جماعت کے دوران میں شامل ہونے والے کے احکام
اہل علم کے صحیح قول کے مطابق جو شخص نماز باجماعت کی ایک رکعت حاصل کر لے اس نے گویا مکمل نماز کا اجرو ثواب حاصل کر لیا۔ اگر اس نے ایک رکعت سے کم حصہ حاصل کیا تو اسے باجماعت نماز پڑھنے والا شمار نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اسے رکعت کا جتنا حصہ ملے اسے امام کے ساتھ شامل ہونا چاہیے اور اسے اس کی اچھی نیت کی وجہ سے جماعت کا ثواب مل جائے گا۔ جس طرح جماعت ختم کے بعد پہنچنے والے کو نیت کا ثواب مل جاتا ہے جیسا کہ مختلف احادیث کا مفہوم ہے:"جس نے نیکی کی نیت کر لی لیکن کسی وجہ سے اسے ادا نہ کر سکا تو اسے نیکی کا اجرمل جائے گا۔"
رکوع میں شامل ہونے سے رکعت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"جس نے رکوع پالیا اس نے رکعت پالی۔"[1]
نیز صحیح بخاری میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب رکوع کی حالت میں جماعت کے ساتھ شامل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ رکعت دہرانے کا حکم دیا تھا۔[2]اس سے واضح ہوا کہ اس کی رکعت ہوگئی۔
اگر امام رکوع کی حالت میں ہو تو شامل ہونے والا شخص پہلے کھڑا کھڑا تکبیر تکریمہ کہے اور پھر دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے۔ یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے۔ اگر اس نےصرف تکبیر تحریمہ پر اکتفا کیا تو بھی درست ہے۔بہر حال تکبیر تحریمہ کھڑے کھڑے ضروری ہے۔ جب کہ رکوع والی تکبیر اس کے بعد کہنا افضل ہے۔
جماعت میں شامل ہونے والا امام کو جس حال میں پائے وہ تکبیر تحریمہ کہہ کر اسی حالت میں چلا جائےکیونکہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم نماز کے لیے آؤ اور ہم سجدے کی حالت میں ہوں تو تم بھی سجدے کی حالت اختیار کرو اسے رکعت شمار نہ کرو۔"[3]
جب امام دونوں جانب سلام پھیرے تب بعد میں شامل ہونے والا کھڑا ہو اور بقیہ نماز مکمل کرے دونوں طرف سلام پھیرنے سے پہلے اسے ہرگز کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔[4]
امام کے ساتھ جو رکعات مل جائیں صحیح قول کے مطابق مقتدی کی وہ ابتدائی رکعات ہوں گی۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد جو رکعات ادا کرے گا وہ اس کی پچھلی رکعات ہوں گی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"نماز کا جو حصہ تم سے فوت ہو جائے اسے بعد میں مکمل کر لو۔"[5]
بعد والی نماز کے لیے" مکمل کرنے"کے الفاظ سے واضح ہوا کہ پہلے پہلا حصہ پڑھا گیا ہے ایک اور روایت میں یوں ہے:
"نماز کا جو حصہ فوت ہو جائے اس کی قضا ادا کرو۔"[6]
یہ الفاظ پہلی روایت کے مخالف نہیں ہیں کیونکہ " فَاقْضُوا " کا معنی قضا اصطلاحی نہیں ہے بلکہ اس کا معنی پورا کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد:
"جب نماز پوری کر لی جائے ۔"[7]
میں قضاکے معنی پورا کرنے کے ہیں۔
اور فرمان الٰہی ہے:
"پھر جب تم ارکان حج ادا (پورے) کر چکو۔"[8]
ان دو قرآنی آیات میں "قضا" کا کلمہ اصطلاحی قضا کے لیے نہیں آیا بلکہ ادا کرنے اور پورا کرنے کے معنی ہیں ہے۔
جب نماز میں جہری قرآءت ہوتو مقتدی کے لیے ضروری ہے کہ وہ امام کی قرآءت سنے۔ یہ جائز نہیں کہ امام اور مقتدی دونوں بیک وقت قرآءت کریں لہٰذا مقتدی امام کے پیچھے سورت فاتحہ اور قرآن کا کوئی حصہ نہ پڑھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔[9]
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ"یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس پر اجماع ہے۔"[10]
اگر مقتدی پر قرآءت کرنی ہی ہوتی تو امام کا اونچی قرآءت کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ۔ علاوہ ازیں امام کی قرآءت کے بعد مقتدی کا آمین کہنا قرآءت ہی کے قائم مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ اور سیدنا ہارون علیہ السلام کوکہا:
"تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی ہے۔"[11]
حالانکہ دعا صرف موسیٰ علیہ السلام نے کی۔
"اے ہمارے رب !تونے فرعون کو اور اس کے سرداروں کو سامان زینت اور طرح طرح کے مال دنیاوی زندگی میں دیے۔ اے ہمارے رب! (اسی واسطے دیے ہیں کہ) وہ تیری راہ سے گمراہ کریں۔ اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو نیست و نابود کرد ے اور ان کے دلوں کو سخت کردے۔ سویہ ایمان نہ لانے پائیں یہاں تک کہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں۔"[12]
اور جناب ہارون علیہ السلام نے آمین کہی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے ہارون علیہ السلام کی آمین کو دعائیہ کلمات کہنے کے قائم مقام قراردیا اور فرمایا: "قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا" حاصل بحث یہ ہوا کہ کلمات پر آمین کہنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس نے دعائیہ کلمات زبان سے ادا کیے۔[13]
اگر سری نماز ہو یا مقتدی تک امام کی قرآءت کی آواز پہنچ نہ رہی ہو تو اس حال میں مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لے یہ تطبیق کی بہترین صورت ہے یعنی مقتدی پر سورۃ فاتحہ سری نمازوں میں واجب ہوگی جہری نمازوں میں نہیں۔[14] واللہ اعلم۔
باجماعت نماز کے احکام میں سے ایک ہم حکم یہ ہے کہ مقتدی کو امام کی مکمل طور پر اقتدا کرنی چاہیے ۔ امام سے آگے بڑھنا حرام ہے کیونکہ امام کے پیچھے کھڑا شخص مقتدی اور متبع ہے اس لیے اسے پیچھے پیچھے رہنا چاہیے اپنے امام سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"کیا تمھیں ڈر نہیں لگتا کہ امام سے پہلے سر اٹھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمھارا سر گدھے کا سر یا تمھاری صورت گدھے کی صورت بنادے۔؟[15]
جو شخص امام سے آگے بڑھتا ہے وہ گدھے کی طرح ہے جسے اپنے کام کے مقصد کا فہم نہیں ہوتا ایسا کرنے والا شخص درحقیقت سزا کا حق دار ہے۔ اور صحیح حدیث میں ہے کہ امام صرف اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب تک وہ رکوع نہ کرےتم بھی رکوع نہ کرو اور جب تک وہ سجدہ نہ کرے تم بھی سجدہ نہ کرو جیسا کہ مسند احمد اور سنن ابو داؤد میں ہے:
"امام بنانے کا مقصد اس کی اقتدا کرنا ہے۔ جب وہ رکوع میں جائے تب تم رکوع میں جاؤ اس کے رکوع سے پہلے تم رکوع نہ کرو۔ جب وہ سجدے میں جائے تب تم سجدے میں جاؤ اور اس کے سجدے سے قبل تم سجدہ نہ کرو۔"[16]
حدیث میں ہے جب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں کھڑے ہوئے تو ہر شخص اس وقت تک اپنی کمر نہ جھکاتا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں نہ چلے جاتے پھر وہ آپ کے بعد سجدہ میں جاتے۔[17]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو امام سے سبقت کرتے دیکھا تو اسے مارا اور فرمایا:" تم نے اکیلے نماز پڑھی نہ اپنے امام کی اقتدا کی۔"[18]
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں عام پر نماز ی حضرات سستی کر جاتے ہیں یا وہ مسئلہ کا علم نہ ہونے کی وجہ سے امام سے سبقت کر جاتے ہیں اور وعید شدید کے سزا وار ہوتے ہیں بلکہ اندیشہ ہے کہ ان کی نماز ہی صحیح نہ ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
"رکوع سجدہ قیام اور سلام پھیرنے میں مجھ سے آگے نہ پڑھو۔"[19]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"امام سے مسابقت آئمہ کے ہاں بالا تفاق حرام ہے کسی کے لائق نہیں کہ وہ اپنے امام سے پہلے رکوع کرے اور امام سے پہلے سر اٹھائے یا امام سے پہلے سجدہ کرے۔ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت کی بہت سی روایات ہیں۔"[20]
امام سے مسابقت ایک شیطانی کھیل تماشا ہے جس کے ذریعے سے شیطان نماز میں خلل پیدا کرتا ہے ورنہ اس کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ مقتدی امام کے سلام پھیرنے سے پہلے نماز سے فارغ تو ہو نہیں سکتا؟
ہر مسلمان کو اس بارے میں خبر دار رہنا چاہیے اور اپنے امام کی اقتدا کا التزام کرنا چاہیے ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ سب کو دین کا فہم اور اس کے احکام سے واقفیت و بصیرت دے۔ یقیناً وہی سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔ وہ جسے خیرو بھلائی دینے کا ارادہ فرما لے اسے دین کا فہم عطا کرتا ہے۔
[1]۔المغنی والشرح الکبیر 1/580۔شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔الارواء :2/266۔
[2]۔صحیح البخاری الاذان باب اذا رکع دون الصف حدیث 783۔اس حدیث ابو بکر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ولا تعد"دوبارہ ایسا کرنا ۔"بنا بریں اگر بالفرض اس نے اعاہ نہ بھی کیا ہو(جس کا ذکر نہیں) تو آپ کے روک دینے کی وجہ سے آئندہ نہ اس کی رکعت ہوگی اور نہ کسی اور شخص کی۔ اگر مذکورہ کلمے کا لحاظ نہ رکھا جائے تو ثابت ہو گا کہ نماز باجماعت کے دوران میں شامل ہونے کا وہ ایک طریقہ ہے جو سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اختیار کیا تھا حالانکہ یہ حضرات اس کے قائل اور فاعل نہیں۔ باقی رہی ابو داؤد والی مذکورہ روایت تو وہاں رکعت کا اجروثواب مراد ہے جیسا کہ اس باب کے شروع میں بیان ہو چکا ہے۔(صارم)
[3]سنن ابی داؤد الصلاۃ باب الرجل بدرک الامام مساجد کیف یضع ؟حدیث :893۔
[4]۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب امام ایک جانب سلام پھیرتا ہے تو لوگ باقی نماز ادا کرنے کے لیے اسی وقت کھڑے ہو جاتے ہیں وہ امام کے دوسری جانب سلام پھیرنے کا انتظار نہیں کرتے جو کہ غلط ہے۔(صارم)
[5]۔صحیح البخاری الاذان باب لا یسعی الی الصلاۃ ولیا تہا با لسکینۃ والوقار حدیث 636
[6]۔سنن ابی داؤد الصلاۃ باب السعی الی الصلاۃ حدیث: 573۔ وسنن النسائی الامامۃ باب السعی الی الصلاۃ حدیث 862واللفظ لہ ۔
[7]الجمعۃ 62۔10۔
[8]۔ البقرۃ2/20
[9]الاعراف 7:204۔
[10]۔مجموع الفتاوی لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 22/295۔فاضل مولف رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں تعارض ہے کیونکہ گزشتہ صفحات پر ارکان وواجبات کی تفصیل میں سورۃ فاتحہ کو نماز کا رکن کہا ہے اور جہری نماز میں امام کے پیچھے مقتدی کا سورۃ فاتحہ پڑھنا افضل اور بہتر قرار دیا ہے۔ علاہ ازیں حدیث میں ہے:" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآءت کرتے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں فرمایا: "فَلا تَفْعَلُوا إِلا بِ أُمِّ الْقُرْآنِ""سورۃ فاتحۃ کے سواامام کے پیچھے کچھ نہ پڑھو۔"(جامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی القراء ۃ خلف الامام حدیث :311)یہ واقعہ مدنی ہے جب کہ مذکورہ بالاآیت مکی ہے لہٰذا سورۃ فاتحہ کی قرآءت آیت کی مخصص ہے نیز کلمہ "وَأَنْصِتُوا"اونچی قرآءت کرنے سے مانع ہے کیونکہ آیت کے اگلے الفاظ "وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ" "اپنے رب کا ذکر دل میں کرو۔"میں بغیر آواز کے پڑھنے کا حکم ہے۔(صارم)
[11]۔یونس 10۔89۔
[12]۔یونس10۔88۔
[13]۔فاضل مصنف حفظہ اللہ کا استدلال کمزور ہے کیونکہ امام کے پیچھے فاتحہ کی قرآءت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح صحیح نص موجود ہے جس کا ذکر اوپر چکا ہے لہٰذا نص صریح کے مقابلے میں اجتہاد و قیاس کی کوئی حیثیت نہیں۔(صارم)
[14]۔سورۃ فاتحہ مقتدی کے لیے بھی ہر رکعت اور ہر حال میں پڑھنا لازمی ہے۔ نماز سری ہویا جہری امام کی آواز پہنچ رہی ہو یا نہ پہنچ رہی ہو۔(ابو زید)ارشاد الساری 2/402۔تحت الحدیث :758۔
[15]۔صحیح البخاری الاذان باب اثم من رفع راسہ قبل الامام حدیث 691۔وصحیح مسلم الصلاۃ باب تحریم سبق الامام رکوع اوسجود ونحوھما حدیث 427۔ومسند احمد 2/504۔
[16]۔سنن ابی داؤد الصلاۃ باب الامام یصلی من فعود حدیث 603۔ومسند احمد 2/341۔
[17]۔صحیح البخاری الاذان باب متی یسجد من خلف الامام ؟حدیث 690۔
[18] ۔مجموع الفتاوی لابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 3/337۔
[19]۔۔صحیح البخاری الاذان باب اثم من رفع راسہ قبل الامام حدیث 691۔وصحیح مسلم الصلاۃ باب تحریم سبق الامام رکوع اوسجود ونحوھما حدیث 426۔
[20]مجموع الفتاوی لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 23/336۔