سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) نماز کے ارکان ،واجبات اور سنن کے احکام

  • 23696
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 6181

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز کے ارکان ،واجبات اور سنن کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز ایک عظیم عبادت ہے جو مخصوص اقوال اور افعال سے مل کرایک اعلیٰ شکل اختیار کرتی ہے۔اہل علم نے نماز کی تعریف یوں کی ہے:

"نماز کچھ مخصوص اور مقرر اقوال وافعال کا نام ہے،جس کاآغاز تکبیر تحریمہ سےہوتا ہے اور اختتام سلام پھیرنے پر ہوتا ہے۔"

یہ اقوال وافعال تین قسم کے ہیں۔ارکان ،واجبات اور سنن۔ہرایک کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

ارکان:۔

رکن کی یہ اہمیت ہے کہ اگر اسے ارادتاً یا بھول کر چھوڑدیاجائے تو پوری نماز باطل اورضائع ہوجاتی ہے یاوہ رکعت باطل ہوجاتی ہے جس میں رکن چھوٹ گیا ہو۔اور بعد والی رکعت اس کے قائم مقام ہوجاتی ہے۔تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیں گے۔

واجبات:۔

اگر واجب عمداً چھوڑدیاجائے تو نماز باطل ہوجائےگی اور اگربھول کررہ جائے تو نماز باطل نہ ہوگی،البتہ سجدہ سہو سے کمی پوری ہوجائےگی۔

سنن:۔

کسی سنت کے عمداً یا سہواً چھوٹ جانے سے نماز باطل نہیں ہوتی،البتہ نماز کی مسنونہ ہئیت میں نقص لازم آجاتا ہے  کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کامل نماز ادا کی ہے جس میں جملہ ارکان،واجبات اور سنن کو ادا فرمایا ہے اور امت سے بھی ایسی ہی نماز پڑھنے کامطالبہ ہے۔ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

"صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي"

"تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"[1]

ارکان نماز کی تفصیل

1۔فرض نماز میں قیام کرنا:اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

"وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ"

"اللہ کے لیے خشوع وخضوع کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔"[2]

سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"صَلِّ قَائِمًا ، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا ، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ"

"کھڑے ہوکر نماز اداکرو،اگرطاقت نہ ہوتو بیٹھ کرادا کرلو،اگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو پہلو کے بل لیٹ کر ہی پڑھو۔"[3]

اس سے واضح ہواکہ طاقت ہوتو فرض نماز میں قیام(کھڑا ہونا) فرض ہے،البتہ بیماری کے باعث کھڑا ہونے پر قدرت نہ ہوتو حسب حال بیٹھ کریالیٹ کر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

اسی طرح کسی خوف میں مبتلا مریض یاننگا شخص ہوتوان کے لیے بھی یہی حکم ہے۔اورجو شخص کسی عذر کی وجہ سے نماز میں کھڑا نہیں ہوسکتا بلکہ اسے بیٹھنے یا لیٹنے کی ضرورت ہے یاکوئی شخص چھت نیچی ہونے کی وجہ سے نمازمیں کھڑا نہیں ہوسکتا اور کسی وجہ سے اس کے لیے چھت سے باہرآنا بھی ممکن نہیں یاکوئی مقررامام کے پیچھے کھڑے ہوکر لمبی قراءت سننے سے عاجز ہے تو یہ لوگ معقول عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا کرسکتے ہیں۔

اگر امام نےبیٹھ کر نماز ادا کرنا شروع کی تو اس کے مقتدی بھی(امام کی اقتدا کی بنا پر) بیٹھ جائیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب(گھوڑے سے  گرنے پرزخمی ہونے کی وجہ سے) بیٹھ کر نماز پڑھائی تھی تو دوسرے نمازیوں کو بھی بیٹھنے کاحکم دیاتھا۔[4]

نفلی نماز کھڑے یا بیٹھے دونوں طرح ادا کرنا جائز ہے،اس میں کھڑا ہونا فرض نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نفل نماز کبھی بلاعذر بیٹھ کر ادا کرلیاکرتے تھے(البتہ کھڑے ہوکر پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔)

2۔تکبیرتحریمہ:تکبیر تحریمہ ،یعنی اللہ اکبرکہنا(ا س سے انسان نماز میں داخل ہوتاہے) نماز کا رکن ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان ہے:

"ثم أسْتَقْبِلِ القِبْلَةَ، فَكَبِّرْ"

"پھر قبلہ کی طرف متوجہ ہو اور تکبیر کہہ۔"[5]

ایک دوسری روایت میں ارشاد فرمایا:

"وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ"

"نماز کی تحریم تکبیر سے ہے۔"[6]

تنبیہ:۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے قطعاً یہ ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تکبیر(اللہ اکبر) کے علاوہ کسی اور کلمہ سے نماز شروع  کی ہو۔اللہ اکبر کے علاوہ کوئی دوسرا کلمہ کفایت نہیں کرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہی ثابت ہے۔

3۔قراءت فاتحہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لاصَلاة لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ"

"جوشخص سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا،اس کی نماز نہیں ہوتی۔"[7]

ثابت ہواکہ سورۃ  فاتحہ نماز کی ہررکعات کارکن ہے۔احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اسے ہررکعت میں پڑھتے تھے۔حدیث مسئی الصلاۃ میں ہے کہ ایک شخص نے درست طریقے سے نماز ادانہ کی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے نماز کاطریقہ سکھایا تو اسے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا۔[8]

اب رہا یہ مسئلہ کہ کیا سورہ فاتحہ کا پڑھنا ہر نمازی پر فرض ہے یا اس کی فرضیت صرف امام یا منفرد کے لیے خاص ہے؟تو اس میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔اس بارے میں محتاط فتویٰ یہی ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے سری نمازوں میں بھی فاتحہ پڑھے اورجہری نمازوں میں امام کے سکتوں میں پڑھے۔[9]

4۔ہررکعت میں رکوع کرنا:اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اركَعوا وَاسجُدوا...﴿٧٧﴾... سورة الحج

"اے ایمان والو! رکوع وسجدہ کرتے رہو۔"[10]

علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ہررکعت میں رکوع کرنا ثابت ہے،لہذا کتاب وسنت اوراجماع سے رکوع کی فرضیت ثابت ہے۔[11]

رکوع کامعنی"جھکنا" ہے۔اگر کھڑے شخص کی ہتھیلیاں جھک کر اس کے گھٹنوں تک پہنچ گئیں یابیٹھ کر نماز ادا کرنے والے شخص کاچہرہ اس کے گھٹنوں کے قریب ہوجائے تو اس کا رکوع ہوجائے گا۔[12]

5۔رکوع سے اٹھنا اور سیدھا کھڑا ہونا،رکوع سے اٹھنا اور سیدھا کھڑا ہونا،جیسے پہلے(قیام میں) کھڑا ہوا تھا،نماز کا رکن ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس پر ہمیشگی فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا:

"صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي"

"تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"[13]

6۔سجدہ کرنا:اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اركَعوا وَاسجُدوا...﴿٧٧﴾... سورة الحج

"اے ایمان والو! رکوع وسجدہ کرتے رہو۔"[14]

احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سجدے کا حکم دیا اور خود بھی کیا ،نیز فرمایا:

"صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي"

"تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"[15]

سجدہ زمین پر پیشانی رکھنے کو کہتے ہیں۔سجدہ کا ہر رکعت میں دوبار ہونا اورسات اعضاء پر ہونا ضروری ہے۔سات اعضاء یہ ہیں:پیشانی(اس میں ناک بھی شامل ہے)،دونوں ہاتھ،دونوں گھٹنے اوردونوں پاؤں(کی انگلیاں)۔ان سات اعضاء کاحالت سجدہ میں حتیٰ الامکان سجدہ کی جگہ پر لگنا ضروری ہے۔[16]

سجدہ ارکان نماز میں سب سے اہم رکن ہے کیونکہ سجدہ کی حالت میں بندہ اپنے رب کے قریب تر ہوتا ہے اور جب بندہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتویہ اس کی سب سے افضل حالت ہوتی ہے۔

7۔سجدے سے اٹھنا اوردوسجدوں کےدرمیان بیٹھنا:سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ:

"وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا"

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جب سجدہ کرکے سر اٹھاتے تھے تو اس وقت تک دوسرا سجدہ نہ کرتے جب تک برابر ہوکر اطمینان سے بیٹھ نہ جاتے تھے۔"[17]

9۔افعال مذکورہ میں اعتدال کا ہونا:مندرجہ بالاارکان میں اعتدال اور سکون بھی فرض اور رکن ہے اگرچہ قلیل مقدار ہی میں کیوں نہ ہو۔کتاب وسنت کےدلائل سے واضح ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی نماز میں اعتدال وسکون کااہتمام نہیں کرتا تووہ ایسے ہے جیسے اس نے نماز پڑھی ہی نہیں،لہذا اسے دوبارہ نماز ادا کرنے کا حکم دیا جائے گا۔[18]

10۔آخری تشہد پڑھنا اور اس کے لیے بیٹھنا:نماز کے آخرمیں تشہد کے لیے بیٹھنا اور اس میں تشہد کے کلمات پڑھنا نماز کاایک رکن ہے۔تشہد کے کلمات:

"التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"

تک ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز میں یہ کلمات پڑھتے تھے اور آپ کاارشادہے:

"صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي"

"تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"[19]

اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا فرمان ہے:

"كنا نقول قبل أن يفرض علينا التشهد"

"تشہد فرض ہونے سے قبل ہم نماز میں یہ کہاکرتے تھے۔"[20]

اس روایت کےالفاظ: " قبل أن يفرض"  تشہد کی فرضیت پر دلیل ہیں۔

11۔ آخر تشہد میں درودشریف کا پڑھنا: "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ"اس قدر کہنا فرض ہے۔اور اس سے زیادہ کلمات(درود ابراہیمی) کہنا سنت ہے۔[21]

12۔ارکان میں ترتیب قائم رکھنا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز ادا کرتے وقت ارکان نماز کو ترتیب سے ادا کیاکرتے تھے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادہے:

"صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي"

"تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"[22]

علاوہ ازیں جس شخص نے درست طریقے سے نماز ادا نہیں کی تھی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے نماز کی تعلیم دی تو ترتیب کو قائم رکھا۔

13۔سلام پھیرنا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"وختامها التسليم"

"نماز کا اختتام سلام پھیرنے سے ہے۔"[23]

ایک دوسری روایت میں یوں ہے:

"وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ"

"نماز کی تحلیل اسلام ہے۔"[24]

الغرض،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز سے نکلنے کے لیے سلام کو بطور علامت کے مقرر کیا ہے۔

عزیزم قاری کتاب!جو شخص ان ارکان میں سے ایک رکن بھی چھوڑ دے گا(اگراس نے تکبیر تحریمہ نہ کہی)تو اس کی نماز نہ ہوگی۔اگر اس نے تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی اور رکن عمداً چھوڑدیا تو اس کی نماز باطل ہوگی۔اگر اس سے رکوع یا سجدہ وغیرہ سہواً چھوٹ گیا لیکن بعد والی رکعت کی قراءت شروع کرنے سے پہلے پہلے اسے یاد آگیا تو وہ واپس لوٹ آئے اور چھوٹ جانےوالا رکن ادا کرے اور اس رکن کے بعد والے ارکان بھی دوبارہ ادا کرے جو اس رکعت سے متعلق ہیں۔اگر اے دوسری رکعت کی قراءت شروع کرنے کے بعد یادآیا تو اس کے چھوٹے ہوئے رکن والی رکعت باطل ہوگی اور بعد والی رکعت اس کے قائم مقام ہوجائے گی،اسےایک رکعت اور ادا کرنا ہوگی۔اور وہ آخر میں سجدہ سہو بھی کرےگا۔

اگر سلام پھیرنے کے بعد اسے متروک رکن کاعلم ہواتو اگر وہ رکن آخری تشہد یاسلام ہوتو اسے ادا کرے اور سجدہ سہو کرکے سلام پھیر دے اور اگر رکوع یا سجدہ چھوٹ گیا ہوتومکمل رکعت ادا کرے اور سجدہ سہو کرے،بشرط یہ کہ سلام پھیرے ہوئے زیادہ وقت نہ گزراہو۔اگروقت زیادہ گزرگیا یا اس کا وضوٹوٹ گیا تو وہ دوبارہ مکمل نماز ادا کرے۔

 اندازہ فرمائیے !نماز اور جو اس میں اقوال وافعال ہیں ان کی کس قدر اہمیت اور عظمت ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوایسی نماز کی اقامت اورمحافظت کی توفیق دے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کے مطابق ہو اور اللہ تعالیٰ کےہاں منظور ومقبول ہو۔

نماز کےواجبات کی تفصیل

1۔تکبیرتحریمہ کے علاوہ نماز کی وہ تمام تکبیرات جو حالت بدلنے کے لیے کہی جاتی ہیں،واجب ہیں،رکن نہیں ہیں۔

2۔امام اور منفرد کے لیے سمع اللہ لمن حمدہ کہناواجب ہے ،البتہ مقتدی نہ کہے۔[25]

3۔تحمید،یعنی "اللهم ربنا لك الحمد" کہنا امام،مقتدی اور منفرد کے لیے واجب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"إذا قال الإمام سمع الله لمن حمده، فقولوا ربنا ولك الحمد"

"جب امام "سمع الله لمن حمده "کہے توتم "ربنا ولك الحمد "کہو۔"[26]

4۔رکوع میں ایک مرتبہ سبحان ربی العظیم کہنا واجب ہے۔تین مرتبہ کہنا مسنون اور مکمل تسبیحات ہیں۔[27]جبکہ دس مرتبہ تک یہ تسبیحات کہنا اعلیٰ درجہ ہے۔

5۔سجدہ کی حالت میں سبحان ربی الاعلیٰ ایک مرتبہ کہنا واجب ہے ،تین مرتبہ مسنون ہے۔[28]

6۔ " رَبِّ اغْفِرْ لِي"[29]

دو سجدوں کےدرمیان کہنا۔ایک مرتبہ واجب ہے جب کہ تین مرتبہ کہنا مسنو ن ہے۔

7۔پہلا تشہد پڑھنا واجب ہے،جس کے الفاظ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے یوں منقول ہیں:

"التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"

"تمام قولی،بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔اے نبی( کریم صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ پرسلام ہو،اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں،ہم پر اور تمام اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔"[30]

8۔تشہد اول کے لیے بیٹھنا واجب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس پر ہمیشگی فرمائی ہے۔نیز آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا حکم ہے:

"صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي"

"تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"[31]

(1)۔جس شخص نے ان قولی یا فعلی آٹھ واجبات میں سے کسی ایک کو عمداً چھوڑدیا تو اس کی نماز باطل ہوگی کیونکہ وہ نماز کو ایک کھیل اور شغل سمجھ رہا ہے ۔اور اگر اس سے بھول کر یا لا علمی کی وجہ سے چھوٹ گیا تو وہ سجدہ سہو کرے کیونکہ اس نے ایک ایسے واجب کو ترک کیا ہے جسے ترک کرنا حرام ہے،لہذا سجدہ سہو سے اس کمی کو پورا کرے۔

نماز کی سنتیں

نماز کے مذکورہ اقوال وافعال کے علاوہ باقی سب کام سنت کادرجہ رکھتے ہیں ۔جن کےترک سے نماز باطل نہیں ہوتی۔نماز کی سنتوں کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم:اقوال مسنونہ،یعنی وہ سنتیں جن کا تعلق زبان سے ہے،ان میں چند یہ ہیں:

دعائے استفتاح،تعوذ،تسمیہ،آمین کہنا،اس کے علاوہ نماز فجر،نمازجمعہ،نماز عید،نماز کسوف میں اور مغرب،عشاء،ظہراور عصر کی نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ کے علاوہ قراءت کرنا۔اسی طرح ربنا ولک الحمد کہنے کے بعد یہ کلمات کہنا:

"مِلْءُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْءُ الْأَرْضِ وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ"

"آسمان کو بھر کر اور زمین کو بھر کر اور اس کے بعد(اے اللہ) جسے تو چاہے اے بھرکر(تیرے لیے حمدوثنا ہو۔)"[32]

رکوع اورسجدہ میں ایک بار سے زائد تسبیحات کہنا،دوسجدوں کے درمیان۔ "رَبِّ اغْفِرْ لِي" ایک سے زائد بار کہنامسنون ہے۔علاوہ ازیں آخری تشہد میں درج ذیل دعا کا پڑھنا:

"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ"

"اے اللہ میں عذاب جہنم،عذاب قبر ،زندگی اور موت کے فتنوں اور مسیح دجال کے فتنے سے بچنے کے لیے تیری پناہ کاطالب ہوں۔"[33]

اس دعا کے علاوہ مزید دعاؤں کا پڑھنا سنن نماز میں شامل ہے۔

دوسری قسم:۔

افعال مسنونہ،یعنی وہ سنن جن کاتعلق عمل سے ہے،مثلاً:تکبیر تحریمہ کے وقت یارکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا،دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنا۔حالت قیام میں دونوں ہاتھوں کو سینے پر یا ناف کے نیچے باندھنا [34]

سجدہ کی جگہ پر نظر رکھنا،رکوع میں دونوں ہاتھ دونوں  گھٹنوں پر رکھنا سجدے میں پیٹ کو رانوں سے اور رانوں کو پنڈلیوں سے جدا کرکے رکھنا رکوع کی حالت میں کمر کو اعتدال پر رکھنا۔سرکو کمر کے برابر اس طرح رکھنا کہ اٹھا ہواہونہ جھکا ہوا ۔سجدہ کی جگہ پر پیشانی اور ناک وغیرہ اعضاء کو اچھی طرح زمین پر لٹکانا۔اس کے علاوہ اور بھی نماز کی سنن ہی جن کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔

ان تمام سنن کو نماز میں ادا کرنا فرض یا واجب نہیں،البتہ ان کو ادا کرنے سے اجروثواب میں اضافہ ضرور ہوگا۔نماز مکمل ہوگی اورمسنون ہوگی۔(اور مسنون نماز ہی مطلوب ہے۔)

بعض نوجوان نماز کی سنن کے معاملہ میں انتہا پسندی اور تشدد کی راہ اختیار کرتے ہیں،جس سے عملی طور پر عجیب وغریب صورتیں دیکھنے میں آتی ہیں،مثلاً:بعض لوگ قیام میں اس قدر سرجھکا کر کھڑے ہوتے ہیں کہ وہ رکوع کی حالت کے قریب قریب دکھائی دیتے ہیں۔کئی اپنے ہاتھوں کو سینے پر یا ناف کےنیچے باندھنے کی بجائے گلے کے قریب یا(ناف سے بہت نیچے) باندھتے ہیں۔اسی طرح وہ سُترہ کے بارے میں بھی سخت رویہ اختیار کرتے ہیں حتیٰ کہ نفلی نماز اداکرتے وقت صف میں قیام کو چھوڑ کردوسری جگہ سترہ ڈھونڈنے کے لے چلے جاتے ہیں بعض لوگ سجدہ کی حالت میں سربہت آگے بڑھادیتے ہیں اور پاؤں پیچھے لے جاتے ہیں یوں وہ کمان کی شکل بنالیتے ہیں یا لیٹنےکے قریب ہوجاتے ہیں۔کئی حضرات نماز میں کھڑے ہوکر اپنے پاؤں اس قدر ٹیڑھے کرلیتے ہیں کہ ساتھ والا نمازی تنگ اورپریشان ہوجاتا ہے۔یہ عجیب وغریب صورتیں ہیں جو کبھی غلو تک پہنچادیتی ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے ان کےلیے اور اپنے لیے حق اور اس پرعمل کی توفیق کی دعا کرتے ہیں۔


[1]۔صحیح البخاری الاذان باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ حدیث 631۔

[2]۔البقرۃ: 2/238۔

[3]۔صحیح البخاری التفسیر باب  اذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب،حدیث 1117 وسنن ابی داود،الصلاۃ،باب فی صلاۃ القاعد حدیث 952 وجامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء ان صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم حدیث 372۔

[4]۔صحیح البخاری الاذان باب انما جعل الامام لیوتم بہ حدیث 688۔689 وصحیح مسلم الصلاۃ باب اتمام انما موم بالامام حدیث 411۔414۔

[5]۔صحیح البخاری الاستئذان باب من رد فقال: علیک السلام،حدیث 6251،وصحیح مسلم الصلاۃ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعہ۔۔۔حدیث 397۔

[6]۔سنن ابی داود الطھارۃ باب فرض الوضوء حدیث 61وجامع الترمذی الطھارۃ باب ماجاء ان مفتاح الصلاۃ الطھور حدیث 3۔

[7]۔صحیح البخاری الاذان باب وجوب القراءۃ للامام والماموم فی الصلوات کلھا۔۔۔حدیث 756 وصحیح مسلم الصلاۃ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ۔۔۔حدیث  394۔

[8]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلہ فی الرکوع والسجود حدیث 859 وصفۃ صلاۃ النبی  صلی اللہ علیہ وسلم  للالبانی ص 98۔

[9]۔مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ کاپڑھنا واجب ہے،لہذا مقتدی ہر حالت میں سورہ فاتحہ پڑھے گا،خواہ امام کے سکتوں میں پڑھے یا دوران قراءت۔(ع۔د)۔

[10]۔الحج۔22/77۔

[11]۔احادیث کے عموم سے رکوع پر استدلال کیاجاتاہے جیسا کہ صحیح بخاری میں سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث اور صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی حدیث ہے۔صحیح البخاری الاذان باب سنۃ الجلوس فی التشھد حدیث 828 وصحیح مسلم الصلاۃ باب مایجمع صفۃ الصلاۃ۔حدیث 498۔

[12]۔رکوع اورسجدے میں سکون واعتدال فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔فاضل مصنف نے اس کی وضاحت آگے چل کر(نویں رکن) کے تحت کی ہے۔(صارم)

[13]۔صحیح البخاری الاذان باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ حدیث 631۔

[14]۔الحج۔22/77۔

[15]۔صحیح البخاری الاذان باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ حدیث 631۔

[16]۔صحیح البخاری الاذان باب السجود علی الانف،حدیث 812 وصحیح مسلم الصلاۃ باب اعضاء السجود والنھی عن کف الشعر والثوب۔حدیث 490۔

[17]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب مایجمع صفۃ الصلاۃ وما یفتتح بہ ویختم بہ۔۔۔حدیث 498۔

[18]۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شخص کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا جس نے اعتدال وسکون کے بغیر نمازادا کی تھی۔صحیح البخاری الاذان باب وجوب القراءۃ للامام والماموم۔حدیث 757 وصحیح مسلم الصلاۃ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ حدیث 397۔

[19]۔صحیح البخاری الاذان باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ حدیث 631۔

[20]۔سنن النسائی السھو باب ایجاب التشھد حدیث 1278۔

[21]۔درود پڑھنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے درج ذیل دعا پڑھنے کا بھی حکم دیاہے،لہذا اس کا بھی التزام کرنا چاہیے،صحیح مسلم میں ہے،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"إِذَا تَشَهَّدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْ أَرْبَعٍ ، يَقُولُ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ " (صحیح مسلم المساجد باب ما یستعاذ منہ فی الصلاۃ حدیث 588۔(عثمان منیب)

[22]۔صحیح البخاری الاذان باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ حدیث 631۔

[23]۔ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث نہیں ملی۔

[24]۔سنن ابی داود الطھارۃ باب فرض الوضوء حدیث 61 وجامع الترمذی الطھارۃ باب ماجاء ان مفتاح الصلاۃ الطھور حدیث 3۔

[25]۔صحیح البخاری الاذان باب فضل اللهم ربنا لك الحمد حديث 796 وصحیح مسلم الصلاۃ باب التسمیع والتحمید والتامین حدیث 409 (حدیث مسئی الصلاۃ کے عموم کی بنا پر مقتدی بھی سمع اللہ لمن حمدہ کہہ سکتے ہیں)۔سنن ابی داود الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود حدیث 857۔

[26]۔ صحیح البخاری الاذان باب فضل اللهم ربنا لك الحمد حديث 796 وصحیح مسلم الصلاۃ باب التسمیع والتحمید والتامین حدیث 409 وجامع الترمذی الصلاۃ باب ما یقول الرجل اذا  رفع راسہ من الرکوع؟حدیث 26 وباب منہ آخر حدیث 267 واللفظ لہ۔

[27] ۔سنن ابی داود الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ؟حدیث 870۔871۔

[28]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ؟حدیث 871۔

[29]۔ سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ باب مایقول بین السجدتین ؟حدیث 897۔

[30]۔صحیح البخاری الاذان باب التشھد فی الآخرۃ حدیث 831،وصحیح مسلم الصلاۃ باب التشھد فی الصلاۃ حدیث 402۔

[31]۔صحیح البخاری الاذان باب الاذان للمسافرین اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ حدیث 631۔

[32]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب اعتدال ارکان الصلاۃ ۔۔۔حدیث :471۔

[33]۔صحیح البخاری الاذان باب الدعاء قبل السلام حدیث 832 وصحیح مسلم المساجد باب ما یستعاذ منہ فی الصلاۃ حدیث 588 واللفظ لہ۔

[34]۔ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی تمام روایات ضعیف ہیں،لہذا سینے ہی پر ہاتھ باندھنا مسنون ہے۔(صارم)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

نماز کے احکام ومسائل:جلد 01: صفحہ 109

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ