جماعت سے پیچھے رہ جانے والے کا حکم
جماعت سے پیچھے رہ جانے والا شخص جب اکیلا نماز ادا کرے تو اس کی دو حالتیں ہیں۔
1۔کوئی شخص کسی مرض یا خوف کی وجہ سے معذور ہو بغیر عذر کے ترک جماعت اس کی عادت نہ ہو۔ ایسے شخص کو نماز باجماعت کا ثواب مل جائے گا:ان شاء اللہ۔
کیونکہ صحیح حدیث میں ہے:
"جب کوئی بندہ بیمار ہو یا سفر میں ہوتوجو اعمال تندرستی اور اقامت کی حالت میں کرتا تھا وہ سارے اعمال اس کے" اعمال نامہ" میں درج ہوں گے۔"[1]
اسی طرح کسی شخص کا باجماعت نماز ادا کرنے کا پختہ ارادہ تھا لیکن کوئی شرعی عذر حائل ہو گیا تو اسے وہ پورا اجر اور مرتبہ مل جائے گا جو جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے والوں کو حاصل ہوا کیونکہ اس کی نیت درست اور اچھی تھی۔
2۔کوئی شخص بلا عذر شرعی باجماعت نماز سے پیچھے رہا جب وہ شخص اکیلا نماز ادا کرے گا تو جمہور کے نزدیک اس کی نماز صحیح ہوگی البتہ وہ بہت بڑے اجرو ثواب سے محروم ہو گا کیونکہ باجماعت نماز کی انفرادی نماز کی نسبت ستائیس درجے فضیلت ہے۔ نیز اسے مسجد کی طرف ایک ایک قدم بڑھانے کا جو ثواب تھا وہ حاصل نہ ہو سکا۔ اس عظیم اجرو ثواب کے خسارے کے علاوہ وہ گناہ گار بھی ہے کیونکہ اس نے بلا عذر واجب کو ترک کیا ہے۔ وہ صاحب اختیار (ولي الامر) کی طرف سے تادیباً سزا کا حق دار ہے جب تک کہ وہ خیر و بھلائی کی طرف واپس نہ پلٹ آئے۔
باجماعت نماز کا مقام مسجد ہے وہ اسلامی شعار کے اظہار کا مقام ہے۔ مساجد کی تعمیر کا یہی مقصد ہے اگر کسی اور جگہ پر جماعت کی اقامت ہو تو یہ مساجد کی ویرانی کا باعث ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"ان گھروں میں جن کے ادب واحترام کا اور اللہ کا نام وہاں لیے جانے کا حکم ہے وہاں صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جنھیں تجارت اور خریدو فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اورزکاۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔"[2]
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے۔ جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں۔نمازوں کے پابند ہوں زکاۃ دیتے ہوں۔ اللہ کے سواکسی سے نہ ڈرتے ہوں توقع ہے کہ یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں۔"[3]
ان دو آیتوں میں مساجد اور انھیں آباد کرنے کی اہمیت واضح کی گئی ہے انھیں آباد کرنے والوں کے لیے اجرو ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے اور ضمناً نماز میں حاضر نہ ہونے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
"مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد کے علاوہ نہیں ہوتی۔"[4]
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایسی ہی روایت مروی ہے مگر اس میں یہ اضافہ ہے:
"(مسجد کا پڑوسی وہ ہے) جسے مؤذن کی اذان سنائی دے۔"[5]
ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"جس شخص نے سنت میں کماحقہ غور کیا اسے معلوم ہو جائے گا کہ نماز کے لیے مسجد میں حاضر ہونا ہر مرد پر فرض ہے الایہ کہ کوئی ایسا عارضہ لاحق ہو جس سے ترک جماعت کی رخصت ہو۔
بلا عذر مسجد میں غیر حاضری بلا عذر ترک جماعت کے مترادف ہے۔ اس نقطہ نظر پر احادیث وآثار متفق ہیں۔"[6]
جو شخص مسجد کی ویرانی کا سبب بنے اور اس میں اقامت نماز سے روکے اللہ تعالیٰ نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے:
"اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے ذکر کیے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی ان میں جانا چاہیے ان کے لیے دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی بڑے بڑے عذاب ہیں۔"[7]
اگر باجماعت نماز کا اہتمام مسجد سے باہر ہونے لگے تو مساجد خالی ہو جائیں گی یا مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو جائے گی ۔ اس کے نتیجے میں دلوں میں نماز کی اہمیت کم ہو جائے گی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"ان گھروں میں جن کے ادب واحترام کا اور اللہ کا نام وہاں لیے جانے کا حکم ہے۔"[8]
آیت کریمہ میں "رفع ذکر "حقیقی اور معنوی دونوں اعتبار سے مطلوب ہے البتہ اگر مسجد سے باہر باجماعت نماز کی کوئی خاص ضرورت پیش آجائے مثلاًکچھ نمازی اپنے دفتر میں کام کی جگہ پر ہوں اور اپنی ڈیوٹی پر مامور ہوں اگر وہ اپنی جگہ نماز ادا کر لیں تو یہ ان کے کام کی وجہ سے زیادہ مناسب ہوگا۔ اس حالت میں وہاں کام کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ حاضر ہوں۔ ان کے اس عمل سے ان کی قریبی مسجد کا تعطل لازم نہیں آئے گا کیونکہ وہاں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والے موجود ہیں۔ شاید ان حالات میں اس قسم جواز کے پیش نظر ان کے لیے اپنے دفتر وغیرہ میں نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہ ہو گا۔
نماز باجماعت کی ادائیگی کے لیے کم ازکم دو فرد ہونے چاہئیں کیونکہ"جماعت" کا لفظ اجتماع سے ماخوذ ہے اور جمع کا اطلاق کم ازکم دو افراد پر ہوتا ہے چنانچہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:
"دواور دو سے اوپر جماعت ہے۔"[9]
ایک اور روایت میں (ایک مرتبہ جماعت ہوجانے کے بعد ایک شخص آیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اس پرکون صدقہ کرے گا؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے اس کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا:
(هَذَانِ جَمَاعَة ")"یہ دو افراد جماعت ہیں:[10]ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: "ليؤمكما أكبركما""تم دونوں میں سے(عمرمیں) بڑا آدمی امامت کرائے۔"[11]الغرض دو افراد ہوں تو نماز باجماعت ادا کرنے پر اہل علم کا اجماع اور اتفاق ہے۔
عورتوں کے لیے بھی مباح ہے کہ وہ اپنے خاوندوں سے اجازت لے کر مساجد میں باجماعت نماز کے لیے حاضر ہوں بشرطیکہ اس موقع پر خوشبو کا استعمال ہو نہ زینت کا اظہار بلکہ پردے کا مکمل اہتمام ہو اور مردوں کے ساتھ میل جول سے اجتناب ہو۔ وہ مردوں کی صفوں سے پیچھے رہیں کیونکہ عہد نبوی میں عورتیں ایسا ہی کیا کرتی تھیں ۔
خواتین کا وعظ ونصیحت اور علم کی مجالس میں شرکت کرنا مسنون ہے بشرطیکہ مردوں سے الگ ہوں۔
عورتیں ایک دوسری کے ساتھ مل کر مردوں سے الگ اپنی نماز باجماعت پڑھ سکتی ہیں خواہ ان کا امام مرد ہو یا عورت کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا تھا اور انھیں یہ حکم دیا تھا کہ اہل محلہ کی خواتین کی امامت کیا کرو۔"[12]
اوردوسری صحابیات سے بھی یہ عمل منقول ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں عموم ہے کہ :
"باجماعت نماز اکیلے کی نماز سے ستا ئیس گنا زیادہ درجے رکھتی ہے۔"[13]
مسلمان کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ اس مسجد میں نماز ادا کرے جہاں اس کی حاضری کے بغیر باجماعت نماز ادا نہ ہو سکے کیونکہ اس سے اسے مسجد کو آباد کرنے کا ثواب بھی حاصل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں۔"[14]
بعد ازیں اس مسجد میں نماز ادا کرنا افضل ہے جس میں اس کے علاوہ کثیر تعداد میں نمازی ہوں یہ صورت اجر عظیم کا باعث ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"آدمی کی نماز دوسرے آدمی سے مل کر اکیلے کی نسبت زیادہ اجر والی ہے اسی طرح دو آدمیوں کے ساتھ مل کر نماز ادا کرنا ایک آدمی کے ساتھ نماز ادا کرنے سے زیادہ اجر کا باعث ہے۔ جماعت میں افراد کی جس قدر کثرت ہوگی تو وہ نماز اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی قدر محبوب اور زیادہ اجر کا باعث ہو گی۔"[15]
اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اجتماع میں رحمت و سکینت کا نزول ہوتا ہے عمومی دعا ئیں ہوتی ہیں اور قبولیت دعا کی امید بڑھ جاتی ہے بالخصوص جب نمازیوں میں اہل علم اور نیک لوگ موجود ہوں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اس میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے۔"[16]
اس آیت کریمہ سے طہارت اور مکمل وضو کا خیال رکھنے والے صالحین کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔
پھر نئی مسجد کی نسبت پرانی مسجد میں نماز ادا کرنا بہتر اور افضل ہے کیونکہ جدید مسجد کی نسبت اسے اطاعت اور عبادت میں سبقت حاصل ہے پھر قریب کی مسجد کی بجائے کسی دور کی مسجد میں نماز ادا کرنا افضل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"إِنَّ أَعْظَمَ النَّاسِ أَجْرًا فِي الصَّلَاةِ أَبْعَدُهُمْ إِلَيْهَا مَمْشًى، فَأَبْعَدُهُمْ" "نماز کا اجرو ثواب ان لوگوں کے لیے زیادہ ہے جو نماز کے لیے زیادہ دور سے آتے ہیں۔"[17]
"اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے اور صرف نماز کی خاطر مسجد میں آتا ہے تو جب وہ ایک قدم اٹھاتا ہے تو اس کا ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے اس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں: یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے۔"[18]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے بنو سلمہ! اپنے(موجودہ) گھروں میں رہائش رکھو (کیونکہ دور کی وجہ سے) تمھارے (قدموں کے) نشانات(اللہ کے ہاں) لکھے جاتے ہیں۔"[19]
بعض علماء کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دو مسجدوں میں سے قریب تر مسجد میں نماز ادا کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ پڑوس میں ہونے کی وجہ سے وہ زیادہ حق دار ہے چنانچہ ایک روایت میں ہے:
"مسجد کے پڑوسی کی نماز مسجد میں ہوتی ہے۔"[20]
نیز قریب کی مسجد کو چھوڑ کر دور مسجد میں نماز ادا کرنے سے پڑوسی اس کے عمل پر تعجب کریں گے۔ غالباً یہ رائے زیادہ وزن رکھتی ہے کیونکہ دور کی مسجد میں جانے سے قریب والی مسجد کو نظر انداز کرنا لازم آتا ہے اور قریب کی مسجد کے امام کے بارے میں دوسروں کو بد گمانی ہو گی۔
باجماعت نماز کے احکام میں یہ بھی ہے کہ مسجد کے مقرر امام کی موجودگی میں دوسرے شخص کا امامت کروانا ناجائز ہے الایہ کہ اس کی اجازت ہو یا وہ معذورہو۔ صحیح مسلم میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کوئی شخص کسی شخص کے دائرہ اختیار واقتدار میں اس کی اجازت کے بغیر جماعت نہ کرائے۔[21]
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں:" گھر کا مالک صاحب مجلس اور مسجد کا مقرر امام اپنی جگہ کا دوسرے سے زیادہ حق دار ہے۔[22]علاوہ ازیں یہ جسارت مقر رامام کو پریشان کرتی ہے نفرت کا باعث ہے اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کا ذریعہ ہے۔
بعض علمائے کرام کا خیال ہے کہ اگر کسی نے مسجد کے مقرر امام کی اجازت یا اس کے شرعی عذر کے بغیر لوگوں کو باجماعت نماز پڑھائی تو ان کی نماز صحیح نہ ہو گی کیونکہ یہ امر خطرناک اور انتہائی برے نتائج کا سبب ہے لہٰذا اس میں کوتا ہی نہیں کرنی چاہیے۔
جماعت کو چاہیے کہ اپنے امام کے حقوق کا خیال رکھے اس کے کام میں دخل اندازی نہ کرے۔ امام کو بھی اپنے مقتدیوں کے احترام کا خیال رکھنا چاہیے ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور انھیں تکلیف و مشقت میں نہ ڈالے۔
ہر ایک دوسرے کا اس قدر خیال رکھے کہ امام اور مقتدیوں کے درمیان وحدت والفت ،محبت اور یگانگت پیدا ہو۔ اگر امام کی آمد میں تاخیر ہو جائے اور نماز کا وقت بھی کم ہوتو تب لوگ کسی بھی شخص کو امام بنالیں اور باجماعت نماز ادا کر لیں جیسا کہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھا دی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے ہاں صلح کرانے کے لیے گئے تھے اور لیٹ ہو گئے تھے۔[23]اسی طرح ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں قضائے حاجت کے لیے دور نکل گئے جب واپس آئے تو سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جماعت کروارہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے ایک(آخری )رکعت ادا کی اور باقی نماز ان کے سلام پھیرنے کے بعد پوری کی۔ نماز سے فارغ ہو کر فرمایا:
"تم نے جو کیا اچھا کیا۔"[24]
باجماعت نماز کے جملہ احکام میں یہ بھی ہے کہ اگر کسی نے نماز ادا کر لی۔ پھر وہ مسجد میں آیا اور وہاں وہی نماز کھڑی ہے تو اس کے لیے جماعت میں شامل ہو کر دو بارہ نماز پڑھ لینا مسنون ہے۔
سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وقت پر نماز ادا کر لو۔ پھر مسجد میں( تمھاری موجودگی میں)وہی نماز تمھیں باجماعت مل جائے تو دوبارہ نماز پڑھ لو اور یہ نہ کہنا کہ میں نماز پڑھ چکا ہوں لہٰذا دوبارہ نہیں پڑھتا۔"[25]
واضح رہے کہ اس کی بعد والی نماز نفل ہو جائے گی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کو فرمایا تھا:"جب تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکو پھر تم مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پالو تو اس کے ساتھ بھی پڑھ لو تو بعد والی نماز تمھارے لیے نفل ہو جائے گی۔[26]
ویسے بھی جب لوگ باجماعت نماز ادا کررہے ہوں اور کوئی شخص الگ تھلگ ہو کر بیٹھ جائے تو اس کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں بد گمانی پیدا ہو سکتی ہے کہ شاید یہ نمازی نہیں۔
نماز باجماعت کے احکام میں یہ بھی ہے کہ جب مؤذن فرض نماز کی اقامت شروع کردے تو پھر کسی کے لیےکوئی دوسری نماز الگ طور پر شروع کرنا جائز نہیں وہ نماز نفل ہویا کوئی فرض تحیۃ المسجد ہویا کوئی اور نماز کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جب نماز کی اقامت کہی جائے تو فرض نماز کے سوا کوئی نماز نہیں ہوتی۔"[27]
ایک روایت میں ہے:
"پھر کوئی نماز نہیں سوائے اس نماز کے جس کی اقامت کہی گئی ہے۔"[28]
لہٰذا فرض نماز کی اقامت سن کر کوئی اور نماز شروع نہ کی جائے بلکہ اگر کوئی نماز مشغول ہو تو اسے توڑ کر اس نماز میں شامل ہو جائے جس کی اقامت کہی گئی ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:"اقامت کے بعد نفل نماز کو چھوڑ کر امام کے ساتھ شامل ہونے میں یہ حکمت ہے کہ انسان شروع ہی سے فرض نماز کے لیے فارغ ہو کر امام کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے فرض نماز کی مخافظت کرنا نفل نماز میں مشغول ہونے سے بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام سے اختلاف کرنے سے منع کیا ہے۔ ایک حکمت یہ بھی ہے کہ تکبیر تحریمہ حاصل ہوجاتی ہے اور امام کے ساتھ ہی تکبیر تحریمہ یں شامل ہونے سے تکبیر تحریمہ کا مخصوص اجرو ثواب ملتا ہے۔"[29]
اگر نماز کی اقامت ہو جائے اور کوئی شخص نفلی نماز میں مصروف ہوتو اسے توڑ نے کی بجائے مختصر کر کے مکمل کرے۔
البتہ اگر جماعت کے نکل جانے کا اندیشہ ہوتو پھر نفل نماز توڑ دے۔[30]کیونکہ فرض نماز کی اہمیت زیادہ ہے۔
[1]۔صحیح البخاری الجہاد والسیر باب یکتب للمسافر مثل ماکان یعمل فی الاقامۃ حدیث 2996۔
[2]۔النور:24۔36۔37۔
[3]۔التوبہ:9۔18۔
[4]۔(ضعیف)السنن الکبری للبیہقی ابواب فضل الجماعۃ والعذر بترکھا باب ماجاء من التشدید فی ترک الجماعۃ من غیر عذر3/57۔
[5]۔(ضعیف)السنن الکبری للبیہقی ابواب فضل الجماعۃ والعذر بترکھا باب ماجاء من التشدید فی ترک الجماعۃ من غیر عذر3/57۔
[6]۔الصلاۃ واحکام تارکھا لا بن القیم ص:118۔
[7]۔البقرۃ:2/114۔
[8]۔النور:24۔36۔
[9]۔(ضعیف)سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب الائنان جما عۃ حدیث 972۔
[10]مسند احمد5/254۔269۔
[11]۔صحیح البخاری الاذان باب ائنان فما فوقہما جما عۃ حدیث 658۔
[12]۔مسند احمد 6/405۔وسنن ابی داؤد الصلاۃ باب امامۃ النساء حدیث 592۔
[13]۔صحیح البخاری الاذان باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث:645۔
[14]۔التوبہ:9/18۔
[15]۔سنن ابی داؤد الصلاۃ باب فی فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث 554 ومسند احمد 5/140۔
[16]۔التوبہ: 9/108۔
[17]۔صحیح البخاری الاذان باب فضل صلاۃ الفجر فی جما عۃ حدیث 651۔
[18]۔صحیح البخاری الاذان باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث 647والصلاۃ باب الصلاۃ فی مسجد السو ق حدیث 477۔
[19]۔صحیح البخاری الاذان باب احتساب الاثار حدیث 655 وصحیح مسلم المساجد باب فضل کثرۃ الخطا الی المساجد حدیث665 واللفظ لہ۔
[20]۔(ضعیف)السنن الکبری للبیہقی ابواب فضل جماعۃ والعذر بترکھا باب ماجاء من الشدید3/57۔
[21]۔صحیح مسلم المساجد باب من احق بالا مامۃ؟حدیث673۔
[22]۔شرح مسلم للنووی 5/243۔
[23]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب تقدیم الجماعۃ من یصلی بھم اذا تاخر الامام حدیث 421۔
[24]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب تقدیم الجماعۃ من یصلی بھم اذا تاخر الامام ھدیث 274۔
[25]۔صحیح مسلم المساجد باب لراھۃ تاخیر الصلاۃ عن وقتہا المختار ، حدیث:648۔
[26]۔جامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی الرجل یصلی وحدہ ثم بدرک الجماعۃ حدیث 219۔
[27]۔صحیح صلاۃ المسافرین باب کراھۃ الشروع فی نافلۃ بعد شروع المؤذن فی اقامۃ الصلاۃ حدیث 710۔
[28]۔(ضعیف) مسند احمد2/352۔
[29]۔شرح للنووی 5/312۔
[30]۔فاضل مؤلف رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف صحیح نہیں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب کراھۃ الشروع فی نافلۃ حدیث710۔کا تقاضا تو یہی ہے کہ اقامت (تکبیر ) کے شروع ہوتے ہی سنت یا نفل پڑھنے والا اپنی نماز ختم کردے اور جماعت میں شامل ہو جائے اور بعد میں سنتیں ادا کرے کیونکہ اقامت کے بعد پڑھی جانے والی نماز کا شرعاً وجود منفی ہے۔