سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(16) حیض اور نفاس کے احکام

  • 23691
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 2195

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حیض اور نفاس کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ قُل هُوَ أَذًى فَاعتَزِلُوا النِّساءَ فِى المَحيضِ وَلا تَقرَبوهُنَّ حَتّىٰ يَطهُرنَ فَإِذا تَطَهَّرنَ فَأتوهُنَّ مِن حَيثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّ‌ٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ ﴿٢٢٢﴾... سورة البقرة

"آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وه پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وه پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے"[1]

حیض ایک طبعی اور فطری خون ہے جو مقررہ ایام میں عورت کے رحم سے نکلتا ہے۔اللہ تعالیٰ نےاسے ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی خوراک بنایا ہے کیونکہ اسے وہاں خوراک کی حاجت ہوتی ہے۔اگر ماں کے پیٹ میں جانے والی خوراک میں رحم کا بچہ شریک ہوجاتا توعورت کمزور ہوجاتی۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خون حیض کو بچے کی غذا بنادیا۔اسی بنا پر حاملہ عورت کوحیض نہیں آتا۔جبب بچہ ییدا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس نومولود کی خوراک دودھ کی شکل میں ماں کے پستانوں میں منتقل کردیتا ہے جو وہاں سے حاصل کرتا ہے،اس وجہ سے دودھ پلانے والی عورت کے حیض  میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔جب عورت حمل اور رضاعت کےمراحل سے فارغ ہوجاتی ہے تو اس خون کی ماں کے رحم  میں ضرورت نہیں رہتی،چنانچہ ہر ماہ تقریباً چھ یا سات دن اسے حیض کا خون آتا ہے،کبھی عورت کے مزاج یا خاص حالات کی وجہ سے اس میں کمی وبیشی بھی ہوجاتی ہے۔

حائضہ عورت کے حیض کے ایام اور حیض کے اختتام سے متعلق کتاب وسنت میں مفصل احکام ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:

(1)۔حائضہ عورت کے لیے حیض کے ایام میں نماز اورروزہ منع ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدہ فاطمہ بنت ابی جیش رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے فرمایا:

"إذا أقبلت الحيضة فدعي الصلاة"

"جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دینا۔"[2]

اگر کسی عورت نے دوران حیض روزہ رکھ لیا یا نماز ادا کرلی تو اس کا روزہ یانماز  صحیح اور مقبول نہ ہوں گے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے منع فرمایا ہے۔یہ نہی عدم صحت کی متقاضی ہے بلکہ نماز روزہ رکھنے سے حائضہ عورت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمان شمار ہوگی۔

جب عورت حیض سے پاک وصاف ہوجائے تو روزے کی قضا دے لیکن نماز کی قضا نہ دے،سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے کہا:

"كُنَّا نَحِيضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَطْهُرُ فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّوْمِ، وَلَا يَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں جب ہم حیض کے ایام سے فارغ ہوتیں تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم ہوتا لیکن نماز کی قضا کا حکم نہ ملتا۔"[3]

(2)۔حائضہ کے احکام میں یہ بھی ہے کہ وہ بیت اللہ کا طواف نہ کرے،قرآن مجید کی(پکڑ کر) تلاوت نہ کرے،مسجد میں نہ بیٹھے اور اس کا خاوند اس سے صحبت نہ کرے کیونکہ وہ حرام ہے حتیٰ کہ اسے حیض آنا بند ہوجائے اور غسل کرلے۔اللہ تعالیٰ نےفرمایا:

﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ قُل هُوَ أَذًى فَاعتَزِلُوا النِّساءَ فِى المَحيضِ وَلا تَقرَبوهُنَّ حَتّىٰ يَطهُرنَ فَإِذا تَطَهَّرنَ فَأتوهُنَّ مِن حَيثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّ‌ٰبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ ﴿٢٢٢﴾... سورة البقرة

"آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وه پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وه پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے"[4]

آيت میں(فَاعْتَزِلُوا) سے جماع نہ کرنا مراد ہے۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

"اصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ إِلا النِّكَاحَ"

"جماع کے علاوہ حائضہ سے ہر کام کرسکتے ہو۔"[5]

(3)۔خاوند کو حائضہ بیوی کے ساتھ(فرج میں جماع کے علاوہ) معانقہ اور بوس وکنار وغیرہ کی اجازت ہے۔

(4)۔خاوند کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کوحالت حیض میں طلاق دے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَطَلِّقوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ...﴿١﴾... سورة الطلاق

"اے نبی!(اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انھیں طلاق دو۔"[6]

آیت میں کلمہ(لِعِدَّتِهِنَّ) سے مراد یہ ہے کہ وہ  حیض سے پاک ہوں اور ان سے اس  طہر میں صحبت بھی نہ کی گئی ہو۔علاوہ ازیں ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں حکم دیا کہ وہ بیوی سے رجوع کریں اور اگرطلاق کا ارادہ ہوتوحالت طہر میں طلاق دیں۔[7]

(5)۔جب حیض کا خون بند ہوجائے تو عورت پاک ہوجاتی ہے۔اب اس پر غسل کرنا فرض ہے۔غسل کے بعد ہروہ کام جو حیض کے سبب ممنوع تھا،انھیں کرنے کی اجازت ہے۔

(6)۔اگر طہارت حاصل کرلینے کے بعد مٹیالا پانی یا پیلا پانی دیکھے تو اس پر فکرمند نہ ہوکیونکہ سیدہ ام عطیہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا قول ہے:

"كنا لا نعد الصفرة والكدرة بعد الطهر شيئا"

"ہم (عہد نبوی میں) پاک ہوجانے کے بعد مٹیالا یا پیلا پانی کچھ شمار نہ کرتی تھیں۔"[8]

تنبیہ:۔

اگرحائضہ یا نفاس والی عورت غروب آفتاب سے پہلے پاک ہوجائے تواسے اس دن کی ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرنا ہوں گی۔اگرصبح صادق سے پہلے پہلے پاک ہوجائے تو اس رات کی مغرب اورعشاء کی نماز ادا کرنا اس پر لازم ہے کیونکہ دوسری نماز کاوقت حالت عذر میں پہلی نماز کا وقت بھی ہوتا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:" جمہور علماء میں سے امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  ،شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  اور احمد  رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے کہ اگر حائضہ عورت دن کے آخری حصہ میں پاک ہوجائے تو وہ ظہر اور عصر،دونوں نمازیں ادا کرےگی،اگررات کے آخری حصے میں پاک ہوتو مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کرے گی۔ سیدنا عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے یہی منقول ہے کیونکہ حالت عذر میں یہ وقت دونوں نمازوں کے درمیان مشترک ہے۔جب وہ دن کے آخری حصے میں پاک ہوتو ظہر کا وقت باقی ہے۔لہذا عصر سے پہلے ظہر ادا کرے۔اسی طرح اگر رات کے آخری حصے  میں پاک ہوتو حالت عذر میں مغرب کا وقت باقی ہے تو اسے عشاء سےپہلے ادا کرے۔"[9]

(7)۔اگر کسی نماز کا وقت شروع ہوگیا لیکن اس نے نماز ادا نہ کی کہ وہ حیض یانفاس والی ہوگئی تو راجح قول یہی ہے کہ اس پر اس نماز کی قضا نہیں،چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  اس مسئلے سے متعلق لکھتے ہیں:

"امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور مالک  رحمۃ اللہ علیہ  کا مسلک دلائل کے لحاظ سے قوی ہے کہ ایسی صورت میں عورت پر کچھ لازم نہیں کیونکہ قضا کا وجوب کسی امر جدید سے ہوتا ہے جو یہاں نہیں ہے۔باقی رہا اس کانماز میں تاخیر کرناتو اس میں جوازتھا،لہذا وہ کوتاہی کی مرتکب نہیں ہوئی۔ سویا ہوا بھول جانے والا بھی کوتاہی کے مرتکب نہیں ہیں،اگرچہ نماز کا وقت گزر جائے کیونکہ سوجانے والا جب سوکراٹھے یا بھولنے والے کو جب یاد آجائے تو ان کا وہی وقت نماز ہے۔"[10]


[1]۔البقرۃ:۔222۔

[2]۔صحیح البخاری الحیض باب اذا رات المستحاضہ الطھر حدیث 331 وصحیح مسلم الحیض باب المستحاضۃ وغسلھا وصلاتھا حدیث 333۔

[3]۔صحیح البخاری الحیض باب لا تقضی الحائض الصلاۃ حدیث 321 وصحیح مسلم الحیض باب وجوب قضاء الصوم علی الحائض دون الصلاۃ حدیث 335 وسنن ابی داود الطھارۃ باب فی الحائض لا تقضی الصلاۃ حدیث 262۔263۔وسنن النسائی الصیام باب وضع الصیام عن الحائض حدیث 2320 واللفظ لہ۔

[4]۔البقرۃ:۔222۔

[5]۔صحیح المسلم الحیض باب جواز غسل الحائض راس زوجھا۔۔۔حدیث 302 وسنن ابی داود الطھارۃ باب مواکلۃ الحائض ومجامعتھا حدیث 258۔

[6]۔الطلاق 1/65۔

[7]۔صحیح البخاری التفسیر سورۃ الطلاق باب1 حدیث 4908۔وصحیح مسلم الطلاق باب تحریم طلاق  الحائض بغیر رضاھا۔۔۔،حدیث 1471۔

[8]۔صحیح البخاری الحیض باب الصفرۃ والکدرۃ فی غیر ایام الحیض حدیث 326 وسنن ابی داود الطھارۃ باب فی المراۃ تری الصفرۃ والکدرۃ بعد الطھر حدیث 307 واللفظ لہ۔

[9]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  21/434 بعض علماء کا یہ موقف بھی محل نظر ہے کیونکہ نماز کا وقت متعین ہے جیسا کہ جبریل امین نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو بتایا تھا۔عذر کی بنا پر ایک نماز کو دوسری نماز کے وقت میں ادا کرنے سے  اشتراک وقت ثابت نہیں ہوجاتا۔دوسری بات یہ ہےکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی میں عورتوں کے ساتھ بارہا ایسا معاملہ پیش آیا لیکن آپ نے کسی کو عصر کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔محلی ابن حزم 2/198 وفتاوی الدین الخالص 3/61 (عثمان منیب)۔

[10]۔مجموع الفتاویٰ لشیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  23/335۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 71

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ