سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) نجاستیں دور کرنے کے احکام اور طریقے

  • 23690
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 2939

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نجاستیں دورکرنے کے احکام اور طریقے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس طرح نماز کے لیے وضو کرکے اعضائے بدن کو پاک صاف کرنا ایک مسلمان سے مطلوب ہے۔اسی طرح اس سے اپنے بدن،لباس اورنماز کی جگہ کو ہرقسم کی گندگی سے پاک رکھنا مطلوب ومقصود ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿وَثِيابَكَ فَطَهِّر ﴿٤﴾... سورة المدثر

"اپنے کپڑوں کو پاک رکھاکر۔"[1]

حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عورت کوکپڑوں پر لگا ہوا حیض کاخون دھو ڈالنے کا حکم دیا تھا۔[2]

اس موضوع کی نزاکت کے پیش نظر یقیناً آپ کا مطالبہ ہوگا کہ ہم یہاں نجاستوں کو زائل کرنے کے احکام اور طریقوں پر تفصیل سے روشنی ڈالیں تاکہ ہمارے مسلمان بھائی اس سےمستفید ہوسکیں۔

اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر فقہائے کرام اپنی کتب میں"ازالة النجاسة" کے عنوان سے ایک مستقل باب قائم کرتے ہیں،جس میں اعضائے وضو،بدن،لباس،برتن،بستر،چٹائی اور نماز کی جگہ پر لگ جانے والی نجاستوں کو دور کرنے اور انھیں پاک صاف کرنے کے مسائل واحکام تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔ان جملہ احکام کا خلاصہ پیش خدمت ہے:

(1)۔نجاست زائل کرکے طہارت حاصل کرنے کااول اور اصل ذریعہ"پانی"ہے۔اللہ تعالیٰ نے پانی کے اس وصف کو یوں بیان فرمایا ہے:

"وَيُنَـزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ"

"اور تم پر آسمان سے پانی برسارہاتھا کہ اس  پانی کے ذریعے سے تم کو پاک کردے اور تم سے شیطانی وسوسے دفع کردے۔"[3]

(2)۔اگر نجاست زمین،دیوار،حوض یا کسی پتھر وچٹان پر لگی ہوتو اس پرایک ہی بار پانی بہاکر دھودیا جائے ،نجاسب زائل ہوجائے تو حصول طہارت کے لیے کافی ہے۔حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کردیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس جگہ پر ہانی کا ڈول بہادینے کا حکم دیا۔[4]

بارش یا سیلاب کے بہاؤ سے بھی زمین پاک ہوجاتی ہے۔یعنی جب اس پر پانی بہادیا جائے یا بارش ہوجائے یا اس زمین پر بارش کا پانی گزر جائے اور نجاست دھل جائے تو وہ نجس جگہ صاف ہوجاتی ہے۔

(3)۔اگرکتے یا خنزیر کالعاب وغیرہ لگ جائے یا وہ کسی برتن میں منہ ڈال دیں تو حصول طہارت کے لیے اسے سات مرتبہ پانی سے اور ایک مرتبہ مٹی سے دھویا اور صاف کیاجائے۔ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:

"طَهُورُ إِنَاءِ أَحَدِكُمْ إِذَا وَلَغَ فِيهِ الْكَلْبُ أَنْ يَغْسِلَهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ ، أُولاهُنَّ بِالتُّرَابِ"

"جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تووہ اس برتن کو سات مرتبہ پانی سے دھوئے۔پہلی مرتبہ مٹی سے صاف کرے۔"[5]

واضح رہے اس حکم کا اطلاق برتنوں کے علاوہ کپڑوں ،بستروں اور چٹائیوں پر بھی ہوتا ہے۔

(4)۔اگر پیشاب،پاخانہ یا خون وغیرہ کی نجاست لگی ہو تو خشک ہونے کی صورت میں اسے کھرچ دیا جائے ،بعدازیں پانی کے ساتھ دھو دیاجائے کہ اس کاوجود اور رنگ باقی نہ رہے۔دھونے کے قابل اشیاء تین قسم کی ہوتی ہیں:

1۔جن اشیاء کا نچوڑنا ممکن ہو،مثلاً:کپڑا وغیرہ۔ایسی اشیاء کو دھونے کے بعد نچوڑنا لازمی ہے۔

2۔جن اشیاء کانچوڑ ناممکن نہ ہو،البتہ انھیں الٹا یا پلٹا یاجاسکتا ہومثلاًچمڑا ،قالین وغیرہ۔ایسی اشیاء کو دھوتے وقت الٹانا،پلٹانا ضروری ہے۔

3۔وہ اشیاء جنھیں نچوڑنا یا پلٹانا ممکن نہ ہوتو اسے کسی ڈنڈے وغیرہ سے کوٹ لیا جائے اور اس پر کوئی بھاری چیزرکھ دی جائے تاکہ دھونے کے بعد اس میں موجود پانی حتی الامکان خارج ہوجائے۔

(5)۔اگر بدن یا کپڑے پر نجاست لگ جائے اور اس کی جگہ مخفی ہوتو جس جگہ پر نجاست کا احتمال ہواسے دھولیا جائے،یہاں تک کہ نجاست کے زوال کایقین ہوجائے۔اگر نجاست کی جگہ کا علم نہ ہوتو وہ چیز مکمل طورپر دھوڈالی جائے۔

(6)۔اگر چھوٹا بچہ(جوکھاناکھانے کے قابل نہ ہو)پیشاب کردے تو اس پر پانی کے چھینٹے مار دیے جائیں تو طہارت حاصل کرنے کے لیے کافی ہے جیسا کہ سیدہ ام قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے روایت ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں لائیں۔بچے کو آپ نے اپنی گود میں بٹھادیا تو اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پانی منگوایا اوراپنے کپڑوں پر چھینٹے مارلیے،دھویا نہیں۔[6]

(7)۔اگر بچہ اپنی مرضی اور خواہش سے کھانا کھانا ہوتو اس کا پیشاب بڑے آدمی کی طرح پلید ہے۔اسی طرح چھوٹی بچی کے پیشاب کا حکم بڑی لڑکی کی طرح ہے۔یعنی ان تمام صورتوں میں پیشاب کو دیگر نجاستوں کی طرح پانی سے دھویاجائے گا۔

نجاست کی تین قسمیں ہیں:

1۔نجاست غلیظہ،جیسے کتے کالعاب وغیرہ۔

2۔نجاست خفیفہ،جیسے کھانا نہ کھانے والے بچے کاپیشاب۔

3۔نجاست متوسطہ ،جیسے مذکورہ بالا کے علاوہ باقی نجاستیں۔

ہمارے لیے ضروری ہے کہ جانوروں کی لید اور پیشاب کے پاک یاناپاک ہونے سے متعلق شرعی احکام معلوم کریں تاکہ مزید بصیرت حاصل ہو۔

میرے بھائی! جس جانور کا گوشت کھانا حلال ہے اس کا گوبر اور پیشاب بھی پاک ہے ،جیسے اونٹ ،گائے،بکری اور بھیڑ وغیرہ۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبیلہ عرینہ کے لوگوں کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیماری کے علاج کے لیے وہاں چلے جائیں جہاں ہمارے صدقہ کے اونٹ ہیں اور ان کاپیشاب اور دودھ پئیں۔[7]

اگر کوئی کہے کہ یہ علاج ایک ضرورت اور مجبوری کی حالت میں مقرر ہوا تھا تو ہم گزارش کریں گے کہ آپ نے انھیں یہ حکم نہیں دیا تھا کہ نماز کی ادائیگی کے وقت ان اونٹوں کے پیشاب اور گوبر کے اثرات کو پانی سے دھولیا کریں۔نیز صحیح بخاری میں ایک روایت ہے:" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مسجد بنانے سے پہلے بکریوں کے باڑے میں نماز ادا کرلیتے تھے۔"[8]

اور دوسروں کو بھی اس کی اجازت دیتے تھے،اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ بکریاں وہاں پیشاب بھی کرتی تھیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہاہے:"لید کے بارے میں اصل حکم طہارت کا ہے سوائے اس لید کے جسے شریعت نے مستثنیٰ کردیا ہے۔"[9]

(8)۔جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتاہے ان کا جوٹھا پاک ہے۔

(9)۔ان کے علاوہ بلی کا جوٹھا بھی پاک ہے ،چنانچہ بلی کے بارے میں سیدنا ابوقتادہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّهَا مِنْ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَات"

"یہ (بلی) پلید نہیں ہے،یہ تمہارے پاس کثرت سے آنے جانے والوں میں سے ہے۔"[10]

آپ نے بلی کو گھروں میں خدمت کے لیے آنے جانے والے غلاموں کے ساتھ تشبیہ دی جن سے پردہ کرنے میں مشکل پیش آتی ہے،نیز بلی کے جوٹھے سے بچنا مشکل تھا،اس لیے بلی کو پاک قراردے کرحرج اور مشقت کو ختم کردیا۔

بعض علمائے کرام نے بلی سے چھوٹے پرندوں اورجانوروں پر بلی والا حکم لگایا ہے،یعنی چھوٹے پرندوں کاجوٹھا بلی کے جوٹھے کی طرح پاک ہے نجس نہیں کیونکہ علت طواف دونوں میں مشترک ہے۔

بلی اور جو جانور بلی کے حکم میں ہیں ان کے سوا جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتاان کی لید،پیشاب اور جوٹھا پلید ہے۔

اے مسلمان بھائی!آپ کو ظاہری وباطنی طہارت کا اہتمام کرنا چاہیے۔باطنی طہارت توحید اور قول وعمل میں اخلاص کی بدولت میسر آتی ہے اور ظاہری طہارت ہر قسم کی گندگیوں اور پلیدیوں کو دور کرکے حاصل ہوتی ہے۔ہمارا دین حقیقی اور حکمی نجاستوں سے پاک وصاف رہنے کی تاکید کرتا ہے۔مسلمان پاک صاف ہے اور پاکیزگی کو اختیار کرتاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"الطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ"

"طہارت نصف ایمان ہے۔"[11]

اللہ کے بندے !طہارت کا اہتمام کرو،نجاستوں سے دور رہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خبر دی ہے کہ عام طور پر قبر کا عذاب پیشاب سے بے احتیاطی کے باعث ہوتا ہے۔[12]

جب تم نجاست سے آلودہ ہوتو حتی الامکان حصول طہارت میں جلدی کروتاکہ تم پاک رہو۔خصوصاً نماز کا ارادہ ہوتو سستی نہ کیجئے۔مسجد میں داخل ہوتے وقت اپنے جوتوں کو اچھی طرح دیکھ لیں،اگران کو نجاست لگی ہوتو صاف کرلیں۔نجاست سے آلودہ جوتے مسجد میں لے کر نہ جائیے اور نہ انھیں مسجد میں رکھیے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس قول وعمل کی توفیق دے جو اسے محبوب اور پسند ہو۔


[1]۔المدثر 4/74۔

[2]۔ھذا معنی الحدیث واصلہ فی صحیح البخاری الوضوء باب غسل الدم،حدیث 227 والحیض باب غسل دم المحیض حدیث 307 وصحیح مسلم الطھارۃ باب نجاسۃ الدم وکیفیۃ غسلہ حدیث 291۔

[3]۔الانفال:8/11۔

[4]۔ھذا معن الحدیث واصلہ فی صحیح البخاری الوضوء باب ترک النبی صلی اللہ علیہ وسلم والناس الاعرابی۔۔۔حدیث 219،وصحیح مسلم الطھارۃ باب وجوب غسل  البول وغیرہ من النجاسات۔۔۔حدیث 284۔

[5]۔صحیح البخاری الوضوء باب اذا شرب الکلب فی اناء احدکم فلیغسلہ سبعا حدیث 172 وصحیح مسلم الطھارۃ باب حکم ولوغ الکلب حدیث 279۔وسنن النسائی المیاہ باب تعفیر الاناء بالتراب من ولوغ الکلب فیہ حدیث 339 واللفظ لہ۔

[6]۔صحیح البخاری الوضوء باب بول الصبیان حدیث 223 وصحیح مسلم الطھارۃ باب حکم بول الطفل الرضیع۔۔۔حدیث 287۔

[7]۔صحیح البخاری الوضوء باب ابوال الابل والدواب والغنم ومرابضھا حدیث 233 وصحیح مسلم القسامۃ والمحاربین باب حکم المحاربین والمرتدین حدیث 1671۔

[8]۔صحیح البخاری الوضوء باب ابوال الابل والدواب والغنم ومرابضھا حدیث 234 وصحیح الحیض باب الوضوء من لحوم الابل حدیث 360۔

[9]۔الفتاویٰ الکبریٰ الاختیارات العلمیۃ باب ازالۃ النجاسۃ 5/313۔

[10]۔جامع الترمذی الطھارۃ باب ماجاء فی سور الھرۃ حدیث 92۔

[11]۔صحیح مسلم الطھارۃ باب فضل الوضوء حدیث 223۔

[12]۔صحیح البخاری الوضوء باب من الکبائر ان لا یستتر من بولہ،حدیث 216،وصحیح مسلم،الطھارۃ۔باب الدلیل علی نجاسۃ البول ووجوب الاستبراء منہ،حدیث 292 والمستدرک للحاکم 1/183۔184۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 67

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ