شرائط نماز کابیان
شرط کا لغوی معنی"علامت" ہے اور اصطلاحاً شرط وہ ہے جس کے نہ ہونے سےکسی چیز کا نہ ہونا لازم آئے لیکن اس کے وجود سے کسی چیز کی موجودگی لازم نہ ہو۔شرائط نماز سے مراد وہ اشیاء ہیں جن کا حصول ممکن ہوتو ان کے بغیر نماز نہیں ہوتی،بلکہ ان میں سے ایک بھی مفقود ہوتو نماز صحیح نہیں ہوتی۔شرائط نماز کی تفصیل درج ذیل ہے:
"یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔"[1]
اہل اسلام کا اس امر پر اجماع ہے کہ پانچ نمازوں کے اوقات شریعت میں محدود اور مخصوص ہیں جن سے پہلے (بلاعذر) نماز نہیں ہوتی۔امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:" ہر نماز کاایک وقت ہے ،جسے اللہ تعالیٰ نے شرط قراردیا ہے۔صحیح نماز وہی ہے جو اس مقرر وقت میں ادا کی جائے۔"
یادرکھئے!جب کسی نماز کا وقت شروع ہوجاتاہے تو وہ نماز فرض ہوجاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"نماز قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک۔"[2]
بنابریں علمائے کرام کا اس امر پر اجماع ہے کہ اول وقت میں نماز ادا کرنا افضل ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"تم نیکیوں کی طرف دوڑو۔"[3]
نیز اس کا فرمان ہے:
"اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو۔"[4]
اور ارشاد ربانی ہے:
"اور جوآگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہی ہیں۔وہ تو بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں۔"[5]
صحیحین میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا،کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنے وقت پر نماز ادا کرنا"[6]
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"نمازوں کی حفاظت کرو۔"[7]
نماز کی محافظت میں یہ بھی شامل ہے کہ اسے اول وقت میں ادا کیا جائے۔
دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں اور ہر نماز کا ایک مناسب وقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پسند کیا ہے۔اور وہ بندوں کے احوال کے اعتبار سے بھی مناسبت رکھتاہے تاکہ وہ ان اوقات میں نمازیں ادا کرلیں۔اور دوسرے دنیوی کام اس میں رکاوٹ نہ بنیں۔ بلکہ اس سے دنیاوی کاموں میں معاونت ہو اور ان کی لغزشیں معاف ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچوں نمازوں کو بہتے دریا سے تشبیہ دی ہے،جس میں انسان پانچ وقت غسل کرتا ہے اور اس سے اس کے جسم پر ذرہ بھر میل کچیل نہیں رہتا۔[8]
اوقات نماز کی تفصیل درج ذیل ہے:
نماز ظہر کا وقت زوال آفتاب سےشروع ہوتاہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"نماز قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک۔"[9]
زوال آفتاب کی علامت یہ ہے کہ کسی چیز کا سایہ مغرب کی جانب سے ختم ہوکر مشرق کی جانب آجائے۔ظہر کا وقت تب تک ہے۔جب ہر چیز کا سایہ لمبائی میں ایک مثل ہوجائے۔اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"ظہر کا وقت تب ہوتا ہے جب آفتاب ڈھل جائے حتیٰ کہ آدمی کا سایہ اس کے طول(لمبائی) کےبرابر ہوجائے۔"[10]
نماز ظہر، اول وقت ادا کرنا مستحب ہے،البتہ سخت گرمی میں مستحب یہ ہے کہ اس میں اس قدر تاخیر کی جائے کہ گرمی کا شدت کازورٹوٹ جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جب گرمی شدید ہوتو نماز کوٹھنڈا کرو،بے شک گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ میں سے ہے۔"[11]
جب ظہر کے وقت کی انتہا ہوتی ہے تب نماز عصر کے وقت کی ابتدا ہوتی ہے،یعنی جب ہر شے کا سایہ لمبائی میں ایک مثل ہوجائے۔[12]اور عصر کا آخری وقت اہل علم کے صحیح قول کے مطابق آفتاب کےزور پڑجانے تک ہے۔[13]نماز عصر اول وقت اداکرنا مسنون ہے۔اسی نماز کو اللہ تعالیٰ کے فرمان:
"نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص درمیان والی نماز کی۔"[14]
میں وسطی نماز کہہ کر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔اور احادیث صحیحہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
مغرب کی نماز کاوقت تب شروع ہوتاہے جب سورج مکمل طور پر غروب ہوجائے اس کا کوئی حصہ کہیں سے نظر نہ آئے۔غروب آفتاب کی علامت یہ ہے کہ مشرق کی جانب رات کی تاریکی کے آثار نمودار ہو جائیں،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جب اس جانب(مشرق) سے رات آجائے اور اس(مغرب کی) جانب دن رخصت ہوجائے اور سورج غروب ہوجائے توروزہ دار روزہ افطار کرے۔"[15]
مغرب کی نماز کا آخری وقت سرخی غائب ہونے تک ہے۔نماز مغرب کو جلدی اور اول وقت میں ادا کرنا مسنون ہے۔سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب اس وقت ادا کرتے جب سورج پردوں کے پیچھے غروب ہوجاتا۔"[16]
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور بعد کے اہل علم کا یہی قول ہے۔
(4)۔نماز عشاء کا وقت نماز مغرب کے آخری وقت ،یعنی سرخی کے غائب ہونے کے فوراً بعدشروع ہوجاتا ہے اور طلوع فجر تک رہتا ہے۔نمازعشاء کا وقت دوطرح کا ہے:
1۔مختار وقت: جو تہائی رات تک رہتاہے۔
2۔مجبوری کاوقت: جو تہائی رات سے لے کر طلوع فجر تک ہوتا ہے۔
نماز عشاء کوتہائی رات تک مؤخر کرنامستحب ہے،بشرط یہ کہ لوگوں کو اس میں آسانی ہو۔اگر مشقت ہوتو اسے اول وقت میں ادا کرنا بہتر ہے۔
نماز عشاء ادا کرنے سے پہلے سونا مکروہ ہے کیونکہ اس میں نماز کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہے۔اسی طرح نماز عشاء ادا کرنے کے بعد لوگوں کے ساتھ باتوں میں مشغول ہوناناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ اس سبب سے انسان نہ جلدی ہوسکتا ہے اور نہ صبح سویرے نماز کے لیے اٹھ سکتا ہے۔علاوہ ازیں نماز عشاء اداکرکے جلدی سوجانا چاہیے تاکہ رات کے آخری حصے میں نماز تہجد ادا کی جاسکے اور ہشاش بشاش طبیعت سے نمازفجر میں حاضر ہواجاسکے۔
حدیث میں ہے:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونا اور عشاء کے بعد باتیں کرنا ناپسند کرتے تھے۔"[17]
لیکن یہ تب ہے جب عشاء کے بعد جاگنا بے مقصد ہو۔اگرکوئی مفیدمقصد ہویا اہم ضرورت ہوتو تب جاگنے میں کوئی حرج نہیں۔
فجر کا وقت طلوع فجر(صبح صادق) سے شروع ہوتا ہے اور طلوع آفتاب تک جاتاہے۔جب طلوع فجر کایقین ہوجائے تب نماز فجر جلدی ادا کرنا مستحب ہے۔
پانچوں نمازوں کے یہ وہ اوقات ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ہیں۔آپ کو ان اوقات کی پابندی کرنی چاہیے۔نماز وقت سے پہلے پڑھی جائے نہ بعد میں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"سو ان نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔"[18]
یعنی وہ لوگ جو نمازوں کو ان کے اوقات سے مؤخر کرتے ہیں۔
اور فرمایا:
"پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا (59) بجز ان کے جو توبہ کر لیں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔ ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور ان کی ذرا سی بھی حق تلفی نہ کی جائے گی "[19]
جوشخص بلا شرعی عذر نمازمیں تاخیر کرتاہے اللہ تعالیٰ نے اسے "غافل اور نمازضائع کرنے والا" قراردیاہے ۔اور اسے" وَيْلٌ" اور "غَي"(وادی جہنم) کی دھمکی دی ہے۔
جوشخص نماز بھول جائے یا سوجائے تو وہ نماز کی قضا میں جلدی کرے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاہے:
"جونماز بھول گیا یا سوگیا اور پڑھ نہ سکا اسے جب بھی یاد آئے تو فوراً ادا کردے یہی اس کا کفارہ ہے۔"[20]
جو نماز قضا ہوجائےاسے حتی الامکان فوراً ادا کردیا جائے۔اس کو ادا کرنے کے لیے اگلے دن کی اس کی ہم نام نماز کاانتظار نہ کیا جائے جیسا کہ عوام میں مشہور ہے۔نیز اس کے لیے ممنوع وقت کےگزارنے کاتکلف نہ کیاجائے بلکہ اسے اسی وقت اور فوراً ادا کردیاجائے۔
2۔بدن کو ڈھانپنا:۔
شرائط نماز میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ بدن کا وہ حصہ ڈھانپ لیا جائے جس کا چھپانا بےحدضروری ہے اور اس کا ظاہرکرنا قبیح اورباعث شرم ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
"اے اولادآدم!تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔"[21]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ بالغ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں کرتا۔"[22]
حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے کہاہے :جو شخص کپڑا حاصل ہونے کے باجود ننگا ہوکر نماز پڑھتاہے،اس کی نماز فاسد ہوگی۔اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔[23] نماز میں اورلوگوں کے سامنے یاخلوت میں شرمگاہ کو ڈھانپنا لازمی اور ضروری ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنی شرمگاہ کی ہر ایک سے حفاظت کر سوائے بیوی اور لونڈی کے۔"(راوی کابیان ہے کہ) میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جب قوم کے لوگ جمع ہوں تو؟فرمایا:" اگرتوطاقت رکھے کہ اسے(شرم گاہ کو) کوئی نہ دیکھ سکے تو ایساکر۔"کہا:اگر کوئی الگ تھلگ اکیلا بیٹھا ہوتو؟فرمایا:" اللہ تعالیٰ کا زیادہ حق ہے کہ اس سے لوگوں کی نسبت زیادہ شرم کی جائے۔"[24]
اللہ تعالیٰ نےشرمگاہ کو(بلاوجہ) ظاہر کرنے کو فحش سے تعبیر کیا ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریق پرپایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کویہی بتایاہے۔آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ فحش بات کی تعلیم نہیں دیتا۔"[25]
آیت کا شان نزول یہ ہے کہ کفار مکہ ننگے ہوکر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور اسے ا پنے دین کاحکم سمجھتے تھے۔شرم گاہ کو ایک دوسرے کے سامنے ظاہرکرنے اور اسے دیکھنے کی حرکت گھناؤنےگناہ کی طرف لے جاتی ہے۔
یہ بُرائی کا سبب اور اخلاقی تباہی کاذریعہ ہے جیسا کہ ان مادر پدر آزاد معاشروں میں دیکھا گیا ہے جہاں تعظیم وتکریم ختم ہوچکی ہے،اخلاقیات کی قدریں پامال ہوچکی ہیں اور بے حیائی عام ہے۔
شرم گاہ کو محفوظ کرنا اور اسے چھپا کررکھنا،عزت واخلاق کوقائم رکھناہے۔عزت وشرف کو ختم کرنے کے لیے شیطان اولاد آدم علیہ السلام کوآمادہ کرتاہے کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہوجائیں،جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قبیح عمل پر یوں خبردار کیا ہے:
"اے اولاد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمہارے ماں باپ کوجنت سے باہر کرادیا ایسی حالت میں ان کالباس بھی اتروادیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرمگاہیں دکھائے۔"[26]
جسم کے قابل سترحصوں کی نمائش شیطانی مکروفریب کاایسا جال ہے جس میں بہت سی انسانی سوسائٹیاں پھنس چکی ہیں۔وہ اسے ترقی اور فن کانام دیتی ہیں۔نوبت بایں جارسید کہ مادر زاد ننگے لوگوں کی انجمنیں بن چکی ہیں۔
عورتوں میں بے پردگی عام ہوگئی ہے اور وہ مردوں کے سامنے اپنے جسم کی نمائش کرنے لگی ہیں۔اور انھیں اس پر ذرہ بھر شرم وحیا محسوس نہیں ہوتی۔
اے مسلمان! بدن کے قابل ستر حصوں کو ایسی چیز کے ساتھ چھپا کررکھنا ضروری ہے جس سے بدن کی نمائش نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اےآدم کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے لباس پیداکیا جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے۔"[27]
اس آیت سے واضح ہوا کہ ستر کو،چھپانے والے لباس سے ڈھانپنا فرض ہے اور اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔
مرد کا ستر(چھپانے کے قابل حصہ) ناف سے لے کر گھٹنے تک کا حصہ ہے،چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنی ران ظاہر نہ کر اور نہ کسی زندہ یامیت کی ران دیکھ۔"[28]
ایک اور روایت میں یوں ہے:
"اپنی ران ڈھانپ کر رکھو کیونکہ ران شرمگاہ(میں سے) ہے۔"[29]
ان فرامین کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ مختلف کھیلوں میں شرمگاہ پر چھوٹا سا کپڑا(رومالی یاجانگیہ وغیرہ) باندھ لیتے ہیں،حالانکہ اس سے نصوص شرعیہ کی کھلی مخالفت ہوتی ہے۔ایسے لوگوں کو خبردار رہنا چاہیے اور احکام شرعیہ کی پابندی کرنی چاہیے۔جس صورت میں نصوص شرعیہ کی مخالفت لازم آتی ہو اسے قابل التفات نہیں سمجھا چاہیے عورت کا سارا وجود ہی قابل ستر ہے،یعنی پردے میں رکھنے کے قابل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
"عورت کا سارا وجود ہی قابل ستر ہے۔"[30]
اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث میں ہے کہ"آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ عورت لمبی قمیص اور دوپٹے کے ساتھ نماز پڑھ لے جب کہ تہبند نہ پہناہوا ہو؟تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"ہاں !لیکن قمیص اس قدر لمبی ہوکہ قدموں کے بالائی حصوں کو ڈھانپ لے۔"[31]
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"اللہ تعالیٰ بالغ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں کرتا۔"[32]
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ عورت جب بالغ ہوجائے اور نماز میں اس کے بال ننگے ہوں تواس کی نماز نہیں ہوگی۔[33]
مندرجہ بالا احادیث کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات بھی ہیں:
"اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں،سوائے اس کے جواز خود ظاہر ہے ۔اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بُکل مارے رہیں اور اپنی آرائش کو ظاہر نہ کریں،سوائے اپنے خاوندوں کے۔"[34]
اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔"[35]
ایک اور مقام پر فرمایا:
"جب تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو۔تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے کامل پاکیزگی یہی ہے۔"[36]
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:
"حاجیوں کے قافلے ہمارے قریب سے گزرتے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں حالت ِاحرام میں ہوتیں۔جب ان کا گزر ہمارے قریب سےہوتا تو ہم چہروں پر پردہ ڈال لیتیں،جب وہ آگے نکل جاتے تو پردہ اٹھا لیتیں۔"[37]
درج بالا آیات واحادیث کے علاوہ قرآن وحدیث میں اور بھی بہت سےمشہورومعروف ایسے دلائل ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ غیر محرموں کے سامنے عورت کو اپنا جسم مکمل طور پر ڈھانپنا چاہیے۔نماز ہویا غیرنماز کسی حالت میں بھی(ان کی موجودگی میں) اسے اپنے بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہیں کرناچاہیے۔اگر عورت خلوت میں ہو اورکوئی اجنبی آدمی وہاں نہ ہوتو وہ نماز میں اپنا چہرہ کھول سکتی ہے کیونکہ حالت نماز میں چہرہ ستر نہیں۔صرف غیر محرم کے سامنے اس کا چہرہ پردے کے لائق ہے،جسے دیکھنا ان کے لیے جائز نہیں۔
نہایت افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ آج کے دور میں بہت سی مسلمان خواتین کا فر اور مرتد عورتوں کی تقلیدمیں پردے کے بارے میں کمزوری اور سستی کامظاہرہ کررہی ہیں،بلکہ جسم کی بے جانمائش میں مسابقت تک نوبت پہنچ چکی ہے۔وہ ایسا لباس پہن رہی ہیں جو جسم کو مکمل طور پر نہیں ڈھانپتا۔لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو حالت نماز میں ضروری پردہ سے بڑھ کر زینت کا حکم دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے اولادآدم!تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔"[38]
یہ حکم اس امرپر واضح دلیل ہے کہ مسلمان کے لائق یہ ہے کہ وہ نماز میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوتے وقت صاف ستھرے اور نفیس کپڑے پہنے تاکہ اس کی ظاہری اور باطنی حالت مکمل طور پر اس کے شایان شان ہو۔
3۔نجاست سے اجتناب کرنا:
نماز کی صحت کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ نمازی ہرقسم کی نجاست سے احتراز واجتناب کرے۔اس کا بدن،کپڑے اور نماز کی جگہ پاک وصاف ہو۔
(1)۔نجاست ایسی مخصوص گندگی ہے جس کی معمولی مقدار بھی نماز کے لیے مانع ہے ،جیسے مردار،خون،شراب،پیشاب اورپاخانہ وغیرہ۔[39]
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
"اپنے کپڑوں کو پاک رکھاکر۔"[40]
امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ کامفہوم یہ بیان کیاہے:"اپنے کپڑے پانی کے ساتھ دھوئیے۔"[41]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"پیشاب کی چھینٹوں سے بچو کیونکہ عام طور پر قبر کا عذاب اسی وجہ سے ہوتا ہے۔"[42]
اگر کسی عورت کے کپڑے کوحیض کاخون لگ جائے اور وہ اس میں نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتی ہوتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کپڑے کو دھونے کا حکم دیاہے۔جوتے پہن کر نماز ادا کرنے کی صورت میں جوتوں کو زمین پررگڑنے کا حکم فرمایا ہے۔مسجد میں کوئی پیشاب کردے تو اس جگہ پر پانی بہانے کو کہاہے۔اس کےعلاوہ بھی بہت سے دلائل ہیں جواجتناب نجاست پر دلالت کرتے ہیں،لہذا نمازی کے بدن،کپڑے یا نماز کی جگہ پر اگر نجاست کاوجود ہوتو اس کی نماز نہ ہوگی۔اسی طرح اگر اس نے کوئی ایسی چیز اٹھائی ہوجس میں نجاست ہوتو اس حال میں بھی اس کی نماز درست نہ ہوگی۔
(2)۔اگر کسی نے ادائیگی نماز کے بعد اپنے وجود پر نجاست دیکھی لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ یہ کب کی ہے تو اس کی ادا شدہ نمازدرست ہوگی۔اسی طرح اگر ایک شخص کو ادائیگی نماز سے قبل نجاست کا علم تھا لیکن اس نے بھول کراسی طرح نماز ادا کرلی تو بھی قول راجح کے مطابق اس کی نماز ہوجائے گی،اگر کسی کودوران نماز نجاست کاعلم ہواتو اگر عمل کثیر کے بغیر اسے زائل کرنا ممکن ہوتو نماز کی حالت میں ہی زائل کردے اورنماز جاری رکھے،جیسےنجس جوتے کو اتارنا یانجس پگڑی کوکھول دینا یااتاردینا۔اگر اس نجاست کو نماز کے دوران صاف کرنا یاالگ کرنا ممکن نہ ہوتو اس کی نماز باطل ہوگی۔
(3)۔قبرستان میں نماز جنازہ کے علاوہ اور کوئی نماز ادا کرنا درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"قبرستان اورحمام(غسل خانہ) کے سوا زمین کا ہر حصہ نماز کی ادائیگی کے لائق ہے۔"[43]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"قبروں کی طرف منہ کرکے نماز نہ پڑھو اور نہ ان پر بیٹھو۔"[44]
اورارشاد فرمایا:
"قبروں کو نماز کی جگہ نہ بناؤ۔"[45]
قبرستان میں نماز سے ممانعت کی وجہ نجاست کا خوف نہیں ہے بلکہ قبرپرستی اور قبر کی تعظیم کا اندیشہ ہے۔اس کا مقصدمُردوں کی عبادت کے راستوں کو بند کرنا ہے،البتہ نماز جنازہ قبرستان میں ادا کرنا مستثنیٰ کردیاگیا ہے کیونکہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل موجود ہے جونہی کی تخصیص ہے۔واضح رہے قبرستان اور اس کے اردگرد کی کھلی جگہ جہاں تک قبرستان شمار ہوتا ہے وہاں تک نماز ادا کرنا ممنوع ہے کیونکہ نہی کااطلاق اس ساری جگہ پر ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے قبر پر بنی ہوئی مسجد سےمتعلق فرمایاہے:" اس میں فرض یانفل کوئی نماز ادا نہ کی جائے۔اگر مسجد قبر سے پہلے بنی ہوتو اس قبر کو ختم کردیاجائے،یا تو قبر کو زمین کے برابر کردیاجائے یا پھر اگر قبر نئی ہوتو میت کو اس سے نکال کر دوسری جگہ دفن کردیا جائے۔اوراگر قبر مسجد سے پہلے بنی ہوتو مسجد گرادی جائے یاقبر کی شکل وصورت مٹادی جائے۔"[46]
(4)۔اگر کسی مسجد کے قبلے کی جانب قبرہوتو نماز ادا کرنا درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"قبروں کی طرف منہ کرکے نماز نہ پڑھو۔"[47]
(5)۔لیٹرین میں بھی نماز ادا کرنا منع ہے کیونکہ وہ جگہ نجاست ہی کے لیے بنائی گئی ہے۔نیزشارع علیہ السلام نے وہاں ذکر الٰہی کرنے سے منع فرمایا ہے تونماز بطریق اولیٰ منع ہے۔علاوہ ازیں وہاں شیطان حاضر ہوتے ہیں۔
(6)۔حمام،یعنی باتھ روم میں نماز ادا کرنا ممنوع ہے کیونکہ وہ نہانے دھونے کی جگہ ہے۔وہاں انسان بے پردہ ہوتا ہے اور شیطانوں کابسیرا ہوتا ہے۔یہ ممانعت دروازے کے اندر کی تمام جگہ کو شامل ہے۔
(7)۔اونٹوں کے مسکن(باڑے) میں بھی نماز پڑھنا منع ہے۔شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اونٹوں کے باڑے میں نماز کی ممانعت،اس لیے ہے کہ وہ شیطانوں کی آماجگاہ ہے جس طرح حمام میں نماز کی ممانعت ہے کیونکہ وہ جگہ شیطانوں کامسکن ہے،لہذا جو جگہ ارواح خبیثہ کامسکن ہووہاں ادائیگی نماز سے اجتناب کرناہر صورت لازم ہے۔"
(8)۔جس جگہ تصاویر آویزاں یا چسپاں ہوں وہاں نماز ادا کرنا مکروہ ہے،چنانچہ اس بارے میں امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"تصاویر والے مقام میں نماز ادا کرنے کی کراہت حمام میں نماز کی کراہت سے بڑھ کر ہے کیونکہ حمام میں نماز پڑھنا،یاتو اس لیے مکروہ ہے کہ وہاں نجاست کاامکان ہوتا ہے،یا اس لیے مکروہ ہے کہ وہ شیطان کاٹھکانا ہے اور یہ وجہ زیادہ صحیح ہے لیکن جہاں تصویریں ہوں وہاں شرک کاامکان ہے۔مختلف اقوام زیادہ ترتصویروں اور قبروں کی وجہ سے ہی شرک میں مبتلا ہوئیں۔"[48]
اے مسلمان بھائی!اپنی نماز پر توجہ دیجئے۔نماز میں داخل ہونے سے پہلے نجاست دور کیجئے۔اور جس جگہ پر نماز پڑھنے سے روکاگیا ہے،رک جائیے تا کہ تمہاری نمازشریعت کے مطابق ہو۔احکام نماز کی تعمیل میں سستی اور کوتاہی نہ کیجئے۔تمہاری نمازتمہارے دین کا ستون ہے۔جب ستون قائم ہے تو دین قائم ہے اور جب یہ کمزور ہوگا تو تمہارا دین کمزور پڑ جائے گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے کاموں کی توفیق دے جن میں خیر اور استقامت ہو۔آمین!
4۔استقبال قبلہ:۔
شرائط نماز میں ایک شرط"کعبہ کی طرف منہ کرنا"بھی ہے۔کعبہ کو"قبلہ" اس لیے کہا جاتا ہے کہ لوگ(حالت نماز میں)ادھر رخ کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
"آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیرلیں اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔"[49]
(9)۔جو شخص کعبہ کے قریب ہے اور اسے دیکھ رہاہے تو وہ اپنا بدن اور چہرہ عین کعبہ کی جانب کرے کیونکہ وہ واقعتاً ایسا کرسکتاہے۔
(10)۔جو شخص کعبہ کےقریب ہو لیکن کسی رکاوٹ کی وجہ سے اسے دکھائی نہ دے تو جس حد تک ممکن ہوکعبہ کی طرف سیدھا رخ کرے اور خود کو سامنے رکھنے کی حتیٰ المقدور کوشش کرے۔
(11)۔جو شخص کعبہ سے دور زمین کی کسی بھی جہت میں ہوتو وہ شخص اپنی نماز میں کعبہ کی جہت اور سمت کی طرف منہ کرے۔اگر اس میں دائیں بائیں ہوجانے کی وجہ سے معمولی سافرق پڑگیا تو حرج نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"مشرق اور مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔"[50]
واضح رہے کہ آپ کادرج بالا فرمان اہل مدینہ کے لیے اور ان لوگوں کے لے ہے جن کی سمت اہل مدینہ کے مطابق ہے،البتہ جو لوگ کعبہ کی مشرق اور مغرب والی سمتوں میں رہتے ہیں ان کاقبلہ جنوب اور شمال کے درمیان ہے۔
(12)۔استقبال قبلہ کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
" اور آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔"[51]
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان زمین پر ہو یا فضا میں ،جنگل میں ہویا سمندر میں،مشرق میں ہو یا مغرب میں،شمال میں ہو یا جنوب میں،بہرصورت نماز میں کعبہ کی جانب رخ کرنا ہوگا،البتہ اگر کوئی شخص استقبال قبلہ سے عاجز ہو جیسے بندھا ہوا کوئی شخص جو کعبہ کی طرف چہرہ نہ کرسکتا ہوتو وہ حسب طاقت کوشش کرکے نماز ادا کرے کیونکہ اس کی بے بسی کی وجہ سے استقبال کعبہ کی شرط ختم ہوجائے گی۔اس پر اہل علم کااجماع ہے۔
(13)۔اسی طرح گھمسان کی جنگ ہویا سیلاب،آگ،درندے یادشمن کاخوف ہویا ایسا مریض ہوجو قبلہ رخ ہونے کی طاقت نہ رکھتا ہویہ لوگ حسب حال نماز ادا کرلیں،اگر قبلہ کی طرف رخ نہ بھی ہوتو ان کی نماز ہوجائے گی کیونکہ یہ حضرات استقبال کعبہ کی شرط کو قائم رکھنے سے عاجز ہیں،لہذا یہ شرط ان کے حق میں ساقط ہے۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
"جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔"[52]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
"جب میں تمھیں کسی کام کا حکم دوں تو تم حسب استطاعت اس کو ادا کرو۔"[53]
حدیث شریف میں ہے:" صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حالت خوف میں جیسے بھی ممکن ہوتا نماز ادا کرلیتے تھے ،چاہے قبلہ کی طرف رخ ہو یا نہ ہو۔"[54]
(14)۔جب کعبہ کی سمت کاعلم نہ ہو تو متعدد اشیاء سے راہنمائی لی جاسکتی ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔عاقل،بالغ،معتبر اورباعتماد شخص سمت قبلہ کی خبردے دے تو اس کی خبر پر عمل کیا جائے گا۔بشرط یہ کہ خبردینے والے شخص کو جانب قبلہ کایقینی علم ہو۔
2۔سمت قبلہ کے بارے میں مساجد کی محرابوں سے بھی راہنمائی لی جاسکتی ہے کیونکہ ان کارخ بھی قبلہ کی جانب ہوتاہے۔
3۔سمت قبلہ کا تعین ستاروں سے بھی ہوسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"اور ستاروں کےذریعے سے بھی لوگ راہنمائی لیتے ہیں۔"[55]
5۔نیت کرنا:شرائط نماز میں ایک شرط"نیت کرنا" ہے۔نیت کا لغوی معنی" قصد وارادہ کرنا"ہے جب کہ شرعی معنی "اللہ تعالیٰ کے ہاں حصول قرب کی خاطر عبادت کرنے کا عزم وارادہ کرنا" ہے۔
(15)۔نیت کامقام"دل"ہے۔زبان سے کہنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ بدعت ہے کیونکہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا،نہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اسے اختیار کیا،لہذا نمازی کو چاہیے کہ دل ہی سے مطلوب نماز(مثلاً:ظہر یا عصر) کی نیت کرے کیونکہ حدیث شریف میں ہے:
"اعمال كا دارومدارصرف نیتوں پر ہے۔"[56]
(16)۔نماز ادا کرنے والا تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہی نیت کرے تاکہ نیت عبادت کے ساتھ جمع ہوجائے۔نماز سےکچھ وقت پہلے بھی نیت کرلی جائے تو مضائقہ نہیں۔
(17)۔نیت کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ مکمل نماز تک مسلسل قائم رہے۔اگر اثنائے نماز میں نیت توڑدی گئی تو نماز باطل ہوجائےگی۔
(17)۔اگر کسی شخص نے مقتدی یامنفرد کی حیثیت سے فرض نماز کی نیت کی اور تکبیرتحریمہ کہہ کرنماز شروع کردی۔پھر اس نے دوران نماز کسی وجہ سے نفلی نماز کی نیت کرلی تو جائز اوردرست ہے،مثلاً:کسی شخص نے بلاجماعت نماز شروع کی تھی،پھر نماز کے دوران(کسی دوسرے شخص کے آجانے پر) جماعت کی نیت کرلی تو یہ درست ہے۔
یادرکھیے!
بعض لوگوں نے نیت کے بارے میں ایسی بدعات جاری کرلی ہیں جن کی دلیل اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں فرمائی۔ایک شخص زبان سے نماز کی نیت کرتاہے،مثلاً:نماز ظہرادا کرتے وقت کہتا ہے:
"چاررکعات،فرض اللہ تعالیٰ کےنماز ظہرمنہ طرف قبلہ شریف کےپیچھے اس امام کے۔"اس قسم کے الفاظ وکلمات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہے اور نہ سراً یا جہراً الفاظ کے ساتھ نیت کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نیت کے کلمات"بلندآواز"سے کہنا اور انھیں دہرانا قطعاً جائز نہیں۔جو شخص ان کلمات کو بلندآواز سے کہے اور ساتھ والے نمازی کے لیے تکلیف وتشویش کاباعث ہوتو اسے حقیقت مسئلہ سمجھا دیا جائے،اگر باز نہ آئے تو تادیب کے طور پر وہ سزا کامستحق ہے۔"
پھر آگے چل کر شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:"بعض متاخرین نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ"نماز سے پہلے زبان سے بولنا ضروری ہے۔"زبان سے نیت کرنے کے لیے دلیل قراردیاہے۔حالانکہ یہاں امام موصوف کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے کلمات زبان سے اداکیے جائیں۔یہ مطلب نہیں کہ نیت کےکلمات زبان سے اداکیے جائیں۔ایسا سمجھنے والےحضرات غلطی پر ہیں۔اکثر شوافع نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی بات کا یہ مفہوم غلط قراردیاہے۔"[57]
نیت کو کلمات کی صورت میں زبان سے ادا کرنا نہ صرف بدعت ہے بلکہ ریاکاری بھی ہے کیونکہ عبادت کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے عمل میں اخلاص ہو اور جس حد تک ممکن ہو مخفی رہے الا یہ کہ اس کے اظہار پرواضح دلیل مل جائے تو وہ جائز ہے۔
ہرمسلمان کے لائق اورزیباہے کہ وہ حدود شرعیہ سے واقف ہو۔سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل ہو اور ہرقسم کی بدعت سے اجتناب کرنے والا بلکہ نفرت رکھنے والا ہو۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سب کو ایسے اعمال کی توفیق دے جو اس کے ہاں محبوب اور پسندیدہ ہوں۔ارشاد الٰہی ہے:
"کہہ دیجئے! کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کو اپنی دینداری سے آگاه کر رہے ہو، اللہ ہر اس چیز سے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے بخوبی آگاه ہے۔ اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے"[58]
اللہ تعالیٰ دلوں کی نیتوں اور ان کے مقاصد سے خوب واقف ہے۔اسے نماز اور دیگر عبادات زبان سے بتانے کی ضرورت وحاجت نہیں۔
اے مسلمان!آپ کو ان شرعی آداب سیکھنے کی ضرورت ہے جوادائیگی نماز سے پہلے اس کی تیاری سے متعلق ہیں۔چونکہ نماز ایک عظیم عبادت ہے،اس لیے دائرہ عبادت میں داخل ہونے سے قبل اس کے مناسب اورشایان شان تیاری ازحد ضروری ہے۔
(1)۔جب آپ باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کی طرف جائیں تو اطمینان کے ساتھ اور پروقار طریقے سے چلیں۔حلم ہو،نگاہ نیچی ہو،آزاد پست ہو اور دائیں بائیں دیکھنا کم سے کم ہو۔صحیحین میں ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جب تم نماز کے لیے آؤ(ایک روایت میں ہے جب تم اقامت سنو) تو اطمینان وسکون اور وقار سے چلو،دوڑ کر نہ آؤ،نماز کا جوحصہ(امام کے ساتھ) مل جائے پڑھ لو اور جوحصہ رہ جائے بعد میں پورا کرلو۔"[59]
صحیح مسلم کی روایت ہے:
"جب کوئی نماز کا ارادہ کرتاہے(اور اس کی ادائیگی کے لیے چل پڑتا ہے) تو وہ حالت ِ نماز میں ہوتا ہے۔"[60]
(2)۔آپ نماز کے لیے مسجد میں جلدی آئیں تاکہ تکبیر تحریمہ مل جائے اور جماعت کے ساتھ شروع ہی سے شامل ہو جائیں۔چلتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائیں تاکہ آپ کی نیکیاں زیادہ سے زیادہ ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
"جب کوئی شخص اچھی طرح مکمل وضو کرتا ہےاور مسجد کی طرف نکلتا ہے اوروہ نماز ہی کے لیے نکلتا ہے تو جب وہ ایک قدم چلتاہے تو اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے اور ایک گناہ مٹادیا جاتا ہے۔"[61]
(3)۔جب آپ مسجد کے دروازے پر پہنچیں تو داخل ہوتے وقت پہلےدایاں پاؤں اندررکھیں اور یہ دعا پڑھیں:
"میں عظمت والے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے مبارک چہرے اور اس کی قدیم سلطنت کے ساتھ شیطان مردود کےشرسے پناہ طلب کرتا ہوں۔[62]اللہ کے نام کےساتھ،[63]محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ وسلام ہو۔[64]اے اللہ! میرے گناہ معاف کردے اور میرےلیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔"[65]
جب آپ مسجد سے نکلیں تو بایاں قدم باہررکھیں اور مذکورہ دعا پڑھیں ،البتہ:
کی جگہ پر یہ الفاظ پڑھیں:
"اے اللہ! میرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔"[66]
اس دعا کی تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ مسجد کی جگہ مقام رحمت ہے اور مسجد سے باہر کی جگہ(بازار وغیرہ) رزق ڈھونڈنے کا مقام ہے ۔اور رزق حلال اللہ تعالیٰ کا ٖفضل ہے۔
(4)۔جب مسجد میں داخل ہوں تو بیٹھنے سے پہلے تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں ادا کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جب كوئی مسجد میں داخل ہوتو بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں ضرور پڑھے۔"[67]
(5)۔پھر آپ بیٹھ جائیں اور جماعت کھڑی ہونے کاانتظارکریں۔انتظار کے لمحات میں اللہ تعالیٰ کے ذکر اور تلاوت قرآن مجید میں مشغول رہیں۔بے مقصد شغل،مثلاً:تشبیک(ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کرنا)وغیرہ سے اجتناب کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں(نماز کے انتظار میں) ہوتو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل نہ کرے،بے شک انگلیوں کو ایک دوسری میں داخل کرنا(تشبیک) شیطان کی طرف سے ہے۔"[68]
البتہ انتظار نماز کے لمحات کے علاوہ عام حالت میں عمل ِ تشبیک میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز سے سلام پھیرنے کے بعد انگلیوں میں تشبیک کا عمل ثابت ہے۔[69]
(6)۔نماز کے انتظار کی حالت میں دنیوی باتوں میں مشغول نہ ہوں کیونکہ حدیث میں ہے کہ یہ چیز نیکیوں کو اس طرح کھاجاتی ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو۔[70] ایک اور روایت میں ہے"جب تک بندہ نماز کے انتظار میں رہتا ہے تب تک وہ نماز میں ہوتا ہے۔[71]اور فرشتے اس کے حق میں استغفار کرتے ہیں۔"[72]اس لیے اسے مسلمان! اس اجروثواب کے حصول میں کوتاہی نہ کیجئے،ادھراُدھر کی باتوں اور بے مقصد مشاغل سے قیمتی اوقات ولمحات کو ضائع نہ کیجئے۔
(7)۔جب نماز کے لیے"اقامت" کہی جائے اور مؤذن "قد قامت الصلاۃ" کے کلمات کہے،تب آپ کھڑےہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کر تے تھے۔[73]البتہ اگرآپ ابتدائے اقامت ہی میں کھڑےہوجائیں تو کوئی حرج نہیں لیکن یہ تب ہے جب مقتدی امام کو آتا ہوا دیکھ لے۔اگراقامت کےدوران وہ امام کو نہ دیکھے تو کھڑا نہ ہو۔
(8)۔پہلی صف میں کھڑا ہونے کی کوشش کیجئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"اگر لوگوں کو اذان اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کااجروثواب معلوم ہوجائے اور اس کی خاطر انھیں قرعہ اندازی کرنا پڑے تو یہ کام ضرور کریں۔"[74]
اورفرمایا:
"مردوں کی بہترین صف پہلی صف ہے۔"[75]
(9)۔آپ کو امام کے قریب جگہ لینی چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"میرے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو عقل مند اور سمجھ دار ہیں۔"[76]
واضح رہے یہ حکم مردوں کے لیے ہے،البتہ عورتوں کے بارے میں اس کے برعکس حکم ہے،یعنی :
"عورتوں کی آخری صف بہترین صف ہے۔"[77]
اس کی وجہ یہ ہے کہ آخری صف والی عورتوں پر مردوں کی نگاہ نہیں پڑتی۔
(10)۔نمازیوں کو چاہیے کہ پوری توجہ سے صفیں سیدھی کریں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"اپنی صفوں کو درست کرو کیونکہ صفوں کی درستی سے نماز کی تکمیل ہے۔"[78]
ایک دوسری روایت میں ہے:
"تم اپنی صفوں کو درست رکھو،ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔"[79]
صفوں کی درستی کا مطلب یہ ہے کہ کندھے سے کندھا اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر صفوں کو سیدھا کیا جائے۔[80]
(11)۔نمازیوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے درمیان فاصلوں کو حتیٰ الامکان ختم کریں۔اس کے لیے باہم مل کر اور جڑ کر کھڑے ہوں تاکہ شیطانی سوراخ بند ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"صفوں کو درست کرو اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اور جڑ کر کھڑے ہو۔"[81]
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کو درست کرتے اور مقتدیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کی تلقین کرتے تھے۔یہ امراس مسئلے کی اہمیت وفائدے کو اجاگر کرتا ہے۔
واضح رہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ملنے اور جڑنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی پاؤں کو کھول کرٹیڑھا کرے اور دائیں بائیں والے نمازیوں کو تنگی وتکلیف میں ڈال دے کیونکہ اس قسم کی حرکت سے فاصلہ اور کشادگی بند ہونے کی بجائے بڑھتی ہے اور نمازیوں کے لیے باعث تکلیف ہے،جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں۔مسلمانوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع واطاعت ہو اور ہراعتبار سے نماز مکمل ہو۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے اعمال کی توفیق دے جواس کے ہاں محبوب اور پسندیدہ ہوں۔آمین!
[1]۔النساء:4/103۔
[2]۔بنی اسرائیل 17/78۔
[3]۔البقرۃ:2/148۔
[4]۔آل عمران 3/133۔
[5] ۔الواقعۃ56/10۔11۔
[6]۔صحیح بخاری مواقیت الصلاۃ باب فضل الصلاۃ لوقتھا حدیث 527 وصحیح مسلم الایمان باب بیان کون الایمان باللہ تعالیٰ افضل الاعمال حدیث 85۔
[7]۔البقرۃ 2/238۔
[8]۔صحیح البخاری مواقیت الصلاۃ باب الصلاۃ الخمس کفارۃ حدیث 528 وصحیح مسلم المساجد باب المشئی الی الصلاۃ تمحی بہ الخطایا وترفع بہ الدرجات حدیث 667۔
[9]۔بنی اسرائیل 17/78۔
[10]۔صحیح مسلم المساجد باب اوقات الصلوات الخمس حدیث 612۔
[11]۔صحیح البخاری مواقیت الصلاۃ باب الابراد بالظھر فی شدۃ الحر حدیث 533۔536۔ وصحیح مسلم المساجد باب استحباب الابراد بالظھر فی شدۃ الحر..... حدیث 615۔
[12]۔صحیح مسلم المساجد باب اوقات الصلوات الخمس حدیث 612 وسنن ابی داود الصلاۃ باب فی المواقیت حدیث 393۔
[13]۔ حدیث میں ہے:
"وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ "
(صحیح البخاری) مواقیت الصلاۃ باب من ادرک الفجر رکعۃ حدیث 579)"جس نے غروب آفتاب سے قبل عصر کی ایک رکعت پڑھ لی،اس نے عصر کی نمازپالی۔"اس سے معلوم ہوا کہ عصر کاآخری وقت غروب آفتاب تک ہے۔(صارم)
[14]۔البقرۃ:2/238۔
[15]۔صحیح البخاری الصوم باب متی یحل فطر الصائم ؟ حدیث 1954۔وصحیح مسلم الصیام باب بیان وقت انقضاء الصوم وخروج النھارحدیث 1100۔
[16]۔صحیح مسلم المساجد باب بیان ان اول وقت المغرب عندغروب الشمس حدیث 636 وجامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی وقت المغرب حدیث 164۔
[17]۔صحیح البخاری مواقیت الصلاۃ باب ما یکرہ من النوم قبل العشاء حدیث 568 وصحیح مسلم المساجد باب استحباب التبکیر بالصبح فی اول وقتھا۔حدیث:647۔
[18]۔الماعون 107/4۔5۔
[19]۔مریم:19/59۔60۔
[20]۔ صحیح البخاری مواقیت الصلاۃ باب من نسی صلاۃ فلیصل اذا ذکر ولایعید الا تلک الصلاۃ حدیث 597 وصحیح مسلم المساجد باب قضاء الصلاۃ الفائتۃواستحباب تعجیل قضائھا حدیث 684 واللفظ لہ۔
[21] ۔الاعراف 7/31۔
[22]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب المراۃ تصلی بغیر خمار حدیث 641 وجامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء لا تقبل صلاۃ المراۃ الحائض الابخمار حدیث 377 وسنن ابن ماجہ الطھارۃ وسننھا باب اذا حاضت الجاریۃ لم تصل الا بخمار حدیث 655۔
[23]۔التمھید لابن عبدالبر :6/379۔
[24]۔سنن ابی داود الحمام،باب فی التعری حدیث 4017 وجامع الترمذی الادب باب ماجاء فی حفظ العورۃ حدیث 2794 واللفظ لہ۔
[25]۔الاعراف۔7/28۔
[26]۔الاعراف۔7/27۔
[27]۔الاعراف۔7/26۔
[28]۔سنن ابی داود الجنائز باب فی ستر المیت عندغسلہ حدیث 3140 وسنن ابن ماجہ الجنائز باب ماجاء فی غسل المیت حدیث 1460 وصحیح الجامع الصغیر للالبانی حدیث 7440۔
[29]۔جامع الترمذی الادب باب ما جاء ان الفخذعورۃ حدیث 2798 ومسند احمد 3/479 و5/290 والمعجم الکبیر للطبرانی 2/271 حدیث 2138 واللفظ لہ۔
[30]۔جامع الترمذی الرضاع باب استشراف الشیطان المراۃ اذا خرجت حدیث 1173۔
[31]۔(ضعیف) سنن ابی داود الصلاۃ باب فی کم تصلی المراۃ حدیث 640۔
[32]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب المراۃ تصلی بغیر خمار حدیث 641 وجامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء لا تقبل صلاۃ المراۃ الحائض الابخمار حدیث 377 وسنن ابن ماجہ الطھارۃ وسننھا باب اذا حاضت الجاریۃ لم تصل الا بخمار حدیث 655۔
[33]۔جامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء لا تقبل صلاۃ المراۃ الحائض الا بمخمار حدیث 377۔
[34]۔النور 24/31۔
[35]۔ الاحزاب۔33/59۔
[36]۔الاحزاب 33/83۔
[37]۔سنن ابی داود المناسک باب فی المحرمۃ تعطی وجھھا حدیث 1833 وسنن ابن ماجہ المناسک باب المحرمۃ تسدل الثوب علی وجھھا حدیث 2935 ومسند احمد 6/30۔
[38] ۔الاعراف 7/31۔
[39]۔درست بات یہی ہے کہ یہ دونوں چیزیں:مردار اور خون حرام تو ہیں لیکن نجس(پلید) نہیں ہیں ہاں،حیض کا خون نجس ہے۔تفصیل کے لیے علامہ شوکانی کی کتاب السیل الجرار(1/137۔140)دیکھئے۔
[40]۔المدثر 4/74۔
[41]۔تفسیر ابن جریر الطبری المدثر 4/74۔
[42]۔سنن دارقطنی 1/126 حدیث 452 وصحیح الجامع اللبانی حدیث 3002۔
[43]۔جامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء ان الارض کلھا مسجد الاالمقبرۃ والحمام حدیث 317 وسنن ابی داود الصلاۃ باب فی المواضع التی لاتجوز فیھا الصلاۃ حدیث 492 وسنن ابن ماجہ المساجد والجماعات باب المواضع التی تکرہ فیھا الصلاۃ حدیث 745 ومسند احمد 3/83۔
[44]۔صحیح مسلم الجنائز باب النھی عن الجلوس علی القبر والصلاۃ علیہ حدیث 972 وسنن ابی داود الجنائز باب فی کراھیۃ القعود علی القبر حدیث 3229۔
[45]۔صحیح مسلم المساجد باب النھی عن بناء المسجد علی القبور۔۔۔حدیث 532۔
[46]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ 22/195 بتغیر یسیر۔
[47]۔صحیح مسلم الجنائز باب النھی عن الجلوس علی القبر والصلاۃ علیہ حدیث 972۔
[48]۔زادالمعاد لابن القیم 3/458۔
[49]۔البقرۃ:2/144۔
[50]۔جامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء ان ما بین المشرق والمغرب قبلۃ حدیث 342۔344۔ وسنن ابن ماجہ اقامۃ الصلوات باب القبلۃ حدیث 1011۔
[51]۔البقرۃ:2/144۔
[52]۔التغابن 64/16۔
[53]۔صحیح البخاری الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 7288،وصحیح مسلم الحج باب فرض الحج مرۃ فی العمر حدیث 1337 ومسند احمد 2/258۔
[54]۔صحیح البخاری التفسیر سورۃ البقرۃ باب قولہ:( فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا.....) حدیث 4535 والموطا للامام مالک صلاۃ الخوف 184 وصحیح ابن خزیمہ 2/90 حدیث 980۔
[55]۔النحل 16/16۔
[56]۔صحیح البخاری للامام مالک،صلاۃ الخوف 184 وصحیح ابن خزیمۃ 2/90 حدیث 980۔
[57]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ 22/218۔221۔
[58]۔الحجرات 49/16۔
[59]۔صحیح البخاری الاذان باب قول الرجل فاتتنا الصلاۃ حدیث 635 وباب لا یسعی الی الصلاۃ ولیاتھا بالسکینۃ والوقار حدیث 636 وصحیح مسلم المساجد باب استحباب اتیان الصلاۃ بوقار وسکینۃ۔۔۔،حدیث 602۔
[60]۔صحیح مسلم المساجد باب استحباب اتیان الصلاۃ بوقار وسکینۃ۔حدیث602۔
[61]۔صحیح البخاری الاذان باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث 647 وصحیح مسلم المساجد باب صلاۃ الجماعۃ من سنن الھدی حدیث 654۔
[62]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب ما یقول الرجل عند دخولہ المسجد؟ حدیث 466۔
[63]۔ سنن ابن ماجہ المساجد والجماعات باب الدعاء عند دخول المسجد حدیث 771۔
[64]۔ جامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء ما یقول عنددخولہ المسجد؟حدیث 314۔وسنن ابن ماجہ المساجد والجماعات باب الدعاء عند دخول المسجد حدیث771۔
[65]۔ صحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب ما یقول اذا دخل المسجد؟ حدیث 713 وسنن ابن ماجہ المساجد والجماعات باب الدعاء عند دخول المسجد حدیث 771۔
[66]۔سنن ابن ماجہ المساجد والجماعات باب الدعاء عند دخول المسجد حدیث 771۔
[67]۔صحیح البخاری التھجد باب ماجاء فی التطوع مثنیٰ مثنیٰ حدیث 1163 وصحیح مسلم صلاۃ المسافرین باب ا ستحباب تحیۃ المسجد برکعتین۔۔۔حدیث 714۔715۔
[68]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب ماجاء فی فی الھدی فی المشئی الی الصلاۃ حدیث 562 وجامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی کراھیۃ التشبیک بین الاصابع فی الصلاۃ حدیث 386 ومسند احمد 3/43 واللفظ لہ۔
[69]۔صحیح البخاری الصلاۃ باب تشبیک الاصابع فی المسجد وغیرہ حدیث 481۔
[70]۔فاضل مؤلف نے اس حدیث کا حوالہ نہیں دیا،ہمارے علم کی حد تک ایسی کوئی حدیث نہیں۔تاہم یہ بات صحیح ہے کہ نماز کے انتطار میں بیٹھے ہوئے اللہ کاذکر کرناچاہیے نہ کہ دنیاوی باتوں میں وقت ضائع کیا جائے۔(صلاح الدین یوسف)
[71]۔صحیح البخاری الاذان باب فضل الجماعۃ حدیث 647 ومسند احمد 3/348۔
[72]۔مسنداحمد 2/352۔
[73]۔مؤلف کا کہناہے کہ"رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے"محل نظر ہے کیونکہ مؤذن اقامت کہنے میں امام کے تابع ہے نہ کہ امام کھڑا ہونے میں مؤذن کی اقامت کا جیسا کہ سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جاکرنماز کی اطلاع دیا کرتے تھے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:"أن الصلاة كانت تقام لرسول الله(صلى الله عليه وسلم)"نماز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھڑی کی جاتی تھی۔"صحیح مسلم،المساجد ،باب متی یقوم الناس للصلاۃ؟حدیث 605 حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آتا دیکھتے تو تب تکبیر کہتے تھے۔صحیح مسلم،المساجد باب متی یقوم الناس للصلاۃ؟حدیث 606۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کے لیے قدقامت الصلاۃ کے وقت کھڑا ہونے کی کوئی اصل نہیں ہے۔جہاں تک مقتدیوں کا تعلق ہے تو ان کا معاملہ بھی امام سے مربوط ہے۔سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي""جب نماز کے لیے اقامت ہوتو مجھے دیکھے بغیر کھڑے نہ ہو۔"صحیح مسلم المساجد،باب متی یقوم الناس للصلاۃ؟حدیث 604۔اور اگر امام مسجد ہی میں موجود ہوتو پھر بھی قدقامت الصلاۃ کے وقت کھڑا ہونے کی کوئی دلیل نہیں بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے:"فَيَأْخُذُ النَّاسُ مَصَافَّهُمْ قَبْلَ أَنْ يَقُومَ النَّبِىُّ مَقَامَهُ" لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلی امامت پر کھڑا ہونے سے پہلے ہی صفیں بنالیتے تھے۔"امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نماز کے لیے کھڑے ہونے کے وقت کے تعین کے بارے میں سلف سے مجھے کچھ معلوم نہیں۔میرے خیال میں یہ نمازیوں پر نماز کے لیے کھڑے ہونے کے وقت کے تعین پر منحصر ہے کہ تکبیر شروع ہونے کے بعد جب انھیں آسانی ہوکھڑے ہوجائیں سب لوگوں کا بیک وقت کھڑے ہونا ضروری نہیں۔(الموطا 71/1)۔حافظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ میں واردسلف کے اقوال ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ حدیث:"لَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي"ان کے خلاف حجت ہے اور "حَتَّى تَرَوْنِي" مطلق ہے،اسے الفاظ اقامت کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتا(فتح الباری 2/119۔120) اس سے معلوم ہوا کہ امام ہو یا مقتدی اس کا کھڑا ہونا اقامت کے کسی کلمے کے ساتھ مشروط نہیں۔واللہ اعلم(صحیح مسلم المساجد باب متی یقوم الناس للصلاۃ؟حدیث 605)۔(عثمان منیب)
[74]۔صحیح البخاری الاذان باب الاستھام فی الاذان حدیث 615 وصحیح مسلم الصلاۃ باب تسویۃ الصفوف واقامتھا۔۔۔حدیث 437۔
[75]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب تسویۃ الصفوف واقامتھا وفضل الاول فلااول منھا۔،حدیث 440 وجامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی فضل الصف الاول حدیث 224۔
[76]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب تسویۃ الصفوف واقامتھا۔۔۔حدیث 432 وسنن ابی داود الصلاۃ باب من یستحب ان یلی الامام فی الصف۔۔۔حدیث 674۔
[77]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب تسویۃ الصفوف واقامتھا وفضل الاول فلاول منھا۔۔۔حدیث 440 وجامع الترمذی الصلاۃ باب ماجاء فی فضل الصف الاول،حدیث 224۔
[78]۔صحیح البخاری الاذان باب اقامۃ الصف من تمام الصلاۃ حدیث723 وصحیح مسلم الصلاۃ باب تسویۃ الصفوف واقامتھا۔۔۔حدیث 433 واللفظ لہ۔
[79]۔صحیح البخاری الاذان باب تسویۃ الصفوف عندالاقامۃ وبعدھا حدیث 717 وصحیح مسلم الصلاۃ باب تسویۃ الصفوف واقامتھا۔۔۔حدیث 436۔
[80]۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے یوں ہی کھڑے ہوتے تھے۔صحیح البخاری الاذان باب الزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف حدیث 725۔
[81]۔صحیح البخاری الاذان باب اقبال الامام علی الناس۔۔۔حدیث 719۔