سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24) سجدہ سہو کا بیان

  • 23699
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 3886

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سجدہ سہو کا بیان


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان بھول چوک کا نشانہ بن جاتا ہے اور شیطان کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نمازی کو اثنائے نماز میں مختلف افکار اور اشغال میں الجھا کر رکھے ۔ بسا اوقات اس بھول چوک کے نتیجے میں نماز میں کمی بیشی بھی ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے نمازی کو نماز کے آخر میں سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے جو ایک فدیہ ہے اور اس کےذریعے سے شیطان ذلیل ہو جاتا ہے رحمان راضی ہو جاتا ہے اور نماز کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔ علمائے کرام اس سجدےکو" سجدہ سہو" کا نام دیتے ہیں۔

سہو کا معنی "بھول جاناہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  متعدد بار نماز میں بھول گئے تھے۔ آپ کی یہ بھول امت محمدیہ پر اللہ کی نعمت کا تمام اور دین کی تکمیل کا سبب ثابت ہوئی تاکہ بھول چوک کے وقت وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقے کی پیروی کر سکیں ۔ بھول چوک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے جملہ واقعات کتب احادیث میں محفوظ ہیں۔ ایک بار آپ نے چار رکعات کی بجائے دورکعتیں پڑھا کر سلام پھیردیا۔ پھر باقی دورکعات پڑھ کر نماز مکمل کی آخر میں سلام سے قبل سجدہ سہو کر لیا۔

ایک دفعہ تین رکعات پڑھا کر سلام پھیردیا تو پھر ایک رکعت مزید پڑھی اور سجدہ سہو کر لیا۔ ایک موقع پر دورکعتیں پڑھا کر کھڑے ہوگئے اور درمیانی تشہد میں نہ بیٹھے تو آخرمیں سجدہ سہو ادا کردیا وغیرہ اور آپ نے فرمایا:

"إِذَا سَهَا أَحَدُكُمْ فَلَمْ يَدْرِ أَزَادَ أَوْ نَقَصَ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ "

"تم میں سے جب کوئی نماز میں بھول جائے۔ اسے معلوم نہ ہو کہ کتنی نماز پڑھی ہے زیادتی ہوئی ہے یا کمی؟ تو وہ دو سجدے کرے۔"[1] 

تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پیش آجائے تب سجدہ سہو مشروع ہوتا ہے۔

(1)جب بھول کر نماز میں کوئی زیادتی ہو جائے۔

(2)یا نماز میں کوئی کمی واقع ہو جائے۔(3)نماز کے دوران میں کسی شے کی کمی بیشی میں شک پڑجائے۔

ان صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آجائے سجدہ سہو لازمی ہے جس کی دلیل اور طریقہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  میں موجود ہے۔ واضح رہے کہ کمی بیشی یا ہر شک سجدہ سہو کرنے کا سبب نہیں بنتا بلکہ اس مسئلہ میں جوسنت رسول ہے اس پر عمل کیا جائے گا جس کی تفصیل آپ آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

جب سجدہ سہوکرنے کا سبب پیدا ہو جائے تب وہ مشروع ہو جاتا ہے خواہ فرض نماز ہو یا نقل کیونکہ دلائل میں عموم ہے۔

نماز میں بھول چوک کے سبب سجدہ سہو کے بارے میں مندرجہ بالا تین حالتوں کی وضاحت اور تفصیل درج ذیل ہے۔

1۔بھول کر نماز کے افعال یا اقوال میں زیادتی ہو جائے۔ افعال میں زیادتی سے مراد جنس نماز کے افعال ہیں۔جیسے بیٹھنے کے موقع پر کھڑے ہو جانا۔ یا کھڑے ہونے کے مقام پر بیٹھ جانا یا رکوع سجدہ زیادہ کر لینا۔ ان صورتوں میں سجدہ سہو لازم ہے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِذَا زَادَ الرَّجُلُ أَوْ نَقَصَ ، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ "

"جب کوئی شخص (اپنی نماز میں بھول کر)زیادتی یا کمی کرے تو(آخر میں)دو سجدے کر لے۔"[2]

اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز میں کسی عمل کی زیادتی درحقیقت نماز کی شکل و صورت میں ایک قسم کی کمی ہے۔ اس کے لیے سجدہ سہو کرنے کا حکم ہے تاکہ یہ کمی پوری ہو جائے۔

اسی طرح اگر ایک رکعت زائد پڑھ لی اور نماز سے فارغ ہو جانے کے بعد اسے یاد آیا تو وہ صرف سہو کے دو سجدے کرے۔ اور اگر اسے زائد رکعت ادا کرنے کے دوران میں یا دآیا تو وہ فوراً بیٹھ جائے۔ اگر تشہد نہیں پڑھا تھا تو پڑھے پھر سجدہ سہو کرے اور سلام پھیردے۔

اگر کوئی امام ہے تو جس مقتدی کو کسی کام کی زیادتی کا علم ہو جائے تو وہ امام کو توجہ دلانے کے لیے کلمہ تسبیح (سبحان اللہ) کہے اور عورت تالی بجا دے تو امام ان کے توجہ دلانے پر واپس لوٹ جائے۔ بشرطیکہ امام کو اپنے درست ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ مقصد درست صورت کی طرف لوٹنا ہے جب نقص پیدا ہو تو تب بھی مقتدیوں پر امام کو تنبیہ کرنا لازم ہے۔

اقوال میں زیادتی کی متعدد صورتیں ہیں مثلاً:رکوع یا سجدہ میں قرآءت کرنا چار رکعتوں والی نماز کی آخری دو رکعتوں میں یا مغرب کی تیسری رکعت میں فاتحہ کے علاوہ کسی اور سورت کی قرآءت کرنا۔ ان صورتوں میں بھی سجدہ سہو کرنا مستحب ہے۔[3]

2۔نماز میں بھول کر کمی واقع ہو جائے یعنی ایسا فعل جو نماز کا حصہ ہے چھوٹ جائے۔اگر چھوٹ جانے والا عمل نماز کا رکن ہے اور رکن بھی تکبیر تحریمہ ہوتو اس کی نماز ہی نہ ہو گی نہ سجدہ سہو کافی ہوگا۔ اور اگر تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی اور رکن چھوٹ گیا ہے مثلاً:رکوع یا سجدہ۔ اگر بعد والی رکعت کی قرآءت سے پہلے پہلے اسے یاد آگیا تو اس پر لازم ہے کہ واپس پلٹ آئے اور چھوٹ جانے والا رکوع یا سجدہ ادا کرے اور اس رکوع یا سجدے کے بعد والے تمام کام دوبارہ ادا کرے اور اگر بعد والی رکعت کی قرآءت شروع کردی تھی تب اسے چھوٹ جانے والا رکن (رکوع یاسجدہ)یاد آیاتو جس رکعت میں رکوع یا سجدہ چھوٹ گیا تھا وہ ساری رکعت باطل ہو جائے گی اور شمار نہ ہو گی بعد والی رکعت باطل رکعت کے قائم مقام ہو گی ۔ الغرض اسے ایک رکعت مزید پڑھنا ہو گی کیونکہ اس نے ایسا رکن چھوڑا ہے جس کا استدراک ممکن نہیں۔

اگر کسی کو متروک رکن کا علم سلام پھیرنے کے بعد ہوا تو یہ سمجھا جائے کہ گویا ایک رکعت چھوٹ گئی ہے لہٰذا وہ ایک مکمل رکعت ادا کرے ہاں اگر اس کی نماز کا آخری تشہد یا سلام چھوٹ گیا ہو تو صرف آخری تشہد ادا کر کے سجدہ سہو کرے اور سلام پھیردے۔

اگر کوئی شخص تشہد اول میں بیٹھنا بھول گیا اور تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا تو وہ تشہد کی حالت کی طرف پلٹ آئے بشرطیکہ وہ سیدھا کھڑا نہ ہواہو۔ اور اگر وہ سیدھا کھڑا ہو گیا ہو تو اس کا واپس تشہد کی حالت میں پلٹنا مکروہ ہے اگر وہ پلٹ گیا تو نماز باطل نہ ہو گی ۔ اگر تیسری رکعت میں فاتحہ کی قرآءت شروع کر دی تو تب پلٹا قطعاً درست نہیں کیونکہ وہ دوسرے رکن کی ادائیگی شروع کر چکا ہے جسے توڑنا یا چھوڑنا قطعاً مناسب نہیں۔

اگر کسی سے رکوع یا سجدے میں تسبیحات چھوٹ گئیں تو اس رکوع یا سجدے کو دوبارہ ادا کرے بشرطیکہ وہ بعد والی رکعت ادا کرنے کے لیے سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو اور وہ ان تمام حالات میں سجدہ سہو ادا کرے۔

3۔نماز میں شک پڑجائے:اگر کسی کو نماز کی رکعات کی تعداد میں شک پڑ جائے: مثلاً: اس نے دورکعتیں ادا کی ہیں یا تین تو دو سمجھے کیونکہ کم تعداد یقینی ہے۔ پھر سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے کیونکہ مشکوک چیز معدوم کے حکم میں ہے۔ سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلَمْ يَدْرِ أَوَاحِدَةً صَلَّى أَمْ ثِنْتَيْنِ فَلْيَجْعَلْهَا وَاحِدَةً وَإِذَا لَمْ يَدْرِ ثِنْتَيْنِ صَلَّى أَمْ ثَلَاثًا فَلْيَجْعَلْهَا ثِنْتَيْنِ"

"جب کسی کو اپنی نماز میں شک پڑجائے اور اسے علم نہ ہو کہ ایک رکعت پڑھی ہے یا دو تو وہ ایک رکعت سمجھے۔ اور اگر وہ نہیں جانتا کہ اس نے دو رکعتیں پڑھی ہیں یا تین تو وہ وہی سمجھ لے۔"[4]

اگر کسی مقتدی کو شک ہوا کہ جب وہ امام کے ساتھ شامل ہوا تھا آیا وہ پہلی رکعت تھی یا دوسری تو وہ دوسری رکعت سمجھ لے یا اسے شک ہوا کہ امام کے ساتھ اسے پوری رکعت ملی تھی یا نہیں وہ مکمل رکعت شمار نہ کرے اور سجدہ سہو کرے۔

اگر کسی کو نماز کے رکن چھوٹ جانے پر شک ہو تو وہ اس رکن اور رکن کے بعد والی ایک رکعت کے ارکان دوبارہ ادا کرے جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

اگر کسی واجب کے چھوٹ جانے میں شک ہوتو اس شک کو معتبر نہ سمجھے اور سجدہ سہو نہ کرے۔ اسی طرح اگر کسی واجب کی زیادتی میں شک ہوتو اسے قابل التفات نہ سمجھے کیونکہ اصل چیز کمی یا زیادتی کا نہ ہونا ہے۔

یہ سجدہ سہو کے چند احکامات تھے جو ہم نے بیان کر دیےتفصیل کا طالب بڑی کتب کی طرف رجوع کرے۔واللہ الموفق۔


[1]۔جامع الترمذی الصلاۃ باب فی من یشک فی الزیادۃ والنقصان حدیث 398وشرح السنۃ للبغوی 3/282حدیث 755وکنزالعمال :7/473۔حدیث 19843واللفظ لہ۔

[2]۔صحیح مسلم المساجد باب السہو فی الصلاۃ والسجود لہ حدیث 572۔

[3]۔چار رکعتوں والی نماز کی آخری دورکعتوں میں یا مغرب کی تیسری رکعت میں فاتحہ کے علاوہ قرآءت کرنا مشروع ہے سجدہ سہو یہاں نہیں ہو گا۔(ابو زید)

[4]۔مسنداحمد 1/190وجامع الترمذی الصلاۃ باب فی من یشک فی الزیادۃ والنقصان حدیث 398وصحیح مسلم المساجد باب السہو فی الصلاۃ والسجودلہ حدیث 571عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

نماز کے احکام ومسائل:جلد 01: صفحہ 130

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ