سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13) غسل کے احکام

  • 23688
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 3869

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

غسل کے احکام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پچھلے صفحات پر آپ نے احکام طہارت میں سے حدث اصغر،یعنی وضو کے مسائل اور وضو کو توڑنے والی اشیاء اور صورتوں کا مطالعہ کیا۔اب ہم حدث اکبر،یعنی جنابت،حیض اور نفاس سے متعلق احکام طہارت بیان کرتے ہیں،اس طہارت کا نام"غسل" ہے،جس میں تمام بدن پر مخصوص  طریقے کے ساتھ پانی استعمال کیا جاتا ہے،جس کی تفصیل آپ یہاں ملاحظہ فرمائیں گے۔واضح رہے،غسل جنابت فرض ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ "

"اور اگرتم جنبی ہوتو اچھی طرح طہارت حاصل کرلو۔"[1]

 اہل علم نے بیان کیا ہے کہ عہد جاہلیت میں غسل جنابت کیا جاتا تھا اور یہ دین ابراہیمی کاایک ایسا مسئلہ تھا جو عربوں میں چلا آرہاتھا۔

موجبات غسل

کسی مسلمان کو درج ذیل چھ چیزوں میں سے کوئی ایک بھی پیش آجائے تو اس پر غسل فرض ہوجاتا ہے۔

(1)۔منی کانکلنا مرد ہو یاعورت ،اس کی شرمگاہ سے منی کا نکلنا موجب غسل ہے جس کی دو صورتیں ہیں۔پہلی صورت یہ ہے کہ حالت بیداری میں منی کا خروج ہو اور دوسری یہ ہے کہ حالت نیند میں ایسا ہوجائے۔اگر بیداری کی حالت میں منی نکل گئی تو غسل کرنے کے لیے لذت کا حصول شرط ہے۔اگر لذت حاصل ہوئے بغیر ایسا ہوا تو اس پرغسل فرض نہ ہوگا کیونکہ بیماری کی وجہ سے ایسا ہوسکتا ہے۔اگر حالت نیند میں منی کا خروج ہواتو وہ"احتلام"ہے،ایسے شخص پر غسل فرض ہوگیا کیونکہ اس صورت میں مبتلا شخص کو لذت یا عدم لذت کا شعور نہیں۔سو کراٹھنے والا شخص اگر منی کے ا ثرات دیکھے تو اس پر غسل فرض ہے۔اگر اسے احتلام کا احساس ہوا لیکن نہ منی نکلی اور نہ اس کے اثرات نظر آئے تو اس شخص پرغسل فرض نہ ہوگا۔

(2)۔جماع کرنا۔اگرجماع کی صورت میں مرد کا آلہ تناسل عورت کی شرمگاہ میں داخل ہوگیا تو دونوں پر غسل فرض ہوجاتا ہے،منی کا انزال ہو یا نہ ہو۔حدیث میں ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إِذَا جَلَسَ بَيْنَ شُعَبِهَا الأَرْبَعِ وَمَسَّ الْخِتَانُ الْخِتَانَ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ"

"جب کوئی مرد بیوی کے قریب جائے اور مرد کی شرمگاہ عورت کی شرمگاہ سے مل جائے تو ان پر غسل فرض ہوگیا۔"[2]

اس حدیث اور اہل علم کے اجماع کی بنا پرمردوعورت دونوں پر غسل فرض ہے منی کا انزال ہویا نہ ہو۔

(3)۔قبول اسلام۔اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک کفر کوچھوڑکر دائرہ اسلام میں داخل ہونےوالے شخص پر غسل فرض ہوجاتا ہے۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض لوگوں کو(جنھوں نے اسلام قبول کیا) غسل کرنے کا حکم دیا تھا۔[3] جب کہ جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ ایسے شخص پر غسل مستحب ہے،فرض نہیں کیونکہ یہ منقول نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسلام قبول کرنے والے ہر شخص کو غسل کرنے کاحکم دیا تھا،لہذا ان دلائل کی روشنی میں غسل کو استحباب پر محمول کریں گے۔(واللہ اعلم)[4]

(4)۔موت کا واقع ہونا۔موت کی وجہ سے میت کو غسل دینا فرض ہے،البتہ میدان جنگ میں شہید ہونے والے کو غسل نہیں دیا جاتا۔تفصیل احکام الجنائز کے باب میں ذکر ہوگی۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔

(5)۔حیض اور نفاس کے خون کا منقطع ہونا۔جب حیض یا نفاس کے ایام ختم ہوجائیں تو اس عورت پر غسل فرض ہوجاتاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عورت سے کہا:

"وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْتَسِلِي وَصَلِّي"

"جب تیرے حیض کے دن گزر جائیں تو غسل کر اور نماز ادا کر۔"[5]

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"فإذا تَطَهَّرْنَ"

"ہاں جب وہ پاک ہوجائیں"[6]

یعنی حیض والی عورتیں حیض ختم ہونے کے بعد غسل کرکے پاک ہوجائیں۔

کامل غسل کا طریقہ

اولاً دل میں نیت کرے ،پھر بسم اللہ پڑھے،تین مرتبہ ہاتھ دھوئے اور استنجا کرے،پھر مکمل وضو کرے،پھر سر پر تین چلو ڈالے اور بالوں کو جڑوں تک ترکرے،پھر سارے بدن پر(پہلے دائیں پھر بائیں)پانی ڈالے،بدن کو ہاتھوں سے خوب ملے تاکہ پانی بدن کے ہرحصے تک پہنچ جائے۔

حیض ونفاس سے فارغ ہونے والی عورت غسل کے وقت سر کے بال کھول دیے لیکن غسل جنابت میں سر کے بال کھولنا ضروری نہیں  کیونکہ اس میں عورت پر مشقت اور مشکل ہے،البتہ وہ پانی سر کے بالوں کی جڑوں تک ضرور پہنچائے۔

غسل جنابت کرنے والا مرد ہویا عورت وہ بدن کے ہرحصے تک پانی کو پہنچائے اور اسے ترک کرنے کی پوری کوشش کرے۔بالوں کی جڑوں،بدن کی نظر نہ آنے والی جگہوں ،حلق کے نیچے،ناف کے اندر،بغلوں کے نیچے اور گھٹنوں کے نیچے والے حصوں میں توجہ اور اہتمام سے پانی بہائے۔گھڑی یا انگوٹھی پہنی ہوتواسے حرکت دے تاکہ پانی ان کے نیچے تک پہنچ جائے۔اس طرح مکمل طور پر اہتمام سے غسل  جنابت کرے کہ اس کے بدن میں ایسی جگہ نہ رہ جائے جہاں پانی نہ پہنچ سکا ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"تَحْتَ كُلِّ شَعْرَةٍ جَنَابَةٌ فَاغْسِلُوا الشَّعْرَ وَأَنْقوُا الْبَشَرَ"

"ہربال کے نیچے جنابت ہے،لہذا بالوں کو دھوؤ اور اپنے جسم کو اچھی طرح صاف کرو۔"[7]

(6)۔غسل کرنے والا پانی کے استعمال میں اسراف نہ کرے۔مسنون یہ ہے کہ پانی کاکم سے کم استعمال ہو اور غسل بھی مکمل ہوجیسا کہ ایک روایت مین ہے:

"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ ، وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ"

"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ایک مد سے وضو اور ایک صاع سے غسل کرلیاکرتے تھے۔"[8]

ہمیں بھی چاہیے کہ آپ کی پیروی کرتے ہوئے کم از کم پانی کا استعمال کریں اور اسراف سے بچیں۔

(7)۔غسل کرنے والا شخص پردے کا اہتمام کرے۔لوگوں کے سامنے ننگا غسل نہ کرے۔حدیث میں ہے:

"إِنّ اللهَ عزّ وَجَلّ حَلِيمٌ حَيّ سِتّيرٌ، يُحِبّ الحَيَاءَ والسّتْرَ، فَإِذَا اغْتَسَلَ أَحَدُكُمُ فَلْيَسْتتِرْ "

"اللہ تعالیٰ حیا والا ہے(عیب) چھپانے والا ہے۔وہ حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔جب کوئی غسل کرے تو(اچھی طرح) پردہ کرے۔"[9]

(8)۔غسل جنابت بندے اور اس کےرب کے درمیان امانتوں میں سے ایک امانت ہے ،لہذا بندہ اس کی محافظت کرے،اس کے احکام کا خیال رکھے تاکہ وہ مسنون طریقے سے غسل ادا کرسکے۔اگر اسے غسل کے احکام ومسائل کا علم نہ ہوتو کسی سے پوچھ لے اور اس بارے میں جھجک اور شرم محسوس نہ کرے ارشاد نبوی ہے:

"والله لا يستحيي من الحق"

"اللہ تعالیٰ حق بیان کرتے نہیں شرماتا۔"[10]

جو حیا دینی امور کے سیکھنے میں رکاوٹ ہے وہ حیا قابل مذمت ہے ،شیطانی کمزوری ہے۔شیطان ہرگز نہیں چاہتا کہ کوئی انسان اپنے دین میں کامل ہو اور اسے احکام دین کی معرفت ہو۔طہارت کامسئلہ ایک عظیم مسئلہ ہے۔اس میں کوتاہی انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہے کیونکہ نماز دین اسلام کاایک ستون ہے جس کا دارومدار طہارت پر ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو دینی بصیرت سے نوازے اورقول وعمل میں اخلاص نصیب فرمائے۔


[1]۔المائدۃ5/6۔

[2]۔صحیح البخاری الغسل باب اذا التقی الختانان،حدیث۔291 وصحیح مسلم۔الحیض باب نسخ الماء من الماء ووجوب الغسل بالتقاء الختانین،حدیث۔349

[3]۔سنن ابی داود،الطھارۃ باب الرجل یسلم فیؤمر بالغسل،حدیث 355 وجامع الترمذی الطھارۃ باب ما ذکر فی الاغتسال عند ما یسلم الرجل،حدیث:605۔

[4]۔ظاہر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم ہر اسلام قبول کرنے والے کے لیے واجب ہے ۔کسی ایک شخص کے لیے اسے خاص کرنا محل نظر ہے کیونکہ حکم عام ہے اور شرعی مسئلہ کے ثبوت کے لیے ضروری نہیں کہ ہر فرد کو الگ الگ حکم دیا جائے۔جب ایک شخص کے لیے حکم ثابت ہوتو تمام کے لیے ہوگا الا یہ کہ اختاص کی کوئی دلیل ہو۔واللہ اعلم۔

[5]۔صحیح البخاری الحیض باب اقبال المحیض وادبارہ حدیث 320،وصحیح مسلم الحیض باب المستحاضۃوغسلھا وصلاتھا حدیث 333۔

[6]۔ البقرۃ2/222۔

[7]۔(ضعیف) سنن ابی داود الطھارۃ باب فی الغسل من الجنابۃ حدیث 248 وجامع الترمذی الطھارۃ باب ماجاء ان تحت کل شعرۃ جنابۃ حدیث 106۔

[8]۔صحیح البخاری الوضوء باب الوضوء بالمد حدیث 201وصحیح مسلم،الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسل الجنابۃ۔۔۔حدیث 325 واللفظ لہ مد اور صاع کی وضاحت"وضو کا مفصل طریقہ" کے باب میں کردی گئی ہے۔

[9]۔سنن ابی داود الحمام باب النھی عن التعری حدیث 4012 وسنن النسائی الغسل باب الاستثار عند الغسل حدیث 406 ۔407۔

[10]۔ صحیح البخاری العلم باب الحیاء فی العلم حدیث 130 والغسل باب اذا احتملت المراۃ حدیث 282 وسنن النسائی الطھارۃ باب غسل المراۃ تری فی منامھا مایری الرجل حدیث 196۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 59

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ