سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19) پانچ نمازوں کی فرضیت

  • 23694
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 7795

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پانچ نمازوں کی فرضیت


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ارکان اسلام میں کلمہ شہادت کے بعد نماز کی اہمیت اور تاکید سب سے زیادہ ہے۔نماز عبادت کی کامل اور حسین صورتوں کا مجموعہ ہے۔نماز عبادت کی بہت سی اقسام پر مشتمل ہے،جیسے ذکر الٰہی ،تلاوت قرآن ،قیام،رکوع،سجدہ، دعا،تسبیح اور تکبیر وغیرہ۔نماز بدنی عبادات کی چوٹی ہے۔اللہ کے رسولوں میں سے کسی کی شریعت نمازسے خالی نہ تھی۔جملہ احکام شرعیہ میں نماز کا یہ مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ختم الرسل محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر اس وقت فرض کی جب آپ معراج کی رات آسمان پر گئے تھے۔[1]

یہ خوبی نماز کی عظمت،اس کی اہمیت اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا بلند مرتبہ ومقام کا ہونا واضح کرتی ہے۔

ہرشخص پر نماز کی فضیلت اور نماز کی فرضیت سے متعلق بہت سی احادیث آتی ہیں حتیٰ کہ دین اسلام میں نماز کی فرضیت بدیہی معلوم ہوتی ہے۔اس کا منکر مرتدہے جسے توبہ کاموقع دیا جائے گا،اگر وہ توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ اس کو قتل کرنے پر امت مسلمہ کے علماء کا اتفاق ہے۔

نماز کو عربی زبان میں"صلاۃ" کہتے ہیں جس کا لغوی معنی"دعا" ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

(وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) "اے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم )! انھیں دعا دیجئے۔"

نماز کا شرعی اور اصطلاحی معنی:وہ مخصوص اقوال وافعال ہیں جن کی ابتدا اللہ اکبر سے اور انتہا سلام پھیرنے سے ہوتی ہے۔"چونکہ نمازی نماز میں عبادت ،ثنااور طلب ودرخواست کی شکل میں اللہ کے حضور دعا میں مشغول رہتا ہے،اس لیے نماز کو عربی زبان میں"صلاۃ" کہا جاتا ہے۔

ہجرت سے پہلے معراج کی رات(ہرعاقل،بالغ مسلمان پر دن رات میں) پانچ نمازیں فرض ہوئیں جیساکہ اوپر گزرچکا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ إِنَّ الصَّلو‌ٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورة المائدة

"یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔"[2]

وہ اوقات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے قول وفعل سے واضح کردیے ہیں۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿وَما أُمِروا إِلّا لِيَعبُدُوا اللَّهَ مُخلِصينَ لَهُ الدّينَ حُنَفاءَ وَيُقيمُوا الصَّلو‌ٰةَ ...﴿٥﴾... سورة البينة

"انھیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں۔اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں یکسوہوکر،اور نماز کو قائم کریں۔"[3]

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾"نماز قائم کرو۔"کے الفاظ متعدد بار ذکر کرکے نماز کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ایک مقام پر فرمایا:

﴿قُل لِعِبادِىَ الَّذينَ ءامَنوا يُقيمُوا الصَّلو‌ٰةَ ... ﴿٣١﴾... سورة ابراهيم

"میرے ایمان دار بندوں سے کہہ دیجئے کہ نماز کو قائم کریں۔"[4]

سورہ روم میں فرمایا:

﴿فَسُبحـٰنَ اللَّهِ حينَ تُمسونَ وَحينَ تُصبِحونَ ﴿١٧ وَلَهُ الحَمدُ فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ وَعَشِيًّا وَحينَ تُظهِرونَ ﴿١٨﴾... سورة الروم

"پس اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھا کرو جب کہ تم شام کرو اور جب صبح کرو (17) تمام تعریفوں کےلائق آسمان وزمین میں صرف وہی ہے تیسرے پہر کو اورظہرکے وقت بھی (اس کی پاکیزگی بیان کرو)"[5]

جب کسی عاقل بالغ مسلمان پر نماز کاوقت آجائے تو اس پر نماز فرض ہوجاتی ہے،البتہ اگر کوئی عورت حیض یا نفاس کی حالت میں ہوتو اس پر نماز فرض نہیں ہوتی اورنہ طہارت کے بعد اس کی قضا ہے۔

سویاہوا جب بیدار ہویا بے ہوش شخص جب ہوش میں آجائے تو ان پر قضا دینالازم ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَأَقِمِ الصَّلو‌ٰةَ لِذِكرى ﴿١٤﴾... سورة طه

"اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔"[6]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"مَنْ نَسِىَ صَلاَةً أَوْ نَامَ عَنْهَا فَكَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا"

" جو شخص نماز بھول گیا یا سوگیا تو اس کاکفارہ یہی ہے کہ جب اسے یاد آئے نماز ادا کرلے۔"[7]

(1)۔چھوٹے بچے کے سرپرست کے لیے ضروری ہے کہ جب بچہ سات برس کا ہوجائے تو اسے نماز کی تلقین کرے باوجود یہ کہ اس پر نماز فرض نہیں لیکن سرپرست اس کا اہتمام ضرور کرے،اسے نماز کا عادی بنائے،اس سے بچے اور اس کے سرپرست دونوں کو اجر وثواب ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان عام ہے:

﴿مَن جاءَ بِالحَسَنَةِ فَلَهُ عَشرُ أَمثالِها ...﴿١٦٠﴾... سورة الانعام

"جوشخص نیک کام کرے گا اس کو اس کے دس گنا ملیں گے۔"[8]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں ایک عورت چھوٹا بچہ لے کر آئی اور پوچھا:کیا اس کا حج ہوگا؟آپ نے فرمایا:

"نَعَمْ وَلَكِ أَجْرٌ"

"ہاں!اور تیرے لیے اجر ہے۔"[9]

سرپرست اور ولی کو چاہیے کہ بچے کو نماز اور طہارت کے مسائل کی تعلیم دے۔اگر بچے کی عمر دس برس کی ہو جائے اور وہ نماز میں سستی کرے تو سرپرست اسے مار کر نماز پڑھائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"مُرُوا أَوْلادَكُمْ بِالصَّلاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ"

"تمہارے بچے سات برس کے ہوں تو انھیں نماز کی تلقین کرو۔جب دس برس کے ہوجائیں اور نماز نہ پڑھیں توانھیں مارو۔اوران کے بستر الگ الگ کردو۔"[10]

(2)۔نماز کا وقت ہوجائے تو اس کی ادائیگی میں تاخیرجائزنہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ إِنَّ الصَّلو‌ٰةَ كانَت عَلَى المُؤمِنينَ كِتـٰبًا مَوقوتًا ﴿١٠٣﴾... سورة المائدة

"یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔"[11]

البتہ سفر وغیرہ میں ظہر کو عصر اور مغرب کو عشاء کے ساتھ ملاکر پڑھنے کی رخصت ہے۔لیکن رات کی نماز کو دن میں یا دن کی نماز کو رات میں ادا کرنا درست نہیں۔اسی طرح نماز فجر کو طلوع آفتاب کے بعد(بلاوجہ)  پڑھناکسی صورت میں (جنابت ہو یانجاست) جائز نہیں،بلکہ ممکن حد تک اسے جلدی ادا کرنا چاہیے۔

بعض نادان لوگ علاج کی خاطر جب ہسپتال میں بیڈ پر ہوتے ہیں اور وضو کرنے کے لیے نیچے اتر نہیں سکتے یا ناپاک کپڑے تبدیل نہیں کرسکتے یا ان کے پاس تیمم کے لیے مٹی موجود نہیں ہوتی یاانھیں پانی یا مٹی مہیا کرنے والا کوئی ساتھی نہیں ہوتا تو اس حالت میں نماز کو مؤخر کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہمارا عذر ختم ہوجائےگا تو تب نماز ادا کرلیں گے۔اس طرح بسا اوقات وہ کئی ایک نمازیں چھوڑدیتے ہیں۔یہ بہت بڑی غلطی اور خطا ہے اور نماز کاضائع کرنا ہے،جس کاسبب لاعلمی اور مسائل دریافت نہ کرنا ہے۔ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ ہرحال  میں وقت پر نماز ادا کرے اور وہ اسے کفایت کرجائےگی۔(ان شاء اللہ تعالیٰ) اگرچہ اس مجبوری کی حالت میں وہ تیمم نہ کرسکا یا ناپاک کپڑے تبدیل نہ ہوسکے ہوں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم...﴿١٦﴾... سورة التغابن

"جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔"[12]

اگر کسی مریض نے(جوقبلہ کی طرف رخ نہیں کرسکتا)غیر قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرلی تو اس کی نماز درست اور صحیح ہوگی۔

جس شخص نے نماز کی فرضیت واہمیت کا انکار کیے بغیر محض سستی اور کوتاہی سے نماز چھوڑدی تو اس نے(اہل علم کی صحیح رائے کے مطابق) کفر کا ارتکاب کیا۔اس بارے میں ایک دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"بين العبد وبين الكفر ترك الصلاة"

"آدمی اور اس کے کفر کے درمیان فرق،نماز کا چھوڑنا ہے۔"[13]

جوشخص نماز کا تارک ہو،اس کے اس عمل کی عام تشہیر کرنی چاہیے حتیٰ کہ اس  رسوائی سے شرمندہ ہوکر نمازادا کرنے لگے۔اگر وہ نماز ادا نہ کرے تو اسے سلام نہ کہا جائے،اس کی دعوت قبول نہ کی جائے حتیٰ کہ توبہ کرے اور نماز قائم کرے۔کیونکہ نماز دین کا ستون ہے اور یہی عمل مسلمان اور کافر کے درمیان فرق وامتیاز کرنے والا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص جب تک نماز ضائع کرتارہےگا،اس کا کوئی عمل بھی نفع مند اورمفید نہ ہوگا۔ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا کرتے ہیں۔

اذان اور اقامت کے احکام

کتب احادیث میں پانچ نمازوں کی ادائیگی کے اوقات مقرر ہیں۔ان اوقات سے پہلے نماز ادا کرنا جائز نہیں۔چونکہ اکثر لوگوں کو نماز کا وقت ہوجانے کا علم نہیں ہوتا یاکسی کام میں اس قدر مشغول ہوتے ہیں کہ نماز کی طرف ان کی توجہ نہیں رہتی۔ان وجوہات کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اذان کو مشروع فرمایا ہے۔تاکہ لوگوں کو نماز کےوقت کی اطلاع ہوجائے۔

(1)۔اذان کا حکم ہجرت کے پہلے سال ہی جاری ہوگیا تھا۔اس کی مشروعیت کا یہ سبب تھا کہ عام لوگوں کو نماز کے وقت کا علم نہ ہوتاتھا،چنانچہ اس کے لیے انھوں نے کوئی علامت مقرر کرنے کے لیے باہم مشورہ کیا۔سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو خواب میں وہ کلمات بتائے گئے جو وحی کے ذریعے اذان کی صورت میں مقرر ہوگئے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نودِىَ لِلصَّلو‌ٰةِ مِن يَومِ الجُمُعَةِ فَاسعَوا إِلىٰ ذِكرِ اللَّهِ وَذَرُوا البَيعَ ذ‌ٰلِكُم خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم تَعلَمونَ ﴿٩﴾... سورة الجمعة

"اے وه لوگو جو ایمان لائےہو! جمعہ کے دن نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو"[14]

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذا نادَيتُم إِلَى الصَّلو‌ٰةِ ... ﴿٥٨﴾... سورة المائدة

"اور جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو۔"[15]

(2)۔اذان اور اقامت ہر ایک میں ذکر کے مخصوص کلمات ہیں جو عقیدہ ایمان پر مشتمل ہیں،اذان کے ابتدائی کلمات میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور اس کے جلال وعظمت کاذکر ہے۔پھر توحید باری تعالیٰ کااثبات اور ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کا اقرار واعلان ہے۔پھر نماز(جو دین اسلام کاستون ہے)کی ادائیگی کی طرف دعوت عام ہے۔پھر اس کامیابی کی طرف دعوت ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کی نعمتوں کی صورت میں جنت میں ملے گی۔پھراللہ تعالیٰ کی کبریائی وبزرگی کے اعلان کاتکرار ہے۔اور آخر میں وہ کلمہ اخلاص ہے جسے سب سے افضل اور اعلیٰ ذکر قراردیا گیاہے جس کا وزن اس قدر ہے کہ اگر اس کا مقابلہ وموازنہ سات آسمانوں سے اور جومخلوقات ان میں ہیں اور سات زمینوں اور جو کچھ ان میں ہے،سے کیا جائے تو یہ کلمہ وزن کے لحاظ سے بڑھ جائے۔

(3)۔اذان کی فضیلت میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔آپ نے فرمایا:

"المؤذِّنُونَ أَطوَلُ النّاسِ أَعنَاقًا يومَ القِيامة"

"روز قیامت موذنوں کی گردنیں سب سے اونچی ہوگی۔"[16]

(4)۔اذان اور اقامت فرض کفایہ ہے،یعنی ایساحکم ہے جس کی ادائیگی تمام مسلمانوں پر فرض ہے،لیکن اگر اسے مناسب تعداد افراد ادا کردیں تو سب کی طرف سے کافی ہوگا۔وہ گناہ گار نہ ہوں گے۔

(5)۔اذان اور اقامت دونوں اسلام کے ظاہری شعار ہیں۔یہ دونوں چیزیں صرف مردوں کے لیے پانچ نمازوں میں مشروع ہیں،وہ مقیم ہوں یاسفر کی حالت میں ہوں۔جس ملک یا شہر کے لوگ اذان اوراقامت کو چھوڑدیں ان سے قتال ہوگا کیونکہ یہ اسلام کے ایسے ظاہری شعائر ہیں جنھیں چھوڑنا اہل اسلام کے لیے جائز نہیں۔

(6)۔مؤذن کوان اہم صفات کا حامل ہونا چاہیے:۔

1۔اس کی آواز بلند اور اونچی ہو کیونکہ اس سے اعلان کا مقصد بہتر طور پر پورا ہوتا ہے۔

2۔مؤذن قابل اعتماد اور امین شخص ہونا چاہیے کیونکہ نماز کاوقت ہوجانے اور  روزہ رکھنے یا افطار کرنے میں اس کی اذان پر اعتبار واعتماد کیاجاتاہے۔

3۔اسے وقت دیکھنا اور معلوم کرنا آتا ہوتا کہ اول وقت اذان کہہ سکے۔

(6)۔اذان پندرہ جملوں سے پر مشتمل ہے۔سیدنا بلال  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی موجودگی میں ہمیشہ یہی اذان کہا کرتے تھے۔مستحب یہ ہے کہ مؤذن اذان کے کلمات ٹھہر ٹھہر کرکہے لیکن انھیں نہ زیادہ لمبا کرے اور نہ کھینچے۔ہر جملے پر وقف کرے۔اذان دیتے وقت وہ قبلہ روہو۔اپنی انگلیاں کانوں میں ڈالے تاکہ آواز مزید بلند ہوجائے۔جب "حي علي الصلاة" کے کلمات کہے تو دائیں جانب منہ پھیرے۔اسی طرح "حي علي الفلاح" کا جملہ کہے تو بائیں طرف چہرہ پھیرے۔فجر کی اذان ہوتو حی "حي علي الفلاح" کے بعد " الصلاة خير من النوم" کا جملہ دو مرتبہ کہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا حکم دیا ہے۔علاوہ ازیں یہ وقت ایسا ہوتا ہے جس میں عموماً لوگ سوتے ہیں۔

(7)۔مؤذن مسنون اذان کے شروع یا آخر میں کسی قسم کے الفاظ کا اضافہ نہ کرے کیونکہ یہ بدعت ہے،مثلاً:تسبیحات کہنا،اشعار پڑھنا،دعائیہ کلمات کہنا یا اذان سے پہلے یا بعد میں بلند آواز کے ساتھ "الصلاة والسلام عليك يا رسول الله" كہنا۔یہ سب کام حرام اور بدعت ہیں۔جو شخص ایساکرے اس کی تردید کرنا ضروری ہے۔

(8)۔اقامت گیارہ کلمات پر مشتمل ہے۔اقامت کے کلمات قدرے جلدی جلدی کہے جائیں کیوکہ اقامت کامقصد حاضرین کو نماز کے لیے کھڑےہونے کی اطلاع دیناہے،اس لیے اقامت کو آہستہ آہستہ اور بلند آوازسے کہنے کی ضرورت نہیں۔مستحب یہ ہے کہ جو اذان  کہے وہی اقامت کہے۔اقامت امام کی اجازت سےکہی جائے کیونکہ اقامت کا دارومدار امام کی صوبدید پر ہے،لہذا جب امام کی طرف سے اشارہ ہوتب اقامت کہی جائے۔

(9)۔وقت سے پہلے اذان نہ کہی جائے کیونکہ اذان کا مقصد نماز کاوقت شروع ہونے کی اطلاع دینا ہے جو وقت سے پہلے اذان دینے سے حاصل نہیں ہوتا۔نیز اس سے سننے والے کو نماز کے وقت  میں مغالطہ پڑجاتاہے۔اگر صبح کی اذان صبح صادق سے قبل ہوجائے تو جائز ہے تاکہ لوگ پہلے بیدار ہوکرنماز کی تیاری کرلیں۔لیکن ایسی صورت میں ضروری ہے کہ طلوع فجر کے وقت ایک اور اذان دی جائے تاکہ لوگوں کو نماز،روزے کے وقت کا علم ہوجائے۔

(10)۔مؤذن کی اذان کاجواب دینامسنون ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ  جو کلمہ مؤذن کہے،سننے والا بھی جواب میں وہی کلمہ دہرائے لیکن "حي علي الصلاة" اور"حي علي الفلاح" کے جواب میں "لاحول ولاقوةالابالله"کہے۔[17]

جب مؤذن اذان دے کر فارغ ہوجائے تو موذن اور سننے والا(دونوں) درودشریف  پڑھیں اور پھر یہ دعا پڑھیں:

"اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ"

"اے اللہ! اسے اس مکمل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے رب!محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو خاص تقرب اور خاص فضیلت عطا فرما اور انھیں اس مقام محمود پر فائز فرما جس کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے۔"[18]

(11)۔جب اذان ہوجائے تب مسجد سے باہرنکلنا جائز نہیں،البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہویا واپس آجانے کی نیت ہوتو کوئی حرج نہیں۔

(12)۔اذان کے ابتدائی کلمات سنتے ہی کسی بیٹھے ہوئے شخص کا فوراً کھڑے ہوجانا درست نہیں کیونکہ اس سے شیطان سے مشابہت ہوتی ہے بلکہ وہ آرام سے اذان سنے اور اس کا جواب دے کرمسجد کا رخ کرے اور تمام مصروفیات ترک کردے۔[19]

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿فى بُيوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرفَعَ وَيُذكَرَ فيهَا اسمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالغُدُوِّ وَالءاصالِ ﴿٣٦رِجالٌ لا تُلهيهِم تِجـٰرَةٌ وَلا بَيعٌ عَن ذِكرِ اللَّهِ وَإِقامِ الصَّلو‌ٰةِ وَإيتاءِ الزَّكو‌ٰةِ يَخافونَ يَومًا تَتَقَلَّبُ فيهِ القُلوبُ وَالأَبصـٰرُ ﴿٣٧﴾... سورة النور

"ان گھروں میں جن کے بلند کرنے، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ۔ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز کے قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی "[20]


[1]۔صحیح البخاری الصلاۃ باب کیف فرضت الصلاۃ فی الاسراء حدیث 349 وصحیح مسلم الایمان باب الاسراء برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  حدیث 162۔

[2]۔النساء:4/103۔

[3]۔البینۃ 98/5۔

[4]۔ابراہیم 14/31۔

[5]۔الروم 30/17۔18۔

[6]۔طہٰ 20/14۔

[7]۔صحیح مسلم المساجد باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ۔حدیث 684۔

[8]۔الانعام 6/160۔

[9]۔صحیح مسلم الحج باب  صحۃ حج الصبی واجر من حج بہ حدیث 1336۔

[10]۔سنن ابی داود الصلاۃ باب متی یومر الغلام بالصلاۃ حدیث 495 ومسند احمد 2/187 واللفظ لہ۔

[11]۔النساء:4/103۔

[12]۔التغابن 64/16

[13]۔صحیح مسلم الایمان باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ حدیث 82 وسنن ابی داود السنۃ باب فی رد الارجاء حدیث 4678 واللفظ لہ۔

[14]۔الجمعۃ 9/62۔

[15]۔المائدۃ 5/58۔

[16]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب فضل الاذان وھرب الشیطان عند سماعہ حدیث 387۔

[17]۔صحیح مسلم الصلاۃ باب استحباب القول مثل قول المؤذن۔۔۔حدیث 385۔

[18]۔صحیح البخاری الاذان باب الدعاء عندالنداء حدیث 614۔

[19]۔اذان سنتے ہی اٹھنے اور بھاگنے میں مسلمان اور شیطان میں فرق ہے۔پہلا مسجد کی طرف نماز ادا کرنے کے لیے اٹھنا اور بھاگنا ہے جبکہ دوسرا اس کے برعکس ہے ،لہذا تشبیہ محل نظر ہے۔(صارم)

[20]۔النور۔24/36۔37۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

نماز کے احکام ومسائل:جلد 01: صفحہ 81

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ