نماز وتر
نفل نماز کے بارے میں ہم اپنی بات کا آغاز نماز وتر سے کرتے ہیں کیونکہ اس کی خاص اہمیت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نفل نمازوں میں نماز وتر کی سب سے زیادہ تاکیدہے بلکہ بعض علماء تو اس کے وجوب کے قائل ہیں۔ اور جس مسئلہ کے واجب یا غیرواجب ہونے میں اختلاف ہو اس کی تاکید واہمیت اس عمل سے زیادہ ہی ہوگی جس کے غیر واجب ہونے پر اتفاق ہے۔
نماز وتر کی مشروعیت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور اس کا چھوڑنا کسی مسلمان کے لائق نہیں۔جو شخص ترک وتر پر اصرار کرے اس کی شہادت مردود ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:"جس نے وتر کی نماز عمداً چھوڑدی وہ برا آدمی ہے اور اس لائق ہے کہ اس کی شہادت قبول نہ کی جائے۔[1]
سنن ابو داؤد میں مرفوع روایت ہے۔
"جس شخص نے وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔[2]
وتر دارصل ایک مستقل اور الگ رکعت کا نام ہے۔ اگر ایک ہی سلام سے متصل تین پانچ سات نو اور گیارہ رکعتیں ہوں گی تو یہ تمام رکعتیں وتر کہلائیں گی۔البتہ جب دو یا زیادہ مرتبہ سلام پھیرا جائے گا تو وتر صرف اس رکعت کا نام ہو گا جو مستقل اورالگ پڑھی گئی ہے۔
وتر کا وقت نماز عشاء کے بعد شروع ہوتا ہے اور طلوع فجر تک رہتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر ادا کیے ہیں۔ یعنی رات کے شروع حصے میں وسط میں اور آخری حصے میں حتی کہ آپ نے طلوع فجر کے قریب تک وتر ادا کیے ہیں،[3]
بہت سی احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ ساری رات ہی نماز وتر کا وقت ہے البتہ نماز عشاء کی ادائیگی سے قبل وتر جائز نہیں۔ جس شخص کو رات کے آخری حصے میں اٹھنے پر اعتماد ہوتو اس کے لیے رات کے آخری حصے میں وتر ادا کرنا افضل ہے۔ اور جسے اعتماد یقین نہ ہو تو وہ سونے سے پہلے پہلے وتر ادا کر لے یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت اور تلقین ہے چنانچہ صحیح مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس شخص کو یہ خوف ہو کہ رات کے آخری حصے میں اٹھ نہ سکے گا تو وہ وتر ادا کر لے اور سوجائے اور جس شخص کو رات کے کسی حصے میں اٹھ جانے پر یقین واعتماد ہوتو وہ رات کے آخری حصے میں وتر ادا کرلے رات کے آخری حصے میں قرآءت قرآن کے وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔"[4]
وتر کم ازکم ایک رکعت ہے اس بارے میں متعدداحادیث بھی ہیں اور تقریباً دس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس کا ثبوت ملتا ہے لیکن افضل اور احسن یہ ہے کہ اس سے پہلے جفت رکعات ادا کی جائیں۔
نماز وتر ادا کرنے والا زیادہ سے زیادہ گیارہ یا تیرہ رکعات دو، دو کر کے ادا کرے۔ پھر آخر میں ایک رکعت پڑھے تب اس کی ساری نماز وتر بن جائے گی۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں۔
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعات ادا کرتے ایک رکعت سے ساری نماز وتر بنا لیتے۔"
دوسری روایت میں یوں ہے۔
"ہر رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت سے ساری نماز کو وتر بنا لیتے۔"[5]
نماز وتر پڑھنے والے کے لیے یہ بھی درست ہے کہ وہ لگاتار دس رکعات پڑھے پھر دسویں رکعت پڑھ کر بیٹھ جائے تشہد پڑھے اور بغیر سلام پھیرے سیدھا کھڑا ہو جائے اور گیارہویں رکعت پڑھ کر تشہد بیٹھے اور سلام پھیردے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ وہ لگاتار گیارہ رکعات پڑھ کر آخر میں تشہد پڑھے اور پھر سلام پھیردے ۔[6]
نورکعات نماز وتر ادا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بغیر سلام پھیرے لگاتار پڑھے۔ آٹھویں رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھ جائے اور پھر بغیر سلام پھیرنے نویں رکعت ادا کرنے کے لیے کھڑا ہو جائے ۔ پھر آخری تشہد پڑھے اور سلام پھیردے۔
سات رکعات یا پانچ رکعات ادا کرنی ہوں تو آخری رکعت میں تشہد بیٹھے اور سلام پھیردےکیونکہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سات یا پانچ رکعات سے نماز کو وتر بناتے تو درمیان میں نہ سلام پھیرتے اور نہ کلام کرتے۔[7]
رات کی نماز کو تین رکعات کے ساتھ وتر بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرا جائے۔ پھر تیسری رکعت الگ طور پر ادا کی جائے۔[8]پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ دوسری میں سورۃ الکفرون اور تیسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھنا مستحب ہے۔
مندرجہ بالا روایات سے واضح ہو گیا کہ رات کی نماز کو تیرہ گیارہ نو، سات پانچ تین اور ایک رکعت سے وتر بنانا جائز ہے۔ گیارہ رکعات ادا کرنا"درجہ کمال"ہے۔ تین رکعات وتر ادا کرنا کمال کا ادنی درجہ ہے جب کہ ایک رکعت وتر" کفایت"کا درجہ ہے۔
مستحب یہ ہے کہ وتر میں رکوع کے بعد قنوت کریں جس میں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی جائے۔[9]
"اے اللہ ! تونے جن لوگوں کو ہدایت دی ہے مجھے بھی ان میں ہدایت دے۔اور جن لوگوں کو تونے عافیت دی ہے مجھے بھی ان میں عافیت دی ہے مجھے بھی ان میں عافیت دے اور جن لوگوں کی تونے سر پرستی فرمائی ہے ان لوگوں میں میرا بھی سر پرست بن۔ اور جو کچھ تونے مجھے عطا فرمایا ہے اس میں میرے لیے برکت فرما۔ اور تونے جو فیصلے کیے ہیں ان کے شرسے مجھے بچا کیونکہ تو ہی(حتمی )فیصلے کرتا ہے اور تیرے (فیصلے کے) خلاف کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا ۔ یقینی بات ہے کہ تو جس کا دوست بن جائے وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا اور جس سے تو دشمنی کر لے وہ ہر گزمعزز نہیں ہو سکتا۔ اے رب! تو برکت اور بلند شان والا ہے۔[10]اور تیرے عذاب سے تیرے سواکوئی بچانے والا نہیں ہے۔"[11]
ہادی برحق سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے مہینہ میں" نماز تراویح " کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نماز"سنت مؤکدہ "ہے۔
تراویح کا لغوی معنی"آرام کرنا "ہے چونکہ اس نماز میں ہر چار رکعات کے طویل قیام کے بعد قدرے وقفہ اور آرام کیا جاتا ہے اس لیے اس کا نام تراویح رکھا گیا ہے۔
نماز تراویح مسجد میں باجماعت ادا کرنا افضل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں اپنے اصحاب کے ساتھ چند راتیں مسجد میں قیام اللیل کیا۔ پھر اس خوف کی بنا پر اسے چھوڑ دیا کہ کہیں لوگوں پر فرض نہ ہو جائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان میں ایک رات قیام کیا اور کچھ لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کیا پھر اگلی رات قیام کیا تو اور لوگ بھی کثیر تعداد میں شریک ہو گئے پھر تیسری یا چوتھی رات ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین قیام رمضان کے لیے بہت بڑی تعداد میں جمع ہو گئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم (اپنی موجودگی کے اظہار کے لیے) جو کچھ کر رہے تھے مجھے معلوم تھا لیکن جس چیز نے مجھے روک دیا وہ یہ خوف تھا کہ یہ نماز پر فرض ہوجائے گی۔ اور یہ رمضان کا مہینہ تھا۔"[12]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے نماز تراویح کا اہتمام کیا اور امت محمدیہ نے بھی اسے قبول کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے امام کے ساتھ نماز تراویح میں مکمل قیام کیا اس کے اعمال نامہ میں ساری رات کا قیام لکھا جائے گا۔"[13]
اور فرمایا:
"جس نے ایمان اور طلب ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان المبارک کا قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔"[14]
نماز تراویح سنت ثابتہ ہے لہٰذا کسی مسلمان کے لائق نہیں کہ وہ اسے چھوڑدے۔ نماز تراویح کی رکعات کی تعداد کی تعیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں لہٰذا اس امر میں وسعت ہے۔"[15]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: نماز تراویح ادا کرنے والا چاہے تو بیس رکعات ادا کرے جیسا کہ امام احمد اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب مشہور ہے یا وہ چھتیس رکعات ادا کرے جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے۔اور اگر وہ چاہے تو گیارہ یا تیرہ رکعات پڑھ لے جس قدر بھی پڑھے درست ہے۔ قیام چھوٹا ہو تو رکعات کی تعداد بڑھالی جائے اور اگررکعات کی تعداد کم ہو تو قیام لمبا کر لیا جائے۔"[16]
سیدنا امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لوگوں کا امام مقرر کیا تو انھوں نے بیس رکعات پڑھائیں ۔[17]صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کوئی کم رکعات پڑھتا اور کوئی زیادہ ۔الغرض شارع علیہ السلام سے محدود یا متعین تعداد کے بارے میں کوئی نص وارد نہیں۔
اکثر آئمہ مساجد جو نماز تراویح پڑھاتے ہیں وہ توجہ سے نماز نہیں پڑھاتے ان کے رکوع و سجود میں اطمینان اور سکون نہیں ہوتا حالانکہ طمانیت رکن نماز ہے نماز کا مطلوب حضور قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونا ہے اور اس قرآن مجید کے پڑھے جانے والے حصے پر غور کرنا اور نصیحت حاصل کرنا ہے۔ لیکن یہ چیزیں ناپسندحد تک جلد بازی کرنے سے حاصل نہیں ہوتیں ۔ایسی دس رکعات جن میں قیام لمبا ہوا ور اطمینان و سکون ہو ان بیس رکعات سے کہیں بہتر ہیں جو انتہائی جلد بازی سے ادا ہوں کیونکہ نماز کا لب لباب اور روح اللہ تعالیٰ کے حضور دل کو متوجہ رکھنا ہے بسااوقات قلیل میں کثیر کی نسبت زیادہ خیر ہوتی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کو ترتیل سے یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا تیزی کے ساتھ پڑھنے سے افضل ہے۔ تلاوت قرآن مجید میں مناسب تیزی یہ ہے کہ قرآن مجید کا کوئی حرف چھوٹنے نہ پائے۔ اگر تیزی کی وجہ سے قرآن مجید کے حروف چھوٹ گئے تو یہ ناجائز کام ہوگا ایسا کرنے والے کو روکنا چاہیے کیونکہ یہ انداز حکم باری تعالیٰ کے خلاف ہے۔ قاری اس طرح قرآءت کرے کہ سامعین مستفید اور مخطوط ہوں تو یہ انداز مناسب اور خوب ہے جو لوگ قرآن مجید کو سوچ سمجھ کرنہیں پڑھتے اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"اور ان میں سے کچھ ان پڑھ ہیں وہ کتاب کو نہیں جانتے سوائے جھوٹی آرزوؤں کے اور بس وہ صرف گمان کرتے ہیں۔"[18]
قرآن مجید کو نازل کرنے کا مقصد اس کے معانی کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ نہ کہ محض اس کی تلاوت کرنا۔
"بعض آئمہ مساجد مسنون طریقے سے نماز تراویح ادا نہیں کرتے کیونکہ وہ قرآن مجید اس قدر تیزی سے پڑھتے ہیں کہ الفاظ قرآن مجیدکی ادائیگی صحیح نہیں ہوتی نیز ان کے قیام ، رکوع اور سجدہ میں اطمینان و سکون نہیں ہوتا۔ حالانکہ اطمینان اور ٹھہراؤ نماز کا ایک رکن ہے۔ مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ وہ رکعات بھی کم پڑھتے ہیں۔ یہ انداز عبادت کو کھیل تماشہ بنانے کے مترادف ہے۔[19]ان لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اندر خوف الٰہی پیدا کریں اپنی نمازوں کو صحیح اور درست کریں۔ اپنے آپ کو اور اپنے پیچھے کھڑے ہونے والوں کو نماز تراویح کی ادائیگی میں مسنون طریقے سے محروم نہ رکھیں۔[20]اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ایسے اعمال کی توفیق دے جس میں ہماری اصلاح اور فلاح ہو۔
سنن مؤکدہ کی بڑی اہمیت ہے۔ان کا ترک مکروہ ہے۔ بعض آئمہ کے نزدیک سنن مؤکدہ کا تارک ناقابل اعتبار ہے یعنی شرعاً اس کی گواہی قابل قبول نہیں بلکہ گناہ گار ہے۔ کسی شخص کا سنن مؤکدہ کو دائمی ترک کرنا اس کی دینی کمزوری اور لاپرواہی کا مظہر ہے۔ سنن مؤکدہ دس رکعات ہیں جو درج ذیل ہیں:
ظہر سے پہلے دو رکعتیں ۔ اکثر علماء کے نزدیک ظہر سے پہلے چار رکعات سنن مؤکدہ ہیں۔ اس طرح ان کے ہاں سنن مؤکدہ کی کل تعداد بارہ رکعات ہیں۔
1۔ظہر کے بعد دو رکعتیں ۔
2۔مغرب کے بعد دو رکعتیں ۔
3۔عشاء کے بعد دو رکعتیں۔
طلوع فجر کے بعد اور نماز فجر سے پہلے دو رکعتیں۔
سنن مؤکدہ کی اس تفصیل کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دس رکعات کے بارے میں جو عمل یاد کیا وہ یوں ہے ظہر سے پہلے دو رکعتیں اور بعد میں دو رکعتیں مغرب کے بعد گھر میں دورکعتیں عشاء کے بعد گھر میں دو رکعتیں اور نماز فجر سے پہلے دو رکعتیں اور یہ ایسا وقت ہوتا تھا کہ آپ کے پاس کوئی نہیں آتا تھا۔"[21]
مجھے (ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو) سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا :"جب فجر طلوع ہوجاتی اور مؤذن اذان دے دیتا تو آپ دو رکعتیں ادا کرتے ۔"[22]
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعات پڑھتے پھر لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے نکل جاتے۔ پھر میرے گھر واپس آتے تو دورکعتیں پڑھتے تھے۔"[23]
اس روایت سے یہ استدلال بھی کیا جاتا ہے کہ "سنت نماز" مسجد کی نسبت گھر میں ادا کرنا افضل ہے نیز اس میں بہت سی مصلحتیں ہیں۔ چند ایک یہ ہیں:
1۔ گھرمیں نماز ادا کرنےسے نیک عمل ریا کاری اور نمائش سے محفوظ رہتا ہے۔اور لوگوں کی نظر سے مخفی رہتا ہے۔
2۔گھر میں نفل نماز ادا کرنے کے سبب خشوع وخضوع زیادہ ہوتا ہے۔
3۔اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے گھر کی آبادی ہوتی ہے جس کی وجہ سے گھر میں رحمت کا نزول ہوتا ہے اور شیطان دور ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"تم اپنی نماز کا ایک حصہ گھروں میں ادا کرو۔انھیں قبرستان (کی طرح) نہ بناؤ۔")[24]
سنن مؤکدہ میں سے فجر کی دو رکعتوں کی تاکید سب سے بڑھ کر ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو رکعتوں (نماز سنت)سے بڑھ کر اور کسی نفل کا خیال نہ رکھتے تھے۔[25]
اور روایت میں یوں ہے:
"فجر کی دو رکعتیں دنیا اور دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہیں۔"[26]
یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان دو رکعتوں کی اور نماز وتر کی اس قدر محافظت فرماتے تھے کہ سفر ہو یا حضر انھیں چھوڑتے نہ تھے۔
فجر کی دو رکعتیں اور نماز وتر کی ادائیگی کے علاوہ اور کسی نفل نماز کے سفر میں ادا کرنے کا اہتمام کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ ایک مرتبہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو سفر میں ظہر کی سنتیں پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:"اگر مجھے سنتیں پڑھنا ہوتیں تو میں فرض نماز بھی پوری پڑھتا (قصر نہ کرتا)۔"[27]
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ فرض نماز میں قصر کرنا ہے وتر اور فجر کی سنتوں کے علاوہ اور کسی نفل یا سنتوں کا اہتمام سے پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے:"[28]
فجر کی سنتوں میں مختصر قیام کرنا مسنون ہے۔ اس بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں میں مختصر قیام کرتے تھے پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعد" سورہ کافرون"جب کہ دوسری رکعت میں "سورہ اخلاص"کی قرآءت کرتے تھے۔[29]اور کبھی پہلی رکعت میں سورہ بقرہ کی آیت:
اور دوسری رکعت میں سورہ آل عمران کی آیت:
پڑھتے تھے۔[31]اسی طرح مغرب کے بعد کی سنتوں میں"سورۃ کافرون"اور اخلاص"پڑھتے تھے۔[32]جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کے بعد اور فجر سے پہلے کی سنتوں میں سورۃ کافرون اور سورۃ اخلاص پڑھتے ہوئے اتنی بار سنا کہ میں گنتی اور شمار میں نہیں لا سکتا۔"[33]
سنن مؤکدہ میں سے جب کوئی نماز فوت ہو جائے تو اس کی قضا مسنون ہے۔ اسی طرح اگر رات کو وترنہ پڑھے جا سکیں تو دن کے وقت ان کی قضا دی جائے کیونکہ ایک مرتبہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند کا غلبہ ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کے ساتھ سنتوں کی قضا بھی دی تھی۔ اسی طرح ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظہر کی سنتیں رہ گئی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد ان کی قضا دی دیگر سنتوں کی قضا کی مشروعیت اس نص پر قیاس کر لو۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جو شخص سو جانے یا بھول جانے کی وجہ سے وتر نہ پڑھ سکا تو وہ صبح کو پڑھ لے یا جب یاد آئے تب پڑھ لے۔"[34]
اگر وتر کی قضا دے تو جفت رکعات پڑھے چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی نیند یا تکلیف کی بنا پر رات کا قیام نہ کر سکتے تو دن کے وقت بارہ رکعات ادا کر لیتے تھے۔"[35]
میرے بھائی !ان سنن مؤکدہ پر محافظت کیجیے کیونکہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"یقیناًتمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔"[36]
ان سنن کی محافظت سے فرض نمازوں میں پیدا ہونے والی کمی اور نقصان پورا ہو جاتا ہے جبکہ انسان سے کمی و نقصان کا احتمال عموماً رہتا ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کی اشد ضرورت ہے لہٰذا اس میں کوتاہی نہ کیجیے ۔ یہ چیز خیرو برکت کی کثرت کا باعث ہے جو تم اپنے رب کے ہاں ضرور حاصل کرو گے۔(ان شاء اللہ)
ہر فرض عبادت کے ساتھ نفل عبادت ہے مثلاً:فرض نماز روزے اور فرض حج ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کی جنس کی نفل عبادت موجود ہے تاکہ اس فرض عبادت میں پیدا ہونے والا نقصان پورا ہو جائے اور خلا پر ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر خاص فضل و عنایت ہے کہ اس نے اطاعت و فرمانبرداری کے لیے مختلف انواع کی عبادات مقرر فرمادی ہیں تاکہ ان کے درجات بلند ہوں اور خطائیں معاف ہوں۔
ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور سب کے لیے ایسے اعمال کی توفیق مانگتے ہیں جو اسے محبوب اور پسند ہوں بے شک وہی سننے والا قبول کرنے والا ہے۔
نماز چاشت سے متعلق کئی ایک روایات ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
"مجھے میرے خلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی نصیحت فرمائی ہر ماہ تین روزے رکھنا ضحیٰ یعنی چاشت کی دو رکعتیں پڑھنا اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا۔"[37]
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے حتیٰ کہ ہم کہتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہ چھوڑیں گے۔ اگر چھوڑدیتے تو ہم کہتے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہ پڑھیں گے۔"[38]
چاشت کی نماز کم ازکم دو رکعات ہیں جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درج بالا روایت میں بیان ہو چکا ہے۔ سیدنا معاذ بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:"جو شخص صبح کی نماز ادا کر کے اسی جگہ پر (جہاں ) اس نے فرض نماز ادا کی تھی) بیٹھا رہا اور کلمہ خیر و ذکر کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے چاشت کی دو رکعتیں ادا کیں تو اس کی تمام خطائیں معاف کر دی جائیں گی اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ ہوں۔"[39]
نماز چاشت کی زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعات مسنون ہیں چنانچہ سیدہ اُم ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال میرے گھر میں نماز چاشت کی آٹھ رکعات ادا کیں۔"[40]سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کے وقت چار رکعات پڑھتے تھے اور کبھی زیادہ بھی پڑھ لیتے تھے۔[41]
نماز چاشت کا وقت تب شروع ہوتا ہے جب سورج ایک نیزے کے برابر اونچا ہو جائے اور زوال آفتاب سے کچھ پہلے تک ہے۔ البتہ اس کا افضل وقت وہ ہے جب سورج کی تپش میں قدرے شدت آجائے۔چنانچہ ایک روایت میں ہے۔
"نماز "اوابین"(نماز ضحیٰ )کا مناسب وقت وہ ہے جب اونٹ کے بچے (ریت کی) گرمی محسوس کرنے لگیں۔"[42]
سجدہ تلاوت مسنون ہے اس سجدے کا سبب تلاوت قرآن ہے اس لیے اسے " سجدہ تلاوت"کہتے ہیں۔ یہ سجدہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص آیات کی تلاوت یا ان کی سماعت کے موقع پر بطور عبادت مقرر فرمایا ہے جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبودیت اس کے تقرب کا حصول اور اس کی عظمت کے سامنے خشوع وخضوع اور تذلل و عاجزی کا اظہار کرنا ہے۔
سجدہ تلاوت قاری اور سامع دونوں کے لیے مسنون ہے اور اس کی مشروعیت پر علماء کا اتفاق ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمیں کوئی ایسی سورت سناتے جس میں"سجدہ" ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے تھے یہاں تک کہ ہم میں سے بعض کو زمین پر پیشانی رکھنے کے لیے جگہ نہ ملتی تھی۔"[43]
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:" قرآن مجید میں سجدہ کے جس قدر مقامات ہیں ان میں سجدہ کرنے کا ذکر ہے یا حکم ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے عام یا خاص سجدہ کی خبر دی ہے وہاں قاری اور سامع دونوں کے لیے واجبی طور پر یا استحباباً سجدہ مقرر کیا گیا ہے تاکہ سجدہ کرنے والی مخلوق سے ان کی مشابہت ہو جائے۔ باقی رہیں اوامروالی آیات (جن آیات میں سجدہ کرنے کا حکم ہے) تو وہاں سجدہ کرنا بطریق اولیٰ ضروری ہے۔"[44]سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب ابن آدم آیت سجدہ پڑھ کر سجدہ کرتا ہے تو شیطان الگ ہو کر روتا ہے اور کہتا ہے: ہائے افسوس !ابن آدم کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو وہ سجدے میں گر گیا اس کے لیے جنت ہے۔ مجھے سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو میں نے انکار کر دیا میرے لیے آگ ہے۔"[45]
سجدہ تلاوت قاری اور سامع دونوں کے لیے مشروع ہے۔ واضح رہے سامع سے مراد وہ شخص ہے جو قصداً اور ارادۃً قرآن مجید کی تلاوت سنتا ہے اس مجلس میں شریک ہے چنانچہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت مذکورہ سے یہ بات وضاحت سے معلوم ہوتی ہے باقی رہا وہ سامع جو قصداً تلاوت نہیں سن رہا بلکہ سجدہ والی آیت کے الفاظ اس کے کان میں پڑ رہے ہیں اس کے لیے سجدہ تلاوت کرنا لازم نہیں چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو آیت سجدہ تلاوت کر رہا تھا امیر المومنین نے سجدہ نہ کیا اور فرمایا:
"سجدہ اس پر لازم ہے جو توجہ سے آیت سجدہ سنتا ہے۔"[46]
اس مضمون کی متعدد روایات دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بھی مروی ہیں۔
قرآن مجید میں سجدہ تلاوت ذیل کی سورتوں میں ہے:"
"(الاعراف) (الرعد) (النحل) (بني اسرائيل) (مريم) (الحج) (الفرقان)(النمل)(السجدة) (حم السجده) (النجم) (الانشقاق) (العلق) اور(سوره ص) کے سجدہ میں علماء کے مابین اختلاف ہے کہ سجدہ شکر ہے یا سجدہ تلاوت۔[47](واللہ اعلم)
تلاوت کا سجدہ کرتے وقت تکبیر کہی جائے کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرتے جب آیت سجدہ آجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے اور سجدہ میں چلے جاتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے۔"[48]
سجدہ تلاوت کرنے والا حالت سجدہ میں(سبحان ربي الاعليٰ) کہے جیسا کہ نماز کے سجدے میں یہ تسبیح کہی جاتی ہے۔ البتہ ذیل دعا بھی درست ہے:
"میرے چہرے نے اس ذات کے لیے سجدہ کیا جس نے اپنی قوت قدرت سے اس کو پیدا کیا اس کی صورت بنائی اور اس کے کان و آنکھیں بنائیں۔"[49]
اس کے علاوہ یہ دعا بھی پڑھ سکتا ہے:
"اے اللہ!میرےلیے اپنے ہاں اس کے بدلے اجرو ثواب لکھ لے اور اس کے ذریعے مجھ سے بوجھ دور فرما دے اور اس(سجدے) کو اپنے ہاں میرے لیے ذخیرہ بنالے اور میرے اس (سجدے) کو قبول فرما لے جس طرح تونے اپنے بندے داودکا سجدہ قبول کیا تھا۔[50]
کھڑے ہو کر سجدے میں جانا بیٹھے بیٹھے سجدے میں جانے سے افضل ہے۔[51]
اے مسلمان !خیر و بھلائی کے بہت سے راستے ہیں کوشش کر کے انھیں اختیار کیجیے اپنے قول و عمل میں اخلاص پیدا کیجیے تاکہ اللہ تعالیٰ تمھیں سعادت مند اور خوش نصیب لوگوں میں شامل فرمائے۔آمین۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے علاوہ کون سی نماز افضل ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"رات کی نماز۔"[52]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"رات میں ایک ایسا وقت ہوتا ہے۔کہ اگر کوئی مسلمان اسے اس حال میں حاصل کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی بھلائی طلب کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرماتا ہے۔ اور یہ ہر رات ہوتا ہے۔"[53]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"رات کے وقت قیام کرو، تم سے پہلے نیک لوگوں کی یہی عادت تھی۔ یہ تمھارے لیے اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے برائیوں کا کفارہ ہے اور گناہوں کے لیے رکاوٹ ہے۔"[54]
رات کو قیام کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے مدح کرتے ہوئے فرمایا:
"وہ تو اس سے پہلے ہی نیکو کار تھے وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے ۔ اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے۔"[55]
اورفرمایا:
"ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں ۔اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے وہ خرچ کرتے ہیں۔ کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پوشیدہ رکھی گئی ہے جو کچھ وہ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔"[56]
رات کے قیام سے متعلق قرآن و حدیث میں بہت تاکید ہے کیونکہ نوافل میں سب سے زیادہ فضیلت رات کے قیام کی ہے۔ رات کے قیام کی فضیلت کا پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں حددرجہ کا اخفااور اخلاص ہے نیز یہ لوگوں کی غفلت کا وقت ہے اس میں قیام کرنا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو نیند اور آرام پر ترجیح دینا ہے۔
منع کردہ اوقات کے سوانفلی نماز کے لیے تمام اوقات مستحب ہیں جبکہ مذکورہ دلائل کی روشنی میں رات کی نماز دن کی نماز سے افضل ہے اور رات کی نماز میں سے افضل نماز وہ ہے جو نصف رات کے بعد آخری تہائی حصے میں پڑھی جائے کیونکہ صحیح بخاری میں مرفوعاً روایت ہے:
"اللہ کے نزدیک (رات کی) پسندیدہ نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے۔ وہ نصف رات تک سوئے رہتے پھر تہائی رات قیام کرتے اور باقی چھٹا حصہ سوجاتے تھے ۔"[57]
(اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام ) رات کے ابتدائی حصہ میں سو کر آرام فرماتے تھے پھر قیام کے لیے اس وقت اٹھتے جب اللہ تعالیٰ منادی دیتا اور اعلان کرتا ہے:" کیا کوئی سائل ہے مجھ سے سوال کرے اور میں اسے وہ چیز دوں؟ [58]پھر آپ بقیہ رات کے آخری حصہ میں آرام کی خاطر سوجاتے تاکہ فجر کی نماز ہشاش بشاش طبیعت کے ساتھ ادا کر سکیں ۔یہ قیام اللیل کی افضل صورت ہے وگرنہ رات کے کسی بھی حصے میں قیام ہو سکتا ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:" رات کے قیام کا وقت نماز مغرب سے لے کر طلوع فجر تک ہے۔ اس قول کی روشنی میں مغرب اور عشاء کے درمیان کے نفل رات ہی کے قیام میں شمار ہوں گے ۔ البتہ رات کے آخری نصف حصے میں قیام کرنا سب سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد :
"بے شک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب ہے اور بات کو بہت درست کر دیتا ہے۔"[59]
آیت مذکورہ میں کلمہ (نَاشِئَةَ) کا مطلب سونے کے بعد اٹھنا ہے۔ اور تہجد بھی سو کر اٹھنے کے بعد ہی ادا ہوتی ہے۔"[60]
مسلمان کے لائق اور زیبا ہے کہ وہ رات کو قیام کرے اس پر مداوت کرے اگرچہ قلیل ہی کیوں ہی نہ ہو۔قیام اللیل کا مسنون طریقہ یہ ہے۔
(1)قیام اللیل کی نیت کرے (واضح رہے کہ نیت دل سے ہوتی ہے زبان سے نہیں۔)
2۔جب بیدار ہوتو مسواک کرے۔اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے اور یہ کلمات کہے:
"ایک اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اس کا کوئی شریک نہیں ملک اسی کا ہے اور تعریف بھی اسی کے لیے ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔گناہ سے بچنے کی اور نیکی کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ کے بغیر نہیں ہے۔ [61]
اور کہے۔
"اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اس کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔[62]
اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے جسمانی عافیت دی اور میری روح لوٹا دی اور اپنے ذکر کی توفیق دی۔[63]
3۔مستحب یہ ہے کہ نماز تہجد کی ابتدا ہلکی پھلکی دو رکعتوں سے کرے کیونکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب کوئی شخص رات کو(قیام کے لیے)اٹھے تو اپنی نماز ہلکی پھلکی دورکعتوں سے شروع کرے۔"[64]
4۔ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
"رات کی نماز دو ،دو رکعتیں ہیں۔"[65]
5۔قیام ،رکوع اور سجدے کو لمبا کرنا نہایت مناسب ہے۔
6۔نماز تہجد گھر میں ادا کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کا قیام گھر ہی میں کیا کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو۔ بے شک آدمی کی بہترین نماز وہ ہے جو گھر میں ادا ہو سوائے فرض نماز کے(وہ مسجد میں افضل ہے۔)[66]
علاوہ ازیں گھر میں قیام کرنا اخلاص کے قریب تر ہے۔
7۔کھڑے ہو کر نفل نماز ادا کرنا بلا عذر بیٹھ کر نماز ادا کرنے سے افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
"کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا افضل ہے۔ جس نے(بلا عذر )بیٹھ کر نماز ادا کی اس کے لیے کھڑے ہو کر قیام کرنے والے کی نسبت نصف اجر ہے۔"[67]
جس نے کسی شرعی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نفل نماز ادا کی اسے کھڑا ہو کر قیام کرنے والے کے برابر ہی اجر ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جب کوئی بندہ بیمار ہو یا سفر پر ہو تو اس کا ہر وہ عمل (اللہ کے ہاں) لکھا جائے گا جو حالت صحت میں یا مقیم ہو کر کیا کرتا تھا۔"[68]
علاوہ ازیں کھڑے ہونے کی استطاعت کے باوجود بیٹھ کر نفل نماز ادا کرنے کے جواز میں علماء کا اتفاق ہے۔
رات کاقیام نماز وتر پر ختم کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے قیام میں سب سے آخر میں وتر ادا کرتے تھے۔[69]نیز متعدد روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بھی ہے۔[70]
جو شخص رات کو(کسی وجہ سے) تہجد کی نماز ادا نہ کر سکا تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ ظہر سے پہلے پہلے اس کی قضا دے دے کیونکہ حدیث میں ہے:
"جو شخص رات کی نماز یا کوئی وظیفہ ادا نہ کر سکا اور اس نے نماز فجر اور نماز ظہر کے درمیان ادا کر دیا تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ عمل ایسے لکھا جائے گا جیسے اس نے رات ہی کو ادا کیا ہے۔[71]
اے مسلمان !خود کو رات کے قیام سے محروم نہ رکھ اس پر ہمشگی کر۔ اگرچہ کم مقدار ہی میں کیوں نہ ہوتا کہ تجھے سحری کے وقت قیام کرنے والوں اور استغفار کرنے والوں کا اجر عظیم حاصل ہو۔ بسا اوقات قلیل عمل کثیر کا باعث بن جاتا ہے۔ یاد رکھ !اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
[1]المغنی لا بن قدامۃ 1/829۔
[2]۔سنن ابی داود الوتر باب فیمن لم وتر حدیث 1419۔ومسند احمد2/443۔
[3]۔صحیح البخاری الوتر باب ساعات الوتر حدیث 696۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل حدیث 745۔
[4]۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب من خاف ان لا یقوم من اخر اللیل فلیوتراولہ حدیث 755۔
[5]صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب صلاۃ اللیل وعدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل حدیث736۔
[6]۔سنن النسائی قیام اللیل باب کیف الوتر یخمس حدیث1715وسنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب ماجاء فی الوتر بثلات و خمس وسبع و تسع حدیث 1192۔
[7]۔ایک ہی سلام کے ساتھ نو رکعات وتر ادا کرنا صحیح احادث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے تاہم دس یا گیارہ رکعات ادا کرنے کے بارے میں فاضل مصنف نے کوئی دلیل پیش نہیں کی ۔(صارم)
[8]۔مذکوہ بالا طریقہ زیادہ بہتر ہے تاہم تین رکعات وتر ایک ہی تشہد اور سلام کے ساتھ پڑھنا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ملاحظہ ہو۔محلی ابن حزم 3/47۔(صارم)
[9]۔رکوع کے بعد قنوت وتر جائز ہے جبکہ افضل عمل یہ ہے کہ رکوع سے قبل ہاتھ اٹھائے بغیر قنوت کیا جائے ۔(ابو زید ) صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم للا لبانی باب القنوت فی الوتر ص179۔
[10]۔سنن ابی داؤد الوتر باب القنوت فی الوتر حدیث 1425۔وجامع الترمذی الوتر باب ماجاء فی القنوت فی الوتر حدیث 456وسنن النسائی قیام اللیل باب الدعاء فی الوتر حدیث 1746۔
[11]صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم للا لبانی ص181۔
[12]۔صحیح البخاری التہجد باب تحریض النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی قیام اللیل والنوافل من غیر ایجاب حدیث :1129۔وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التروایح حدیث 761۔
[13]سنن النسائی قیام اللیل باب قیام شہد ورمضان حدیث 1606وسنن الدارمی الصوم باب فی فضل قیام شہر رمضان حدیث 1778۔
[14]۔صحیح البخاری الایمان باب تطوع قیام رمضان من الایمان حدیث 37وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التروایح حدیث :759۔
[15]۔مؤلف رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات محل نظر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعداد کی تعیین ثابت نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن جو نماز تراویح پڑھائی تھی وہ گیارہ رکعات تھیں۔ لہٰذا سنت گیارہ رکعت ہی ہیں۔(قیام اللیل للمروزی(صارم)صحیح البخاری حدیث:1147۔وصحیح ابن خزیمہ 2/138۔حدیث 1070۔
[16]۔حاشیہ الروض المربع زاد المستقتع 2/201۔
[17]۔(ضعیف )المصنف لابن ابی شیہ 2/165۔رقم 7683۔البتہ مؤطاامام مالک (الصلاۃ فی رمضان باب ماجاء فی قیام رمضان 1/114) کی صحیح روایت کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔(صارم)
[18]۔البقرۃ:2/78۔
[19]۔بعض آئمہ کرام لاؤڈ سپیکرکے ذریعے سے مسجد باہر کے لوگوں کو اپنی قرآءت سناتے ہیں جس سے ارد گرد کی مساجد کے نمازیوں اور اہل محلہ کو تشویش ہوتی ہے جو قطعاً جائز نہیں شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"جو شخص قرآن مجید کی تلاوت کر رہا ہے اور لوگ اس کے پاس نفل ادا کر رہے ہیں تو اس کے لیے مناسب نہیں کہ اونچی قرآءت کر کے دوسروں کو پریشان کرے۔ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ہاں تشریف لائے جو مسجد میں قیام اللیل کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے لوگوں !تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے سرگوشیاں کر رہاہے۔لہٰذا کوئی بلند آواز سے قرآءت کرکے دوسرے کی نماز میں خلل نہ ڈالے ۔"(سنن ابی داؤد التطوع باب رفع الصوات بالقراء فی صلاۃ اللیل حدیث :1332۔ومجموع الفتاوی لشیخ الا سلام ابن تیمیہ :23/62۔6۔(مؤلف)
[20]۔بعض آئمہ مساجد نماز تراویح میں قرآن مجید کی قرآءت بہت تیزی سے کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ قرآن مجید پڑھتے ہیں وہ آخری عشرہ کے شروع یا درمیان میں قرآن مجید مکمل کر لیتے ہیں۔ پھر مسجد چھوڑ کر عمرہ کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔اور اپنی جگہ پر کسی ناہل شخص کو امام بنالیتے ہیں یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے اور امامت کی ذمہ داری سے غفلت اور کوتاہی ہے انھیں یادرکھنا چاہیے کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی ان پر واجب ہے جب کہ عمرہ مستحب ہے یہ لوگ فعل مستحب کی خاطر واجب کو کیونکر چھوڑدیتے ہیں ان لوگوں کا مسجد میں رہنا اور اپنی ذمہ داری کو مکمل طور پر ادا کرنا عمرہ کرنے سے کہیں افضل ہے۔
بعض حضرات تراویح میں قرآن مجید جلد مکمل کر کے ماہ رمضان کی باقی راتوں میں چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھ کر مختصر ساقیام کرتے ہیں حالانکہ یہ راتیں جہنم سے آزادی حاصل کرنے کی راتیں ہیں یہ لوگ شاید سمجھتے ہیں کہ تراویح اور تہجد کا مقصد محض قرآن مجید مکمل کرنا ہے نہ کہ حکم الٰہی کی پیروی کرتے ہوئے قیام کرنا اور ان راتوں کے فضائل حاصل کرنا تو یہ ان کی لاعلمی ہے اور عبادت کو ایک مشغلہ اور کھیل بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان لوگوں کو راہ راست پر لائے۔(مؤلف)
[21]۔صحیح البخاری التہجد باب الرکعتین قبل الظہر حدیث:1180۔ وصحیح مسلم فضل السنن الرا تبۃ قبل الفرائض حدیث 729۔
[22] ۔صحیح البخاری التہجد باب الرکعتین قبل الظہر حدیث:1181۔
[23] ۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب جواز النافلۃقائما وقاعداً حدیث 730۔
[24]۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب صلاۃ النافلۃ فی بیتہ حدیث 777۔
[25]۔صحیح البخاری التہجد باب تعاھدباب رکعتی الفجر و من سماھما تطو عاحدیث 1169وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب رکعتی سنۃ الفجرحدیث724۔
[26]۔ وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب رکعتی سنۃ الفجرحدیث725۔
[27]۔سنن ابی داؤد صلاۃ السفر باب التطوع فی السفر حدیث 1223۔
[28]۔زاد المعاد 1/473۔
[29]۔ وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب رکعتی سنۃ الفجرحدیث726۔وسنن الافتاح باب القراۃ فی رکعتی الفجر۔حدیث 946۔
[30]۔ وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب رکعتی سنۃ الفجرحدیث727۔
[31]۔ وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب رکعتی سنۃ الفجرحدیث727۔
[32]۔سنن النسائی الافتاح باب القراءۃ فی الرکعتین بعد المغرب حدیث 993۔ومسند احمد 2/24۔
[33]۔جامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی الرکعتین بعد المغرب والقراء فیھما حدیث 431۔
[34]۔جامع الترمذی الوتر باب ماجاء فی الرجل ینام عن الوتر اوینسی حدیث :465وسنن داؤد الوترباب فی الدعاء بعد الوتر حدیث :1431وسنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب من نام عن وتروانسیہ حدیث :1188واللفظ لہ۔
[35]۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب جامع صلاۃ اللیل ومن عنہ اومرض حدیث 746وجامع الترمذی الصلاۃ باب اذا نام عن صلاتہ باللیل صلی بالنہارحدیث 445۔
[36]۔الاحزاب :21۔33۔
[37]۔صحیح البخاری الصوم باب صیام البیض حدیث 1981وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب صلاۃ الضحیٰ حدیث 721۔
[38]۔(ضعیف)جامع الترمذی الوتر باب ماجاء فی صلاۃ الضحی حدیث 477ومسند احمد 3/21۔
[39]۔(ضعیف)سنن ابی داؤد الطوع باب صلاۃ الضحیٰ حدیث 1287۔
[40]۔صحیح البخاری الصلاۃ باب الصلاۃ فی التوب الواحد ملتخفاً بہ حدیث 357۔وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب صلاۃ الضحیٰ حدیث 336بعد حدیث 719۔
[41]۔ صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب صلاۃ الضحیٰ حدیث 336بعد حدیث 719۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"اے ابن آدم !دن کے ابتدائی حصے میں میرے لیے چار رکعات پڑھ اس کے آخر میں ،میں تیرے لیےکفایت کروں گا۔"مسند احمد4/153 وسنن ابی داؤد التطوع باب صلا ۃ الضحیٰ حدیث1289۔ وجامع الترمذی الوتر باب ماجاء فی صلاۃ الضحٰی حدیث 475۔(صارم)
[42]۔ صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب الاوابین حین ترمض الفصال حدیث 748۔
[43]۔صحیح البخاری سجود القرآن باب من سجد الجود القاری حدیث1075۔وصحیح مسلم المساجد باب سجود التلاوۃ حدیث 575۔
[44]۔اعلام الموقعین 2/370۔
[45]۔صحیح مسلم الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ حدیث 81۔وسنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب سجود القرآن حدیث 1052۔
[46]صحیح البخاری سجود القرآن باب من رای ان اللہ عزوجل لم یوجب السجود قبل حدیث 1077معلقاً۔
[47] ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:"سورۃ حج" کو دوسری سورتوں پر فضیلت دی گئی کہ اس میں دو(2) سجدے ہیں۔؟آپ نے فرمایا:" ہاں (جامع الترمذی الجمعۃ باب ماجاء فی السجدۃ فی الحج حدیث 578) لہٰذا ثابت ہوا کہ سورۃ حج میں ایک نہیں دو(2) سجدے ہیں۔(صارم)
[48]سنن ابی داؤد سجود القرآن باب فی الرجل یسمع السجدۃ وھو راکب اوفی غیر صلاۃ حدیث 1413۔
[49]۔سنن ابی داؤد سجود القرآن باب مایقول اذا سجد؟ حدیث 1414وجامع الترمذی الجمعۃ باب ماجاء یقول فی سجود القرآن ؟حدیث 580وللفظ "وضورۃ"فی الدعوات باب منہ دعاء وجہت وجہی حدیث 3421۔
[50]۔جامع الترمذی الدعوات باب مایقول فی سجود القرآن ؟ حدیث :3424۔
[51]۔اس کے بارے میں فاضل مصنف نے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔
[52]۔مسند احمد 2/303۔وسنن ابی داؤد الصیام باب فی صوم المحرم حدیث 2429۔وسنن النسائی قیام اللیل باب فضل صلاۃ اللیل حدیث 1614۔1615۔
[53]۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب فی اللیل ساعۃ مستجاب فیہا الدعاء حدیث :757۔
[54]۔المستدرک للحاکم 1/308۔حدیث1156۔
[55] ۔الذریت:51۔16۔18۔
[56]۔السجدۃ32۔16۔17۔
[57]۔صحیح البخاری التہجد باب من نام عند السحر حدیث :1131۔
[58]۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب التروغیب فی الدعاء والذکر فی اخراللیل حدیث:758۔ومسند احمد1/388۔
[59]۔المزمل 6۔73۔
[60]۔حاشیہ الروض المربع شرح زاد المستفتع 2/221۔بتفسیر یسیر۔
[61]۔صحیح البخاری التہجد باب فضل من تجار من اللیل فصلی حدیث 1154۔
[62]۔صحیح البخاری الدعوات باب مایقول اذا نام حدیث 6312۔وباب وضع الید تحت الحد الیمنیٰ حدیث 6314۔وصحیح مسلم الذکر والدعاء باب الدعاء عند النوم حدیث 2711۔
[63]۔جامع الترمذی الدعوات باب منہ دعاء یاسمک ربی وضعت جنی حدیث :3401۔
[64]۔صحیح مسلم الصلاۃ المسافرین باب صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ودعاتہ باللیل حدیث 768۔
[65]۔صحیح البخاری الوتر باب ماجاء فی الوتر حدیث :990۔
[66]۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب استحباب صلاۃ النافلۃ فی بیتہ حدیث 781۔
[67]۔صحیح البخاری التفصیر باب صلاۃ القاعد بالایماء حدیث 1116۔
[68]۔صحیح البخاری الجہاد والسیر باب یکت للمسافرمثل ماکان یعمل فی الاقامۃ حدیث 2996۔
[69]۔صحیح البخاری الوتر باب ساعات الوتر حدیث 996۔وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب صلاۃ اللیل حدیث 749۔
[70]۔صحیح البخاری الوتر باب لیجعل آخر صلاتہ وتراء حدیث 998وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب صلاۃ اللیل ۔حدیث 751۔
[71] ۔صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب جامع صلاۃ اللیل حدیث747۔