سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(27) نماز کے ممنوعہ اوقات

  • 23702
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 6893

سوال

(27) نماز کے ممنوعہ اوقات
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز کے ممنوعہ اوقات


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پچھلے صفحات پر ہم نے نفل نماز کا تذکرہ کیا  تھا۔اب ہم آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کچھ اوقات ایسے بھی ہیں جن میں نفل نماز ادا کرنا منع ہے۔سوائے اس نماز کے جسے شریعت نے مستثنیٰ کردیاہے۔ممنوعہ اوقات پانچ ہیں:

پہلا وقت

صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشاد ہے:

"إذا طلعَ الفجرُ، فلا صلاة إلا ركعتي الفجر"

"جب صبح صادق طلوع ہوجائے تو(فجر) دو رکعتوں کے علاوہ کوئی نماز نہیں۔"[1]

اس روایت سے واضح ہوا کہ صبح صادق طلوع ہوجانے کے بعد نماز فجر کی دوسنتوں کے علاوہ کوئی اور نفلی نمازادا نہ کی جائے۔

دوسرا وقت

سورج طلوع ہونے سے لے کر ایک نیزے کے برابر بلندہونے تک۔جب آفتاب طلوع ہورہا ہو اور اس کے کچھ حصہ اندراور کچھ حصہ باہر ہوتو اس وقت بھی کوئی نماز نہ پڑھی جائے جب تک سورج ایک نیزے کے برابر بلند نہ ہوجائے۔

تیسرا وقت

جب سورج سیدھا سرپرہو،یعنی اس کازوال ہورہا ہوتو اس وقت نماز ادا کرنا منع ہے حتیٰ کہ اس کا زوال مکمل ہوجائے۔اس کاعلم تب ہوتاہے جب ہرچیز کاسایہ رک جائے اوراس میں کمی بیشی نہ ہو۔جب سورج مغرب کی جانب جھک جائے تب نماز ادا کرنا درست ہے ۔سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہےکہ:

"ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ، أَوْ أَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: (حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ الشَّمْسُ، وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ)"

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں تین اوقات میں نماز ادا کرنے اور مردوں کو دفن کرنے سے منع کیا،جب سورج طلوع ہورہا ہوحتیٰ کہ بلند ہوجائے۔جب سورج سرپر ہو حتیٰ کہ ڈھل جائے اورجب غروب ہورہاہو حتیٰ کہ مکمل غروب ہوجائے۔"[2]

چوتھا وقت

نماز عصر سے لے کر غروب آفتاب تک۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ا رشاد ہے:

"لاَصَلاَةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ ، وَلاَ صَلاَةَ بَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ"

"نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں حتیٰ کہ آفتاب بلند ہوجائے اور نمازعصر کے بعد کوئی نماز نہیں حتیٰ کہ آفتاب غروب ہوجائے۔"[3]

پانچواں وقت

جب سورج  غروب ہونا شروع ہوجائے حتیٰ کہ غروب ہوجائے۔جان لیجئے!ان اوقات میں فوت شدہ فرض نماز ادا ہوسکتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے درج ذیل فرمان میں عموم ہے کہ:

"مَنْ نَسِىَ صَلاَةً أَوْ نَامَ عَنْهَا فَكَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا"

"جوشخص نماز بھول گیا یا سوگیاتو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب یاد آئے تب پڑھ لے۔"[4]

اسی طرح طواف کی دو رکعتیں بھی مذکورہ ممنوعہ اوقات میں ادا کرنا جائز ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"لَا تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ بِهَذَا البَيْتِ، وَصَلَّى أَيَّةَ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ"

"جو شخص کسی بھی وقت بیت اللہ کا طواف کرنا چاہے اور نماز ادا کرنا چاہے،اسے مت روکو۔"[5]

جس طرح  طواف کرنا ہر وقت جائز ہے اسی طرح طواف کی دورکعتیں بھی ہروقت جائز ہیں۔

(1)۔علمائے کرام کے صحیح تر قول کےمطابق اسباب والی نمازوں کو بھی ممنوعہ اوقات میں ادا کرنا جائز ہے،مثلاً:نماز جنازہ،تحیۃ المسجد اور نمازکسوف ،بہت سے دلائل اس پر دلالت کرتے ہیں۔نیز اوقات ممنوعہ میں نماز کی نہی میں جو عموم ہے یہ دلائل اس کے لیے مخصص ہیں،لہذانہی کا اطلاق ان نفلی نمازوں پر ہوگا جن کو کوئی سبب نہیں۔الغرض جس نماز کا کوئی سبب نہیں اسے ان مکروہ اوقات میں شروع نہ کیاجائے۔

فجر کی سنتوں کی قضا نماز فجر کےبعد جائز ہے۔اسی طرح ظہر کی سنتوں کی قضا نماز عصر کے بعد جائز ہے۔بالخصوص جب ظہر اور عصر کو جمع کرلیاگیا ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ظہر کی سنتوں کی قضا عصرکے بعد دی تھی۔[6]

نماز باجماعت کی فرضیت اور فضیلت

اسلام میں مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کی اہمیت ہے۔ تمام مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ مساجد میں باجماعت پانچوں نمازیں ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی عبادات وقربات میں سب سے زیادہ عظیم اور مؤکد امر ہے بلکہ شعا ئر اسلام میں اس کی سب سے بڑی اور نمایاں حیثیت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے ایک جگہ میں جمع ہونے کے لیےمختلف اوقات وایام مقرر فرمائے ہیں ان میں سے بعض وہ اجتماع ہیں جو روزانہ ہوتے ہیں جیسا کہ مسلمان مساجد میں نمازوں کی ادائیگی کے لیے دن رات میں پانچ دفعہ سب کے حضور جمع ہوتے ہیں۔ان اجتماعات میں سے ہفتہ وار جمعہ کا اجتماع بھی ہے جو پانچ نمازوں کے اجتماع سے زیادہ بڑا ہوتا ہے ان کے علاوہ دو اجتماع سالانہ ہوتے ہیں جو عیدین کے اجتماع ہیں جو جمعہ کے اجتماع سے کہیں زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔ یہ اجتماعات ہر شہر میں ایک مقام پر منعقد ہوتے ہیں۔ ایک اجتماع ایسا بھی ہے جو سال میں ایک مرتبہ منعقد ہوتا ہے وہ وقوف عرفہ کا اجتماع ہے یہ تعداد میں عیدین کے اجتماع سے بہت بڑا ہوتا ہے درحقیقت یہ مسلما نوں کا عظیم اسلامی اور عالمی اجتماع ہوتا ہے۔

ان عظیم اسلامی اجتماعات کے انعقاد میں مسلمانوں کی بہت سی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ان کے ذریعے سے مسلمانوں کے درمیان احسان محبت اور باہمی ہمدردی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے رابطہ قائم رہتا ہے۔ ایک دوسرے کے دل میں پیار اور یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت رہتی ہے۔ مریض کی بیمار پرسی ممکن ہو جاتی ہے۔ فوت شدہ کی خبر مل جاتی ہے۔ مصیبت زدہ کی فریاد رسی ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا اظہار ہوتا ہے۔ باہمی تعارف اور گہرا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔

علاوہ ازیں ان عظیم اجتماعات سے کفاراور منافقین دشمنوں پر مسلمانوں کا رعب طاری ہوتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے شیطان لوگ مسلمانوں کے لیے عداوت و دشمنی اور کنیہ و بغض کا جو جال بنتے ہیں اجتماعی قوت سے اس کا ازالہ ہو سکتا ہے۔نیکی و تقوی کی بنیاد پر اتفاق و اتحاد پیدا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لَا تَخْتَلِفُوا فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُكُمْ"

"نماز میں ایک دوسرے سے ہٹ کر(یا آگے پیچھے ہو کر ) کھڑے نہ ہوا کرو،ورنہ تمھارے دلوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔"[7]

نماز باجماعت کے فوائد میں سے ناواقف کو تعلیم دینا اور اس کے ثواب میں اضافہ کرنا ہے نیز جب کوئی مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو مسجد میں اعمال صالح کرتا دیکھے گا تو اس میں مسابقت کا جذبہ بیدار ہوگا۔عمل صالح میں تیز اور اس پر متوجہ ہوگا ۔یا ان کی پیروی کر کے اپنی کمی دور کر سکے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"صلاة الجماعة أفضل من صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة " وفي رواية... بخمس وعشرين درجة"

"باجماعت نماز منفرد کی نماز سے ستائیس درجے فضیلت رکھتی ہے۔[8]ایک روایت میں"پچیس درجے "ہے۔"[9]

سفر ہو یا حضر،حالت امن ہویا خوف باجماعت نماز ادا کرنا مردوں پر واجب ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے دلائل موجود ہیں۔ علاوہ ازیں نسل درنسل مسلمانوں کا اس پر عمل ہے اسی وجہ سے مساجد کی تعمیر ہوتی ہے۔ ان میں مؤذن اور امام مقرر کیے جاتے ہیں۔ مساجد میں حاضر ہونے کے لیے بلند آواز سے اذان میں (حي علي الصلاة) "نماز کی طرف آؤ۔"اور (حي علي الفلاح)"کا میابی کی طرف آؤ۔" کہا جاتا ہے۔ حالت خوف میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے:

﴿وَإِذا كُنتَ فيهِم فَأَقَمتَ لَهُمُ الصَّلو‌ٰةَ فَلتَقُم طائِفَةٌ مِنهُم مَعَكَ وَليَأخُذوا أَسلِحَتَهُم فَإِذا سَجَدوا فَليَكونوا مِن وَرائِكُم وَلتَأتِ طائِفَةٌ أُخرىٰ لَم يُصَلّوا فَليُصَلّوا مَعَكَ وَليَأخُذوا حِذرَهُم وَأَسلِحَتَهُم وَدَّ الَّذينَ كَفَروا لَو تَغفُلونَ عَن أَسلِحَتِكُم وَأَمتِعَتِكُم فَيَميلونَ عَلَيكُم مَيلَةً و‌ٰحِدَةً وَلا جُناحَ عَلَيكُم إِن كانَ بِكُم أَذًى مِن مَطَرٍ أَو كُنتُم مَرضىٰ أَن تَضَعوا أَسلِحَتَكُم وَخُذوا حِذرَكُم إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلكـٰفِرينَ عَذابًا مُهينًا ﴿١٠٢﴾... سورة النساء

"جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو، پھر جب یہ سجده کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں اور وه دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وه آجائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لئے رہے، کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے بے خبر ہو جاؤ تو وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں، ہاں اپنے ہتھیار اتار رکھنے میں اس وقت تم پر کوئی گناه نہیں جب کہ تمہیں تکلیف ہو یا بوجہ بارش کے یا بسبب بیمار ہو جانے کے اور اپنے بچاؤ کی چیزیں ساتھ لئے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ نے منکروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے" [10]

یہ آیت کریمہ وضاحت کرتی ہے کہ باجماعت نماز کی نہایت تاکید ہے یہاں تک کہ حالت خوف میں بھی ترک جماعت کی رخصت نہیں ہے۔ اگر نماز باجماعت واجب نہ ہوتی تو خوف کے عذر کے وقت بطریق اولیٰ ساقط ہو جاتی ،حالانکہ نماز خوف میں بہت سے واجبات ترک کر دیے جاتے ہیں اور نماز باجماعت کی خاطر ہی بہت سے احکام معاف کر دیے گئے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَال قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَثْقَلَ صَلَاةٍ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلَاةُ الْعِشَاءِ وَصَلَاةُ الْفَجْرِ وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا - زحفًا - وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَتُقَامَ ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيُصَلِّيَ بِالنَّاسِ ثُمَّ أَنْطَلِقَ مَعِي بِرِجَالٍ مَعَهُمْ حُزَمٌ مِنْ حَطَبٍ إِلَى قَوْمٍ لَا يَشْهَدُونَ الصَّلَاةَ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ بِالنَّارِ "

"یقیناً منافقین پر عشاء اور فجر کی نماز یں بہت بھاری ہیں اگر انھیں ان کا اجر معلوم ہو جائے تو اگر انھیں چوتڑوں کے بل گسٹ کر آنا پڑے تب بھی ضرور آجائیں ۔ میں نے ارادہ کیا کہ نماز کی اقامت کا حکم دوں پھر ایک شخص کو کہوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں خود ایسے آدمیوں کو لے چلوں جن کے پاس ایندھن کے گٹھے ہوں اور جو افراد جماعت میں شریک نہ ہوں ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔"[11]

اس حدیث سے نماز باجماعت کا وجوب دو طرح ثابت ہوتا ہے۔اولاً باجماعت نماز سے پیچھے رہنے والوں کو منافقین میں شمار کیا گیا ہے سنت سے پیچھے رہنے والا منافق شمار نہیں ہوتا لہٰذا معلوم ہوا کہ نماز باجماعت کا تارک" واجب" کا تارک ہے ثانیاً: باجماعت نماز سے پیچھے رہ جانے کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں سزا دینے کا ارادہ کیا تھا اور سزا ترک واجب ہی پر ہوتی ہے البتہ اس سزا کو اس لیے نافذ نہیں کیا گیا کہ گھروں میں عورتیں اور بچے موجود ہوتے ہیں جن پر جماعت میں شریک ہونا واجب نہیں صحیح مسلم  میں ہے۔

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ أَعْمَى فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ يَقُودُنِي إِلَى الْمَسْجِدِ فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَخِّصَ لَهُ فَيُصَلِّيَ فِي بَيْتِهِ فَرَخَّصَ لَهُ فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ فَقَالَ ( هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ ؟ ) قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : ( فَأَجِبْ ) " (رواه مسلم ۔ 653)

"ایک نابینا شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں آیا اور کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے مسجد کی طرف لانے والا کوئی نہیں لہٰذا گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت عنایت فرمائیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے رخصت دے دی جب وہ واپس پلٹا تو اسے دوبارہ بلوایا اور فرمایا:" کیا تم اذان سنتے؟"اس نے کہا:ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:" تم مسجد میں ضرورآؤ۔"[12]

اس  روایت میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نابینا شخص کو اذان پر لبیک کہنے اور نماز باجماعت میں شریک ہونے کا حکم دیا ہے حالانکہ اس کے لیے اس میں مشقت اور تکلیف تھی۔ یہ حدیث بھی نماز باجماعت کے وجوب پر دلیل ہے۔

باجماعت نماز کا وجوب اہل ایمان کے ہاں دور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   سے آج تک مسلم چلا آرہا ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول ہے:" ہم نے دیکھا جماعت سے وہی پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح اور نمایاں تھا جبکہ مومن شخص کو دو آدمیوں کا سہارا دے کر مسجد میں لایا جاتا اور صف میں کھڑا کر دیا جاتا۔"[13]

اس سے واضح ہوتا ہے کہ نماز باجماعت کا وجوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   کے دل و دماغ میں راسخ تھا اور یہ بات انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہی سے معلوم ہوئی تھی ۔یہ امر واضح ہے کہ جس عمل کے بارے میں کہا جائے کہ "اس سے صرف منافق ہی پیچھے رہتا ہے:"وہ ہر شخص پر واجب ہوتا ہے۔

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے مرفوعاً روایت کیا ہے۔

"الْجَفَاءُ كُلُّ الْجَفَاءِ ، وَالْكُفْرُ وَالنِّفَاقُ : مَنْ سَمِعَ مُنَادِيَ اللَّهِ يُنَادِي بِالصَّلاةِ وَيَدْعُو إِلَى الْفَلاحِ فَلا يُجِيبُهُ "

"یہ حددرجہ کا ظلم ،کفر اور نفاق ہے کہ کوئی شخص مؤذن کی اذان سنے جو کہ نماز اور کامیابی کی طرف بلاتا ہے اور وہ اس پر لبیک نہ کہے۔"[14]

ایک روایت میں ہے۔

"وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ"

"جماعت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے جو الگ ہوا وہ جہنم میں ڈال دیا گیا ۔"[15]

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو رات کو قیام کرتا ہے دن کو روزہ رکھتا ہے۔ لیکن نماز کے لیے وہ جماعت کے ساتھ شریک نہیں ہوتا تو ا نھوں نے فرمایا:"وہ جہنمی ہے۔"[16]

ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت اور معرفت حق کی توفیق اور اس کا اتباع کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ بے شک وہی سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔


[1]۔مسند احمد 4/385۔6/49۔

[2]۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب الاوقات التی نھی عن الصلاۃ  فیھا حدیث 831۔

[3]۔صحیح  البخاری مواقیت الصلاۃ باب لا تتحری الصلاۃ قبل غروب الشمس حدیث 586 وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب الاوقات النھی عن الصلاۃ فیھا حدیث 827۔

نماز عصر کے بعد کوئی نماز ادا کرنا سلف صالحین کےہاں مختلف فیہ امررہا ہے۔عصر کے بعد نماز پڑھنے کی صورتیں درج ذیل ہیں:

1۔فوت شدہ فرائض کی قضا اداکرنا۔

2۔سنن موکدہ کی قضا ادا کرنا،مستقل دورکعت نماز،نماز جنازہ اورسببی نماز ادا کرنا۔

3۔مطلق نوافل ادا کرنا۔

پہلی صورت میں نماز ادا کرنا بالاتفاق جائز ہے۔دوسری صورت میں تین چیزیں ہیں:

1۔فی نفسہ سنن موکدہ کی قضا ادا کرنا مختلف فیہ ہے،اس لیے کہ ان کی فضیلت ان کے اوقات ہی میں ادا کرنے پر موقوف ہےمثلاً:ظہر سے پہلے چار رکعتوں کی فضیلت وغیرہ۔یہ فضیلت اسی صورت میں حاصل ہوسکتی ہے جب انھیں ان کے وقت پر ادا کیا جائے۔اگر کوئی شخص ان پر مواظبت ومداومت کرتاہے اور کبھی کسی وجہ سے اس کی یہ سنتیں رہ جاتی ہیں تو بعد میں ادا کرنا جائز ہے۔

2۔اورعصر کے بعد دورکعتیں مستقل ادا کرنا اوران پر مواظبت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہی کا خاصا ہے۔(عون المعبود 4/107)

3۔نماز جنازہ اور سببی نمازوں کے بارے میں اختلاف ہے لیکن زیادہ قابل ترجیح بات یہی ہے کہ یہ نمازیں ادا کرنا جائز ہیں۔

تیسری صورت مطلق نوافل کی ہے اور یہی صورت بالعموم مختلف فیہ ہے۔ذیل میں ان احادیث کا ذکرکیا جاتا ہے جو اس کے جوازیا عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں۔

نہی کی روایات جن میں عصر کے بعد نماز پڑھنا مطلقاً ممنوع ہے،چاہے وہ نفلی،فرض یا سببی نماز ہو،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: "لا صَلَاةَ بَعْدَ صَلاةِ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ ""عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک کوئی نماز  نہیں۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب الاوقات التی نھی عن الصلاۃ فیھا،حدیث 827،اسی طرح یہ روایت باقی کتب حدیث میں بھی موجود ہے)۔

اس موضوع پر اگر صرف یہی روایت ہوتی تو بجائے فیصلہ کن تھی لیکن جب اس حدیث کے باقی طرق یا اس موضوع کی دوسری روایات کودیکھا جائے تو مسئلے کی نوعیت بدل جاتی ہے۔

یہ حدیث عام ہے اور بہت سی صورتوں میں اس کی تخصیص کی گئی ہے،مثلاً:فوت شدہ فرائض کی قضا ادا کرنا،جنازہ اور سببی نمازیں ادا کرنا وغیرہ،انھیں پڑھنے کے دلائل طویل ہیں اور بخوف طوالت قلم انداز کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح عصر کے بعد نوافل کے لیے بھی یہ نہی مطلق نہیں ہے بلکہ بعض دلائل اسے مقید کرتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عصر کے بعد سورج غروب ہونے کے قریب نماز پڑھنا ممنوع ہے مطلقاً منع نہیں۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے: "ان النبي صلي الله عليه وسلم نهى عن الصلاة بعد العصر إلا و الشمس مرتفعة ""بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  عصر کے بعد نماز سے روکتےتھے الا یہ کہ سورج ابھی بلند ہو۔"(سنن ابی داود التطوع باب من رخص فیھما اذا کانت الشمس مرتفعۃ   حدیث 1274)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت کا تعلق غروب آفتاب کے قریب نماز پڑھنے سے ہے،اس سے قبل جائز ہے۔اسی طرح ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"لَا يَتَحَرَّى أَحَدُكُمْ فَيُصَلِّيَ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَلَا عِنْدَ غُرُوبِهَا""کوئی شخص طلوع شمس اور اس کے غروب کے وقت نماز پڑھنے کی کوشش نہ کرے۔"(صحیح مسلم،صلاۃ المسافرین،باب الاوقات التی نھی۔۔۔حدیث 828)اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ منع کا حکم غروب آفتاب کے قریب نماز پرھنے کے ساتھ مقید ہے۔ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہی سے ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: "وَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلاةَ حَتَّى تَغِيبَ""جب سورج کاکنارہ غائب ہوجائے تو پھر نماز کوغروب آفتاب تک مؤخر کردو۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب الاوقات التی نھی عن الصلاۃ فیھا حدیث 829۔عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت میں ہے: "وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ""اور جب سورج  غروب کے لیے جھک جائے تو غروب ہونے تک(نماز نہ پڑھو)۔(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب الاوقات التی نھی عن الصلاۃ فیھا حدیث 831۔اسی طرح سیدنا بلاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے منقول ہے،جسے شیخ البانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے سلسلہ احادیث صحیحہ رقم 200 میں ابن حزم  رحمۃ اللہ علیہ  کے حوالے سے نقل کیاہے اور اس کی سند کو صحیح کہاہے ،وہ فرماتے ہیں: "لم ينه عن الصلاة إلا عند غروب الشمس""آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےغروب آفتاب کے قریب ہی نماز پڑھنے سے روکاتھا۔"اسی طرح کئی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   سے بھی عصر کے بعد نوافل پڑھنا ثابت ہیں جس کی تفصیل ذیل میں دیے گئے مراجع سے دیکھی جاسکتی ہے۔مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:شرح مسلم للنووی 6/160 وعون المعبود 4/106۔109۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ 1/387 حدیث 220 والمحلی لابن  حزم 3/23۔31۔ھذا ماعندنا واللہ اعلم بالصواب۔(عثمان منیب)

[4]۔صحیح البخاری مواقیت الصلاۃ باب من نسی صلاۃ فلیصل اذا ذکر ولایعید الا تلک الصلاۃ حدیث 597 وصحیح مسلم المساجد باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ واستحباب تعجیل قضائھا حدیث 684 واللفظ لہ۔

[5]۔جامع الترمذی الحج باب ماجاء فی الصلاۃ بعدالعصر وبعد الصبح لمن یطوف حدیث 868۔

[6]۔صحیح البخاری مواقیت الصلاۃ باب ما یصلی بعد العصر من الفوائت ونحوھاحدیث 590۔593۔وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب معرفۃ الرکعتین۔۔۔حدیث 834۔

[7]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب تسویہ الصفوف واقامتہا  حدیث :432۔وسنن ابی داؤد الصلاۃ باب تسویہ الصفوف حدیث 664۔

[8]۔صحیح البخاری الاذان باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث 645وصحیح مسلم المساجد باب فضل صلاۃ الجماعۃ وبیان التشدید فی التخلف عنہا حدیث650۔

[9]۔صحیح البخاری الاذان باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث 646وصحیح مسلم المساجد باب فضل صلاۃ الجماعۃ وبیان التشدید فی التخلف عنہا حدیث649۔

[10]۔النساء:4/102۔

[11]۔صحیح البخاری الاذان باب فضل صلاۃ العشاء فی الجماعۃ حدیث 657۔وصحیح مسلم المساجد باب فضل صلاۃ الجماعۃ وبیان التشدید فی التخلف عنہا حدیث 651 واللفظ ۔

[12]۔صحیح مسلم المساجدباب یحیب بیان المسجد علی من سمع النداء  حدیث: 653۔

[13]۔سنن داؤد الصلاۃ باب التشدید فی ترک الجماعۃ حدیث :550۔

[14]۔وسنن ابن ماجہ المساجد واجماعات باب المشی الی الصلاۃ حدیث 777۔

[15]۔جامع الترمذی الفتن باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ حدیث 2167۔وقال الالبانی  رحمۃ اللہ علیہ  صحیح دون ومن شدً۔

[16]۔(ضعیف)جامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی من سمع النداء فلا یحیب حدیث:218۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

نماز کے احکام ومسائل:جلد 01: صفحہ 161

تبصرے