا جائے کیونکہ یہ ایسا شرعی حکم ہے جس کا ایک خاص طریقہ وسلیقہ ہے لہٰذا سے صحیح طور پر وہی شخص سرانجام دے سکتا ہے جو اس بارے میں احکام شرعیہ سے واقف ہو۔ اگر اس بارے میں میت نےکسی خاص شخص کو وصیت کی ہو تو اسے غسل دینے کا موقع دیا جائے بشرطیکہ وہ اچھا اور قابل اعتماد ہو جیسا کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی تھی کہ انھیں ان کی بیوی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا دے۔[25]
واضح رہے اس روایت سے بیوی کا خاوند کو غسل دینے کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی فوت شدہ بیوی کو غسل دے (جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو غسل دیاتھا)۔[26]سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصیت کی تھی کہ بعد از وفات انھیں محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ غسل دیں۔[27]
اگر میت نے کسی خاص شخص کے بارے میں وصیت نہ کی ہو تو میت کا باپ غسل دے بیٹے کو غسل دینے کے لیے باپ زیادہ مناسب اور بہتر ہے کیونکہ باپ اپنے بیٹے پر زیادہ شفیق و رحیم ہوتا ہے۔ اگر بوقت وفات باپ موجودیا زندہ نہ ہو تو میت کا دادا باپ کے قائم مقام سمجھا جاتا ہے لہٰذا وہ غسل دے۔ پھر عصبات یعنی بھائی چچا وغیرہ پر یہ فرض عائدہوتا ہے۔اگر یہ سب نہ ہوں یا انکار کر دیں یا انھیں طریقہ غسل نہ آتا ہو تو پھر کسی بھی اجنبی شخص سے یہ کام لیا جا سکتا ہے جو طریقہ غسل سے واقف ہو۔
میت عورت ہو تو اسے عورت ہی غسل دے بہتر یہ ہے کہ جس متعین عورت کے بارے میں وصیت کی گئی ہو وہ غسل دے بشرطیکہ وہ طریقہ غسل کا علم رکھتی ہو۔ ورنہ میت اقرباء میں سے کوئی بھی عورت غسل دے سکتی ہے جو احکام غسل جانتی اور سمجھتی ہو۔
عورت، عورت کو اور مرد،مرد کو مذکورہ ترتیب کے مطابق غسل دے۔ خاوند یا بیوی میں سے کوئی ایک فوت ہو جائے تو دوسرا اسے غسل دے سکتا ہے جیسا کہ سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی بیوی سیدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے غسل دیا یا سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غسل دیا تھا ۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں (اس کے علاوہ )اور بھی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
سات برس سے کم عمر والا فوت شدہ بچہ ہو یا بچی اسے مرد یا عورت کوئی بھی غسل دے سکتا ہے۔
ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ عورت چھوٹے بچے کو نہلا سکتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹے بچے کا اس کی زندگی میں بھی ستر کا مسئلہ نہیں ہوتا۔[28]
نیز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم علیہ السلام کا انتقال ہوا تھا تو عورتوں ہی نے اسے غسل دیا تھا۔[29]
سات برس یا اس سے زائد کے بچے کو عورت غسل نہ دے۔ اسی طرح سات برس یا اس سے زیادہ عمر کی بچی کو کوئی مرد غسل نہ دے۔
کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مرے ہوئے کافر کو غسل دے اس کا جنازہ اٹھائے اسے کفن پہنائے اس پر نماز پڑھے یا اس کے جنازے میں شامل ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اے مسلمانو! تم اس قوم سے دوستی نہ رکھو جن پر اللہ نے غضب نازل کیا۔[30]
یہ آیت کریمہ اپنے عموم کے اعتبار سے کافر کو غسل دینے اٹھانے اور اس کے جنازے میں شامل ہونے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے نیز فرمان الٰہی ہے:
"ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس کی نماز جنازہ ہر گز نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں۔[31]
اور ارشاد الٰہی ہے:
"پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں۔"[32]
کوئی کسی کافر کو دفن بھی نہ کرے البتہ جب کافر وں میں سے کوئی دفن کرنے والا نہ ہو تب کوئی مسلمان زمین میں گڑھا کھود کر اسے چھپا دے تاکہ اس کی لاش خراب ہونے سے زندہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کفار مقتولوں کو گھسیٹ کر کنویں میں پھینک دیا تھا۔مرتد شخص مثلاً: نماز کو قصداً چھوڑنے والا یا (کفر کی حد تک پہنچانے والی)بدعت کے مرتکب کا بھی یہی حکم ہے۔ واضح رہے کافر زندہ ہو یا کافر مردہ ایک مسلمان کا یہی موقف ہونا چاہیے کہ وہ بغض وبیزاری کے لائق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کے بارے میں فرمایا:
"جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ بے شک ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں ہم تمھارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے بغض و عداوت ظاہر ہو گئی۔"[33]
اور فرمایا:
"اللہ(تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہر گز نہ پائیں گے گووہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کا کنبہ قبیلہ ہی کیوں نہ ہو۔"[34]
درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر اور ایمان دونوں باہم متضاد ہیں کفار سے دشمنی محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دین کی خاطر ہے اس لیے وہ زندہ ہوں یا مردہ ان سے دوستی اور محبت قطعاً جائز نہیں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور ہمیں راہ راست کی ہدایت دے۔
جس پانی سے میت کو غسل دینا ہو وہ پاک صاف اور ٹھنڈا ہونا چاہیے البتہ میت کے جسم سے اگر میل کچیل اتارنا مقصود ہو یا سخت سردی ہو تو گرم کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔
میت کو غسل ایسی جگہ دینا چاہیے جو نظروں سے محفوظ ہو یا کسی گھر میں چھت کے نیچے ہو یا کسی خیمہ وغیرہ کے اندر ہو۔
غسل دینے سے قبل میت کی ناف سے لے کر گھٹنوں تک جسم کو کسی کپڑے سے ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے۔پھر اس کے کپڑے اتارے جائیں اور غسل کے تختے پر لٹایا جائے جو پاؤں کی جانب سے قدرے نیچا ہوتا کہ جسم کا میل کچیل اور مستعمل پانی پاؤں کی طرف سے بہہ جائے۔
غسل کے مقام پر غسل دینے والا یا غسل میں تعاون کرنے والا ہی موجود ہو۔ وہاں زائد افراد کی موجودگی درست نہیں۔
غسل دینے والا شخص اولاً میت کا سر اس قدر اٹھائے کہ وہ بیٹھنے کی حالت کے قریب ہو جائے پھر اس کے پیٹ پر آہستہ آہستہ اور دبا کر ہاتھ پھیرے تاکہ جسم سے نکلنے والی نجاست نکل جائے اور ساتھ ساتھ پانی بھی خوب بہائے تاکہ وہاں نجاست ٹھہرنہ سکے۔پھر غسل دینے والا اپنے ہاتھوں پر سوتی وغیرہ کپڑے کی تھلیاں چڑھا کر میت کو استنجا ء کروائے۔
پھر غسل کی نیت کرے۔ بسم اللہ پڑھے نماز کی طرح اسے وضو کرائے البتہ کلی کے لیے منہ میں اور اسی طرح ناک میں پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں بلکہ تر ہاتھوں یا گیلے کپڑے کے ساتھ اس کے دانت منہ اور ناک کو صاف کرلینا کافی ہے۔پھر اس کا سراور داڑھی بیری کے پتوں والے پانی یا صابن سے دھوئے۔ پھر اس کے جسم کی داہنی جانب یوں دھوئے کہ گردن سے شروع کرے پھر کندھا اور پھر بازو اور ہاتھ دھوئے پھر جسم کی داہنی جانب پاؤں تک دھوئے پھر اسے بائیں پہلو پر اٹھائے اور اس کی کمر اور پشت کی داہنی جانب دھوئے ۔ اسی طرح بائیں جانب دھوئی جائے پھر داہنی جانب اٹھا کر اس کی کمر اور پشت کی بائیں جانب دھوئے۔ غسل کے ساتھ بیری کے پتے یا صابن استعمال کیاجائے۔ بہتر یہ ہے کہ بوقت غسل ہاتھ پر کپڑے کی تھیلی چڑھائی جائے۔
اگر صفائی حاصل ہو جائے تو ایک ہی بار پانی کا استعمال کافی ہے البتہ تین تین بار پانی بہانا مستحب ہے۔ اگر اس سے بھی صفائی حاصل نہ ہو تو سات بارتک اعضاء دھوئے جا سکتے ہیں۔ آخری باری پانی بہاتے وقت پانی میں کافور شامل کر لیا جائے۔ کیونکہ وہ میت کے بدن کو اچھا خوشبو دار اور ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ نیز آخر میں کافور کا استعمال کرنے سے اس کا اثر زیادہ دیر تک باقی رہے گا۔
غسل دینے کے بعد میت کے بدن کو کسی کپڑے وغیرہ سے خشک کیا جائے۔ اس کی مونچھیں کاٹی جائیں ناخن لمبے ہوں تو تراش دیے جائیں بغلوں کے بال صاف کر دیے جائیں۔[35]اگر میت عورت ہو تو اس کے سر کی تین لٹیں بنائی جائیں اور انھیں پیچھے کی طرف ڈال دیا جائے۔
اگر میت کو غسل دینے کے لیے پانی میسر نہ ہو یا پانی کے استعمال سے اس کا جسم خراب ہونے کا اندیشہ ہو۔ مثلاً:میت کا وجود آگ سے جلا ہوا ہو یا اسے کوڑھ وغیرہ کا مرض ہو۔ یا مردوں میں کسی عورت کی میت ہو جس کا خاوند وہاں موجود نہ ہو(اور اسے غسل دینے کے لیے کوئی عورت بھی موجود نہ ہو )یا عورتوں میں مرد میت ہو جسے غسل دینے کے لیے اس کی بیوی نہ ہو(نہ وہاں کوئی اور مرد ہو) تو ان احوال میں میت کو مٹی کے ساتھ تیمم کروادیا جائے جس کی صورت یہ ہو کہ مسح کروانے والا اپنے ہاتھ پر کوئی چیز لپیٹ لے اور میت کے چہرے اور ہتھیلیوں پر مسح کرے۔
اگر میت کے بعض اعضاء دھونے مشکل ہوں تو جن اعضاء کو دھونا ممکن ہو دھو دیا جائے اور باقی اعضاء پر مسح کر دیا جائے۔
جو شخص میت کو غسل دے اس کے لیے غسل کرنا مستحب ہے واجب نہیں۔
میت کو غسل دینے اور اس کے بدن کو خشک کرنے کے بعد میت کو کفن پہنایا جائے۔
میت کو ایسے کپڑوں میں کفن دیا جائے جو اس کے سارے بدن کو اچھی طرح ڈھانپ لیں۔ صاف ستھرے ہوں۔ نئے اور سفید کپڑے مستحب ہیں۔ البتہ دھلے ہوئے ہوں تو بھی درست ہیں۔
ایک کپڑے میں کفن دینا واجب ہے جو میت کے پورے بدن کو اچھی طرح ڈھانپ لے جب کہ مرد کے لیے تین اور عورت کے لیے پانچ کپڑے مستحب ہیں جس میں تہہ بند، سر کی اوڑھنی ،قمیص اور دوبڑی چادریں ہوں گی۔ کفن کے کپڑوں پر عرق گلاب چھڑکنے کے بعد خوشبو(لوبان وغیرہ) کی دھونی دینا مستحب ہے تاکہ اس دھونی کا اثر باقی رہے۔[36]
میت کو کفن پہنانے کا طریقہ یہ ہے کہ تین چادریں لے کر انھیں ایک دوسری کے اوپر بچھا دیا جائے۔ پھر میت کو اس طرح لایا جائے کہ اس کا ضروری ستر ڈھانپا ہوا ہواور اسے چادروں کے اوپر چت لٹا دیا جائے۔
پھر میت کے نیچے بچھی ہوئیں چادروں میں سے سب سے اوپر والی چادر کا بایاں کنارہ میت کے بدن پر یوں ڈال دیا جائے کہ میت کی داہنی جانب چھپ جائے۔پھر اسی چادر کا داہنی جانب کا کنارہ پکڑ کر میت کی بائیں جانب پر ڈال دیا جائے۔ پھر اسی طرح دوسری پھر تیسری چادر سے میت کو چھپا دیا جائے۔ یادرہے چادر کا زائد حصہ قدموں کی نسبت سر کی جانب زیادہ ہونا چاہیے جو اس کے چہرے پر ڈال دیا جائے۔ پاؤں کی جانب چادر کا جوزائد حصہ ہو وہ اس کے قدموں پر ڈال دیا جائے پھر ان چادروں کو احتیاط سے باندھ دیا جائےتاکہ قبر میں ڈالنے تک کھل نہ سکیں ۔ میت کو قبر میں لٹا کر یہ بندھن کھول دیے جائیں۔
عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے ایک چادر جواز کاکام دے دوسری چادر قمیص کے طور پر ہو تیسری چادر دوپٹہ کی جگہ پر ہو اور دوبڑی چادریں جسم کو چھپانے کے لیے ہوں۔
مسلمان میت کو کفن پہنانے کے بعد اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص کسی جنازہ میں شامل ہوا پھر اس کی نماز جنازہ ادا کی تو اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے اور جو دفن کرنے تک میت کے ساتھ رہا اسے دو قیراط ثواب ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہواکہ قیراط کیا ہیں؟
آپ نے فرمایا:دو عظیم پہاڑوں کے برابر۔"[37]
نماز جنازہ فرض کفایہ ہے اگر کچھ افراد نماز جنازہ اداکر لیں تو دوسرے لوگ گناہ گار نہ ہوں گے۔ البتہ ان کے حق میں سنت کا درجہ ہوگا۔ اور اگر کسی میت کی نماز جنازہ کوئی نہ پڑھے گا تو سب گناہ گار ہوں گے۔
نماز جنازہ کی شرائط یہ ہیں: نیت کرنا، قبلہ طرف رخ کرنا، ستر کو چھپانا نماز جنازہ ادا کرنے والے اور میت دونوں کا پاک صاف ہونا نجاست کو دور کرنا نماز جنازہ ادا کرنے والے اور میت دونوں کا مسلمان ہونا میت کا موجود ہونا اگر اس کا تعلق اس شہر سے ہے۔ نمازی کا مکلف (عاقل بالغ ) ہونا۔
نماز جنازہ کے ارکان یہ ہیں: قیام کرنا چار تکبیریں کہنا ،سورۃ فاتحہ پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنا میت کے لیے دعا کرنا ترتیب قائم رکھنا اور سلام پھیرنا۔
نماز جنازہ کی سنتیں یہ ہیں:ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرنا قرآءت شروع کرنے سے پہلے تعوذ پڑھنا اپنے لیے اور اہل اسلام کے لیے دعا کرنا سراقرآءت کرنا۔[38]چوتھی تکبیر اور سلام کے درمیان تھوڑا سا وقفہ کرنا سینےپر ہاتھ باندھنا اور صرف دائیں جانب سلام پھیرنا۔[39]
نماز جنازہ پڑھنے والا اکیلا ہو یا جماعت کا امام ہو۔ اگر میت مرد ہو تو اس کے سینے کے بالمقابل کھڑا ہو اور اگر میت عورت ہوتو اس کے جسم کے درمیانی حصے کے بالمقابل کھڑا ہو جب کہ مقتدی امام کے پیچھے کھڑے ہوں۔"[40]
حاضرین کی کم ازکم تین صفیں بنانا مسنون ہے(زیادہ کی کوئی حد نہیں) پھر تکبیر تحریمہ کہے اور دعائے استفتاح پڑھے بغیر تعوذ و تسمیہ کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھے پھر دوسری تکبیر کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر (نماز والا) درود شریف پڑھے۔ پھر تیسری تکبیر کہہ کر میت کے لیے ماثورہ(مسنون )دعائیں پڑھے نماز جنازہ کی چند ایک دعائیں درج ذیل ہیں۔
"اے اللہ !ہمارے زندوں کو، مردوں کو، حاضرین کو، غیر حاضرین کو، بچوں کو، بڑوں کو، مردوں کو، اور عورتوں کو بخش دے(تو ہمارے مقام اور ٹھکانے کو جانتا ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے)اے اللہ! ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے اسے سلام پر زندہ رکھنا اور جسے موت دے اسے ایمان پر موت دینا۔ اے اللہ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ کرنا اور نہ اس کے بعد ہمیں گمراہ کرنا۔"[41]
دوسری دعا:
"اے اللہ!اس(میت) کو بخش دے اس پر رحم فرما اسے(عذاب اور سزا سے) عافیت میں رکھ اسے معاف کردے اس کی اچھی مہمانی فرما۔ اس کی قبر کشادہ کر اسے پانی برف اور اولوں سے دھودے اس کے گناہ اور خطائیں دھو کر ایسے صاف کردے جس طرح سفید کپڑا دھو کر میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔اسے اس کے گھر سے بہتر گھر عطا کر، اس جوڑے سے بہتر جوڑا دے اسے جنت میں داخل کر، اسے قبر اور آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔"[42]
یہ کلمات بھی پڑھےجا سکتے ہیں:
"اس کی قبر کو وسیع کر اور اسے منور و روشن فرما:"[43]
اگر میت عورت ہو تو مؤنث کی ضمیر کا استعمال کرے۔[44]اور اگر میت بچہ ہو تو مندرجہ ذیل دعا پڑھے۔
"اے اللہ!اس (بچے) کو اس کے والدین کے لیے(آخرت میں) میر منزل ذخیرہ پیش رواور اجر کا باعث بنادے۔ اے اللہ! اس بچے کے ذریعے سے اس کے والدین کی نیکیوں کی ترازو بھاری کردے اور اس کے سبب ان کا اجر بڑھا دے اور اسے براہیم علیہ السلام کی کفالت میں دے دے اور اسے سلف صالحین میں شامل کردے اور اسے جہنم کے عذاب سے بچا کر رکھنا اور اسے دنیا کے گھر سے بہتر گھر بدلے میں دے اور اسے گھر والے (دنیا کے) گھر والوں سے بہتر عطا کر۔ اے اللہ!ہمارے پیش روؤں اور میر منزلوں اور جو ہم سے پہلے ایمان کی حالت میں گزر گئے ہیں ان کو معاف فرما:"[45]
پھر چوتھی تکبیر کہے اور تھوڑا سا وقفہ کرے۔[46]پھر داہنی جانب ایک سلام پھیردے۔[47]
اگر کوئی شخص نماز جنازہ میں اس وقت داخل ہوا جب اس کا کچھ حصہ گزر گیا تھا تو وہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے جب امام سلام پھیرے تو وہ بعد میں فوت شدہ حصہ ادا کرے اور پھر سلام پھیردے۔ اگر اسے یہ محسوس ہو کہ امام کے سلام پھیرنے کے فوراً بعد میت کو اٹھا لیا جائے گا تو وہ جلدی جلدی تکبیرات مکمل کر لے اور پھر سلام پھیردے۔
اگر کوئی شخص میت کو دفن کرنے سے پہلے نماز جنازہ ادا نہ کرنا کر سکا تو اس کی قبر کے سامنے (اور قبلہ رو) کھڑے ہو کر نماز جنازہ ادا کرلے۔
کسی عورت کا حمل ساقط ہو جائے تو اگر وہ مردہ بچہ چار ماہ یا زیادہ کا ہو تو اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے اور اگر چار ماہ سے کم عمر ہو تو اس مردہ بچے کو نماز جنازہ پڑھے بغیر ہی دفن کر دیا جائے۔[48]
میت کو قبرستان لے جانا اور دفن کرنا : میت کو کندھا دینا اور اسے دفن کرنا مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے۔ میت کو دفن کرنا کتاب و سنت سے ثابت ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا؟ زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی ۔"[49]
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے"ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ" "پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں دفن کیا۔"[50]
میت کو دفن کرنے کے بارے میں وارد احادیث بہت زیادہ ہیں اور معروف ہیں علاوہ ازیں یہ عمل نیکی اور بھلائی کا ہے اور اس میں میت کا احترام کرنا اور اس کا خیال رکھنا پایا جاتا ہے:
جنازے کے جلوس میں شامل ہونا اور اسے قبر تک پہنچانا مسنون عمل ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
"جو شخص نماز جنازہ کی ادائیگی تک جنازے میں شریک رہا اس کے لیے ایک قیراط اجر ہے اور جو شخص دفن کرتے وقت تک شریک رہا اس کے لیے دو قیراط اجر ہے۔ پوچھا گیا قیراط کیا ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:دو عظیم پہاڑوں کے برابر۔"[51]
اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات میں میت کو قبر تک الوداع کرنے کی تلقین و ترغیب ہے۔
جو شخص جنازے کے ساتھ جائے اس کے لیے مسنون یہ ہے کہ وہ حتی الامکان میت کو کندھا دینے والوں میں شامل ہو۔ میت کو کسی جانور یا گاڑی پر لے جانے میں کوئی حرج نہیں بالخصوص جب قبر ستان دور ہو۔
میت کا جنازہ لے جاتے ہوئے مناسب حد تک تیز چلنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"جنازہ لے جانے میں جلدی کرو اگر وہ (جان) نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف لے جارہے ہو۔(لہٰذا جلدی پہنچاؤ )اور اگر وہ(جان) ایسی نہیں اس کا انجام براہے تو تم اپنی گردنوں سے اس کا بوجھ جلد ازجلد اتاردوگے۔"[52]
اس روایت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تم حد سے بڑھ کر تیزی رفتاری سے چلو بلکہ اطمینان و سکون کے ساتھ چلنا چاہیے اور جنازہ لے جاتے وقت بلند آواز سے تلاوت قرآن یا لاالہ الا اللہ یا ذکر وغیرہ نہ کیا جائے یا استغفار وغیرہ کے لیے کہنا درست نہیں کیونکہ یہ سراسر بدعت ہے۔
جنازے کے ساتھ عورتوں کا گھروں سے نکلنا حرام ہے کیونکہ سیدہ اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے:
"ہمیں جنازے کے ساتھ جانے سے منع کر دیا گیا۔"[53]
عہد نبوی میں خواتین اسلام جنازوں کے ساتھ شریک نہیں ہوتی تھیں لہٰذا جنازوں کے ساتھ جانا صرف مردوں کاکام ہے۔
مسنون یہ ہے کہ قبر گہری اور وسیع بنائی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"قبر بناؤ اور اسے وسیع[54] اور گہرا کرو۔"[55]
عورت کو قبر میں اتارتے وقت قبر پر پردے کا اہتمام کرنا مسنون ہے کیونکہ عورت کا معنی ہی پردہ ہے لہٰذا حتی الامکان اسے پردے میں رکھا جائے۔
جو شخص میت کو قبر میں اتارے وہ کہے:
"اللہ کے نام اور اللہ کی توفیق کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت پر (ہم اسے دفن کرتے ہیں)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہی ہدایت کی ہے۔[56]
میت کو قبر میں دائیں پہلو پر لٹا یا جائے کہ اس کے چہرے کا رخ جانب قبلہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے بارے میں فرمایاہے:
"تم زندہ ہو یا مردہ دونوں حالتوں میں کعبہ تمھارا قبلہ ہے۔[57]
قبر میں میت کے سر کے نیچے اینٹ یا پتھر رکھ دیا جائے یا مٹی کا ڈھیر لگا کر اس کا سراونچا کر دیا جائے نیز چہرے کے سامنے والی دیوار کے قریب کیا جائے۔اس کی کمر اور پشت کے پیچھے سہارے کے طور پر مٹی ڈالی جائے تاکہ اس کا بدن الٹ کر چہر ہ یا پشت کے بل نہ ہو جائے۔
پھر لحد کو مٹی اور کچی اینٹوں سے مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔پھر اس پر وہی مٹی ڈال دی جائے گی جو قبر کھودتے وقت نکلی تھی اس کے علاوہ مزید مٹی نہ ڈالی جائے۔
قبر کو ایک بالشت اونچا کیا جائے جو اونٹ کی کوہان کی طرح ہوتا کہ بارش سیلاب وغیرہ کا پانی اس پر ٹھہر نہ سکے نیز اس پر کنکریاں ڈال دی جائیں اور اس پر پانی کا چھڑکاؤ کیا جائے تاکہ مٹی جم جائے اور ہوایا آندھی سے بکھر نہ سکے۔
قبر کو ایک بالشت اونچا کرنے کا مقصد اور حکمت یہ ہے کہ گزرنے والوں کو قبر دکھائی دے تاکہ لوگ اسے پامال نہ کریں بلکہ قبر کی نشاندہی اور حد بندی کو واضح کرنے کی غرض سے اس کے ارد گرد پتھر رکھنے میں کوئی حرج نہیں البتہ اس پر کسی قسم کی تحریر منع ہے۔
جب مسلمان کسی میت کو دفن کر کے فارغ ہوں تو مستحب یہ ہے کہ اس کی قبر پر کھڑے ہو کر اس کے لیے دعا واستغفار کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مسلمان کو دفن کر کے فارغ ہوتے تو وہاں ٹھہر جاتے اور فرماتے:
"اپنے بھائی کے لیے دعا اور استغفار کرو اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے ثابت قدمی کا سوال کرو کیونکہ اب اس سے سوالات کیے جائیں گے۔"[58]
قبر پر قرآن مجید کی تلاوت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اورنہ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ایسا کیا تھا لہٰذا یہ کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے( اور گمراہی کا نیتجہ جہنم کی آگ ہے۔)
قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنا انھیں پتھر وغیرہ سے پختہ کرنا اور ان پر لکھنا سراسر حرام کام ہے سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت کھڑی کرنے سے منع فرمایا ہے۔"[59]
سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو چونا گچ کرنے ان پر لکھنے ان پر عمارت کھڑی کرنے اور انھیں روند نے سے منع فرمایا :[60]
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کام شرک کا سبب ہیں اور میت سے بے جا وابستگی کے وسائل اور ذرائع ہیں کہ جاہل لوگ جب کسی قبر پر خوبصورت عمارت دیکھیں گے تب اس کے ساتھ غیر شرعی طریقے سے وابستہ ہو جائیں گے۔
قبروں پر چراغاں کرنا، وہاں مساجد تعمیر کرنا، ان قبروں کے قریب یا ان کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنا حرام ہے، علاہ ازیں عورتوں کا قبروں کی زیارت کے لیے کثرت سے جانا بھی حرام ہے کیونکہ حدیث شریف میں ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔"[61]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو ان یہودو نصاریٰ پر جنھوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔"[62]
واضح رہے تعظیم کی خاطر قبروں پر عمارت وغیر دنیا میں پائے جانے والے شرک کی ایک بنیاد اور اصل سبب ہے:
قبروں پر چلنا انھیں جوتوں سے پامال کرنا ان پر بیٹھنا ان پر کوڑا کرکٹ پھینکنا یا پانی کا نکاس ان کی طرف کر دینا یہ قبروں کی توہین ہے جو حرام ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کوئی شخص آگ کے انگاروں پر بیٹھ جائے جس سے اس کے کپڑے جل جائیں حتی کہ آگ کا اثر اس کی جسمانی جلد کو پہنچ جائے تو یہ تکلیف اس کے قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔"[63]
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص قبروں پر بیٹھنے ان پر تکیہ لگانے انھیں پامال کی ممانعت روایات پر غور و تدبر کرے گا اسے معلوم ہوگا کہ یہ جملہ امور اہل قبور کے احترام کی خاطر ہیں تاکہ ان کے سروں کو جوتوں کے ساتھ روندا نہ جائے۔"[64]
میت کے لواحقین سے تعزیت کرنا،انھیں صبر کی تلقین کرنا اور میت کے لیے دعا کرنا مستحب ہے ،سیدنا عمرو بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"جو مومن شخص اپنےبھائی کے ساتھ اس کی مصیبت کے وقت تعزیت کرے گا اللہ تعالیٰ روزقیامت اسے عزت کالباس پہنائے گا۔"[65]
اس مضمون کی اور بھی روایات ہیں۔
(1)۔کلمات تعزیت اس قسم کے کہے جائیں کہ جن کا مفہوم یہ ہو:"اللہ تعالیٰ تمھیں اس مصیبت پر اجر عظیم دے اور صبرجمیل کی توفیق دے اور تمہارے فوت شدہ کو معاف فرمائے۔"
(2)۔تعزیت کے لیے بیٹھنے کااہتمام کرنا اور اس کااعلان کرنا(جیسا کہ آج کل رواج ہے) شرعاً درست نہیں۔
اہل میت کے لیے کھاناتیار کرکے ان کی طرف بھیجنا مستحب ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جعفر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے خاندان کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان پر ایسی مصیبت آگئی ہے جس نے انھیں مشغول کردیا ہے۔"[66]
آج کل دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ،یعنی میت کے لواحقین اپنے ہاں لوگوں کو ایک جگہ بلاتے اور جمع کرلیتے ہیں۔ان کے لیے کھانا تیار کرتے ہیں،پھر ایصال ثواب کی خاطر قاریوں کواجرت دے کر ان سے قرآن مجید پڑھواتے ہیں اور اس موقع پر اچھا خاصا مالی بوجھ اٹھاتے ہیں،یہ تمام کام سراسر حرام اور بدعت ہیں،چنانچہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا:
"ہم میت کو دفن کرنے کے بعد میت والوں کے ہاں جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ میں شمار کرتے تھے۔"[67]
اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"میت کے لواحقین کالوگوں کو کھانے پر جمع کرنا،ان سے تلاوت کروانا اور پھر انھیں تحائف دینایہ عمل سلف صالحین کے ہاں معلوم ومعروف نہ تھا بلکہ اہل علم نے متعدد وجوہ کی بنا پر اسے مکروہ قراردیا ہے۔"
علامہ طرطوشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"علمائے کرام کااس امر پر اجماع ہے کہ تعزیتی اجلاس منعقد کرنا اور مصیبت کے وقت اجتماع کرنا ممنوع ہے جو نہایت قبیح بدعت ہے۔اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی منقول نہیں۔اسی طرح دوسرے،تیسرے،چوتھے ،ساتویں روز یاماہانہ محفل کا اہتمام وانعقاد کرنایاسالانہ برسی،عرس منعقد کرنا،اس کا قطعاً کوئی شرعی ثبوت نہیں۔اگریہ خرچ میت کے ترکہ میں سے ہو اور میت کا کوئی وارث اپنے مال میں تصرف کرنے کااہل نہ ہو(مثلاً:نابالغ بچہ) یا ان میں سے کسی ایک نے اجازت نہ دی ہو تو یہ خرچ حرام ہے اور اسی طرح کا کھانا کھانا بھی حرام ہے۔"
(3)۔مردوں کے لیے قبرستان جانا مستحب ہے بشرط یہ کہ عبرت ونصیحت حاصل کرنا مقصد ہواور مردوں کے لیے دعا اور استغفار کرنا غرض ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"میں تمھیں قبروں کی زیارت سے روکتا تھا،اب تم ان کی زیارت کے لیے جایاکرو۔"[68]
جامع ترمذی میں یہ اضافہ ہے:
"قبروں کی زیارت آخرت کی یاد تازہ کرتی ہے۔"[69]
(4)۔تین شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے زیارت قبور مستحب ہے جو درج ذیل ہیں:
1۔زیارت کرنے والے مرد ہوں،عورتیں نہ ہوں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"قبروں کی کثرت سے زیارت کرنےو الی عورتوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔"[70]
2۔زیارت قبور کے لیے کسی دوسرے شہر کا سفر نہ کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
"تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ کی زیارت کے لیے درخت سفر نہ باندھا جائے۔"[71]
3۔زیارت قبور کا مقصد عبرت ونصیحت حاصل کرنا اور فوت شدہ کے لیے محض دعا کرناہو۔اگر مقصد قبروں سے تبرک کا حصول ہویا فوت شدگان سے حاجت روائی یامشکل کشائی کی درخواست کرناہوتو یہ زیارت نہ صرف بدعت ہے بلکہ شرک کا ارتکاب ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قبروں کی زیارت دو طرح کی ہے:شرعی اور بدعی۔زیارت شرعی کامقصد میت کو سلام کہنا اور(رخت سفر باندھے بغیر)نماز جنازہ کی طرح اس کے حق میں دعائیں کرنا ہوتا ہے،جب کہ زیارت بدعی کا مقصد میت سے اپنی حاجت طلب کرنا ہوتا ہےجو"شرک اکبر" ہے۔اگرکوئی کسی قبر یا صاحب قبر کودعا میں وسیلہ بناتا ہے تو یہ بدعت ہے اور ذریعہ شرک ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور نہ سلف صالحین اور ائمہ کرام نے اسے پسند واختیار کیاہے۔"[72]
[1]۔زاد المعاد 1/498۔بتصرف یسیر۔
[2]۔جامع التر الزھد باب ماجاء فی ذکر الموت حدیث 2307۔2460۔وسنن النسائی الجنائز باب کثرۃ ذکر الموت حدیث 1925وسنن ابن ماجہ الذکر باب الموت والا ستعداد لہ حدیث 4258۔ومسند احمد 2/292۔293۔
[3](ضعیف)جامع الترمذی صفۃ القیامۃ باب فی بیان ما یقضیہ الاستحیاء من اللہ حق الحیاء حدیث 2458وضعیف الجامع الصغیر وزیادتہ حدیث :805۔806۔
[4]۔الانبیاء 21۔83۔
[5]۔رواہ البخاری معلقا الاشربہ باب شراب الحلواوالعسل قبل حدیث 5641۔
[6]۔(ضعیف) الاسناد) سنن ابی داؤد الطب باب فی الویہ المکروھہ حدیث 3874۔
[7]۔صحیح مسلم الاشربہ باب تحریم التداوی بالخمروبیان لیست بدو ء حدیث 1984۔
[8]۔زاد المعاد4/144۔
[9]۔صحیح البخاری الجنائز باب الامر باتباع الجنائز حدیث 1240 وصحیح مسلم السلام باب من حق المسلم للمسلم ردالسلام حدیث 2162۔
[10]۔صحیح البخاری التوحید باب فی المشیۃ والا رادۃ حدیث 7470۔
[11]۔صحیح البخاری کتاب و باب الوصایا حدیث 2738۔وصحیح مسلم الوصیہ باب وصیہ الرجل مکتوبہ عندہ حدیث 1627۔
[12]۔صحیح البخاری التوحید باب قول اللہ تعالیٰ: "وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ" حدیث 7405۔وصحیح مسلم الذکر والدعاء والتوبہ باب فضل الذکر الدعاء حدیث 2675۔
[13]۔صحیح مسلم الجنائز باب تلقین الموتی لاالہ الا اللہ حدیث۔916۔
[14]۔سنن ابی داود الجنائز باب فی التلقین حدیث 3116۔
[15]۔(ضعیف) سنن ابی داؤد الجنائز باب القراء عند المیت حدیث 3121۔ وسنن ابن ماجہ الجنائز باب ماجاء فیما یقال عند المرض اذا حضر حدیث 1448۔
[16]۔قریب الوفات شخص کے پاس سورۃ یس پڑھنے والی روایت نہایت ضعیف ہے۔(صارم)
[17]۔صحیح مسلم الجنائز باب فی الغماض المیت والدعاء لہ اذا حضر حدیث920۔
[18]۔صحیح البخاری اللباس باب البرود والحبر والشملہ حدیث :5814۔
[19]۔(ضعیف) سنن ابی داؤد الجنائز باب تعجیل الجنائزۃ وکراھیۃ جسہا حدیث 3159۔
[20]۔المغنی والشرح الکبیر 2/310۔
[21]۔سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ تم قرآن مجید میں وصیت کا ذکر قرضے سے پہلے پڑھتے ہو لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فیصلہ میں قرض کو وصیت پر مقدم رکھا ہے ۔(جامع الترمذی الفرائض باب ماجاء فی میراث الاخوۃ حدیث 2094۔) اس روایت کی روشنی میں میت کے قرضے اس کی وصیت کے اجرا سے پہلے اداہوں گے۔ (صارم)
[22]۔جامع الترمذی الجنائز باب ماجاء ان نفس المؤمن معلقہ بدینہ حدیث 1078 ومسند احمد 2/440۔میت کا قرض زندہ لوگوں کو ادا کرنا چاہیے خواہ اقارب ہوں یا اجنبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقروض کا جنازہ پڑھنے سے انکار کیا تو ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی"اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اس کا جنازہ پڑھائیں اس کا قرض میں ادا کروں گا۔" (صحیح البخاری حدیث2289) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھایا۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمادیا تھا کہ:"وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَىَّ وَعَلَيّ""اگر کوئی مقروض فوت ہو جائے یا اس کے بیوی بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو تو میں اس کا قرض ادا کروں گا اور پس ماندگان کی کفالت کروں گا(سنن ابی داؤد حدیث 2054۔) لہٰذا قرض ادا کرنے کے لیے مال نہ چھوڑ کر فوت ہو اس کا قرض بیت المال سے ادا کرنا چاہیے یا محلے کےمسلمان اس کا قرض ادا کریں۔(صارم)
[23]۔صحیح البخاری الاستقراض باب من اخذ اموال الناس یرید اداء اداء ھا اؤابلافھا حدیث 2387۔
[24]۔صحیح البخاری الجنائز باب الکفن فی ثوبین حدیث1265۔وصحیح مسلم الحج باب مایفعل بالمحرم اذا مات؟ حدیث 1206۔
[25]۔(ضعیف) الموطا للامام مالک الجنائز باب غسل المیت حدیث3والمغنی والشرح الکبیر 2/308۔311۔وارواء الغلیل حدیث 696۔
[26]۔المستدرک للحاکم معرقہ الصحا بۃ 3/163۔164۔حدیث 4769۔
[27]۔المغنی والشرح 2/308۔قال الشیخ الالبانی لم اقف علی اسنادہ اروالغلیل حدیث 697۔
[28]۔المغنی والشرح الکبیر 2/313۔
[29]۔منار السبیل ص:147۔قال الشیخ الالبانی رحمۃ اللہ علیہ فی ارواء الغلیل 3/163۔لم اقف علیہ۔
[30]۔الممتحنہ60۔13۔
[31]۔التوبہ9/84۔
[32] ۔التوبہ:9/113۔
[33]۔الممتحنہ:60۔4۔
[34]۔المجادلہ:22۔48۔
[35]۔المغنی الکبیر2/324۔325۔
[36]۔مرد اور عورت کے کفن کے کپڑوں کا تین اور پانچ کا فرق صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے لہٰذا تین کپڑوں میں کفن دینا ہی مستحب ہے جن میں قمیص کا ذکر نہیں ہے۔
[37]۔صحیح البخاری الجنائز باب من انتظر حتی تدفین حدیث:1325۔وصحیح مسلم الجنائز باب فضل الصلاۃ علی الجنائز واتباعھا حدیث:945۔
[38]۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز جنازہ میں اونچی آواز دے دعائیں پڑھنا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا سن کر انھیں یاد کرنا احادیث سے ثابت ہے جیسے کہ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ میں ایک دعا پڑھی جو میں نے یاد کر لی اور میں نے تمنا کی: کاش !یہ میرا نماز جنازہ ہوتا۔(صحیح مسلم الجنائز باب الدعاء للمیت فی الصلاۃ حدیث:963۔)صارم)
[39]۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرف سلام پھیرنا بھی ثابت ہے جیسے السنن الکبری :4/43۔میں امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی احکام الجنائز ص:162۔164۔
[40]۔اگر میت مرد ہو تو اس کے سر کے بالمقابل کھڑے ہونا مسنون ہے دیکھیے احکام الجنائز للا لبانی ص:138۔(ع۔د)
[41]۔سنن ابی داؤد الجنائز باب الدعاء للمیت فی الصلاۃ حدیث3201۔وجامع الترمذی حدیث1024۔وسنن النسائی حدیث:1988 وسنن ابن ماجہ الجنائز باب ماجاء الجنائز الدعاء فی الصلاۃ حدیث1498۔واللفظ لہ
[42]صحیح مسلم الجنائز باب الدعاء للمیت فی الصلاۃ حدیث963۔
[43]۔صحیح مسلم الجنائز باب فی اغماض المیت والدعاء لہ اذا حضر حدیث920۔
[44]۔کلمہ"میت" اسم صفت ہے جس کا اطلاق مذکر مؤنث دونوں پر ہوتا ہے لہٰذا ضمائرہ کا بدلنا ضروری نہیں۔
[45]۔المغنی والشرح الکبیر 2/369۔
[46]۔السنن الکبری للبیہقی ابواب التکبیر علی الجنائز باب عدد التکبیر الجنائز باب الدعاء فی الصلاۃ حدیث4/35۔
[47]۔(ضعیف)سنن الدارقطنی الجنائز باب التسلیم فی الجنائزۃ واحد 2/71 حدیث1799والمستدرک للحاکم 1/360حدیث1332۔
[48]۔المغنی والشرح الکبیر 2/393۔حدیث میں ناتمام بچے (سقط) کے نماز جنازہ کی مشروعیت ثابت ہے۔ دیکھیے احکام الجنائز للالبانی ص:104(ع۔د)
[49]۔المرسلت:26۔25۔77۔
[50]۔عبس 2180۔
[51]صحیح البخاری الجنائز من انتظر حتی تدفین حدیث:1325۔وصحیح مسلم الجنائز باب فضل الصلاۃ علی الجنائز واتباعھا حدیث:945۔
[52]صحیح البخاری الجنائز باب السرعۃ بالجنازۃ حدیث 1315 وصحیح مسلم الجنائز باب الاسراع بالجنازۃ حدیث944۔
[53]۔صحیح البخاری الجنائز باب اتباع النساء الجنازۃ حدیث 1278۔
[54]۔سنن ابی داؤد الجنائز باب فی تعمیق القبر حدیث 3215۔وجامع الترمذی الجہاد باب ماجاء فی دمن الشہداء حدیث 1713۔
[55]۔سنن ابی داؤد الجنائز باب فی تعمیق القبر حدیث 3216۔
[56]۔جامع الترمذی الجنائز باب ماجاء ما یقول اذا ادخل المیت القبر؟حدیث1046۔وسنن ابی داؤد الجنائز باب فی الدعا للمیت اذا وضع فی قبرہ حدیث 3213ومسند احمد2/27۔
[57]۔سنن ابی داؤد الوصایا باب ماجاء فی الشدید فی اکل مال الیتیم حدیث 2875۔
[58]سنن ابی داؤد الجنائز باب الاستغفار عند القبر للمیت فی وقت الانصراف حدیث3221۔
[59]۔صحیح مسلم جامع الجنائز باب النھی عن تحصیص القبور والبناءعلیہا حدیث:970۔
[60]۔ جامع الترمذی الجنائز باب ماجاء فی کراھیہ تحصیص القبور والکتابہ علیہا حدیث:1052۔
[61]۔جامع الترمذی الجنائز وسنن ابن ماجہ الجنائز باب ماجاء فی النھی عن زیارۃ النساء القبور حدیث:1574۔1576۔
[62]۔صحیح البخاری الجنائز باب ماجاء فی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث:1390۔
[63]۔صحیح مسلم الجنائز باب النھی عن الجلوس علی القبر والصلاۃ علیہ حدیث:971۔
[64]۔حاشیہ ابن القیم 9/37۔
[65]۔(ضعیف) سنن ابن ماجہ الجنائز باب ماجاء فی ثواب من عزی مصابا حدیث 1601 وارواء الغلیل 3/216 حدیث 764۔
[66]۔جامع الترمذی الجنائز باب ماجاء فی الطعام یصنع لاھل المیت حدیث 998 ومسند احمد 1/205 ۔
[67]۔مسند احمد 2/204۔
[68]۔صحیح مسلم الجنائز باب استئذان النبی صلی اللہ علیہ وسلم ربہ عزوجل فی زیارۃ قبر امہ حدیث 977۔
[69]۔جامع الترمذی الجنائز باب ماجاء فی الرخصۃ فی زیارۃ القبور حدیث 1054۔
[70]۔السنن الکبریٰ للبیہقی 4/78 ومسند ابی داودالطیالسی حدیث 2478۔حدیث شریف میں واردمبالغے کا کلمہ ""کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو معنی حدیث یہ ہے کہ وہ عورت ملعون ہے جو کثرت سے قبرستان جاتی ہے(ہم نے ترجمہ حدیث میں اسی نکتہ کو پیش نظر رکھاہے)،البتہ کبھی کبھار جانے میں کوئی حرج نہیں جبکہ مقصد عبرت ونصیحت اورموت کی یاد دہانی ہو۔حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس مقصد کو حاصل کرنے کی تاکید کرتی ہے،جس کی عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ ضرورت ہے۔حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو قبرستان میں روتے دیکھا تو اسے صبر کرنے کی تلقین کی،اٹھ جانے کا نہیں کہا۔(صحیح البخاری حدیث 1252) سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیارت قبورکی دعا پوچھی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعا سکھائی۔(صحیح مسلم حدیث 974)
[71]۔صحیح البخاری کتاب وباب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ حدیث 1189 وصحیح مسلم الحج باب فضل المساجد الثلاثۃ حدیث 1397۔
[72]۔مجموع الفتاویٰ 24/326۔327 بتصرف یسیر۔