نماز عیدین کے احکام
نمازعیدین(عیدالفطر اورعیدالاضحیٰ) کتاب اللہ،سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت سے ثابت ہے۔مشرکین مختلف اوقات ومقامات میں مختلف تہوار مناتے تھے۔چنانچہ اسلام نے اسے ختم کرکے عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے تہوار مقرر کیے جن کا مقصد رمضان المبارک کے روزے اور بیت اللہ کے حج جیسی عظیم عبادات کی بجا آوری پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔
(1)۔صحیح احادیث میں مذکور ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ اہل مدینہ نے لہو ولعب کے لیے سال میں دو دن مقرر کیے ہوئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے ان کے عوض تمھیں دو بہتر دن عطا کیے ہیں جو عید الفطر اور عیدالاضحیٰ ہیں۔"[1]
ان دو عیدوں کےعلاوہ اور کسی عید کو ایجاد کرنے کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں جیسا کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ ہے جو سراسر اللہ تعالیٰ کے دین میں زیادتی ہے اوربدعت کااجرا ہے۔اس میں سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت ہے اور کفار سے مشابہت ہے۔اسے عید کہا جائے یا کسی انسان یا کسی واقعہ کی یاد میں دن منانا یاہفتہ یا سال منانا،اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ سب جاہلیت کے کام ہیں اور مغربی فرقوں کی تقلید ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ا رشاد ہے :
"جو شخص کسی قوم سے مشابہت کرے وہ انھی کافردہے۔"[2]
نیز فرمایا:
"سب سے اچھی بات اللہ کی کتاب ہے اور بہتر سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے اور سب سے برے کام بدعات ہیں اور ہربدعت گمراہی ہے۔"[3]
ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھائے اور اس کے اتباع کی توفیق دے اور باطل کو باطل کی شکل میں دکھائے اور اس سے اجتناب کی ہمت دے۔
عید کے معنی"لوٹ کرآنا"ہے۔عید کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ باربار ہرسال لوٹ کر آتی ہے،سروراور فرحت لاتی ہے،نیز اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر(روزے یا حج کے نتیجے میں) اپنا فضل واحسان کرتا ہے۔
(2)۔نماز عید کی مشروعیت پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
"پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔"
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"بے شک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا اور جس نے اپنے رب کا نام یادرکھا اور نماز پڑھتا رہا۔"[4]
علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمل پر مداومت فرمائی ہے۔
(3)۔نماز عید میں شرکت کی تاکید اس قدر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں خواتین کو حاضر ہونے کا حکم دیا ہے،لہذا عورت کے لیے مناسب یہ ہے کہ جب وہ نماز عید کے لیے گھر سے نکلے تو خوشبو نہ لگائے،سامان زینت کے استعمال سے اجتناب کرے،شہرت کے لیے لباس نہ پہنے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"عورتیں سادگی سے نکلیں۔"[5] مردوں سے الگ رہیں اور حیض والی عورتیں نماز گاہ سے دوررہیں،البتہ دعا میں ضرور شریک ہوں۔"[6]
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:" ہمیں حکم ہوتا کہ عید کے روز باہر(عید گاہ کی طرف) نکلیں۔کنواری لڑکیاں بھی وہاں پہنچیں،حتیٰ کہ حیض والی عورتیں بھی عید گاہ جائیں لیکن وہ پیچھے رہیں۔لوگوں کے ساتھ تکبیریں بھی کہیں اور دعا میں شریک ہوں۔اس دن کی برکت وبخشش کی امید رکھیں۔"[7]
(4)۔نماز عید کی ادائیگی کے لیے یوں سب کا مل جل کر نکلنا ،اس میں شعار اسلام کا اظہار ہے اور یہ دین اسلام کا ظاہری مظہر ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی عید(عیدالفطر) ہجرت کے دوسرے سال پڑھائی تھی،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے مسلسل پڑھاتے رہے حتیٰ کہ اس جہان فانی سے رحلت فرماگئے۔بعد میں مسلمانوں کاتواتر کے ساتھ اس پر عمل رہا ہے۔اگر کسی شہر کے لوگ نماز عید کو(اس کی شرائط کےمطابق) ادا کرنا چھوڑدیں تو امیروخلیفہ پر لازم ہے کہ ان کے خلاف جنگ کرے یہ اذان کی طرح دین اسلام کی ظاہری علامات میں سے ایک علامت ہے۔
(5)۔نماز عید شہر کے قریب کھلے میدان میں ادا کرنی چاہیے۔سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے باہرنکل کر کھلی جگہ میں عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کرتے تھے۔"[8]
چنانچہ کسی روایت میں نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عذر کے بغیر مسجد میں نماز عیداداکی ہو۔کھلے میدان میں جانے سے اسلام اور اہل اسلام کا رعب طاری ہوتا ہے۔دین کے شعائر کا اظہار ہوتا ہے۔پھر سال میں ایسے صرف دوہی تو اجتماع ہوتے ہیں(بخلاف جمعۃ المبارک کے اجتماع کے) اس لیے اس میں کوئی مشکل بھی نہیں،البتہ جہاں مجبوری ہووہاں مسجد میں نماز عید ادا کرناجائز ہے،جیسے مکہ مکرمہ وغیرہ میں۔
(6)۔نمازعید کاابتدائی وقت تب شروع ہوتا ہے جب سورج ایک نیزہ کی مقدار بلند ہوجائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت عید کی نماز ادا کرتے تھے۔[9]اور آخری وقت زوال آفتاب تک ہے۔
(7)۔اگرزوال کے بعد عید کاعلم ہواتو اگلےدن اس کی قضادی جائے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین فرماتے ہیں ایک مرتبہ بادلوں کی وجہ سے ہم شوال کا چاند نہ دیکھ سکے تو ہم نے روزہ رکھ لیا۔دن کےآخری حصے میں ایک قافلہ آیاتو انھوں نے گواہی دی کہ ہم نے گزشتہ رات چاند دیکھا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ آج کارکھا ہوا روزہ ختم کردیں اور کل صبح عید گاہ کی طرف نکلیں۔[10]
اگر نماز عید زوال آفتاب کے بعد ادا کرنا درست ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اگلے دن کےلیے مؤخر نہ کرتے۔
علاوہ ازیں عید کااجتماع ایک بہت بڑااجتماع عام ہوتا ہے۔اس لیے اس کی تیاری کے لیے مناسب وقت دینا چاہیے۔
(8)۔عید الاضحیٰ کی نماز کو جلدی ادا کرنا اور عید الفطر کی نماز میں قدرے تاخیرکرنا مسنون ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے مرسلاً روایت بیان کی ہے:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف لکھاتھا کہ عید الاضحیٰ میں جلدی کرنا اور عید الفطر میں تاخیرکرنا اور لوگوں کو پندونصیحت کرنا۔"[11]
نماز عید الاضحیٰ جلدی ادا کرنے میں یہ حکمت ہے کہ لوگوں کوقربانی کرنے کے لیے زیادہ وقت مل جائے۔اورعیدالفطر میں تاخیر کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ صدقۃ الفطر کے لیے زیادہ وقت نکل آئے۔
(9)۔مسنون یہ ہے کہ نماز عیدالفطر کے لیے نکلنے سے پہلے کھجوریں کھائی جائیں جب کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر نماز سےفارغ ہوکر کچھ کھایا جائے۔سیدنا بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے روز کچھ کھاکر نماز کے لیے نکلتے تھے اور عیدالاضحیٰ کے روز نماز ادا کرنے کے بعد کھایا کرتے تھے۔"[12]
شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اللہ تعالیٰ نے نماز کوقربانی سے مقدم رکھاہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔"[13] اور تزکیہ کو نمازسے مقدم رکھا ہے۔
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"بے شک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا اور جس نے اپنے رب کا نام یادرکھا اور نماز پڑھتا رہا۔"[14]
بنا بریں صورت یہ ہے کہ صدقۃ الفطر(عیدالفطرمیں) نماز سے پہلے ادا کیا جائے اور عید الاضحیٰ میں نماز کے بعد جانور ذبح کیا جائے۔"[15]
(1)۔نماز کے لیے صبح جلدی عید گاہ جانا چاہیے تاکہ امام کے قریب جگہ مل سکے اور نماز کے انتظار کی فضیلت اور اس کا ثواب حاصل ہو۔
(2)۔نماز عید کے لیے ہرمسلمان اچھے سے اچھے کپڑے پہنے۔سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کپڑوں کا ایک خوبصورت جوڑا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ اورعید کےروز پہنتے تھے۔"[16]
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کے موقع پر اچھے کپڑے پہنتے تھے۔
(3)۔نماز جمعہ کی طرح عید کی نماز بھی مقیم لوگوں کے لیے ہے۔مسافر پر نماز عید لازم نہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے ایام میں (میدان منیٰ) میں عید کادن آیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سفر کی وجہ سے)نماز عیدادا نہیں کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےخلفاء رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی اسی طرح کیا تھا۔
(4)۔نمازعید کی دو رکعتیں ہیں جو خطبے سے پہلے ادا کی جاتی ہیں۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدناابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اورعثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ عید کی نماز پڑھی،یہ سب حضرات نماز خطبے سے پہلے پڑھتے تھے۔"[17]
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور بعد کے اہل علم کایہی طریقہ تواتر سے چلا آرہا ہے کہ عیدین کی نماز خطبے سے پہلے ہے۔[18]
نماز عید میں خطبے کا بعد میں ہونے اور نماز جمعہ میں خطبے کا پہلے ہونے میں شاید حکمت یہ ہے کہ خطبہ جمعہ نماز کی شرط ہے اور شرط مشروط سے مقدم ہوتی ہے۔جب کی عیدین میں خطبہ شرط نہیں بلکہ سنت ہے۔
(5)۔اہل اسلام کااس امر پر اجماع ہے کہ عیدین کی نماز دورکعتیں ہیں۔سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نکلے تو آپ نے صرف دورکعتیں نماز ادا کی،پہلے اور بعد میں کوئی نفل نہیں پڑھے۔"[19]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"عید الاضحیٰ اور عیدالفطر کی نماز دو،دورکعتوں پر مشتمل ہے۔۔۔یہ مکمل نماز ہے قصر نہیں۔یہ بات(تمہارے نبی)محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔"[20]
"وہ شخص نامراد ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراباندھا۔"[21]
(6)۔نماز عید سے قبل اذان ہے نہ اقامت ،چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ متعدد مرتبہ نماز عید ادا کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے پہلے نماز پڑھائی جس کے لیے اذان کہی نہ اقامت ۔"[22]
(7)۔پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ اوردعائے استفتاح کے بعد سات تکبیریں کہی جائیں،البتہ تکبیر تحریمہ رکن ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔باقی تکبیرات مسنون ہیں۔پھرتعوذ پڑھے کیونکہ تعوذ قراءت قرآن کے لیے ہے،اس کے بعدقراءت کی جائے۔
(8)۔دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے(تکبیر انتقال کے علاوہ) پانچ تکبیریں کہی جائیں۔سیدناعبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید میں (زائد) بارہ تکبیریں کہی تھیں۔سات پہلی رکعت میں اور پانچ دوسری رکعت میں۔"[23]
تکبیرات عید کی تعداد اور بھی روایات ہیں،چنانچہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں تکبیرات کی تعداد کے بارے میں اختلاف رہا ہے،لہذا ہرصورت جائز ہے۔
(9)۔ہرتکبیر کے ساتھ رفع الیدین کی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کیا کرتے تھے۔
(10)۔ہردو تکبیروں کے درمیان یہ کلمات پڑھے جائیں:
"سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ عید کی تکبیرات کے دوران میں کیا پڑھناچاہیے؟تو انھوں نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف پڑھیے۔[24]
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصدیق کی ہے۔
الغرض!تکبیرات کے درمیان کوئی اور کلمات بھی پڑھے جاسکتے ہیں کیونکہ کسی روایت میں ذکر کی تعین نہیں کی گئی۔[25]
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیرات کے درمیان معمولی سا سکتہ کیا کرتے تھے لیکن آپ سے تکبیرات کے درمیان کوئی معین ذکر ثابت نہیں۔"[26]
(10)۔اگر تکبیرات کی تعدادمیں شک پڑجائے تو کم عدد کو شمار کرے،مثلاً:اگرشک ہوکہ تین تکبیریں کہی گئی ہیں یا چار تو تین سمجھ لے کیونکہ کم عدد یقینی ہے۔
(11)۔اگر کوئی عید کی تکبیرات کہنا بھول گیا حتیٰ کہ اس نے قراءت شروع کردی تو قراءت جاری رکھے کیونکہ یہ تکبیرات سنت تھیں اب ان کا موقع گزرگیا ہے۔
(12)۔اگر کوئی شخص نماز عید میں تب شامل ہوا جب امام کی قراءت ہورہی تھی تووہ تکبیر تحریمہ کہہ کر شامل ہوجائے اور عید کی زائد تکبیریں(اکیلا) نہ کہے۔یا کوئی شخص امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہواتو وہ بھی تکبیر تحریمہ کہے اور رکوع میں چلاجائے زائد تکبیریں کہنے میں مشغول نہ ہو۔
(13)۔نماز عید کی دورکعتیں ہیں۔امام ان میں بآواز بلند قراءت کرے کیونکہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اوراستسقاء کی نماز میں بآواز بلند قراءت کرتےتھے۔"[27]
اس پر علماء کا اجماع ہے اور اسی پر سلف کا عمل چلا آرہا ہے۔
(14)۔امام نماز عید کی پہلی رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعدسورۃ الاعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورۃ الغاشیہ پڑھے۔
حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾ اور دوسری میں﴿هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ﴾ تلاوت کیاکرتے تھے۔"[28]
پہلی رکعت میں سورہ ق اور دوسری رکعت میں سورہ قمر کی تلاوت کرسکتا ہے جیسے کہ صحیح مسلم وغیرہ میں ہے۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت میں سورہ ق اور دوسری رکعت میں سورہ قمر کی قراءت کرتے تھے۔"[29]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"امام نماز عید میں قرآن مجید کے کسی بھی حصے کی قراءت کرلے تو جائز ہے۔لیکن اگر سورہ ق اور سورہ قمر(یا دیگر مسنون سورتوں) کی قراءت کرے تو بہتر ہے۔"[30]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے بڑے اجتماعات کے موقع پر ایسی سورتیں پڑھا کرتے تھے جن میں توحید،امرونہی،دنیاوآخرت اور سابقہ انبیاء کا تذکرہ ہوتا یاجن سورتوں میں سابقہ امتوں کا بیان ہوتا جن پر اللہ تعالیٰ نے ان کےکفر وکذب کی وجہ سے عذاب نازل کیا اور انھیں تباہ وبرباد کیا تھا۔یاجو انبیاء پر ایمان لا کرنجات اور عافیت پاگئےتھے۔
(15)۔نماز سے فارغ ہوکر امام عید کے دو خطبے دے،دونوں کےدرمیان بیٹھے۔عبداللہ بن عبیداللہ بن عتبہ سے روایت ہے:
"سنت یہ ہے کہ امام عیدین کے دو خطبے دے اور دونوں کے درمیان بیٹھ کر فرق کرے۔"[31]
سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا،پھر تھوڑی دیر بیٹھ گئے،پھر کھڑے ہوگئے۔"[32]
صحیح بخاری ومسلم میں ہے:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے پہلے بغیر اذان اور بغیر اقامت کے نماز پڑھائی،پھر سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا،تقویٰ کا حکم دیا اور اطاعت کرنے کی تلقین کی۔"[33]
عید الفطر کے خطبے میں امام کو چاہیے کہ وہ صدقۃ الفطر ادا کرنے کی طرف توجہ دلائے،اس کے احکام،اس کی مقدار،اس کا وقت اورجنس کی انواع کے مسائل سے آگاہ کرے۔جب کہ عیدالاضحیٰ کے خطبہ میں قربانی کے مسائل واحکام بتائے جائیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحیٰ کے خطبے میں اکثر یہی مسائل بیان کیا کرتے تھے۔علاوہ ازیں خطباء کو چاہیے کہ اس قسم کے عظیم اجتماع میں تقویٰ اور وعظ ونصیحت کے ساتھ ساتھ حالات وواقعات کی مناسبت سے گفتگو کریں جس میں لوگوں کی راہنمائی ہو،غافل کو تنبیہ ہو اور جاہل کو دینی مسائل کا علم ہو۔
(16)۔عید گاہ میں عورتوں کو بھی حاضر ہونا چاہیے جیسا کہ پہلے بیان ہوچکاہے۔خطیب کو چاہیے کہ خطبہ عید میں عورتوں سے بھی مخاطب ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب محسوس کیا کہ خواتین تک میری آواز پہنچ نہیں سکے گی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مجمع میں چلے گئے،انھیں وعظ ونصیحت کی اور صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی۔اس واقعہ سے ثابت ہواکہ خطبہ عید کا کچھ حصہ خواتین کے لیے بھی مخصوص ہوناچاہیے کیونکہ انھیں اس کی اشد ضرورت ہے۔اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع بھی ہے۔
(17)۔نماز عید کے احکام میں یہ بھی ہے کہ عید گاہ میں نماز باجماعت سے پہلے یا بعد میں نفل نماز ادا کرنا مکروہ ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نکلے تو آپ نے صرف دورکعتیں نماز ادا کی،پہلے اور بعد میں کوئی نفل نہیں پڑھے۔"[34]
عيد نماز سے پہلے یابعد میں نفل نہ پڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے ہے کہ لوگ یہ نہ سمجھنا شروع کردیں کہ اس نماز کی بھی سنتیں ہوتی ہیں۔
امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" میں نے کسی بھی صاحب علم سے نہیں سنا کہ اسلاف میں سے کوئی بھی نماز عید سے پہلے یابعد میں نفل ادا کرتا ہواور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عید سے قبل نماز سے منع کرتے تھے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اہل مدینہ نماز عید سے پہلے یا بعد میں کوئی نفل نہیں پڑھتے تھے(جبکہ اہل بصرہ پڑھتے تھے)۔"[35]
(18)۔گھر لوٹ کرنفل نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،مسند احمد وغیرہ میں ہے:"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر لوٹتے تھے تو دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔"[36]
(19)۔اگر کسی شخص کی نمازعید نکل گئی یا نماز کا آخری کچھ حصہ ملا تو وہ دورکعتیں زائد(بارہ) تکبیرات کے ساتھ ادا کرے کیونکہ قضا اداکے مطابق ہونی چاہیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد:
" نماز کا جوحصہ(امام کے ساتھ) مل جائے پڑھ لو اور جوحصہ رہ جائے بعد میں پورا کرلو۔"[37]
میں عموم ہے ۔اسی طرح جس کی ایک رکعت رہ جائے وہ ایک رکعت اور پڑھ لے۔اگر کوئی شخص خطبہ عید کے دوران میں آئے تو وہ اولاً بیٹھ جائے اور خاموشی سے خطبہ سنے،پھر خطبہ کے بعد دورکعتیں پڑھ لے۔اگر زیادہ افراد ہوں تو باجماعت پڑھیں ورنہ اکیلا ہی پڑھ لے۔
(20)۔عیدین میں کوئی جس قدر چاہے تکبیریں پڑھے کوئی وقت کی پابندی نہیں۔مردبلند آواز سے تکبیریں کہیں جب کہ عورتیں اپنی آواز پست رکھیں۔عیدین کی راتوں میں اور ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں بھی تکبیریں کہی جائیں۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"تاکہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔"[38]
گھروں ،بازاروں،مساجد اور ہر مناسب جگہ پر اور عید گاہ جاتے وقت کثرت سے تکبیریں بلندآواز سے پڑھی جائیں۔سنن دارقطنی وغیرہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب عیدالاضحیٰ یا عید الفطر کا دن ہوتو تو آپ صبح سویرے تکبریں پڑھتے ہوئے نکلتے،عید گاہ آنے تک بآواز بلند تکبیریں کہتے رہتے حتیٰ کہ نمازکے لیے امام آجاتا۔[39]
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدہ ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے:
"ہمیں حکم ہوتا کہ ہم عید کے دن نکلیں۔۔۔یہاں تک کہ حیض والی عورتوں کو بھی عید گاہ لائیں اور وہ (خواتین) مردوں کےپیچھے رہیں اور ان کی طرح تکبیریں کہیں۔"[40]
شعائر اسلام کے اظہار کی خاطر تکبیر بلند آواز سے کہنا مستحب ہے۔
عیدالفطر کے دن تکبیریں کہنے کی نہایت تاکید ہے کیونکہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:
"تاکہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔"[41]
(21)۔عید الاضحیٰ کے موقع پر باجماعت فرض نماز ادا کرنے کے بعد امام اورمقتدی بآواز بلند تکبیریں پڑھیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کے روز(9ذوالحجہ) کو جب صبح کی نماز ادا کرتے تو اپنے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی طرف متوجہ ہوتے اور کہتے:
فرض نماز کے بعد تکبیرات غیرحاجی کے لیے نویں ذوالحجہ کی فجر سے لے کر ایام تشریق تیرہویں ذوالحجہ کی عصر تک ہیں۔حاجی کے لیے یہ تکبیریں یوم النحر(عیدکے دن)کی ظر سے ایام تشریق(تیرہویں ذوالحجہ) کی عصرتک ہیں کیونکہ یوم النحر سے پہلے وہ تلبیہ میں مصروف ہوتا ہے۔
امام دارقطنی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں:
"رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عرفہ کی صبح سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی عصر تک جب فرض نماز کے بعدسلام پھیرتے تو تکبیریں پڑھتے تھے۔"[43]
ایک اور روایت میں ہے:
"رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفہ کی صبح کو نماز پڑھاتے،پھر ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوکرفرماتے:"اپنی جگہ پر بیٹھے رہو۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہنی شروع کرتے: "اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ"[44]
اور اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اور گنتی کے چند دنوں میں تم اللہ کو یاد کرو۔"[45]
ان ایام سے مراد"ایام تشریق" ہیں۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" یہی بات راجح ہے اور اسی پر مسلمانوں کاعمل رہا ہے۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"تکبیرات کے بارے زیادہ درست قول یہی ہے کہ یوم عرفہ کی فجر سے لے کر آخر ایام تشریق(تیرہ ذوالحجہ) کی عصر تک ہرفرض نماز کے بعد تکبیریں کہی جائیں۔جمہور سلف اور فقہاء صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کا یہی موقف ہے۔[46]
سنن میں روایت ہے:"یوم عرفہ،یوم النحر اور منیٰ کے ایام ہمارے اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔[47]"اور ایک روایت کے لفظ ہیں:"اللہ کے ذکر کےدن ہیں۔"[48]
اورمُحرم آدمی یوم النحر کی ظہر کے بعد یہ تکبیریں کہےگا کیونکہ تلبیہ جمرہ عقبہ کی رمی کےبعد ختم ہوتا ہے،جبکہ رمی کامسنون وقت چاشت کا وقت ہوتا ہے تو محرم اس وقت میں حلال آدمی کی طرح ہے۔اگر فجر سے قبل جمرہ عقبہ کی رمی کردی تو بھی وہ ظہر کے بعد تکبیرات کہنا شروع کرے کیونکہ اکثر لوگوں کاعمل یہی ہے کہ وہ رمی چاشت کے وقت کرتے ہیں اور تکبیرات ظہر ک بعدکہتے ہیں۔
(22)۔عید سے فراغت کے بعد ایک دوسرے کو مبارک بادکہنے میں کوئی حرج نہیں۔اس روز مسلمان بھائی سے ملاقات کرتے وقت یہ کلمات کہنے مناسب ہیں:
"اللہ تعالیٰ ہمارا اور تمہارا عمل قبول کرے۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت سے مبارکبادکا عمل ثابت ہے۔اسی لیے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی رخصت دی ہے۔"[49]
مبارک باد کامقصد پیارومحبت اور خوشی کا اظہار ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں مبارک دینے میں پہل نہیں کرتا،البتہ اگر کوئی مبارک دے تو اسے جواب دے دیتا ہوں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے جب کہ مبارک باد کی ابتدا کرنا ایسی سنت نہیں جس کاحکم ہو اور نہ ہی یہ منع ہے۔"[50]
(23)۔مبارک دیتے وقت مصافحہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
[1]۔سنن النسائی صلاۃ العیدین حدیث 1557 ومسند احمد 3/103۔
[2]۔ سنن ابی داود اللباس باب فی لباس الشھرۃ حدیث 4031۔
[3]۔صحیح البخاری الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 7277 وصحیح مسلم الجمعۃ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ حدیث 867 واللفظ لہ۔
[4]۔الاعلیٰ 87/14۔15۔
[5]۔سنن ابی داود باب ماجاء فی خروج النساء الی المسجد حدیث 565۔
[6]۔صحیح البخاری الحیض باب شھود الحائض العیدین ودعوۃ المسلمین ویعتزلن المصلی حدیث 324 وصحیح مسلم العیدین باب ذکر اباحۃ خروج النساء فی العیدین الی المصلی حدیث 890۔
[7]۔صحیح البخاری الحیض باب شھود الحائض العیدین،حدیث 324۔
[8]۔صحیح البخاری العیدین باب الخروج الی المصلی بغیر منبر حدیث 956 وصحیح مسلم العیدین باب صلاۃ العیدین حدیث 889۔
[9]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب وقت الخروج الی العید حدیث 1135 وتلخیص الجیر 2/83۔
[10]۔مسند احمد 5/75 وسنن ابی داود الصلاۃ باب اذ لم یخرج الامام للعید من یومہ یخرج من الغد حدیث 1157۔
[11]۔(الضعیف جدا) کتاب الام للامام الشافعی العیدین باب وقت الغدو الی العیدین حدیث 457 وارواء الغلیل حدیث 633۔
[12]۔مسند احمد 5/352۔
[13]۔ (الکوثر 2/108)
[14]۔الاعلیٰ 87/14۔15۔
[15]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ بتصرف 24/222۔
[16]۔(ضعیف) صحیح ابن خزیمۃ جماع ابواب الطیب والتسوک واللبس للجمعۃ باب استحباب لبس الجبۃ فی الجمعۃ حدیث 1766 وسلسلۃ الاحادیث الضعیفہ حدیث 2455۔
[17]۔صحیح البخاری العیدین باب الخطبۃ بعدالعید حدیث 962 وصحیح مسلم کتاب وباب صلاۃ العیدین حدیث 884۔
[18]۔جامع الترمذی العیدین باب ماجاء فی صلاۃ العیدین قبل الخطبۃ تحت حدیث 531۔
[19]۔صحیح البخاری العیدین باب الصلاۃ قبل العید وبعدھا حدیث 989 وصحیح مسلم صلاۃ العیدین باب ترک الصلاۃ قبل العید وبعدھا فی المصلی حدیث 884۔
[20] ۔مسند احمد:1/37۔
[21]۔مسند احمد 1/91 عن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔
[22]۔ صحیح مسلم کتاب وباب صلاۃ العیدین حدیث 885۔887۔
[23]۔مسند احمد 2/180۔
[24]۔ارواء الغلیل 3/114۔حدیث 642۔
[25]۔(ضعیف) السنن الکبریٰ للبیہقی صلاۃ العیدین باب یاتی بدعاء الافتتاح عقیب تکبیرۃ الافتتاح 3/291۔
[26]۔ذاد المعاد 1/443۔امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی بات ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔(صارم)۔
[27]۔(ضعیف) سنن الدارقطنی کتاب الاستسقاء 2/66 حدیث 1785 وارواء الغلیل حدیث 643۔
[28]۔سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب ماجاء فی القراءۃ فی صلاۃ العیدین حدیث 1283 ومسند احمد 5/14۔
[29]۔صحیح مسلم صلاۃ العیدین باب ما یقراء فی صلاۃ العیدین حدیث 891 وسنن ابی داود الصلاۃ باب مایقراء فی الاضحیٰ والفطر حدیث 1154۔
[30]۔مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ 24/219۔
[31]۔(ضعیف) کتاب الام صلاۃ العیدین الفصل بین الخطبتین حدیث 495 والسنن الکبریٰ للبیہقی باب جلوس الامام حین یطلع علی المنبر 3/299دیکھئے (نصب الرایۃ:2/221)۔
[32]۔(منکر) سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب ماجاء فی الخطبۃ فی العیدین حدیث 1289 صحیح یہی ہے کہ نماز عید میں ایک خطبہ ثابت ہے،دو خطبے ثابت نہیں۔دیکھئے فتاوی الدین الخالص6/ 301۔(ع۔و)
[33]۔صحیح البخاری العیدین باب المشئی والرکوب الی العید والصلاۃ قبل الخطبۃ وبغیر اذان ولااقامۃ حدیث 958 وصحیح مسلم کتاب وباب صلاۃ العیدین حدیث 885 واللفظ لہ۔
[34]۔صحیح البخاری العیدین باب الصلاۃ قبل العید وبعدھا حدیث 989 وصحیح مسلم صلاۃ العیدین باب ترک الصلاۃ قبل العید وبعدھا فی المصلی حدیث 884۔
[35]۔المغنی والشرح الکبیر 2/242۔
[36]۔مسند احمد 3/28۔40۔وسنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب ماجاء فی الصلاۃ قبل صلاۃ العید وبعدھا حدیث 1293۔
[37]۔صحیح البخاری الاذان باب قول الرجل فاتتنا الصلاۃ حدیث 635 ۔
[38]۔البقرۃ:2/185۔
[39]۔سنن الدارقطنی العیدین 2/44۔حدیث 1700۔
[40]۔صحیح البخاری العیدین باب التکبیر ایام منی واذا غداالی عرفۃحدیث 971 وصحیح مسلم صلاۃ العیدین باب ذکر اباحۃ خروج النساء فی العیدین الی المصلی۔حدیث 890۔
[41]۔البقرۃ:2/185۔
[42]۔(ضعیف) سنن الدارقطنی العیدین 2/49 حدیث 1721۔
[43]۔(ضعیف) سنن الدارقطنی العیدین 2/48 حدیث 1719۔
[44]۔(ضعیف) سنن الدارقطنی العیدین 2/49 حدیث 1721۔
[45]۔البقرۃ:2/203۔
[46]۔مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ 24/220۔
[47]۔جامع الترمذی الصوم باب ماجاء فی کراھیۃ صوم ایام التشریق حدیث 773 وسنن ابی داود الصیام باب صیام ایام التشریق حدیث 2419 وسنن النسائی المناسک باب النھی عن صوم یوم عرفۃ حدیث 3007۔
[48]۔سنن ابی داود الضحایا باب حبس لحوم الاضاحی حدیث 2813۔
[49]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 24/253۔
[50]۔مجموع الفتاویٰ 24/253۔