سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) مساجد میں عورتوں کے وضو ہونے کا حکم

  • 23705
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 728

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مساجد میں عورتوں کے وضو ہونے کا حکم


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارا دین اسلام ایک کامل دین ہے جو دنیوی اور اخروی مصلحتوں کا جامع ہے۔ اس میں مسلمانوں مردوں اور خواتین کے لیے بھلائی اور خیرخواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿مَن عَمِلَ صـٰلِحًا مِن ذَكَرٍ أَو أُنثىٰ وَهُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحيِيَنَّهُ حَيو‌ٰةً طَيِّبَةً وَلَنَجزِيَنَّهُم أَجرَهُم بِأَحسَنِ ما كانوا يَعمَلونَ ﴿٩٧﴾... سورة النحل

"جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انھیں ضرور بہ ضروردیں گے۔"[1]

دین اسلام نے عورت کے امور پر بھی بہت توجہ دی ہے حتی کہ اسے عزت و احترام کی بلند چوٹی پر کھڑا کر دیا ہے بشرطیکہ وہ دین کی ہدایت اور راہنمائی کو مضبوطی سے تھا مے رکھے اور اس کے بتائے ہوئے فضائل و خصائل سے آراستہ ہو۔

عورت کی تربیت کی ایک صورت یہ ہے کہ دین اسلام نے اسے باجماعت نماز کی برکات میں شریک ہونے اور مجالس ذکر میں شامل ہونے کے لیے مسا جد میں جانے کی اجازت دی ہے اور اس کے ساتھ اسے ان احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کی تلقین و تاکید کی ہے جو اسے دنیاوی فتنوں سے محفوظ و مامون رکھیں بلکہ اس کی عزت و احترام کی محافظ ثابت ہوں جس کی قدرے تفصیل یوں ہے:

جب عورت مسجد میں جانے کی اجازت طلب کرے تو اسے روکنا درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

"لاَ تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ"  وفي رواية: " لا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمْ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ وفي رواية اخري : لِيَخْرُجْنَ وَهُنَّ تَفِلاَتٌ"

"اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو۔"[2]ایک روایت میں ہے:" تم عورتوں کو مساجد سے نہ روکو۔"[3]جبکہ ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں:"[4]

ایک روایت میں ہے۔"البتہ وہ سادگی سے نکلیں۔"[5]

اس حدیث میں عدم ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ باجماعت فرض نماز کی ادائیگی میں مرد و عورت ہر دو کے لیے بہت بڑی فضیلت اور اجر ہے اسی طرح مسجد کی طرف چلنے کا مزید ثواب ہے۔ صحیحین میں روایت ہے:

"إِذَا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِاللَّيْلِ إِلَى الْمَسْجِدِ فَأْذَنُوا لَهُنَّ "

"جب تمھاری عورتیں رات کے وقت مسجد میں جانے کی اجازت طلب کریں تو انھیں اجازت دے دو۔"[6]

خاوند سے اجازت مانگنے کی وجہ یہ ہے کہ عورت کا گھر میں رہنا اس کے خاوند کا حق ہے جب کہ مسجد میں جانا مباح ہے۔ مباح کی خاطر واجب کا ترک درست نہیں۔ البتہ جب خاوند نے بیوی کو اجازت دے دی تو خاوند نے اپنا حق ختم کر لیا۔ حدیث میں ہے:" ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔"اس کا مطلب یہ ہے کہ مساجد میں نماز ادا کرنے سے ان کا گھروں میں نماز ادا کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ گھر میں رہنے سے وہ کئی فتنوں سے محفوظ رہیں گی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ فرمایا ہے :"وہ سادگی سے نکلیں ۔" یعنی وہ زینت اور خوشبو لگا کر نہ نکلیں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ سادگی میں ہوں گی تب مردان کی طرف متوجہ نہ ہوں گے۔اور حرص بھری نگاہوں سے نہ دیکھیں گے جو فتنے کی بنیاد ہے۔ اسی طرح وہ چمکیلا اور بھڑکیلا لباس نہ پہنیں زیور کی نمائش نہ کریں۔ اس صورت میں عورت کے لیے اس کا گھر سے نکلنا حرام ہے اور خاوند کے لیے اسے روکنا ضروری ہے کیونکہ صحیح مسلم میں روایت ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فَلَا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ"

"جو عورت خوشبو لگائے وہ عشاء کی نماز میں ہمارے ساتھ شامل نہ ہو۔"[7]

جب کوئی مسجد کی طرف  جائے تو وہ مردوں کے رش سے دور رہے۔

امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"اسلامی حکومت کے افسران کو چاہیے کہ وہ بازاروں یا مردوں کے جمع ہونے کی جگہوں پر مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہونے دیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کیونکہ یہ چیز ایک بڑے فتنے کا موجب ہے جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہے:"میں نے اپنے پیچھے مردوں کے لیےعورت سے بڑا فتنہ کوئی نہیں چھوڑا۔"[8]

آگے چل کر امام موصوف لکھتے ہیں عورتوں کو زیب و زینت اختیار کرکے باہر نکلنے سے روکنا چاہیے اور انھیں باریک کپڑے پہننے سے منع کرنا چاہیے جن میں ان کے اعضاء یوں نمایاں ہوں جیسے وہ ننگی ہیں انھیں راستوں میں غیر مردوں کے ساتھ بات چیت سے روکنا چاہیے اسی طرح مردوں کو بھی ایسی حرکات سے روکا جائے۔"

گھر سے نکلتے وقت جب کوئی عورت اسلامی آداب پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حیا کو اختیار کرے پردے کا اہتمام کرے زیب و زینت اور خوشبو کے استعمال سے احتراز کرے مردوں کے اختلاط سے دور رہے تو اس کے لیے نماز اور وعظ و نصیحت سننے کے لیے مسجد میں جانا جائز ہے لیکن اس صورت حال کے باوجود بھی اس کا گھر میں رہنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاہے:

"وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ "

"ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔"[9]

اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کا گھر میں نماز ادا کرنا مسجد میں نماز ادا کرنے سے بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں فتنے سے بچاؤ ہے اور خیر و سلامتی یقینی ہے اور شرکی بیخ کنی ہے۔

اگر عورت اسلامی آداب کا لحاظ نہ رکھے ممنوعہ چیزوں مثلاً:زینت اور خوشبو سے اجتناب نہ کرے تو اس حال میں اس کا گھر سے نکلنا حرام ہے اس کے سر پرست اور صاحب اختیار پر اسے بہر صورت روکنا فرض ہے۔

صحیحین میں روایت ہے روایت ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں:"اس وقت ہم نے عورتوں کی جو صورت حال دیکھی ہے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  دیکھ لیتے تو آپ عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔"[10]

مسجد میں جاتے وقت جب اس حد تک احتیاط ہے تو مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ جانا ہو تو اس سے کہیں زیادہ محتاط رہنا چاہیے اور فتنوں کی جگہوں سے بچنا چاہیے۔

آج کل بعض لوگ یہ نعرہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ عورت کو گھر سے نکل کر معاشرے کے ہر شعبے میں مرد کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہیے جیسا کہ مغربی ممالک میں یا مغربی تہذیب سے متاثرہ ممالک میں عورتوں کی صورت حال ہے۔ در حقیقت یہ لوگ فتنے کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور عورت کو تباہی و شقاوت کے گہرے گڑھے کی طرف گھسیٹ رہے ہیں اور اس سے اس کی عزت و ناموس کی چادر چھین رہے ہیں چنانچہ ہمار فرض ہے کہ ان لوگوں کے آگے ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دیں حتی کہ وہ آگے نہ بڑھ سکیں اور اس دعوت جاہلیت میں استعمال ہونے والی زبانیں اور قلمیں روک دیں۔

یہ نہایت واضح اور نمایاں حقیقت ہے کہ آج مغرب یا مغرب کی تقلید کرنے والے ممالک میں عورت تباہی و بربادی کے جس گڑھے میں گر چکی ہے اور جس خوفناک دلدل میں پھنس چکی ہے اب اس پر اس کا سارا معاشرہ پریشانی و پشیمانی کے عالم میں سسک رہا ہے۔ ہمیں ان سے عبرت حاصل کرنی چاہیے عقل مند وہی ہوتا ہے جو دوسروں کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرے۔

ان لوگوں کے پاس اپنے دعوے کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہاں ! ان کا کہنا ہے کہ عورت کے کام نہ کرنے سے معاشرے کا نصف حصہ بیکار ہو جاتا ہے لہٰذا عورت کو مرد کے ساتھ میدان عمل میں برابر شریک ہونا چاہیے اور اس کو مرد کے دوش بدوش کام کرنا چاہیے۔ در حقیقت یہ لوگ کسی بھول میں ہیں یا بھولے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور نادان بنے ہوئے ہیں کیونکہ عورت اپنے گھر میں رہ کر جو اہم کام سر انجام دے رہی ہے اور اپنے دائرہ میں رہ کر معاشرہ میں جو عظیم خدمت سر انجام دے رہی ہے وہ کام اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا نیز وہ کام اس کی خلقت سے مناسبت رکھتا ہے اور اس کی فطرت کے لیے موزوں ہے۔ وہ ایک بیوی ہے جو اپنے خاوند کے لیے باعث سکون ہے۔ وہ ایک ماں ہے جس کاکام بچے جننا انھیں دودھ پلانا اور بچوں کی تربیت کرنا ہے اس نے گھر کے ہر کام ٹھیک طریقے سے سر انجام دینا ہے اگر اسے گھر سے نکال دیا جائے اور وہ مردوں کے ساتھ ان کاموں میں شریک ہو جائے تو عورت کے کام کون کرے گا؟ یقیناً وہ کام دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور اس طرح معاشرہ اپنے دوسرے آدھے حصے سے بھی محروم ہوجائے گا تو پہلے نصف حصے سے کیا فائدہ حاصل ہو سکے گا ؟ اس طرح تو معاشرے کی بنیاد یں بالکل کھوکھلی ہو جائیں گی۔

ہم آزادی کے ان دعویداروں کو کہتے ہیں کہ تم خیرو بھلائی کی طرف پلٹ آؤ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنھوں نے اللہ کی نعمت کی ناقدری کی حتی کہ انھوں نے اپنی قوم کو تباہی کے گڑھے میں ڈال دیا۔ تم تعمیر کی دعوت دینے والے بنو تخریب کی طرف بلانے والے نہ بنو۔"

اے مسلمان عورت! اپنے دین کی تعلیم کو مضبوطی سے تھام لے ان گمراہ کن لوگوں کے دھوکے میں نہ آنا جو تجھے عزت و کرامت کے اس اعلیٰ مقام و مرتبہ سے محروم کرنا چاہتے ہیں جو دین اسلام نے تجھے عطا کیا ہے۔ اسلام کے علاوہ اور کسی دین نے یہ  مقام و مرتبہ عطا نہیں کیا۔ اور جو شخص اسلام کو چھوڑکر کوئی اور دین چاہے تو وہ اس سے ہر گز قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے اعمال کی توفیق دے جن میں دنیا اور آخرت کی خیرو فلاح ہو۔


[1]۔النحل:16۔97۔

[2]۔صحیح البخاری الجمعہ باب 13حدیث 900۔ومسند احمد 2/16۔36۔15۔

[3]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب ماجاء فی خروج النساء الی المسجد حدیث 565۔

[4]۔سنن ابی داؤد الصلاۃ باب ماجاء فی خروج النساء الی المسجد حدیث 565۔

[5]۔سنن ابی داؤد الصلاۃ باب ماجاء فی خروج النساء الی المسجد حدیث 565۔

[6]۔صحیح البخاری الاذان باب خروج النساء الی المساجد باللیل والغلس حدیث 865۔وصحیح مسلم الصلاۃ باب خروج النسالی المساجد حدیث 442۔

[7]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب خروج النساء الی المساجد حدیث 444۔

[8]۔صحیح البخاری النکاح باب مایتقی من شوم المراۃ حدیث 5096۔وصحیح مسلم الرقاق اکثر اھل الجنۃ الفقراء واکثر اھل النا النساء حدیث 2740۔

[9]۔سنن ابی داؤد الصلاۃ باب ماجاء فی خروج النساء الی المسجد حدیث 567۔

[10]۔صحیح البخاری الاذان باب انتظار الناس قیام الامام العالم حدیث 869۔وصحیح مسلم الصلاۃ باب خروج النساء الی المساجد حدیث 445۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

نماز کے احکام ومسائل:جلد 01: صفحہ 182

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ