سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(33) نماز جمعہ کے احکام

  • 23708
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 7205

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جمعہ کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمعہ کے معنی"اکھٹا ہونے"کے ہیں۔چونکہ اس روز مساجد میں بہت سے لوگ جمع اور اکھٹے ہوتے ہیں،اس لیے اس  روز کو"جمعہ"کہتے ہیں۔یہ دن سات دنوں میں سب سے افضل دن ہے،چنانچہ ایک روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ"

"جمعۃ المبارک کادن تمہارے دنوں میں سے افضل دن ہے۔"[1]

نیز فرمایا:

"نَحْنُ الْآخِرُونَ، وَنَحْنُ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْدَ أَنَّ كُلَّ أُمَّةٍ أُوتِيَتِ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ، ثُمَّ هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي كَتَبَهُ اللهُ عَلَيْنَا، هَدَانَا اللهُ لَهُ، فَالنَّاسُ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ"

"ہم(دنیامیں)آخر میں آئے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے،باوجود یہ کہ یہود ونصاریٰ کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی۔یہ دن(جمعہ) اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض کیا لیکن انھوں نے اختلاف کرتے ہوئے اسے  قبول نہ کیا۔اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہماری راہنمائی کی(توہم نے قبول کرلیا)،لہذا یہ لوگ اس دن کی وجہ سے ہم سے پیچھے ہیں۔"[2]

نیز صحیح مسلم میں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَضَلَّ اللَّهُ عَنْ الْجُمُعَةِ مَنْ كَانَ قَبْلَنَا ، فَكَانَ لِلْيَهُودِ يَوْمُ السَّبْتِ ، وَكَانَ لِلنَّصَارَى يَوْمُ الأَحَدِ ، فَجَاءَ اللَّهُ بِنَا فَهَدَانَا اللَّهُ لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ"

"اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے لوگوں(یہودونصاریٰ) کو جمعہ کے بارے میں(اختلاف کرنے کی وجہ سے) راہ راست پر نہ رکھا،تب یہود کے لیے ہفتہ کا دن مقررہوا اور عیسائیوں کے لیے اتوار کا دن متعین ہواجب اللہ تعالیٰ ہمیں لایا تو ہمیں جمعہ کے دن کی راہنمائی فرمائی۔"[3]

اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے روز مسلمانوں پر یہ اجتماع اس لیے مقرر کیا تاکہ لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے جو عظیم انعامات ہیں ان سے آگاہ ہوں اور پھر اس روز"خطبہ"مقرر فرمایا تاکہ لوگوں کو ان انعامات کی یاددہانی کروائی جائے اور انھیں ان  انعامات کا شکریہ ادا کرنے کی رغبت دلائی جائے۔اور اسی طرح دن کے وسط میں نماز جمعہ فرض کی تاکہ ایک شہر کے لوگ ایک  جگہ عظیم اجتماع کی شکل میں اکھٹے ہوسکیں۔

اللہ رب العزت نے اہل ایمان کو اس اجتماع میں حاضر ہونے خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نودِىَ لِلصَّلو‌ٰةِ مِن يَومِ الجُمُعَةِ فَاسعَوا إِلىٰ ذِكرِ اللَّهِ وَذَرُوا البَيعَ ذ‌ٰلِكُم خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ ﴿٩﴾... سورة الجمعة

"اے وہ لوگوجو ایمان لائےہو!جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدوفروخت چھوڑدو۔یہ تمہارے حق میں بہت سی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔"[4]

علامہ ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"جمعہ کے دن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ا اسوہ حسنہ یہ ہے کہ اس کی عظمت کا احساس کرتے ہوئے اسے سب سے افضل دن تسلیم کیا جائے۔اور اس دن اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ خاص عبادات(نماز جمعہ وغیرہ) ادا کی جائیں۔اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا جمعہ کا دن افضل ہے یا عرفہ کا دن؟اس میں دو قول ہیں اور وہ دونوں ہی امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگردوں کے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس روز فجر کی نماز میں سورہ سجدہ اور سورہ دہر کی قراءت کیا کرتے تھے۔"[5]

آگے چل کر امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"میں نےشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کو کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورہ سجدہ اور سورہ دہر کو اس لیے پڑھتے تھے کہ جمعہ کے روز جو ہوا یاہوگا اس کا ذکر ان سورتوں میں ہے۔یعنی اس میں تخلیق آدم،قیامت اور حشرونشر کا بیان ہے اور یہ جمعہ کے دن ہوگا،لہذا ان کی تلاوت سے امت کو ان عظیم واقعات پر تذکیر وتنبیہ ہوجاتی ہے۔"[6]

(1)۔یوم جمعہ کی درج ذیل خصوصیات ہیں:

1۔جمعہ کی رات اوردن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر کثرت سے درود شریف پڑھنا مستحب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةَ الْجُمُعَةِ"

"جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو۔"[7]

2۔جمعہ کے دن ایک اہم خصوصیت یہ ہےکہ اس روز ایک ایسی نماز مقرر کی گئی ہے کہ فرائض اسلام میں اس کی بہت تاکید ہے اور مسلمانوں کے اسلامی اجتماعات میں اس کی بہت اہمیت ہے جو شخص سستی سے اسے چھوڑدےگا،اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر ثبت کردےگا۔

3۔جمعہ کے روز غسل کرنا سنت مؤکدہ ہے جب کہ بعض علماء کے ہاں مطلقاً واجب ہے(اور یہی راجح ہے) اور بعض علماء کے نزدیک اس شخص پر واجب ہے جس کے کپڑوں یا بدن سے بدبوآرہی ہو۔

4۔جمعہ کے روز خوشبو کا استعمال مستحب ہے اور دوسرے دنوں میں خوشبو استعمال کرنے کی نسبت زیادہ ثواب ہے۔

5۔یہ بھی مستحب ہے کہ جمعہ کے روز ادائیگی جمعہ کے لیے مسجد میں جلدی  پہنچاجائے تاکہ خطبہ کے لیے امام کے نکلنے سے پہلے پہلے زیادہ سے زیادہ نوافل ،ذکر اورتلاوت قرآن مجید کی جاسکے۔

6۔خطبہ سننے والے شخص پر لازم ہے کہ خاموشی اختیار کرے۔اگر اس نے خاموشی کو توڑا تو اس نے لغو کا ارتکاب کیا،ایسے شخص کا جمعہ ہی نہیں ہوتا،لہذا بوقت خطبہ کسی سے کلام کرنا حرام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"مَنْ تَكَلَّمَ يَوْمَ اَلْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَهُوَ كَمَثَلِ اَلْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا, وَاَلَّذِي يَقُولُ لَهُ: أَنْصِتْ, لَيْسَتْ لَهُ جُمْعَةٌ "

"امام جب خطبہ دے رہا ہوتو جوکوئی گفتگو کرے تو وہ گدھے کی مانند ہے جس پر کتابوں کابوجھ لدا ہوا ہو (جس کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا) اور جس نے اس(گفتگو کرنے والے) کو خاموش رہنے کا کہا تو اس کا بھی جمعہ نہیں۔"[8]

7۔جمعۃ المبارک کے دن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس روز"سورہ کہف" پڑھنے کی تاکید ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے جس شخص نے جمعہ کے دن"سورہ کہف" کی تلاوت کی اس کے قدم کے نیچے سے ایک نور نکل کر آسمان کی طرف چڑھےگا جو روز قیامت اس کے لیے روشنی کاکام دے گا۔علاوہ ازیں اس کے دو جمعوں کے درمیان گناہ معاف ہوجائیں گے۔"[9]

8۔روز جمعہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں ایک گھڑی دعا کی قبولیت کی ہوتی ہے،چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جمعۃ المبارک کا ذکر کیا تو فرمایا:

"إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يَسْأَلُ اللَّهَ الْعَبْدُ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ"

"جمعہ کے دن ایک ایسا وقت ہوتا ہے کہ اس میں کوئی مسلمان بندہ کھڑا نماز ادا کررہا ہواور اس میں اللہ تعالیٰ سے جو سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز ضرور عطا کرے گا۔راوی بیان کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہاتھ سےاشارہ کرکے بتایا کہ وہ وقت بہت کم ہے۔"[10]

9۔اس روز کی ایک خصوصیت خطبہ جمعہ بھی ہےجس میں اللہ تعالیٰ کی ثنا اور بزرگی وشان بیان ہوتی ہے،اس کی وحدانیت کی شہادت دی جاتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کا تذکرہ ہوتا ہے اور بندوں کو وعظ ونصیحت کی جاتی ہے۔

اس روز کی اوربھی بہت سی خصوصیات ہیں ،چنانچہ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مایہ نازکتاب زادالمعاد میں ایک سو تینتیس (133) خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے۔

ان فضائل وخصوصیات کے باوجود بہت سے لوگ اس دن کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرجاتے ہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ ان کے ہاں اس دن کی شان اورعظمت ہفتہ کے دوسرے تمام دنوں سے بڑھ کر ہوتی لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے بلکہ بعض بے نصیب اس عظیم دن کو سونے اور آرام کرنے کا دن خیال کرتے ہیں۔بعض لوگ لہوولعب میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غفلت میں یہ دن ضائع کردیتے ہیں حتیٰ کہ اس روز فجر کی نماز میں نمازیوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھنے میں آتی ہے۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔

(2)۔جمعہ کے دن مسجد میں  جلدی جانا مستحب ہے،جب کوئی مسجد میں داخل ہوتو"تحیۃ المسجد" کی دو رکعتیں ضرور پڑھے۔

(3)۔مسجد میں جلدی آجانے کی صورت میں جس قدر زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرسکتا ہو،ادا کرے۔سلف صالحین کا یہی طریقہ تھا کہ وہ جمعہ کی ادائیگی کے لیے جلد ہی مسجد میں پہنچ جایا کرتے تھے اور امام کے منبر کی طرف نکلنے سے پہلے پہلے کثرت سے نوافل پڑھ لیا کرتے تھے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"اور بہتر یہ ہے کہ جو شخص ادائیگی جمعہ کے لیے مسجد میں جلدی آجائے تو وہ امام کے نکلنے تک نفل نماز یا ذکر میں مشغول رہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ادائیگی نوافل کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:

"ثُمَّ يُصَلِّي مَا كُتِبَ لَهُ"

"پھر وہ حتیٰ المقدور نماز پڑھے۔"[11]

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   کا بھی اسی پر عمل تھا کہ جب وہ ادائیگی جمعہ کے لیے تشریف لاتے تھے تو  حسب  توفیق نوافل ادا کرتے تھے ۔کوئی دس رکعات پڑھتا تو کوئی بارہ رکعات ادا کرتا،کوئی آٹھ اور کوئی اس سے کم پڑھتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ جمہور علمائے کرام کایہ مسلک ہے کہ جمعۃ المبارک کا خطبہ شروع ہونے  سے قبل کوئی مقرر سنت موکدہ نہیں،البتہ نوافل ہیں جن کی تعداد مقرر نہیں جتنے بھی حسب طاقت پڑھ لیے جائیں درست ہیں،حتیٰ کہ اگر کوئی نہ بھی پڑھے تو کوئی حرج نہیں،یہی قول راجح ہے۔اگر جاہل لوگ اسے سنت موکدہ کادرجہ دیں تو انھیں سمجھانے کے لیے کبھی کبھار یہ نوافل چھوڑدینا افضل ہے۔[12]

(البتہ تحیۃالمسجد دورکعات ضروری ہیں کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا حکم ہے۔)"[13]

(4)۔یہ تو نماز جمعہ سے پہلے کے نوافل کا تذکرہ تھا جو موکدہ نہیں ہیں،البتہ جمعہ کی فرض نماز کے بعد موکدہ سنتیں ہیں،چنانچہ صحیح مسلم میں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمُ الْجُمُعَةَ فَلْيُصَلِّ بَعْدَهَا أَرْبَعًا"

"جب کوئی شخص نماز جمعہ پڑھے تو فرضوں کے بعد چار رکعات ادا کرے۔"[14]

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے:

"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ"

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جمعہ کے بعد دورکعات پڑھتے تھے۔"[15]

ان دونوں حدیثوں کو ملا کر یہ صورت سامنے آتی ہے کہ جمعہ کے بعد اگر کوئی گھر جا کر نماز پڑھے تو دورکعتیں پڑھے اور اگر وہیں مسجد میں ادا کرنا چاہے تو چاررکعات ادا کرے۔اگر چاہے تو چھ رکعات ادا کرے کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب نماز جمعہ پڑھ لیتے تو پھر آگے بڑھ کر دو رکعتیں پڑھتے،پھر جگہ بدل کر چاررکعات پڑھتے تھے۔[16]

(5)۔مسجد میں کسی بھی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ حقدار وہ شخص ہے جو خود وہاں پہلے آجائے۔بعض لوگ یوں کرتے ہیں کہ مسجد کی کسی خاص جگہ یا پہلی صف میں مصلی یا لاٹھی یا کپڑا یا جوتا رکھ کراپنے لیے یا کسی کے لیے جگہ محفوظ کرلیتے ہیں تاکہ کوئی دوسرا شخص وہاں نہ بیٹھ سکے،پھر وہ خود یا جس شخص کے لیے وہ جگہ مخصوص کی گئی دیر سے آتا ہے ،اس طرح پہلے آنے والا وہاں بیٹھنے کے ثواب سے محروم ہوجاتاہے۔یہ طریقہ بالکل غلط ہے جس کی قرآن وحدیث میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں بلکہ علمائے کرام نے وضاحت کی ہے کہ جو شخص مسجد میں آئے تو وہ پہلی صف میں بیٹھے،اگر کسی نے کوئی چیز رکھ کرجگہ روک لی ہوتو اسے اٹھا دے اور خود بیٹھ جائے کیونکہ پہلے آنے والا پہلی صف میں بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہے جو شخص مسجد میں اس طرح ایک جگہ پر قبضہ کرکے بعد میں آنے والے کو وہاں بیٹھنے سے روکتا ہےوہ درحقیقت اس کاحق چھینتا اور ناجائز قبضہ کرتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"اکثر لوگ جو نماز جمعہ سے پہلے مسجد میں(اپنے خادموں کے ذریعے سے)مصلیٰ وغیرہ بچھاکر جگہ روک لیتے ہیں یہ عمل بالاتفاق ممنوع ہے بلکہ حرام ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ایسی جگہ پر پڑھی گئی نماز صحیح اوردرست ہے؟تو اس بارے میں علماء کی دو آراء ہیں۔ایک تو اس نے مصلیٰ بچھاکر مسجد کا ایک حصہ روک لیا اور دوسرا اس نے آنے والوں کو اس جگہ نماز پڑھنے سے روک دیا جب کہ حکم تو یہ تھا کہ نمازی خود مسجد میں پہلے آئے۔جب اس نے مصلیٰ پہلے بھیج دیا اور خودلیٹ آیا تواس نے دواعتبار سے شریعت کی مخالفت کی ہے،ایک یہ کہ اسے پہلےآنے کا حکم تھا لیکن وہ دیر سے آیا اور ددسری وجہ یہ ہے کہ اس نے مصلیٰ وغیرہ بچھا کر پہلے آنے والے کا حق غصب کیا ہے اور اس کے لیے رکاوٹ بنا ہے۔چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے پہلی صف مکمل ہوتی،پھر دوسری صف لیکن جگہ پر قبضے کیوجہ سے حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر عمل بھی نہ ہوسکا۔علاوہ ازیں جب وہ دیر سے آیاتو لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا ہواآگے بڑھا جو گناہ ہے بلکہ وہ سخت وعید کا مستحق قرارپایا۔"[17]

(6)۔احکام جمعہ میں سے یہ بھی ہے کہ جو شخص امام کے خطبے کے دوران مسجد میں آئے تو وہ بیٹھنے سے پہلے دورکعتیں ضرور پڑھے اور انھیں مختصر کرکے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"إذا جاء أحدكم يوم الجمعة وقد خرج الإمام فليصل ركعتين...وفي رواية.... ولْيَتجَوَّزْ فِيهِما"

"جب کوئی شخص جمعے کے دن مسجد میں آئے اور امام خطبے کے لیے نکل چکا ہوتو وہ دورکعتیں ادا کرے(پھر بیٹھے)۔"اور ایک روایت میں ہے کہ"انھیں مختصر پڑھے۔"[18]

اگر کوئی شخص لاعلمی کی وجہ سے آتے ہی بیٹھ گیا تو یاد آجانے یا علم ہونے پر فوراً کھڑا ہوجائے اور دورکعتیں ادا کرکے بیٹھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شخص کودو رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا تھا جو مسجد میں آتے ہی بیٹھ گیاتھا،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"قُمْ فَارْكَعْ رَكْعَتَيْنِ"

"کھڑا ہو اور دو رکعت نماز اداکر۔"[19]

(7)۔جمعۃ المبارک کے احکام میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ جب امام خطبہ دے رہا ہوتو اس دوران میں سامعین کا آپس میں گفتگو کرنا ناجائز ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿وَإِذا قُرِئَ القُرءانُ فَاستَمِعوا لَهُ وَأَنصِتوا لَعَلَّكُم تُرحَمونَ ﴿٢٠٤﴾... سورة الاعراف

"اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگادیا کرو اور خاموش رہا کرو،امید ہے تم پر رحمت ہو۔"[20]

بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت خطبے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔خطبے کو قرآن اس لیے کہا گیا کہ خطبے میں آیات قرآن کی تلاوت ہوتی ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو  پھر یہ اپنے عموم کے اعتبار سے خطبہ کو بھی شامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا  ارشاد ہے:"جس نے کسی کو خاموش کرنے کے لیے کچھ کہا،اس نے لغو کام کیا اور جس نے لغو کام کیا اس کا جمعہ نہیں۔"[21]

ایک دوسری  روایت میں ہے:

"مَنْ تَكَلَّمَ يَوْمَ اَلْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَهُوَ كَمَثَلِ اَلْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا, وَاَلَّذِي يَقُولُ لَهُ: أَنْصِتْ, لَيْسَتْ لَهُ جُمْعَةٌ "

"امام جب خطبہ دے رہا ہوتو جوکوئی گفتگو کرے تو وہ گدھے کی مانند ہے جس پر کتابوں کابوجھ لدا ہوا ہو (جس کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا) اور جس نے اس(گفتگو کرنے والے) کو خاموش رہنے کا کہا تو اس کا بھی جمعہ نہیں۔"[22]

8۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی اسی مضمون کی روایت بیان ہوئی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"إذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ : أَنْصِتْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ ؛ فَقَدْ لَغَوْتَ"

"جب تو جمعے کے دن اپنے ساتھی سے کہے:خاموش ہوجا اور خطیب خطبہ دے رہا ہوتوتو نے لغو بات کی۔"[23]

اور"لغو" گناہ ہے۔اگر باتیں کرنے والے کو خاموش ہونے کے لیے کہنا"لغو" ہے جوکہ حقیقت میں امر بالمعروف ہے تو اس کے سوا دوسری قسم کی باتیں تو بالاولیٰ منع ہوں گی۔

(1)۔دوران خطبہ میں خطیب کا کسی مقتدی کے ساتھ بات کرنا یا اس سے مخاطب ہونا جائز ہے۔اسی طرح مقتدی خطیب سے(کسی ضرورت کے پیش نظر) مخاطب ہوکربات کرسکتا ہے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تحیۃ المسجد پڑھے بغیر بیٹھنے والے شخص سے سوال کیا اور اس نے جواب دیا۔ایسے اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور سامع کا کسی مصلحت کی بنا پر بات چیت کرنا ثابت ہوتا ہے۔اور اس سے سماع خطبہ میں خلل واقع نہیں ہوتا۔

(2)۔خطبہ سننے والے شخص کے لیے ہرگز جائز نہیں کہ وہ دوران خطبہ میں کسی سائل کو صدقہ وخیرات دے۔سائل کا سوال کرنا بھی ناجائز ہے کیونکہ یہ حالت خطبہ میں کلام کرنا ہے،لہذا اس وقت تعاون کرنا بھی ناجائز ہے۔

(3)۔جب خطیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا نام لے تو سامع کو چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود بھی بھیجے،البتہ کلمات،درود آہستہ کہے تاکہ ساتھ والے کے لیے خلل کا باعث نہ ہو۔

(4)۔مسنون یہ ہے کہ خطیب کی دعا پر آواز بلند کیے بغیر آمین کہی جائے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"دوران خطبہ میں خطیب کے سامنے آواز بلند کرنا بالاتفاق مکروہ یا حرام ہے۔مؤذن ہویاغیر مؤذن کوئی شخص دوران خطبہ میں اونچی آواز سے درود نہ پڑھے نہ اور کوئی بات کرے۔"[24]

شیخ موصوف نے اس عبارت میں جس امر کی طرف توجہ دلائی ہے تویہ چیز بعض ملکوں میں پائی جاتی ہے کہ لوگ دوران خطبہ میں بلند آواز سے درود پڑھتے ہیں یا دعائیں پڑھتے ہیں یا خطبے سے پہلے یا دو خطبوں کے درمیان ایساکرتے دیکھے گئے ہیں بلکہ بعض خطباء دوران خطبہ میں حاضرین کو بلند آواز سے بولنے یا بعض کلمات دہرانے کا حکم دیتے ہیں،یہ عمل نہ صرف ناجائز ہے بلکہ جہالت وبدعت ہے۔

(5)۔جوشخص دوران خطبہ میں مسجد میں داخل ہوتو وہ سلام نہ کہے بلکہ آ رام وسکون اور خاموشی سے صف تک پہنچے اور مختصر سی دورکعات نماز پڑھ کرخطبہ سننے کے لیے بیٹھ جائے اور وہ دائیں بائیں بیٹھے ہوئے ساتھیوں سے مصافحہ بھی نہ کرے۔

(6)۔دوران خطبہ میں ہاتھوں،پاؤں،ڈاڑھی یا  کپڑوں سے کھیلنا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَنْ مَسَّ الْحَصَى فَقَدْ لَغَا"

"جس نے(دوران خطبہ میں) کنکریوں کو چھوا اس نے لغو کام کیا۔"[25]

اور فرمایا:

"ومن لغا فليس له في جمعته تلك شيء"

"اور جس نے لغو کام کیا اس کا اس جمعے میں کوئی حصہ نہیں۔"[26]

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے شغل سے خشوع وخضوع جاتارہتا ہے۔

(7)۔دوران خطبہ میں دائیں بائیں جھانکنا،وہاں لوگوں کو بغور دیکھنا جائز نہیں کیونکہ یہ چیز سماع خطبہ سے مانع ہے بلکہ سامع کو چاہیے کہ وہ خطیب کی طرف متوجہ رہے جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   خطبہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف متوجہ رہتے تھے۔

(8)۔اگر چھینک آجائے تو خاموشی سے الحمدللہ کہہ دے۔

(9)۔خطبہ شروع ہونے سے پہلے یا خطبہ مکمل ہونے کے بعد میں  گفتگو کرنا جائز ہے۔اسی طرح جب خطیب دوخطبوں کے درمیان بیٹھ جائے تو کوئی خاص مصلحت ہوتو کلام کرنے میں کوئی حرج نہیں،البتہ دنیاوی گفتگو سے اس  وقت بھی پرہیز کرنا چاہیے۔الغرض جمعۃ المبارک کے دونوں خطبوں کی اسلام میں بہت بڑی اہمیت ہے کیونکہ ان میں قرآن مجید کی تلاوت اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا بیان ہوتا ہے اور ان کے ضمن میں وعظ ونصیحت،مفید علمی مباحث اور نصیحت آموز واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔بنابریں خطیب کو سنانے اور سامع کو سننے کا پورا پورا اہتمام کرنا چاہیے۔خطبہ جمعہ کی حیثیت اس عام گفتگو کی سی نہیں جو مجلسوں،جلسوں اور عام اجتماعات کی ہوتی ہے۔

بعض لوگ جب خطبہ جمعہ میں آخرت کی کوئی سزا کابیان یا  جہنم کی بات سنتے ہیں تو وہ بلند آواز سےاعوذباللہ پڑھتے ہیں یا ثواب وجنت کاذکر سنتے ہیں تو باآواز بلند اس کا سوال اور دعا کرتے ہیں ،حالانکہ قطعاً اس کاجواز نہیں بلکہ یہ بھی خطبہ کے دوران  میں ممنوع کلام میں داخل ہے۔سابقہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ دوران خطبہ گفتگو کرنے سے ثواب ضائع ہوجاتاہے بلکہ کلام کرنے والے کا جمعہ ہی نہیں ہوتا۔اس حدیث کے مطابق وہ اس گدھے کی طرح ہے جو بوجھ اٹھائے ہوئے ہے،لہذا اس نقصان دہ عمل سے خود بھی بچنا چاہیے اور دوسروں کو بھی بچانا چاہیے۔

(10)۔علمائے کرام نے بیان کیا ہے کہ نماز جمعہ ایک مستقل اور علیحدہ فرض ہے،ظہر کا بدل نہیں ہے۔امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا ہے:

"وَصَلَاةُ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَانِ تَمَامٌ غَيْرُ قَصْرٍ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"

"نماز جمعہ کی دو رکعت مکمل نماز ہے،قصر نہیں،یہ بات(تمہارے نبی) محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمائی ہے۔"[27]

اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز جمعہ بہت سے احکام میں نماز ظہر سے مختلف ہے۔نماز جمعہ ظہر کی نماز سے افضل ہے،اس کی تاکید بھی زیادہ ہے ،اس کے ترک پر سزا ووعید بھی زیادہ سخت وارد ہوئی ہے۔علاوہ ازیں نماز جمعہ کی کئی ایسی خصوصیات اور شرائط ہیں جو نماز ظہر کی نہیں۔جس شخص پر جمعہ فرض ہے جب تک اس کا وقت گزر نہیں جاتا تب تک اسے نماز ظہر کفایت نہیں کرےگی،یعنی جب نماز جمعہ کاوقت گزرجائے ،تب نماز ظہر اس کابدل ہے۔

(11)۔نمازجمعہ ہر مسلمان مرد،آزاد،عاقل،بالغ اور مقیم پر  فرض ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"الجمعةُ حقٌ واجبٌ على كلِّ مسلمٍ في جماعةٍ إلا أربعةً : عبدٌ مملوكٌ ، أو امرأةٌ ، أو صبيٌّ ، أو مريضٌ "

"ہرمسلمان پر جمعہ فرض ہے مگر چار افراد:غلام،عورت،بچے اور بیمار پر فرض نہیں۔"[28]

اس مضمون کی ایک روایت امام دارقطنی نے بھی سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےبیان کی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا:

"مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَعَلَيْهِ الْجُمُعَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا مَرِيضٌ أَوْ مُسَافِرٌ أَوِ امْرَأَةٌ أَوْ صَبِيُّ أَوْ مَمْلُوكٌ"

"جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے،اس پر جمعے کے دن جمعہ فرض ہے،سوائےمریض،مسافر،عورت،بچے اور غلام کے۔"[29]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"جولوگ اپنا گھر بار بناکرایک جگہ میں رہتے ہیں،موسم سرما موسم گرما میں کسی دوسری جگہ کوچ نہیں کرتے تو انھیں اپنے ہاں جمعہ کی اقامت کا اہتمام کرنا چاہیے،چاہے ان کے گھر جیسے بھی ہوں،وہ پکی اینٹ کے ہوں یا کچی کے،لکڑی کے ہوں یا جھونپڑیاں ہوں۔الغرض!ان لوگوں کی رہائش گاہوں کی بناوٹ اور ان کا میٹریل اقامت جمعہ کے لیے رکاوٹ کا باعث نہیں۔شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جولوگ ایک جگہ پر اقامت پذیر ہوں یہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہیں جو خیمے اٹھائے ہوئے سفر کرتے رہتے ہیں اور چند دن کہیں اور چنددن کسی اور جگہ چشموں کے پاس یا کہیں شاداب جگہ پر ڈیرہ لگالیتے ہیں۔"[30]

(الف)۔جس مسافر پر نماز کی قصر ہے اس پر جمعہ فرض نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   نے جب حج وغیرہ کے لیے سفرکیا تو انھوں نے سفر میں جمعہ ادا نہیں کیا تھا۔

(ب)۔اگرکوئی شخص سیر وتفریح کی خاطر کسی میدان یا بیابان کی طرف  نکل گیا جہاں کوئی مسجد نہیں تو وہ نماز ظہر ادا کرے۔[31]

(ج)۔عورت پر جمعہ فرض نہیں۔امام ابن منذر وغیرہ نے کہا ہے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ عورتوں پر جمعہ فرض نہیں،نیز اس پر بھی اتفاق ہے کہ اگر وہ ادائیگی جمعہ کے لیے مسجد میں آجائیں گی تو ان کا بھی جمعہ ہوجائے گا۔اسی طرح اگر مسافر شخص جمعہ ادا کرنے کے لیے آجائے تو اس کا جمعہ ہوجائے گا۔مریض کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ ان لوگوں پر فرضیت جمعہ کا سقوط اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رعایت ہے۔جس شخص پر جمعہ فرض ہے اسے زوال آفتاب کے فوراً بعد سفر شروع نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایسا شخص جمعہ ادا کرکے سفر پر روانہ ہو۔اسی طرح زوال آفتاب سے تھوڑی دیر پہلے بھی سفر پر روانہ ہونا مکروہ ہے،البتہ اگر راستے میں ادائیگی  جمعہ کی کوئی صورت ہوتوتب درست ہے۔

(د)۔جمعہ کی ادائیگی کی شرائط درج ذیل ہیں:

1۔دخول وقت:۔چونکہ نماز جمعہ فرض ہے،اس لیے دیگرنمازوں کی طرح اس کے لیے بھی ایک وقت مقرر ہے،جس سے پہلے اور بعد ادائیگی جمعہ درست نہیں۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿إِنَّ الصَّلو‌ٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورة النساء

"یقیناً مومنوں پر مقررہ وقتوں میں نماز فرض ہے۔"[32]

ادائیگی جمعہ کا افضل وقت زوال آفتاب کے بعد ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اکثر اوقات زوال آفتاب کے بعد ہی جمعۃ المبارک ادا کیا کرتے تھے۔زوال آفتاب سے قبل جمعہ ادا کرنے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔جمعہ کا آخری وقت(بلااختلاف) ظہر کے آخری وقت تک ہے۔

2۔اقامت:دوسری شرط یہ ہے کہ جمعہ ادا کرنے والے مسافر نہ ہوں بلکہ مقیم ہوں۔خانہ بدوش اور مختلف جگہوں پر خیمے لگانے والوں پر جمعہ فرض نہیں۔عہد نبوی میں یہ لوگ مدینہ منورہ کےارد گرد رہا کرتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں ادائیگی جمعہ کا حکم نہیں فرمایا تھا۔

جس شخص نے امام کے ساتھ نماز جمعہ کی ایک رکعت حاصل کرلی تو وہ ایک رکعت اور پڑھ کر جمعہ کی نماز مکمل کرلے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"مَنْ أَدْرَكَ مِنْ صَلَاةٍ رَكْعَةً فَقَدْ أَدْرَكَهَا"

"جس نے جمعہ کی ایک رکعت حاصل کرلی اسے نماز جمعہ مل گئی۔"[33]

اگر کسی نے امام کے ساتھ ایک رکعت سے کم حصہ حاصل کیا،مثلاً:جب وہ جماعت میں شامل ہواتو امام دوسری رکعت کے رکوع سے سراٹھا چکاتھا تو اس کی نماز جمعہ فوت ہوگئی،لہذا وہ نماز ظہر کی نیت کرکے جماعت میں شامل ہو،اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد چار رکعات(نمازظہر) اداکرے۔

3۔خطبے دوہوں:نماز جمعہ کی درستی کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ اس سے پہلے دو خطبے ہوں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کھڑے ہوکر دو خطبے دیاکرتے تھے اور دونوں خطبوں کے درمیان(تھوڑی دیر) بیٹھ کر فرق کیا کرتے تھے۔[34]

(الف)۔دونوں خطبوں کی درستی کی شرائط میں سے ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا ہوتوحید ورسالت کا تذکرہ ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود بھیجا جائے اور لوگوں کو تقویٰ کی وعظ ونصیحت ہو۔قرآن مجید کے کسی حصہ کی تلاوت ہو۔ایسا نہ ہوجیسا کہ آج کل کے بعض خطباء کو سنا اور دیکھا گیا ہے کہ ان کا خطبہ ان مذکورہ اوصاف وشرائط سے عاری ہوتا ہے۔

امام ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   کے خطبات پر غور کرےگا تو اسے معلوم ہوگا کہ ان میں توحید وہدایت کاتذکرہ ہوتا تھا،رب تعالیٰ کی صفات،ایمان واسلام کے اصول،دعوت الی اللہ،اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوقات پروہ انعامات واکرام جن سے سامعین کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو،

عذاب الٰہی کے واقعات جنھیں سن کر اللہ کا خوف پیدا ہو،بیان ہوتے تھے۔وہ ذکر وشکر کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی عظمت،اس کی صفات اور اسمائے مبارکہ کا ذکر کرتے۔لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت وشکر اور اس کا ذکر کرنے کی تلقین وتاکید کرتے تھے۔سامعین جب خطبہ سن کر پلٹتے تھے تو اللہ تعالیٰ اور اس کےبندوں کےدرمیان محبت گہری ہوچکی ہوتی تھی اور وہ اس کی اطاعت کے لیے ایک نیا جذبہ اور ولولہ لے کر جاتے تھے۔

پھر مدت دراز کے بعد نبوت کانور ماند پڑگیا احکام شرعیہ اور اوامر اسلام صرف رسم ورواج بن کر رہ گئے،ان کے حقائق ومقاصد نگاہوں سے اوجھل ہوگئے،رسومات ورواج کو ایسی سنتوں کادرجہ دے دی گیا  کہ ان کا ترک گناہ قرارپایا۔ضروری مقاصد چھوٹ گئے،خطبات کو خوبصورت الفاظ اورمسجع عبارات کالبادہ پہنادیا گیا اور ان پر علم بدیع کا خول چڑھا دیا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ خطبات بے اثر ہوگئے حتیٰ کہ حقیقی مقصود ومطلوب ہاتھوں سے نکل گیا۔"[35]

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنے دور کا جو نقشہ کھینچاہے اس کے پیش نظر اب تومعاملہ بہت زیادہ بگڑ چکا ہے یہاں تک کہ آج کے خطبات میں بامقصد باتیں نہایت کم ہوتی ہیں اور بے مقصد باتیں بہت زیادہ۔

بعض خطباء جو منہ میں آتا ہے بولتے ہی جاتے ہیں ،وہ اس بات کا قطعاً خیال نہیں رکھتے کہ ان کی باتوں کی خطبے کے موضوع سے کوئی مناسبت بھی ہے بھی ہے یانہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خطبہ میں ان کاکوئی متعین موضوع ہی نہیں ہوتا۔ان کاطویل خطبہ اکتاہٹ کا باعث بنتا ہے۔شرائط شرعیہ کاقطعاً لحاظ نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ ایسے خطبات اثرات وفوائد سے خالی ہوتے ہیں۔

بعض خطباء خطبے میں موضوع سےغیر متعلق باتیں شروع کردیتے ہیں،جن کااس مقام پر ذکر کرنا حکمت کےمنافی ہوتا ہے۔بعض اوقات اکثر سامعین خطبہ کی باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ وہ باتیں ان کی ذہنی سطح سے بلند ہوتی ہیں۔بعض اوقات وہ سیاسی گفتگو میں پڑجاتے ہیں یاایسی بحث شروع کردیتے ہیں جن کا حاضرین کوکچھ فائدہ نہیں ہوتا۔

خطبائے کرام!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خطبہ کا جو انداز اور طریقہ تھا اس کی طرف پلٹ آئیے۔ارشاد ربانی ہے:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ...﴿٢١﴾... سورة الاحزاب

"یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  میں عمدہ نمونہ(موجود)ہے۔"[36]

اپنےخطبات کےعنوان موقع ومحل کی مناسبت سے قرآن وسنت کے دلائل میں مرکوز رکھو،ان کے ضمن میں تقویٰ کی تلقین کرو،وعظ ونصیحت کاالتزام رکھو،معاشرے کی امراض کاعلاج وواضح اور مختصر اسلوب میں کرو۔ان میں قراءت قرآن کااہتمام کروکیونکہ اس میں دلوں کو زندگی اورنگاہوں کو روشنی ملتی ہے۔مقصد صرف دو خطبے نہیں ہیں بلکہ اصل مقصد معاشرے کی بیماریوں کاعلان کرنا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:""خطبے میں دنیا کی مذمت اورموت کاذکر کرنا کافی نہیں ہے بلکہ خطبے کا مقصد(جیسا کہ اس کےنام سے ظاہر ہے) دلوں میں تحریک پیدا کرنا،لوگوں کو خیروبھلائی پر آمادہ کرنا ہے۔صرف دنیا کی مذمت کرنا اور اس میں احتیاط سے زندگی بسرکرنے کی تبلیغ کرنایہ ان باتوں میں سے ہے جن کی منکرین شریعت بھی وصیت کرتے رہتے ہیں۔خطبے میں اطاعت واتباع کی رغبت دلائی جائے،معصیت سے ڈرایا جائے،اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا جائے اور اس کے انعامات کا تذکرہ کیا جائے۔"

آگے چل کر شیخ موصوف فرماتے ہیں:"خطبہ میں اس قدر اختصار بھی نہ ہوکہ اصل مقصد فوت ہوجائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتیں،آواز بلند ہوجاتی،غصہ وجوش بڑھ جاتا اور یوں لگتا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کسی ایسے لشکر سے ڈرارہے ہیں جو صبح یا شام حملہ کرنے والا ہے۔"[37]

(1)فقہائےکرام نے بیان کیا ہے کہ جمعے کے دونوں خطبے منبر پر کھڑےہوکردینے مسنون ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایسا ہی کیاکرتے تھے،اس میں شاید حکمت یہ ہے کہ جب سامع خطیب کو سامنے منبر پر دیکھ رہاہوتو اس طریقے سےبات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے اور موثر بھی ہوجاتی ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتےہیں کہ منبر کے استعمال پر علماء کااجماع ہے۔

(2)۔مسنون یہ ہےکہ جب امام منبر پر لوگوں کی طرف ہوتو انھیں السلام علیکم کہے،کیونکہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا صعد المنبر سلّم"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب منبر پر چڑھتے تو(حاضرین کو) سلام کہتے۔"[38]

(3)۔جب تک مؤذن اذان سے فارغ نہ ہوتب تک خطیب منبرپر بیٹھا رہے۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"كَانَ يَجْلِسُ إِذَا صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتَّى يَفْرَغَ - أُرَاهُ قَالَ : الْمُؤَذِّنُ - ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مؤذن کے فارغ ہونے تک منبر پر بیٹھے رہتے،پھر کھڑے ہوتے اور خطبہ شروع کر دیتے۔"[39]

(4)۔مسنون یہ ہے کہ خطیب دوخطبوں کے درمیان(تھوڑی دیر) بیٹھ کر فرق کرے۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے:

"كان النبي صلى الله عليه وسلم يخطب خطبتين وهو قائم يفصل بينهما بجلوس"

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کھڑے ہوکر دو خطبے ارشاد فرماتے اور دونوں کے درمیان بیٹھ کر فرق کرتے۔"[40]

(5)۔یہ بھی مسنون عمل ہے کہ دونوں خطبے کھڑے ہوکردیے جائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایسا ہی کیا کرتے تھے۔اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی ہے:

"وَتَرَكُوكَ قَائِمًا"(الجمعۃ 62/11)اور وہ آپ کو کھڑا ہی چھوڑدیتے ہیں۔"اور مسلمانوں کا اسی پرعمل ہے(کہ دونوں خطبے کھڑے ہوکردیتے ہیں۔)

(6)۔عصا وغیرہ کا سہارا لینا بھی مسنون عمل ہے۔

(7)۔خطبے میں مسنون یہ ہے کہ خطیب اکثر  طور پرسامنے نظر رکھے،صرف ایک طرف دیکھنے سے دوسری جانب کو نظر انداز کرنا لازم آتا ہے اور سنت کی مخالفت بھی ہوتی ہے۔سامعین کو بھی چاہیے کہ وہ امام کی طرف منہ کرکے بیٹھیں۔سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب منبر پر تشریف رکھتے تو ہم اپنے چہروں کارخ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف کرلیتے۔"[41]

(8)۔مسنون یہ ہے کہ خطبہ جمعہ چھوٹا اور مناسب سا ہو کہ لوگوں میں طوالت کی وجہ سے اکتاہٹ اورنفرت پیدا نہ ہو اور اس قدر مختصر بھی نہ ہوکہ مقصد خطبہ فوت ہوجائے اور لوگوں کو فائدہ نہ ہو۔سیدنا عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا:

"إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ وَقِصَرَ خُطْبَتِهِ مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ ، فَأَطِيلُوا الصَّلَاةَ ، وَاقْصُرُوا الْخُطْبَةَ "

"آدمی کی نماز کا لمبار ہونااور خطبے کا چھوٹا ہونا اس کی عقل مندی کی علامت ہے،چنانچہ تم نماز کولمبا کرو اور خطبے کو مختصر کرو۔"[42]

(9)۔یہ بھی مسنون ہے کہ دوران خطبہ میں خطیب کی آواز بلند ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جب خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ کی آواز بلند ہوجاتی اور جوش وغصہ بڑھ جاتا۔"[43]

واضح رہے کہ اس انداز سے بات دلوں میں جاگزیں ہوجاتی ہے اور یہ لہجہ وعظ ونصیحت کے لیے زیادہ مؤثرہے ۔علاوہ ازیں خطیب کو چاہیے کہ واضح مؤثر اور جامع الفاظ وعبارات کاسہارالے۔

(10)۔خطیب خطبہ جمعہ میں اہل اسلام کےلیے ان کے دین ودنیا میں بھلائی اور اصلاح کی دعا کرے۔اسلامی حکومت کے امیر اور بااختیار لوگوں کے حق میں خیر وبہتری کی دعاکرے۔سلف صالحین کا روز اول سے یہی انداز چلا آرہاہے۔اسے چھوڑنا اہل بدعت کا شیوہ ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"اگر ہمیں کس دعا کی قبولیت کا یقین ہوتو ہم اپنے خلیفہ کے حق میں خیر وبہتری کی دعا کریں۔"[44]

یہ حقیقت ہے کہ خلیفہ وامیر کادرست ہونا مسلمان رعایا کی درستی ہے۔افسوس ہے کہ آج یہ چیز ختم ہوچکی  ہے حتیٰ کہ لوگ حکمرانوں کے حق میں  دعا کرنا پر تعجب کرتے ہیں بلکہ دعا کرنے والے کے حق میں بدگمانی رکھتے ہیں۔

(11)۔دو خطبوں سے فارغ ہوکر فوراًنماز کھڑی کرنا مسنون عمل ہے۔اس میں لمبا وقفہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔

(12)۔نماز جمعہ کی بالاجماع دورکعتیں ہیں جن میں قراءت بلند آواز سے کی جائے۔پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورہ جمعہ یا سورہ اعلیٰ اور دوسری رکعت میں سورہ منافقون یا سورہ غاشیہ کی قراءت کرنا مسنون ہے۔ان سورتوں میں سے ایک سورت کو جمعے کی دونوں رکعتوں میں آدھی آدھی کرکے پڑھنا خلاف سنت عمل ہے۔

نماز جمعہ میں بلند آواز سے قراءت کرنے میں یہ حکمت ہے کہ اس سے مقصد جمعہ(وعظ ونصیحت) خوب حاصل ہوجاتا ہے۔


[1] ۔صحیح مسلم الجمعۃ باب فضل یوم الجمعۃ حدیث 854 وسنن ابی داود الصلاۃ باب فضل یوم الجمعۃ حدیث 1047 وسنن النسائی الجمعۃ باب اکثار الصلاۃ علی النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  یوم الجمعۃ حدیث 1375 واللفظ لہ۔

[2]۔صحیح البخاری الجمعۃ باب فرض الجمعۃ حدیث 876 وصحیح مسلم الجمعۃ باب ھدایۃ ھذہ الامۃ لیوم الجمعۃ حدیث 855۔

[3]۔صحیح مسلم الجمعۃ باب ھدایۃ ھذہ الامۃ لیوم الجمعۃ حدیث 856۔

[4]۔الجمعۃ 9/62۔

[5]۔زاد المعاد 1/375۔

[6]۔زاد المعاد 1/375۔

[7]۔السنن الکبریٰ للبیہقی الجمعۃ باب مایؤمر بہ فی لیلۃ الجمعۃ ویومھا من کثرۃ الصلاۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  3/249۔

[8]۔(ضعیف) مسند احمد 1/230 ومشکاۃ المصابیح بتحقیق الالبانی حدیث (17) 1397۔

[9]۔تفسیر ابن کثیر تفسیر سورۃ الکھف 3/97۔

[10]۔صحیح البخاری الجمعۃ باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ حدیث 935 وصحیح مسلم الجمعۃ باب فی الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ حدیث 852۔

[11]۔صحیح البخاری الجمعۃ باب الدھن للجمعۃ حدیث 883۔

[12]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ بتصرف 24/189۔194۔

[13]۔صحیح البخاری الصلاۃ باب اذا دخل  المسجد فلیرکع رکعتین حدیث 444۔

[14]۔صحیح مسلم الجمعۃ باب الصلاۃ بعدالجمعۃ حدیث 881۔

[15]۔صحیح البخاری الجمعۃ باب الصلاۃ بعد الجمعۃ وقبلھا حدیث 937 وصحیح مسلم الجمعۃ باب الصلاۃ بعدالجمعۃ حدیث 882 واللفظ لہ۔

[16]۔سنن  ابی داود الصلاۃ باب الصلاۃ بعد الجمعۃ حدیث 1130۔

[17]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  بتصرف 22/189۔190۔

[18]۔صحیح البخاری الجمعۃ باب من جاء والامام یخطب صلی رکعتین خفیفتین حدیث 931 وصحیح مسلم الجمعۃ باب التحیۃ والامام یخطب حدیث 875 واللفظ لہ۔

[19]۔صحیح البخاری الجمعۃ باب من جاء والامام یخطب صلی رکعتین خفیفتین حدیث 931 وصحیح مسلم الجمعۃ باب التحیۃ والامام یخطب حدیث 875 واللفظ لہ۔

[20]۔الاعراف۔7/204۔

[21]۔(اسنادہ ضعیف) مسند احمد 1/93۔

[22]۔(ضعیف) مسند احمد 1/230 ومشکاۃ المصابیح بتحقیق الالبانی حدیث (17) 1397۔

[23]۔صحیح  البخاری الجمعۃ باب الانصات یوم الجمعۃ والامام یخطب حدیث 934 وصحیح مسلم الجمعۃ باب فی الانصات یوم الجمعۃ فی الخطبۃحدیث 851۔

[24]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ 24/218۔

[25]۔صحیح مسلم الجمعۃ باب فضل من استمع وانصت فی الخطبہ حدیث 857 وجامع الترمذی الجمعۃ باب ماجاء فی الوضو یوم الجمعۃ حدیث 498۔

[26]۔(ضعیف) سنن ابی داود الصلاۃ باب فضل الجمعۃ حدیث 1051 وضعیف الجامع الصغیر حدیث 657۔

[27]۔مسند احمد 1/37۔

[28]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب الجمعۃ للملوک والمراۃ حدیث 1067۔

[29]۔(ضعیف) سنن الدارقطنی الجمعۃ باب من تجب علیہ الجمعۃ حدیث 1560 وسنن الکبریٰ للبیہقی 3/184 لیکن جو مسئلہ بیان ہواہے وہ دیگر دلائل سے ثابت ہے۔(ع۔و)۔

[30]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  24/166۔

[31]۔نماز جمعہ کی اہمیت کاتقاضا ہے کہ جمعہ کے وقت بلاضرورت سفر نہ کرے جیسے کہ اگلی سطور میں بیان ہوگا۔(صارم)

[32]۔النساء:4/103۔

[33]۔السنن الکبریٰ للبیہقی الجمعۃ باب من ادرک رکعۃ من الجمعۃ 3/204۔

[34]۔صحیح البخاری الجمعۃ باب القعدۃ بین الخطبتین یوم الجمعۃ حدیث 928 وصحیح مسلم الجمعۃ باب ذکر الخطبتین قبل الصلاۃ وما فیھما من الجلسۃ حدیث 862۔

[35]۔زادالمعاد 1/423۔424۔

[36][36]۔الاحزاب:33/21۔

[37]۔صحیح مسلم الجمعۃ باب تخفیف الصلاۃ والخظبۃ حدیث 867۔

[38]۔(الضعیف) سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب ماجاء فی الخطبۃ یوم الجمعۃ حدیث 1109۔

[39]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب الجلوس اذا صعد المنبر حدیث 1092۔

[40]۔صحیح البخاری الجمعۃ باب القعدۃ بین الخطبتین یوم الجمعۃ حدیث 928 وصحیح مسلم الجمعۃ باب ذکر الخطبتین قبل الصلاۃ ومافیھا من الجلسۃ حدیث 861 وسنن النسائی الجمعۃ باب الفصل بین الخطبتین بالجلوس حدیث 1417 واللفظ لہ۔

[41]۔صحیح البخاری الجمعۃ باب استقبال الناس الامام اذا خطب حدیث 921 وجامع الترمذی الجمعۃ باب ماجاء فی استقبال الامام اذا خطب حدیث 509 واللفظ لہ۔

[42]۔صحیح المسلم الجمعۃ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ حدیث 869۔

[43]۔صحیح مسلم الجمعۃ باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ حدیث 867۔

[44]۔السیاسۃ الشرعیۃ فصل منزلۃ الولایۃ 1/169۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

نماز کے احکام ومسائل:جلد 01: صفحہ 211

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ