امامت کے احکام
نماز کی امامت ایک اہم دینی ذمہ داری ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا اور پھر خلفائے راشدین نے بھی اس بار امامت کو اٹھایا اور خوش اسلوبی سے نبھایا۔
امامت کی فضیلت میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" روزقیامت تین قسم کے آدمی کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس نے قوم کی امامت کی اور وہ اس (امام ) سے خوش تھے۔"[1]
ایک دوسری روایت میں ہے:
"امام کو اس قدر اجر ملے گا جس قدر اس کے پیچھے نماز ادا کرنے والوں کو ملے گا۔"[2]
بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دراخوست کیا کرتے تھے کہ:
" مجھے میری قوم کا امام بنا دیجیے۔[3]اس کی وجہ تھی کہ وہ امامت کی فضیلت اور اجر سے واقف تھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اس دور میں بہت سے طلباء کو دیکھتے ہیں کہ وہ امامت کی ذمہ داری قبول کرنے میں رغبت اور شوق نہیں رکھتے بلکہ گریز اور کنارہ کشی کرتے ہیں۔اس کی وجہ محض سستی اور خیرمیں رغبت کی کمی ہے جو شیطان کی طرف سے نیکی سے محروم رکھنے کی کوشش ہے۔ ان طلباء کو چاہیے کہ وہ کوشش سے اور خوشی کے ساتھ اس ذمہ داری کو قبول کریں اور اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم حاصل کریں۔ دینی طلباء دوسرے لوگوں کی نسبت امامت اور دیگر اعمال صالحہ کے زیادہ لائق ہیں۔
جب ایک شخص میں امامت کی اہلیت کی تمام خوبیاں موجود ہیں تو وہ دوسروں کی نسبت امامت کے زیادہ لائق ہے بلکہ دوسرا اہل شخص موجود نہ ہونے کی صورت میں اس کے لیے یہ فرض انجام دینا ضرورہو جاتا ہے۔
(1)امامت کا حق دار وہ ہے جو دوسروں سے بہتر انداز میں قرآن مجید کی قرآءت کر سکتا ہو۔ مخارج حروف سے واقف ہو حروف کی ادائیگی میں فاش غلطیاں نہ کرتا ہو۔ تلاوت قرآن میں کسی تکلف و تصنع کے بغیر قواعد قرآءت کو ملحوظ رکھتا ہو۔ علاوہ ازیں نماز کے مسائل شرائط ارکان واجبات اور نواقص نماز کا علم رکھتا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
"لوگوں کی امامت وہ کرائے جو سب سے زیادہ قرآن مجید پڑھا ہو۔"[4]
امامت کے بارے میں جو احادیث آتی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ امامت میں مقدم وہ ہو گا جو قرآن مجید اچھے اور بہتر انداز میں پڑھتا ہو اور نماز کے مسائل سے واقف ہو۔ واضح رہے عہد نبوی میں جو شخص قرآن مجید زیادہ پڑھا ہوتا وہ دینی مسائل میں فقیہ بھی زیادہ ہوتا تھا۔
2۔اگر قرآن مجید کی قرآءت میں سب برابر ہوں تو اس شخص کو آگے کیا جائے گا جو دینی مسائل سے زیادہ واقف ہو کیونکہ ایسے شخص میں قرآءت قرآن اور فقہ دین دو خوبیاں جمع ہو گئی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
"اگر قرآءت قرآن میں برابر ہوں تو سنت یعنی علم دین کا زیادہ عالم ہے وہ امامت کا مستحق ہے۔"[5]
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نمازی کو قرآءت کی نسبت دینی مسائل کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے نیز نماز سے قرآءت کا تعلق محدود ہے جب کہ نماز میں پیش آنے والے عوارض غیر محدود ہیں۔
3۔ اگر وہ سب قرآءت و فقہ میں برابر ہوں تو ہجرت جس کی قدیم ہوگی اس کو امامت کے لیے مقدم کیا جائے گا۔
جیسا کہ حدیث میں ہے:
"جب قرآءت و فقہ میں برابر ہوں تو اس شخص کو امام بنایا جائے جس کی ہجرت زیادہ قدیم ہے۔"[6]
ہجرت کا مطلب کفرو شرک کے مالک کو چھوڑ کر اسلامی ملک میں منتقل ہونا ہے۔
4۔اگر قرآءت قرآن فقہ دین اور ہجرت میں سب برابر ہوں تو سب سے زیادہ عمر والا امامت کے لائق ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ("وليؤمكم أكبركم") " تم میں سے بڑا شخص تمھارا امام ہے۔[7]
اس کی وجہ یہ ہے کہ عمر میں بڑا ہونا اسلام میں باعث فضیلت ہے نیز بڑی عمر میں خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے اور اس کی دعا بھی زیادہ قبول ہوتی ہے۔
مذکورہ ترتیب کی دلیل سیدنا ابو مسعود بدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درج ذیل حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"(اولاً)وہ شخص قوم کی امامت کرائے جو سب سے زیادہ قرآن مجید پڑھا ہوا ہے اگر وہ قرآءت قرآن میں برابر ہوں تو پھر جو شخص سنت یعنی دین کا فہم زیادہ رکھتا ہو۔ اگر وہ دینی فہم میں بر ابر ہوں تو جس کی ہجرت سب سے قدیم ہے اگر ہجرت میں برابر ہوں تو جس کا ایمان مقدم ہو۔"[8]ایک روایت میں "یمان"کے بجائے"عمر" کا ذکر ہے یعنی " جس کی عمر زیادہ ہو۔۔۔۔۔"
شیخ الالسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب و سنت کا علم رکھنے والے کو سب پر فضیلت دی ہے اگر علم میں برابر ہوں تو عمل صالح میں جو سب سے بڑھ کر ہے وہ مقدم ہو گا اور اپنے اختیار کے ساتھ عمل صالح میں آگے بڑھنے والا "مہاجر"ہے جسے عمر رسیدہ پر ترجیح دی جائے گی۔"[9]
یہاں کچھ اور بھی اعتبارات وصفات ہیں جن کے حاملین کو امامت میں حاضرین پر بہر صورت ترجیح ہو گی۔
اگرچہ ان حاضرین میں افضل بھی کیوں نہ ہواور وہ یہ ہیں:
1۔مسجد کا مقرر امام (بشرطیکہ وہ امامت کی اہلیت رکھتا ہو)موجود ہو تو کسی دوسرے شخص کے لیے لائق نہیں کہ وہ مصلیٰ امامت پر کھڑا ہو اگرچہ وہ امام سے افضل ہی کیوں نہ ہو الایہ کہ وہ اسے اجازت دے دے۔
2۔گھر کا مالک اگر اہلیت رکھتا ہو تو امامت کے مصلے پر کھڑے ہونا اسی کا حق ہے مگر یہ کہ وہ کسی دوسرے کو اجازت دے دے۔
3۔ سلطان یعنی ملک کا سر براہ یا اس کا نائب موجود ہو تو امامت کے موقع پر وہی مقدم ہوگا بشرطیکہ اس میں امامت کی اہلیت ہو مگر یہ کہ وہ کسی اور کو امامت کرنے کی اجازت دے دے۔
ان حضرات کی امامت کے استحقاق میں دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
"تو کسی شخص کا اس کے گھر میں امام نہ بن اور نہ کسی سلطان کی سلطنت میں امامت کرا۔ اور نہ اس کے گھر میں اس کی عزت کی جگہ پر بیٹھ مگر اس کی اجازت کے ساتھ۔"[10]
امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ مالک مکان امامت کا زیادہ حق دار ہے اگر وہ قرآءت قرآن اور دینی علم رکھتا ہے۔"[11]
اسی طرح سلطان کا مقرر کردہ امام یا اس کا نائب یا اہل مسجد جس کی امامت پر متفق ہوں تو امامت میں اس کا زیادہ حق ہے کیونکہ یہ خاص عہدہ ہے۔ ان حضرات کی موجود گی میں کسی دوسرے کا امامت کے مصلیٰ پر کھڑا ہونا بد گمانی اور نفرت کا باعث ہے۔
گزشتہ بحث سے نماز کی امامت کا شرف و فضیلت اور اسلام میں اس کا مقام و مرتبہ واضح ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں نماز کا امام (دورکعت کا امام نہیں بلکہ وہ)دینی قائد ہوتا ہے۔ امامت ایک بلند مرتبہ ہے خیر و نیکی کی جانب مسابقت کا ذریعہ ہے۔ امام امیر کی اطاعت کرنے اور جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے کے لیے معاون ہے۔ امامت کی بدولت اللہ تعالیٰ کی مساجد آباد ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ کے فرمان کے عموم میں(جس میں اللہ کے بندوں کی دعا کا ذکر ہے)یہ مضمون بھی موجود ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
"اور وہ لوگ جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار !تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیز گاروں کا پیشوا بنا۔[12]
درحقیقت نماز کی امامت دین کی امامت ہے بالخصوص جب کوئی امام مسجد میں حاضرین کو وعظ و نصیحت کرنے میں اپنی قوتیں کھپاتا ہو تو اس کا شمار ان خوش نصیب لوگوں میں ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہیں جو اپنے دامنوں میں اعمال صالحہ اور اقوال طیبہ کے ذریعے سے نیکیوں کے حسین پھول سمیٹ رہے ہیں۔
ارشاد ہے:
"اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں۔"[13]
چنانچہ امامت کا عہد قبول کرنے سے وہی شخص اعراض وگریز کرتا ہے جو بے نصیب ہے۔"ولاحول ولاقوة الا بالله"
نماز کی امامت بہت بڑی دینی ذمہ داری ہے۔ جس طرح امامت کی اہلیت کے لیے مذکورہ تمام اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ امام ان عیوب اور نقائص سے مبرا ہو جو اس کے منصب کے لائق نہیں اور اس کے شایان شان نہیں۔
فاسق شخص کو نماز کی امامت کا منصب دینا قطعاً جائز نہیں۔ واضح رہے فاسق وہ شخص ہے جو شرک کے سوا دیگر کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے دائرہ تقوی واستقامت سے نکل جائے۔
فسق دو قسم کا ہوتا ہے فسق عملی اور فسق اعتقادی ۔ فسق عملی زنا، چوری کرنے، شراب پینے وغیرہ کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کا نام ہے جب کہ فسق اعتقادی عقائد میں خرابی سے لاحق ہوتا ہے جیسا کہ رافضہ معتزلہ اور جہمیہ کے عقائد میں بگاڑ پیدا ہوا اور وہ فسق اعتقادی کے مرض کا شکار ہو گئے۔الغرض کسی فاسق شخص پر نماز کی امامت کی ذمہ داری ڈالنا قطعاًدرست نہیں کیونکہ وہ تو اس لائق بھی نہیں کہ اس کی کوئی خبر قبول کی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اے مسلمانو! اگر تمھیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔"[14]
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی روشنی میں نماز کی شرائط اور اس کے احکام میں فاسق شخص پر قطعاً اعتماد یقین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ دوسروں کے لیے بری مثال بن جائے گا لہٰذا دینی امور میں سے اسے ذمہ داری دینے میں بہت سی قباحتیں اور خرابیاں پنہاں ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"کوئی عورت مرد کی اعرابی مہاجر کی اور فاجر شخص مومن کی امامت نہ کرائے سوائے اس کے کہ وہ اسے اپنے قوت و غلبہ سے مجبور کردے۔ اور اس کی طرف سے ظلم و زیادتی کا خوف ہو۔"[15]
حدیث کے الفاظ "فاجر شخص مومن کی امامت نہ کرائے ،"محل شاہد ہے اور حق سے کنارہ کشی کرنے کا نام فجور ہے۔
فاسق کے پیچھے نماز ادا کرنا ممنوع ہے لہٰذا قوت و قدرت کے ہوتے ہوئے اسے امام بنانا قطعاً جائز نہیں ۔اسلامی حکومت کے ذمہ دار ان اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ کسی فاسق شخص کو نمازوں کا امام مقرر نہ کریں کیونکہ انھیں حکم ہے کہ وہ لوگوں کی مصلحتوں پر توجہ دیں اور عوام کو اس غلطی کے ارتکاب پر مجبور نہ کریں کہ وہ فاسق کے پیچھے کھڑے ہو کر ایسی نماز ادا کریں جو انھیں خود ناپسند ہو۔ فاسق کے پیچھے پڑھی گئی نماز کی صحت میں بھی علماء کا اختلاف ہے جس کا یہ حال ہو اس سے بہر حال لوگوں کو بچانا چاہیے۔
جو شخص رکوع سجدہ کرنے یا بیٹھنے سے عاجز ہو اس کو امام بنانا درست نہیں الایہ کہ مقتدی بھی رکن و شرط ادا کرنے سے(امام کی طرح )عاجز ہوں۔ اسی طرح کھڑا ہونے سے عاجز شخص کا تندرست شخص کی امامت کرانا صحیح نہیں الایہ کہ وہ اہل مسجد کا مقرر کردہ امام ہو اور اس کی اس بیماری کے بارے میں تندرستی اور صحت کی امید ہوتو اس کی اقتدا میں نماز جائز ہے۔ اس صورت حال میں تمام مقتدی بیٹھ کر ہی نماز ادا کریں گے۔ اس بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے:
"ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکلیف کی حالت میں گھر میں بیٹھ کر نماز شروع کی جب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ کے پیچھے نماز میں کھڑے تھے تو آپ نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ نماز سے فارغ ہو کر فرمایا:امام اقتدا کی خاطر بنایا جاتا ہے جب رکوع کرے تب تم رکوع کرو۔ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھو۔"[16]
اس کی وجہ یہ ہے کہ مقرر کردہ امام کو آگے کرنا یہ اس کا حق ہے جو اسے ملنا چاہیے ۔ اگر مقتدی اس کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کریں۔یا کچھ کھڑے ہو ں اور کچھ بیٹھے ہوئے ہوں تو صحیح قول کے مطابق ان کی نماز درست ہو گی البتہ اگر امام کسی کو اپنا نائب بنالے جو انھیں کھڑا ہو کر نماز پڑھائے تو یہ زیادہ بہتر ہے اور اس سے فقہاء کے اختلاف سے بھی نکل جائیں گے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی امامت کے لیے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا نائب مقرر کیا تھا۔[17]
الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں صورتوں کا جواز ثابت ہے۔
جو شخص ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس کے ساتھ اس کا وضو قائم نہیں رہتا مثلاً:اسے سلسل البول (پیشاب کے قطرے نکلنے)یا ہوا کے خارج ہونے کا مرض لاحق ہو تو اس کی امامت درست نہیں کیونکہ اس کی نماز میں تندرست کی نسبت خلل ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ ایسا شخص طہارت کے منافی نجاست کے باوجود نماز ادا کر رہا ہے اس کی نماز اس کی مجبوری کی وجہ سے درست ہے البتہ اگر اس کے مقتدی بھی ایسے ہی کسی مرض میں مبتلا ہوں تب کوئی حرج نہیں کیونکہ بیماری کی وجہ سے عذر میں سب برابر ہیں۔"[18]
اگر کسی نے ایسے شخص کے پیچھے نماز ادا کی بے وضو تھا یا اس کے بدن یا کپڑے یا جائے نماز پر نجاست تھی اور دونوں کو نماز سے فارغ ہونے تک اس کی خبر نہ ہوئی تو مقتدی کی نماز درست ہوگی۔جب کہ امام کی نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:" جب کوئی جنبی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ دوبارہ نماز پڑھے جبکہ مقتدی کی نماز مکمل اور صحیح ہے۔"[19]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"خلفائے راشدین کا یہ طریقہ تھا کہ وہ لوگوں کو نمازیں پڑھاتے نماز کے بعد کبھی جنابت کے اثرات دیکھتے تو خود نماز کا اعادہ کر لیتے ۔ باقی لوگوں کو نماز کے اعادے کا حکم نہ دیتے۔"[20]
اگر امام یا مقتدی کو دوران نماز میں عدم طہارت یا نجاست کی موجودگی کا علم ہو جائے تو ہر ایک کی نماز باطل ہوگی۔ [21]
ایسے ان پڑھ شخص کی امامت بھی درست نہیں جسے سورۃ فاتحہ بھی اچھی طرح حفظ نہ ہویا حفظ تو ہو لیکن بڑی فاش غلطیاں کرتا ہو۔ مثلاً:( إِيَّاكَ)کے کاف پر زیر پڑھے (أَنْعَمْتَ) کی تاپرپیش پڑھے۔(اهْدِنَا)کے ہمزہ پر زبر پڑھتا ہو۔ یا کسی حرف کو دوسرے حرف سے بدل دے مثلاً:"را"کو"غیب"یا "لام " پڑھے۔یاسین کوتا یا(شین)پڑھتا ہو۔ ان پڑھ امام کی امامت اس جیسے ان پڑھ لوگوں کے سواکسی اور کے لیے درست نہیں جبکہ وہ اس کی اصلاح نہ کر سکتے ہوں کیونکہ دونوں فریق مساوی ہیں۔ اگر ایسا ان پڑھ شخص الفاظ (قرآءت) کی اصلاح کر سکتا ہو لیکن وہ کوشش ہی نہ کرے تو نہ اس کی نماز درست ہے اور نہ اس کے پیچھے ادا کرنے والے کی نماز صحیح ہے کیونکہ وہ قدرت کے باوجود ایک رکن (قرآءت ) کا تارک ہے۔
جس شخص سے اکثر لوگوں کی ناراضی درست ہو اس کی امامت مکروہ ہے یعنی اگر لوگ کسی کی امامت کو کسی معقول وجہ کی بنیاد پر ناپسند کرتے ہوں۔مثلاً:اس میں دینی کمزوریاں ہوں تو ایسے شخص کا امامت کرانا مکروہ عمل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نمازان کے کانوں سے اوپر نہیں جاتی۔ بھاگنے والا غلام جب تک وہ واپس نہ لوٹ آئے اور وہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا خاوند اس پر ناراض ہو اور کسی قوم کا امام جسے وہ ناپسند کرتے ہوں۔"[22]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اس امام کی نماز قبول نہیں ہوتی جسے لوگ اس کی دینی کمزوریوں کی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں مثلاً:اس کا جھوٹ بولنا یا کسی پر ظلم کرنا یا اس کا جاہل ہونا یا اس کا بدعتی ہونا۔ اگر وہاں کوئی ایسا شخص موجود ہو جو دینی اعتبار سے مقرر امام سے بہتر اور اچھا ہو۔ مثلاً:سچا ہو، عادل ہو یا عالم ہو یا دین کے علم وعمل میں زیادہ پختہ ہو تو پہلے کو امامت سے معزول کر کے پسند یدہ شخص کو امام مقرر کرنا ضروری ہے بلکہ مناسب یہ ہے کہ وہ خود ہی عہدہ امامت سے الگ ہو جائے ورنہ اس کی اپنی نماز قبول نہ ہو گی جیسا کہ حدیث میں ہے:"تین شخص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے کانوں سے اوپر نہیں جاتی ایک وہ امام جس کے مقتدی اسے ناپسند کرتے ہوں دوسرا وہ شخص جو نماز کا وقت گزار کر پڑھے اور تیسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو غلام بنالیا۔"[23]
آگے چل کر شخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :"اگر کسی امام اور اس کے مقتدیوں کے درمیان شدید مسلکی اختلاف موجود ہو تو وہ ان کی امامت نہ کرائے کیونکہ نماز باجماعت کا مقصد لوگوں میں پیار و محبت پیدا کر کے انھیں جوڑنا ہے توڑنا نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے۔
"نماز میں ایک دوسرے سے ہٹ کر(یا آگے پیچھے)کھڑے نہ ہوا کرو۔"ورنہ تمھارے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔"[24]
البتہ اگر امام متدین ہو۔ یعنی کتاب وسنت کا حامل و عامل ہو اور لوگ اسی وجہ سے اسے ناپسند کرتے ہوں تو اس امام کے حق میں امامت مکروہ نہیں ہے غلطی اس کی ہے جو اسے ناپسند کرے۔
بہر حال امام اور مقتدیوں کے درمیان محبت و پیار کی فضا ضروری ہے تاکہ نیکی و تقوی میں باہم تعاون ہو۔خواہش پرستی اور شیطانی اغراض کے اتباع میں اگر کینہ وبغض پیدا ہو گیا ہو تو اسے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے امام کی ذمہ داری ہے۔ کہ وہ اپنے مقتدیوں کے حقوق کا خیال رکھے ان کو مشکل میں نہ ڈالے ان کے جائز مطالبات کا احترام کرے۔اسی طرح مقتدیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ امام کے حقوق کا خیال رکھیں اور اس کا نہایت احترام اور عزت کریں۔
ہر انسان سے بھول چوک اور کمی و کوتاہی ہو ہی جاتی ہے اس لیے ایک دوسرے کو برداشت کرنا چاہیے اور ایسی معمولی کمزوری سے صرف نظر کرنا چاہیے جس سے دین ومروت میں خلل پیدا نہ ہوتا ہو۔
"بھلا ایسا کوئی شخص ہے جس کی تمام عادات واطوار سے ہر شخص خوش ہو، کسی شخص کے بڑا ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اس کے عیوب شمار کر لیے جائیں۔"
ہم اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور توفیق خیر کی دعا کرتے ہیں۔
امام ضامن ہے لہٰذا نماز سے متعلق اس پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی ذمہ داری کو خوش اسلوبی سے نبھاتا ہے تو اس کے نصیب میں بہت بڑی بھلائی ہے۔
امامت کی فضیلت و عظمت لوگوں کے ہاں مشہور معروف امر ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے قبول کیا اور اس کے لیے بہترین افراد کو منتخب کیا۔ حدیث نبوی میں ہے:
"روز قیامت تین آدمی کستوری کے ٹیلوں پر ہوں گے۔ ایک وہ شخص جو قوم کا امام رہا اور وہ اس پر خوش تھے۔"[25]
ایک روایت میں ہے:
"امام کو اس قدر اجر ملے گا جس قدر اس کے پیچھے نماز ادا کرنے والے سب مقتدیوں کو ملے گا۔"[26]
جو شخص اپنے آپ کو امامت کے لائق سمجھتا ہو تو وہ اس ذمہ داری کو خود طلب کر سکتا ہے چنانچہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی:
"مجھے میری قوم کا امام مقرر کر دیجیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج سے تو ان کا امام ہے کمزروں کا خیال رکھنا۔"[27]
اس مسئلہ کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے:
"اور ہمیں پر ہیز گاروں کا پیشوا بنا۔"[28]
جس شخص پر امامت کی ذمہ داری عائد ہو اسے چاہیے کہ اسے پوری اہمیت دے۔ حسب استطاعت اس کا حق ادا کرے تو یقیناً اس کے لیے اس میں اجر عظیم ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان پر عمل کرتے ہوئے مقتدیوں کے انفرادی اور اجتماعی حالات کا خیال رکھے۔ انھیں پر یشانی اور مشکل میں نہ ڈالے انھیں اپنی طرف راغب کرے متنفرنہ کرے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جب کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ نماز میں تخفیف کرے کیونکہ ان میں بیمار ضعیف اور حاجت مند بھی ہوتے ہیں اور جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو حسب منشا نماز لمبی کرے۔"[29]
صحیحین میں سیدنا ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یوں ہے:
"اے لوگوں !تم میں سے بعض لوگ نفرت پیدا کرتے ہیں جو شخص لوگوں کی امامت کرائے وہ اختصار سے کام لے کیونکہ ان میں ضعیف بوڑھے اور ضرورت مند ہوتے ہیں۔"[30]
ایک صحابی کا بیان ہے:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جس قدر مختصر اور مکمل نماز پڑھی ایسی نماز کسی اور کے پیچھے نہیں پڑھی۔"[31]
جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہمارے لیے نماز وغیرہ میں نمونہ ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جو شخص نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اپنائے گا وہ اپنے مقتدیوں کو نماز لمبی ہونے کی شکایت کا موقع نہیں دے گا۔"[32]نماز میں تخفیف سے مراد ایسی نماز ہے جو مختصر بھی ہو اور اس کے ارکان واجبات اور سنن مکمل بھی ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تھی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشگی فرمائی۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ نماز مقتدیوں کی خواہش کے مطابق ہو۔
بعض علماء کے ہاں تخفیف کا مطلب یہ ہے کہ کمال کے ادنی درجے پر اکتفا ہو مثلاً:رکوع اور سجدے میں تین تسبیحات کہی جائیں البتہ جب کبھی مقتدیوں کی متفقہ رائے یہ ہو کہ امام انھیں لمبی نماز پڑھائے تب قیام لمبا کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اب مقتدیوں کے منتفر ہونے کا اندیشہ نہیں رہا۔
امام ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" فقہاء کی یہ رائے کہ امام کو رکوع اور سجدے میں تین تسبیحات سے زیادہ نہیں کہنی چاہئیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کے خلاف نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین تسبیحات سے زیادہ پڑھا کرتے تھے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اجرو ثواب کے حصول میں جو جذبہ تھا اس اعتبار سے یہ تعداد زیادہ تھی۔"[33]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"امام نماز کی قرآءت و تسبیحات کو مسنون مقدار سے زیادہ نہ کرے البتہ موقع محل کی مناسبت سے کبھی کبھار زیادہ وقت بھی لگایا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ایسا کیا کرتے تھے۔"[34]
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"علماء نے کہا ہے کہ احادیث شریفہ میں قرآءت کی مقدار میں روایات کا جو اختلاف ہے ان کا تعلق مختلف احوال کی مناسبت سے ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقتدیوں کی صورت حال دیکھ لیتے نفسیات پڑھ لیتے ۔ اگر وہ لمبا قیام چاہتے تو لمبا قیام کرلیتے اور اگر کسی عذر کی وجہ سے اختصار چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختصر نماز پڑھا دیتے تھے۔ کبھی لمبی نماز پڑھانے کا ارادہ ہوتا لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز مختصر کر دیتے تھے جیسا کہ روایات میں موجود ہے:
امام اتنی جلدی نماز نہ پڑھائے کہ مقتدی امام کے ساتھ مسنون ارکان مثلاً:سورۃ فاتحۃ تین تین بار تسبیحات رکوع و سجود ادا نہ کر سکے بلکہ قرآءت ٹھہر ٹھہر کر کرے۔ اور رکوع و سجود کی تسبیحات کا موقع دے۔
یہ بھی عمل مسنون ہے کہ امام پہلی رکعت لمبی کرے چنانچہ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت کو لمبا کرتے تھے۔"[35]
جب امام حالت رکوع میں ہو اور اسے محسوس ہو کہ کوئی شخص جماعت میں داخل ہو رہا ہے تو مستحب یہ ہے کہ امام رکوع کو قدر لمبا کردے تاکہ وہ رکوع میں شامل ہو جائے اور رکعت مل جائے یہ مقتدی کے ساتھ تعاون کی ایک صورت ہے چنانچہ سیدنا ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت سے ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی رکعت میں تادیر کھڑے رہتے حتی کہ جماعت میں داخل ہونے والوں کے قدموں کی آہٹ ختم ہوجاتی۔[36]
لیکن یہ تب ہے جب مقتدیوں کی طبیعتوں پر انتظار گراں نہ گزرے اور زیادہ لمبا نہ ہو ورنہ انھیں نظر انداز کر دے کیونکہ جماعت میں شامل ہونے والوں کا احترام و لحاظ شامل نہ ہونے والوں سے بڑھ کر ہے۔
الغرض! امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقتدیوں کے حوال و طبائع کا خیال رکھے مکمل اور صحیح نماز پرھائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحتوں اور امر کی اطاعت کرے اس میں سب کی خیر اور بھلائی ہے۔
بعض آئمہ مساجد امامت کی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں کوتاہی برتتے ہیں اکثر مسجد سے غیر حاضر رہتے ہیں ،یاحاضری میں تاخیر کرتے ہیں جس کی وجہ سے نمازیوں کو پریشانی ہوتی ہے ان میں نفرت اور مخالفت جنم لیتی ہے حتیٰ کہ امام کی شخصیت سست اور غیر ذمہ دار لوگوں کے لیے ایک دلیل بن جاتی ہے۔ ایسے شخص کو اس غلطی سے روکیےاور سمجھائیے تاکہ وہ اپنے کام کو باقاعدگی اور بہتر انداز سے سرانجام دے مسجد کی امامت میں بے قاعدگی چھوڑ دے یا پھر راہ راست پر نہ آنے کی صورت میں اسے عہدہ امامت سے معزول کر دیا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعمال کی توفیق دے جو اسے محبوب اور پسند ہوں۔آمین!۔
[1]۔(ضعیف) جامع الترمذی البروالصلۃ باب ماجاء فی فضل المملوک الصلح حدیث 1086۔
[2]۔سنن النسائی الاذان باب رفع الصوت بالاذان حدیث 647۔ومسند احمد :4/284۔
[3]۔سنن ابی داؤد الصلاۃ باب اخذ الاجر علی التاذین حدیث 531۔
[4]۔صحیح مسلم المساجد باب من احق بالامامۃ؟ حدیث :673۔ وصحیح البخاری الاذان باب امامۃ العبدوالمولی قبل حدیث 692۔
[5]۔صحیح مسلم المساجد باب من احق بالامامۃ؟ حدیث :673۔
[6]۔صحیح مسلم المساجد باب من احق بالامامۃ؟ حدیث :673۔
[7]۔صحیح البخاری الاذان من قال مؤذن فی السفر مؤذن واحد حدیث:628۔وصحیح مسلم المساجد باب من احق بالامامۃ؟ حدیث :674۔
[8]۔صحیح مسلم المساجد باب من احق بالامامۃ؟ حدیث :673۔
[9]۔مجموع الفتاوی لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 23/386۔
[10]۔صحیح مسلم المساجد باب من احق بالامامۃ ؟ حدیث :673وسنن ابی داؤد الصلاۃ باب من احق بالامامۃ حدیث :582۔
[11] ۔معالم السنن شرح سنن ابی داؤد للامام الخطابی 1/145تحت حدیث 190۔
[12]۔الفرقان 25۔74۔
[13]۔حم السجدہ 41۔33۔
[14]۔الحجرات6/69۔
[15]۔(ضعیف) سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب فی فرض الجمعۃ حدیث:1081۔
[16]۔صحیح البخاری الاذان باب جعل الامام لیؤتم بہ حدیث 688وصحیح مسلم الصلاۃ باب آئمام الماموم بالامام حدیث: 412۔
[17]۔صحیح البخاری الاذان باب حد المریض ان یشہد الجماعۃ حدیث:664۔
[18]۔اس سلسلے میں دوسرا موقف یہ ہے کہ ایسے شخص کے پیچھے تندرست شخص کی نماز درست ہے کیونکہ جب اس کی اپنی نماز درست ہے تو مقتدی کی نماز بھی درست ہے۔ دیکھیے تمام المنۃ للا لبانی ص 280۔ولسیل الجرار للشو کانی 1/247۔255۔(ع۔د)
[19]۔(ضعیف) جداً) سنن الدارقطنی 1/362۔363۔حدیث 1352۔1353۔
[20]۔سنن الدارقطنی: 1/363۔حدیث 1356۔1357۔مجموع الفتاوی لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 23/369۔
[21]۔بعض علماء کی رائے کے مطابق مقتدیوں کی نماز باطل نہ ہو گی باقی رہا امام تو وہ کسی کو اپنا نائب بنا دے جو نماز مکمل کرائے اور خود الگ ہو جائے۔"
[22]۔جامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی من ام قوما وھم لہ کارھون حدیث :360۔
[23]۔سنن ابی داؤد الصلاۃ باب الرجل یؤم القوم وھم لہ کارھون حدیث593۔ومجموع الفتاوی لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 23/373۔
[24]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب تسویہ الصفوف وافامتھا حدیث :432۔
[25]۔(ضعیف) جامع الترمذی البرو الصلہ باب ماجاء فی فضل المملوک الصالح حدیث:1086۔
[26]۔سنن النسائی الاذان باب رفع الصوت بالاذان حدیث 647۔
[27]۔سنن ابی داؤد الصلاۃ باب اخذ الاجر علی التاذین حدیث 531۔
[28]۔الفرقان:25۔74۔
[29]صحیح البخاری الاذان باب اذا صلی لنفسہ فلیطول ما شاء حدیث703۔ وصحیح مسلم الصلاۃ باب امر الائمہ یتخفیف الصلاۃ فی تمام حدیث:467۔وسنن ابی داؤد حدیث 794۔795۔
[30]۔صحیح البخاری الاذان باب من شکا امامۃ اذا طول حدیث 704وصحیح مسلم الصلاۃ باب امر الائمہ یتخفیف الصلاۃ فی تمام حدیث:466۔
[31]۔صحیح البخاری الاذان باب من اخف الصلاۃ عند بکاء الصبی حدیث708۔وصحیح مسلم الصلاۃ باب امر الائمہ یتخفیف الصلاۃ فی تمام حدیث:469۔
[32]فتح الباری شرح صحیح البخاری 2/260۔
[33]۔فتح الباری 2/199۔تحت الحدیث :702۔
[34]۔الفتاوی الکبری ال بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ الاختیارات العلمیہ باب صلاۃ الجماعۃ5/347۔
[35]۔صحیح البخاری الاذان باب القراء فی الظہر حدیث: 759۔ وصحیح مسلم الصلاۃ باب القراء فی الظہر حدیث 451۔452۔
[36] ۔(ضعیف) سنن داؤد الصلاۃ باب القراء فی الظہر حدیث: 802۔ ومسند احمد 4/356فاضل مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے جو دلیل پیش کی ہے اس سے ان کا رکوع لمبا کرنے کا دعوی ثابت نہیں ہو تا بلکہ قیام کرنا ثابت ہوتا ہے۔