معذور افراد کی نماز کا بیان
معذور افرادسے یہاں مراد بیمار ،مسافر اور وہ شخص ہے جسے دشمن کا خوف لاحق ہو جو غیرمعذور کی طرح صحیح طور پر نماز ادا نہ کرسکتا ہو۔شارع نے ایسے افراد کو خصوصی رعایت دی ہے اور ان سے یہ مطالبہ کیاہے کہ وہ حسب استطاعت نماز اداکریں۔یہ شریعت کی طرف سے ان کے لیے آسانی اور سہولت ہے تاکہ انھیں تنگی وتکلیف نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اور اس نے تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں کی۔"[1]
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
"اللہ کاارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے ،سختی کانہیں۔"[2]
ایک اور جگہ ارشادہے:
"اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔"[3]
نیز فرمایا:
"سو اللہ تعالیٰ سے حسب طاقت ڈرو۔"[4]
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"جب میں تمھیں کسی بات کا حکم دوں تو حسب طاقت اس پر عمل کرو۔"[5]
مذكوره نصوص شرعیہ کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں جن میں بندوں پر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور ان پر شریعت میں آسانی وسہولت کا تذکرہ ہے۔
شریعت میں جو آسانیاں اور سہولتیں ہیں،ان میں سے بعض کا تعلق ہمارے زیر بحث عنوان سے بھی ہے،اگر کسی شخص کومرض،سفر یا خوف کا عذر لاحق ہوتو وہ کیسے نماز ادا کرے؟لیجئے اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
1۔مریض کی نماز:نماز کبھی نہ چھوڑی جائے،اگر مریض ہے اور وہ کھڑا ہونے کی طاقت رکھتا ہے تو کھڑے ہوکرنماز ادا کرنا اس پر لازم ہے،اگر وہ کھڑا ہونے کے لیے لاٹھی وغیرہ کا سہارا لے لے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اگر واجب کی ادائیگی کسی سہارے کے ساتھ ممکن ہوتو اس کا استعمال واجب ہے۔
(1)۔اگر مریض شخص نماز میں کھڑا ہونے کی طاقت نہ رکھتا ہو یا اسے کھڑا ہونے سے تکلیف اور مشکل پیش آتی ہو،یا کھڑا ہونے سے بیماری بڑھ جانے کا اندیشہ ہوتو وہ ان حالات میں بیٹھ کر نماز اداکرے۔بیٹھ کر نماز پڑھنے کے لیے صرف یہ شرط نہیں کہ اس کے لیے کھڑا ہونا ناممکن ہو(بلکہ مذکورہ حالات میں سے کوئی بھی حالت ہوتو وہ بیٹھ کر نماز ادا کرسکتا ہے) ،البتہ معمولی سی تکلیف کی بنا پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا درست نہیں بلکہ اسے زیادہ اور واضح تکلیف ومشقت ہو،تب بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔
اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ جو شخص فرض نماز میں کھڑا ہونے سے عاجز ہے وہ جس طرح بھی سہولت کے ساتھ بیٹھ سکتا ہے اسی طرح بیٹھ کر نماز اداکرے کیونکہ شارع علیہ السلام نے بیٹھنے میں اسے خاص صورت کےساتھ پابند نہیں کیا وہ جس شکل میں بھی بیٹھ کرنماز ادا کرلے درست ہے۔
(2)۔اگر کوئی مریض بیٹھ کر بھی نماز ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا یا اسے مشکل اور تکلیف ہوتی ہوتو وہ پہلے کے بل لیٹ کر نماز پڑھ لے۔اس صورت میں اس کا چہرہ قبلہ کی جانب ہونا چاہیے۔البتہ دائیں جانب لیٹنا افضل ہے۔اگر وہ خود قبلہ کی طرف رخ نہ کرسکے اور کوئی دوسرا شخص بھی اس کے پاس نہ ہوجواس کا چہرہ قبلہ کی جانب کردے تو جس سمت کی طرف اسے سہولت ہونماز پڑھ لے۔
(3)۔اگر کسی مریض کو پہلو کے بل بھی نماز ادا کرنے پر قدرت نہ ہوتو وہ پشت کے بل چت لیٹ کر نماز پڑھ لے۔ممکن ہوتواس کے پاؤں قبلے کی جانب ہونے چاہیں۔
(4)۔اگر کوئی مریض بیٹھ کر نماز ادا کرے اور وہ زمین پر سجدہ کرنے کی طاقت نہ رکھتاہو یاپہلو کے بل لیٹ کر یا پشت کے بل چت لیٹ کر نماز ادا کرے تو وہ تینوں صورتوں میں سرکے اشارے کے ساتھ رکوع اور سجدہ کرے،البتہ سجدے کا اشارہ رکوع کے اشارے سے زیادہ نیچے ہونا چاہیے۔اگر وہ زمین پر سجدہ کرسکتا ہوتو اس کا رکوع اور سجدے کے لیے جھکنا ضروری ہے،صرف اشارہ کافی نہیں۔
مذکورہ ترتیب کے ساتھ مریض کی نماز کا جواز صحیح بخاری وغیرہ کی درج ذیل حدیث سے ثابت ہوتا ہے:
"سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:مجھے بواسیرتھی،چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کی بابت سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کھڑے ہوکر نماز ادا کرو،اگر طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر نماز پڑھو،اگر اس کی طاقت بھی نہ ہوتو پہلو کے بل لیٹ کر ادا کرلو۔"[6]
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ بعض علماء کا قول ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"اگر نماز کے لیے پہلو کے بل لیٹنے کی طاقت نہ ہوتو پشت کے بل چت لیٹ کر پڑھ لو،چاہے اس کے پیر قبلے کی طرف ہوں۔"اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔"[7]
بعض حضرات بیماری یا اپریشن کیوجہ سے نماز چھوڑدیتے ہیں اور وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ مکمل طور پر نماز ادا نہیں کرسکتے یا وہ وضو نہیں کرسکتے یاان کے کپڑے ناپاک ہیں یا کوئی اور عذر پیش کرتے ہیں۔اس بارے میں ہم کہیں گے کہ یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ کسی صورت نماز کو چھوڑنا قطعاً جائز نہیں اگرچہ وہ نماز کی بعض شرائط یاارکان وواجبات ادا کرنے سے عاجز ہوں۔وہ حسب حال،یعنی جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کرلیں،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"سو اللہ تعالیٰ سے حسب طاقت ڈرو۔"[8]
كوئی مریض کہتاہے کہ جب تندرست ہوں گا تو جس قدر نمازیں چھوڑوں گا ان کی قضا دے دوں گا۔اس مسئلے میں یہ اس کی لا علمی یا سستی کا مظہر ہے۔جس طرح ممکن ہونمازوقت پر پڑھی جائے،اس میں تاخیر جائز نہیں ہے۔ہرمسلمان کو اس بارے میں باخبر رہناچاہیے۔
ہسپتالوں میں بھی دینی مسائل واحکام بتانے اورسمجھانے کا بندوبست ضرورہونا چاہیے تاکہ مریضوں کو ان کے احوال کے مطابق نماز اور دیگر مسائل شرعیہ کا علم ہوسکے جن کی انھیں ضرورت ہے۔
(1)۔اوپر ہم نے جو مسئلہ بیان کیا ہے وہ حکم اس شخص کے حق میں ہے جس کا عذر شروع نماز سے لے کر فارغ ہونے تک قائم رہاہو،البتہ جس شخص نے کھڑے ہوکرنماز شروع کی،پھر نماز کے دوران کھڑا ہونے سے عاجز آگیا یاوہ آغاز نماز میں کھڑا ہونے سے عاجز تھا۔پھر اس میں اثنائے نماز میں کھڑا ہونے کی قوت آگئی یا اس نے بیٹھ کر نماز شروع کی لیکن نماز کے دوران میں بیٹھنے کی قوت بھی نہ رہی یا اس نے پہلو کے بل لیٹ کر نماز کی ابتدا کی پھر دوران نماز میں بیٹھنے کی طاقت آگئی تو وہ شخص ان تمام حالات میں دوران نماز میں بعد والی مناسب صورت حال کو اختیار کر لے ۔شرعاً اس کے لیے یہی زیادہ مناسب ہے اور بہتر ہے اور اسی حالت پر نمازس پوری کرلے،اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"سو اللہ تعالیٰ سے حسب طاقت ڈرو۔"
چنانچہ جس میں کھڑے ہونے کی قوت آگئی ہے تو بیٹھا ہوا کھڑا ہوجائے اور اگر کھڑے ہونے کی قوت نہیں رہی تو کھڑا ہوا بیٹھ جائے ۔اس طرح طبیعت کے مطابق نئی صورت اپنالے۔
(2)۔اگر مریض میں کھڑا ہونے اور بیٹھنے کی طاقت ہے لیکن وہ رکوع یا سجدہ کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تو وہ کھڑا کھڑا سرجھکا کر اشارے سے رکوع کرے اور پھر بیٹھ کر سرکے اشارے سے سجدہ کرے،تاکہ حسب امکان دونوں اشاروں میں فرق ہوجائے۔
(3)۔اگر کوئی مریض کھڑا ہوکرنماز ادا کرسکتا ہے لیکن کسی قابل اعتماد مسلمان ڈاکٹر کااسے مشورہ یہ ہے کہ وہ لیٹ کر نماز پڑھے ورنہ اس کا علاج یا افاقہ ممکن نہیں تو وہ شخص لیٹ کر نماز ادا کرے کیونکہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں خراش آگئی تھی تو آپ نے بیٹھ کر ہی نماز ادا کی تھی۔[9]
اسی طرح سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنکھوں کی تکلیف کی وجہ سے زمین پر سجدہ کرنا چھوڑدیاتھا۔[10]
اسلام میں نماز کا ایک بہت بڑا مقام ہے،ہرمسلمان پر فرض ہے کہ وہ حالت صحت اور حالت مرض میں حسب طاقت نماز قائم کرے۔مریض کو نماز معاف نہیں لیکن وہ حسب حال اسے ادا کرے۔ہرمسلمان پرفرض ہے کہ نماز کی اسی طرح حفاظت کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے اعمال کی توفیق دے جس میں اس کی محبت اور رضا ہو۔آمین
2۔سوارشخص کی نماز:وہ شخص بھی اہل عذر میں شامل ہے جو حالت سفر میں کسی چیزیا جانور پر سوار ہواورزمین پر کیچڑ یا بارش ہونے کی وجہ سے سواری سے اتر کر نماز پڑھنے میں اسے مشکل اور تکلیف محسوس ہویاسواری سےاترنے کے بعد دوبارہ سوار ہونے سے عاجز ہو یا سواری سے اترنے کی وجہ سے ساتھیوں سے بچھڑ جانے کا ڈر ہو یا اترنے کی صورت میں دشمن یادرندے کا خوف ہوتو ان حالات میں وہ سواری وغیرہ ہی پر نماز ادا کرلے،زمین پراتر کر نماز پڑھنا ضروری نہیں۔
سیدنا یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
ایک مرتبہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کےصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ایک تنگ سی گھاٹی میں پہنچے،آپ اپنی سواری پر سوارتھے۔اوپر بادل چھائے ہوئے تھے اورنیچے زمین گیلی تھی ،نماز کاوقت ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا،اس نے اذان دی اور پھر اقامت کہی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سوارہونے کی حالت میں آگے بڑھے اور اشاروں سے نماز پڑھائی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں رکوع کی نسبت زیادہ جھکتے تھے۔[11]
(4)۔جوشخص حالت عذر میں سواری پر فرض ادا کرنا چاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قبلہ کی طرف رخ کرے بشرط یہ کہ ایسا ممکن ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
" اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔"[12]
"سو اللہ تعالیٰ سے حسب طاقت ڈرو۔"[13]
انسان كو جس عمل كي ادائیگی پر طاقت وقدرت نہیں اس کا وہ مکلف بھی نہیں،مثلاً:مسافرشخص اگرقبلہ کی طرف رخ کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تو استقبال قبلہ اس کے لیے لازم نہیں ،وہ حسب حال نماز پڑھ لے۔اسی طرح ہوائی جہاز میں بیٹھا شخص حسب استطاعت کھڑے ہوکر یا بیٹھ کرمکمل رکوع وسجدہ کرکے یا اشاروں کے ساتھ جس طرح بھی ممکن ہونمازادا کرے،البتہ استقبال قبلہ کا خیال رکھے کیونکہ وہاں یہ ممکن ہے۔
3۔مسافر کی نماز:مسافر شخص بھی اہل عذر میں شامل ہے،اس کے لیے قصر کرنا،یعنی چاررکعات والی نماز کی دو رکعتیں پڑھنا شرعاً درست ہے جیسا کہ کتاب وسنت اور اجماع سے اس مسئلے کی وضاحت ہوتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"جب تم سفرمیں جارہے ہوتوتم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔"[14]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفرمیں ہمیشہ قصر نماز ہی پڑھی ہے۔بنا بریں جمہور علماء کے ہاں نماز کا قصر کرنا پوری پڑھنے سے افضل ہے۔صحیحین میں روایت ہے:
"حضروسفر میں نماز دودورکعت فرض کی گئی تھی،پھر سفر کی نمازقائم رکھی گئی اور حضر(اقامت) کی بڑھادی گئی۔"[15]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:
"سفر کی نماز دو رکعتیں ہیں۔۔۔۔۔یہ مکمل نماز ہے قصر نہیں۔"[16]
(5)۔نماز کی قصر تب شروع ہوگی جب مسافر اپنے شہر کی آبادی سے نکل جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قصر کی رعایت اس شخص کو دی جو سفر طے کرے۔شرعاً اور عرف عام میں اپنے شہر سے نکلنے سے پہلے وہ سفر طے کرنے والا نہیں کہلانا ،اس لیے وہ مسافر نہیں۔نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کے لیے باہر دو رنکل جاتے،تب قصر کرتے تھے۔علاوہ ازیں سفر کالفظ"اسفار" سے ہے جس کے معنی"صحرا کی طرف نکلنا"ہے،لہذا جب تک کوئی شخص بستی کے گھروں کی حد سے نکل کر صحرا یا میدان تک نہ پہنچ جائے تب تک وہ مسافر نہیں کہلاتا۔
(6)۔اگر کوئی شخص کسی جگہ باربار آتا جاتا ہے تو وہ قصر نماز ہی پڑھے گا جیسا کہ ڈاکیا یا ٹیکسی ڈرائیور وغیرہ جو اکثر اوقات مختلف شہروں میں باربار آتے جاتے ہیں۔
(7)۔مسافر کے لیے ظہر اور عصر اسی طرح مغرب اورعشاء دونمازوں کوایک وقت میں جمع کرکے ادا کرنا جائز ہے۔جس طرح مسافر کے لیے قصر کرناجائز ہے،اسی طرح جمع کرنا بھی جائز ہے،البتہ جمع کی یہ رخصت عارضی ہے اس پر عمل ضرورت کے وقت ہوگا،مثلاً:کسی مسافر کو منزل پر پہنچنے کی جلدی ہو جیسے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک میں جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو ظہر کو مؤخرکرتے یہاں تک کہ اسے عصر کے ساتھ ملادیتے اوردونوں کوایک ساتھ پڑھتے، اورجب سورج ڈھلنے کے بعد کوچ کرتے تو عصر کو پہلے کرکے ظہر سے ملا دیتے اور ظہر اور عصرکو ایک ساتھ پڑھتے پھر روانہ ہوتے ۔اور جب مغرب سے پہلے کوچ فرماتے تو مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اسے عشاء کے ساتھ ملاکر پڑھتے، اور جب مغرب کے بعد کوچ فرماتے تو عشا کو پہلے کرکے مغرب کے ساتھ ملاکر پڑھتے۔"[17]
(8)۔جب کوئی مسافر دوران سفر میں آرام کرنے کی خاطر کہیں ٹھہر جائے تو اگر وہ جمع کرنے کی بجائے ہرنماز اپنے اپنے وقت پر قصر کرکے ادا کرے تو یہ اس کے حق میں افضل اوربہتر ہے۔
(9)۔جب کوئی مسافر دوران سفر میں آرام کرنے کی خاطر کہیں ٹھہر جائے تو اگر وہ جمع کرنے کی بجائے ہر نماز اپنے اپنے وقت پر قصر کرکے ادا کرے تو یہ اس کے حق میں افضل اور بہتر ہے۔
(10)۔اگر کسی مریض کو اپنے اپنے وقت پر نماز ادا کرنے سے تکلیف ومشقت پیش آتی ہو تو ظہر وعصر اورمغرب وعشاءکو جمع کرنا اس کے لیے بھی جائز ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"نمازوں کوجمع کرنے کی رخصت امت کی مشقت ختم کرنے کی خاطر ہے کہ انھیں جب ضرورت ہوتو جمع کرلیں۔اس مضمون کی تمام احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ تنگی وتکلیف کے موقع پر ایک وقت میں دو نمازیں جمع کرکے پڑھی جاسکتی ہیں۔الغرض!جب ترک جمع میں حرج ہوتب جمع بین الصلاتین مباح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ سے تنگی وتکلیف اٹھادی ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ جب مرض میں الگ الگ نماز ادا کرنے میں حرج وتکلیف ہوتو اس میں بھی دو نمازیں جمع کرکے ادا کرنا بطریق اولیٰ جائز ہے۔"[18]
نیزامام موصوف فرماتے ہیں:" مریض حضرات نمازیں جمع کرسکتے ہیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ عورت کے لیے دودو نمازیں جمع کرنے کاحکم صادر فرمایا تھا۔"[19]
اسی طرح اگر کوئی شخص کسی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہر نماز کے وقت طہارت حاصل کرنے سے عاجز ہےمثلاً:پیشاب کے قطروں کا آنا،کسی زخم سے خون کا مسلسل رسنا، نکسیر کادائمی پھوٹنا وغیرہ تو(مستحاضہ پر قیاس کرتے ہوئے) ایسا شخص نمازیں جمع کرسکتاہے۔چنانچہ جب سیدہ حمنہ بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے استحاضہ کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر تجھ میں طاقت ہوتو ظہر کو مؤخر کر اور عصر میں جلدی کر،پھر غسل کرکے ظہر اور عصر کو جمع کرکے پڑھ لے،اسی طرح تو مغرب کو لیٹ کراور عشاء میں جلدی کر،پھر غسل کرکے دونوں نمازیں جمع کرکے پڑھ لے۔"[20]
(11)۔جب اس قدر بارش ہو کہ کپڑے بھیگ جائیں اور مسجد میں آنے والے جانے میں مشقت ہوتو مغرب اور عشاء کو جمع کرکے ادا کرنا جائز ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی رات مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا تھا۔اسی طرح سیدنا ابوبکر اور سید فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کیا تھا۔[21]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اگرچہ بارش رک چکی ہو لیکن بہت زیادہ کیچڑ ہو یا تاریک رات میں شدید ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو یا اس قسم کی کوئی اور تکلیف دہ صورت حال ہوتو نمازیں جمع کرنی جائز ہیں اور یہ گھر میں نماز ادا کرنے سے بہتر ہے کیونکہ گھروں میں نماز پڑھنے سے ترک جماعت لازم آتی ہے جو بدعت ہے اور خلاف سنت ہے۔جبکہ سنت یہ ہے کہ نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کی جائے اور یہ گھرمیں نماز ادا کرنے سے بہتر ہے اور اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔لہذا مسجد میں نمازوں کو جمع کرلینا گھروں میں نماز ادا کرنے سے کہیں بہتر اور افضل ہے۔اس پر ائمہ کرام کا اجماع ہے جو جمع بین الصلاتین کے قائل ہیں،ان میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ،شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ معروف ہیں۔"[22]
(12)۔جس شخص کے لیے نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے اس کے حق میں افضل صورت دہ ہے جوموقع ومحل کے مناسب ہو وہ جمع تاخیر کی صورت ہویا جمع تقدیم کی۔مقام عرفہ میں ظہر اور عصر کی نمازوں میں جمع تقدیم افضل ہے جب کہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازوں میں جمع تاخیر والی صورت افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ میں ظہر کے فورا بعد وقوف کرنا تھا،اس لیے عصر کو مقدم کرلیا جب کہ غروب آفتاب کے فوراً بعد مزدلفہ کی طرف روانہ ہوناتھا،اس لیے مغرب کو مؤخر کرلیا۔الغرض! عرفہ اور مزدلفہ میں دو دو نمازیں جمع کرنا مسنون ہے۔اور دیگر مقامات میں بوقت ضرورت جائز ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عرفہ اور مزدلفہ میں نمازیں جمع کرنا سنت ہے اور دیگر مقامات پر ضرورت کے پیش نظر مباح ہے،البتہ جب مسافر کو کوئی خاص ضرورت نہ ہوتو افضل یہ ہے کہ ہو ہرنماز وقت پر ادا کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام حج میں عرفہ اور مزدلفہ کے علاوہ کسی مقام پرنمازوں کو جمع کرکے نہیں پڑھا تھا۔منیٰ میں بھی نمازیں جمع نہیں کیں کیونکہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام وسکون سےٹھہرے ہوئے تھے اور کوئی جلدی نہ تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم تب نمازیں جمع کرتے جب سفر میں جلدی ہوتی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو مفید علم کے حصول اور نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
4۔نماز خوف:نماز خوف ہر جنگ میں جو کفار سے ہو یا باغیوں سے یا اسلامی حکومت کے ساتھ لڑنے والوں اسے ہو،جائز ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"(تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں) اگر تمھیں ڈر ہوکہ کافر تمھیں ستائیں گے۔"[23]
اس آیت کریمہ کی روشنی میں آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کفار کے علاوہ اور کون ہیں جن سے جنگ کرنا جائز ہے۔واضح رہے جوجنگ شرعاً حرام ہے،اس میں نماز خوف جائز نہیں۔
نماز خوف کی مشروعیت کی دلیل کتاب وسنت اور اجماع ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو، پھر جب یہ سجده کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں اور وه دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وه آجائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لئے رہے"[24]
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز خوف کی چھ یا سات صورتیں منقول ہیں جو تمام کی تمام(موقع محل کی مناسبت سے)جائز ہیں۔"[25]
نماز خوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مشروع ہوئی جوتا قیامت قائم رہے گی۔اس پر صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہ سب کا اجماع ہے،ماسوا ان چند افراد کے جو کسی گنتی میں نہیں ہیں۔
(13)۔سفر ہویا حضر،جس وقت بھی دشمن کے حملے کا خطرہ ہونماز خوف درست ہے۔چونکہ اس نماز کاسبب خوف ہے سفر نہیں،لہذا حضرواقامت میں نمازخوف کی رکعات کی تعداد میں قصر نہ ہوگی،البتہ اس کی ہئیت اور طریقہ ادائیگی میں تبدیلی برقراررہے گی،ہاں سفر میں جب نماز خوف ادا ہوگی تو قصر بھی ہوگی اور طریقہ بھی بدل جائے گا۔
(14)۔نماز خوف کی دوشرطیں ہیں:
1۔دشمن ایسا ہو جس سے لڑنا شرعاً جائز ہو۔
2۔حالت نماز میں اس کے حملے کا خطرہ موجود ہو۔
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"(تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں)اگرتمھیں ڈر ہوکہ کافرتمھیں ستائیں گے۔"[26]
اورفرمان الٰہی ہے:
"کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور سامان سے بےخبر ہوجاؤتو وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں۔"[27]
(15)۔امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے نماز خوف کا وہ طریقہ پسند کیا ہے جو سیدنا سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔[28]
کیونکہ وہ طریقہ قرآن مجید کے بیان کردہ طریقے کے قریب ترین ہے کیونکہ اس میں جنگ اور نماز دونوں میں احتیاط کاپہلو پیش نظررہتاہے،نیز اس میں دشمن پر دباؤ برقراررہتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےغزوہ ذات الرقاع کے موقع پر اسے ہی اپنایا تھا۔اس طریقہ کی تفصیل درج ذیل ہے:
"مسلمانوں کا ایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپیچھے صف بندی کرکے کھڑا ہوگیا،جب کہ دوسرا گروہ دشمنوں کے سامنے رہاجو گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا آپ نے انھیں ایک رکعت پڑھائی،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام میں کھڑے رہے جب کہ پیچھے والوں نے ایک اور رکعت خود پڑھ لی ،یوں وہ دورکعت مکمل کرکے دشمن کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔پھردوسرا گروہ آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بھی ایک رکعت پڑھائی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد کے لیے بیٹھ گئے(اور بیٹھے رہے)،اس دوسرے گروہ نے خود ہی ایک رکعت ادا کی اور پھر وہ بھی تشہد کے لیے بیٹھ گئےاور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہی سلام پھیردیا۔"[29]
(15)۔سیدناجابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نماز خوف کا طریقہ اس طرح مروی ہے:
"جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ خوف کی صلاۃ میں موجود تھے، ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے، اور ہم نے دو صفیں کیں، اور دشمن ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھا، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) کہی، اور ہم نے بھی کہی، آپ نے رکوع کیا ہم نے بھی رکوع کیا، آپ (رکوع سے) اٹھے اور ہم بھی اٹھے، پھر جب آپ سجدے کے لیے جھکے تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اور ان لوگوں نے جو آپ کے قریب (یعنی پہلی صف میں) تھے سجدہ کیا، اور دوسری صف اس وقت تک کھڑی رہی جب تک رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ والی صف نے سر اٹھایا، پھر دوسری صف نے جس وقت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سر اٹھایا، اپنی جگہوں پر سجدہ کیا، پھر جو صف نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے قریب تھی پیچھے ہٹ گئی، اور پیچھے والی صف آگے آ گئی، اور آکر ان کی جگہوں میں کھڑی ہو گئی، اور یہ لوگ پچھلے والوں کی جگہوں میں جا کر کھڑے ہو گئے، پھر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے رکوع کیا، اور ہم نے بھی رکوع کیا، پھر آپ نے رکوع سے سر اٹھایا اور ہم نے بھی اٹھایا، پھر جب آپ سجدے کے لیے جھکے تو ان لوگوں نے سجدہ کیا جو آپ سے قریب تھے، اور دوسرے کھڑے رہے، پھر جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اور ان لوگوں نے جو آپ سے قریب تھے (سجدے سے سر) اٹھایا تو دوسروں نے سجدہ کیا، پھر آپ نے سلام پھیرا۔[30]
(16)۔نماز خوف کاایک طریقہ وہ بھی ہے جو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کو ایک رکعت صلاۃ پڑھائی، اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلہ میں رہا، پھر یہ لوگ جا کر ان لوگوں کی جگہ پر کھڑے ہو گئے، اور وہ لوگ اِن لوگوں کی جگہ پر آگئے، تو آپ نے انہیں دوسری رکعت پڑھائی، پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں نے اپنی باقی ایک رکعت پوری کی (اور اسی طرح) وہ لوگ بھی کھڑے ہوئے، اور ان لوگوں نے بھی اپنی رکعت پوری کی۔"[31]
(17)۔نماز خوف کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ امام ہر گروہ کو الگ الگ کرکے دودورکعتیں پڑھادے۔"[32]
(18)۔سیدناجابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نمازخوف کا ایک اور طریقہ بھی منقول ہے،وہ فرماتے ہیں:"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں"ذات الرقاع"میں تھے۔نماز کے لیے اذان دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کودورکعتیں پڑھائیں،پھر وہ پیچھے ہٹ گئے۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے گروہ کو بھی دورکعتیں پڑھائیں۔راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاررکعات ہوگئیں جب کہ لوگوں کی دودورکعتیں ہوئیں۔[33]
(18)۔یہ تمام صورتیں تب اختیار کی جائیں جب جنگ جاری نہ ہو۔اگرجنگ جاری ہو،تندوتیزحملے ہورہے ہوں،شمشیر وسناں کا عام استعمال ہورہاہو اور نماز خوف کی مذکورہ صورتوں میں سے کوئی بھی ممکن نہ ہو،نماز کا وقت بھی ہوچکا ہوتو حسب حال جیسے بھی ممکن ہو،کوئی سوار ہویا پیدل،کسی کا قبلہ کی طرف رخ ہویانہ ہونماز ادا کرلیں۔رکوع اورسجدے کے لیے حسب طاقت اشاروں سے کام لیں لیکن تاخیر نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"پھر اگرتمھیں خوف ہوتوپیدل ہی سہی یا سواری سہی۔"[34]
(19)۔بہتر یہ ہے کہ نماز خوف میں مسلمان دفاع کے لیے ضرورت کے مطابق ہلکا پھلکا اسلحہ ضرور اٹھا کررکھیں۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اور وه اپنے ہتھیار لیے رہیں۔"[35]
(20)۔اگر کوئی شخص دشمن یا سیلاب یا درندے سے جان بچانے کے لیے بھاگ رہا ہویا کوئی مجاہد د شمن کے تعاقب میں ہو اور اس کے نکل جانے کا ڈر ہوتو وہ بھی سوار ہویا پیدل،اسی حالت میں نماز ادا کرلے،قبلہ کی طرف رخ ہویانہ ہو،رکوع اور سجدہ کے لیے مناسب حال اشارہ کرلے۔
نماز خوف کی ان عجیب وغریب صورتوں اور اس دقیق منصوبہ بندی سے اسلام میں نماز کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔اسی طرح نماز باجماعت کی اہمیت بھی نمایاں ہوتی ہے کہ ان مشکل حالات میں بھی دونوں چیزیں معاف نہ ہوئیں۔اس سے شریعت اسلامیہ کے کمال کا بھی ہمیں علم ہوتا ہے کہ اس کے احکام کس قدر مناسب حال ہیں کہ امت کو تنگی ومشکل میں بھی نہیں ڈالا گیا۔یقیناً یہی شریعت ہرزمان ومکان کے لیے اپنے اندر خیر واصلاح کاایک کامل نظام رکھتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور اسی پر زندگی کا خاتمہ کرے۔بے شک وہ دعا کو سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔
[1]۔الحج 22/78۔
[2]۔البقرۃ 2/185۔
[3]۔البقرۃ 2/286۔
[4]۔التغابن:64۔16۔
[5]۔صحیح البخاری الاعضام بالکتاب والسنۃ باب الاقتداء یسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 7288۔وصحیح مسلم الحج باب فرض الحج مرۃ فی اعلمر حدیث 1337۔ومسند احمد 2/258۔
[6]۔صحیح البخاری التقصیر باب اذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب حدیث 1117 وسنن ابی داود الصلاۃ باب فی صلاۃ القاعد حدیث 952۔
[7]۔جامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء ان صلاۃ القاعد علی انصف من صلاۃ القائم تحت حدیث 372۔
[8]۔التغابن:64۔16۔
[9]۔صحیح البخاری الاذان باب انما جعل الامام لیؤتم بہ حدیث 689۔
[10]۔ مطالب اولی النھی شرح غایۃ المنتھی باب صلاۃ اھل الاعذار 4/29۔
[11]۔(ضعیف الاسناد) جامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی الصلاۃ علی الدایۃ فی الطین والمطر حدیث 411۔ومسند احمد 4/173۔174 واللفظ لہ۔
[12]۔البقرۃ:2/144۔
[13]۔التغابن:64۔16۔
[14]۔النساء 4/101۔
[15]۔صحیح البخاری التقصیر باب یقصر اذا خرج من موضعہ حدیث 1090 وصحیح مسلم کتاب وباب صلاۃ المسافرین وقصرھا حدیث 685 واللفظ لہ۔
[16]۔مسند احمد 1/37۔
[17]۔سنن ابی داود صلاۃ السفر باب الجمع بین الصلاتین حدیث 1220۔وجامع الترمذی الجمعۃ باب ماجاء فی الجمع بین الصلاتین حدیث 553۔
[18]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ 24/84۔
[19]۔مجموع الفتاویٰ 24/26۔
[20]۔سنن ابی داود الطھارۃ باب اذا اقبلت الحیضۃ تدع الصلاۃ حدیث 287 ومسند احمد 5/439 واللفظ لہ۔
[21]۔یہ روایات ہمیں نہیں ملیں۔(ع۔و)۔
[22]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 24/29۔30۔
[23]۔النساء 4/101۔
[24]۔النساء:4/102۔
[25]۔المغنی والشرح الکبیر 2/264 ونیل الاوطار 3/ 360۔
[26]۔النساء 4/101۔
[27]۔النساء:4/102۔
[28]۔المغنی والشرح الکبیر2/264۔
[29]۔صحیح البخاری المغازی باب غزوۃذات الرقاع حدیث 4129۔وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب صلاۃ الخوف حدیث 842۔
[30]۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب صلاۃ الخوف حدیث 840۔
[31]۔صحیح البخاری المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع حدیث 4133 وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب صلاۃ الخوف حدیث 839۔
[32]۔سنن ابی داود صلاۃ السفر باب من قال یصلی بکل طائفۃ رکعتین حدیث 1248 وسنن النسائی صلاۃ الخوف حدیث:1552،ومسند احمد 5/39۔49۔
[33]۔صحیح البخاری المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع،حدیث 4136وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب صلاۃ الخوف حدیث 843۔
[34]۔البقرۃ 2/239۔
[35]۔النساء:4/102۔