سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(10) موزوں اور جرابوں پر مسح کی شرائط

  • 23685
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1698

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

موزوں اور جرابوں پر مسح کی شرائط


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

موزوں یاجرابوں وغیرہ پرمسح کرنا تب جائز ہے جب انھیں باوضو ہو کر پہنا ہو۔ صحیحین میں روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو فرمایا جب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے موزے اتارنے کا ارادہ کیا:"رہنے دیں کیونکہ میں نے انھیں وضو کی حالت میں پہنا تھا۔"[1]

ایک دوسری روایت میں ہے:

"أمرنا أن نمسح على الخفين إذا نحن أدخلنا هما على طهر"

"آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو) حکم دیا کہ موزوں پر مسح تب کرنا جب انھیں وضو کر کے پہنا ہو۔"[2]

ان دلائل سے واضح ہوا کہ موزے یا جرابیں پہنتے وقت وضو کا ہونا شرط ہے۔ اگر کسی نے وضو کیے بغیر موزے یا جرابیں پہن لیے تو ان پر مسح کرنا جائز نہ ہو گا۔

پہنے ہوئے موزے یا جرابیں مباح ہوں اگر کسی سے چھین کریا چوری کر کے حاصل کیے ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح اگر کسی مرد نے ریشم کے موزےیا جرابیں پہنے ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز نہیں کیونکہ حرام میں "رخصت" کا استعمال ناجائز ہے۔

مسح کی ایک شرط یہ ہے کہ موزے یا جرابیں پاؤں کے اس حصے کو مکمل طور پر ڈھانپتے ہوں جن کا دھونا بحکم الٰہی فرض ہے ورنہ مسح کرنا درست نہیں۔

جرابیں موزوں کے قائم مقام ہیں ان پر مسح کرنا تب جائز ہے جب وہ اون وغیرہ کی بنی ہوں اور اس قدر موٹی ہوں کہ ان کے نیچے سے پاؤں کی جلد نظر نہ آتی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جرابوں پر اور جوتوں پر مسح کیا تھا۔"[3]

جرابوں پر مسح کرنے کی مدت بھی وہی ہے جو موزوں کی ہے۔ جرابوں پر مسح کرنے کے لیے ان پر جوتوں کا پہننا ضروری نہیں۔ اگر جرابوں پر مسح کر کے مدت مسح کی ابتدا ہو گئی پھر ان کے اوپر کوئی شے موزے وغیرہ پہن لیے تو ان کے باربار اتارنے یا پہننے سے جرابوں کے مسح کی مدت پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔

پگڑی پر مسح کرنا: پگڑی پر مسح کرنے کی دو شرطیں ہیں۔

1۔پگڑی سر کے اس حصے کو مکمل طور پر ڈھانپتی ہو جسے عام طور پر ننگا نہیں رکھا جاتا۔

2۔پگڑی ٹھوڑی کے نیچے سے گزاری گئی ہو۔(یہ اس شکل میں ہوگا جب پگڑی کے ایک یا دو بل ٹھوڑی کے نیچے سے بھی گزارے گئے ہوں) یا اس کا ایک کنارہ پیچھے کمر پر لٹکا یا گیا ہو۔"[4]

پگڑی پر مسح کے بارے میں آئمہ حدیث نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے متعدد احادیث نقل کی ہیں۔"[5]

علاوہ ازیں سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:"جو شخص پگڑی پر مسح کرنے کی صورت میں وضو کو مکمل نہیں سمجھتا اللہ اسے پاک نہ کرے۔"

حدث اصغر(وضو ٹوٹ جانے)کی حالت میں وضو کرتے وقت موزوں اور پگڑی پر مسح جائز ہے البتہ حدث اکبر(جنابت) کی حالت میں ان پر مسح کرنا صحیح اور درست نہیں بلکہ انھیں اتار کر ان حصوں کو اور سارے بدن کو(غسل جنابت کر کے) دھونا ہوگا۔

پٹی پر مسح کرنا: جسم کی کسی ٹوٹی ہوئی ہڈی یا جوڑ پر علاج کی خاطر باندھی ہوئی لکڑیوں (پھٹیوں )پر مسح کرنا جائز ہے۔ اسی طرح زخموں پر لگے ہوئے مرہم یا ان پر باندھی ہوئی پٹیوں یا پلاسٹر پر مسح کرنا درست ہے۔ اس میں مسح کے لیے شرط یہ ہے کہ لگی ہوئی شے جگہ پر ہو یا اس کے قریب قریب ہو اگر متاثر حصے سے زیادہ متجاوز ہے تو اسے اتارنا ہوگا اور وہ حصہ دھونا پڑے گا۔ نیز اس پر حدث اصغر یا اکبردونوں حالتوں میں مسح کرنا جائز ہے اور اس کے لیے وقت کی کوئی حد بھی متعین نہیں۔ جب تک زخم درست نہ ہو تب تک مسح کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ مسح ایک مجبوری کی بنا پر ہے جب تک مجبوری قائم ہے تب تک مدت مسح برقرار ہے پھٹی اور پٹی پر مسح کی دلیل سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ سفر کے لیے نکلے راستے میں ایک ساتھی کے سر پر پتھر لگا اور وہ زخمی ہوگیا اسے نہانے کی حاجت ہوئی تو اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کیا میرے لیے تیمم کرنے کی گنجائش ہے؟ انھوں نے کہا: تمھارے لیے تیمم کی رخصت نہیں کیونکہ تمھارے پاس پانی موجود ہے اور تم اسے استعمال کر سکتے ہو چنانچہ اس نے غسل کیا تو فوت ہو گیا۔ جب  ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے اور آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا:

"قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ أَلَا سَأَلُوا إِذَا لَمْ يَعْلَمُوا؟ فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالُ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَتَيَمَّمَ وَيَعْصِرَ- أَوْ يَعْصِبَ- عَلَى جُرْحِهِ خِرْقَةً ثُمَّ يَمْسَحُ عَلَيْهَا، وَيَغْسِلُ سَائِرَ جَسَدِهِ"

"جنھوں نے اسے قتل کیا اللہ تعالیٰ انھیں قتل کرے اگر انھیں علم نہ تھا تو پوچھ کیوں نہ لیا؟ جہالت کا علاج یہ ہے کہ کوئی مسئلہ معلوم نہ ہو تو کسی عالم سے پوچھ لیا جائے (پھر فرمایا) اگر وہ مریض تیمم کرنا اور زخم پر پٹی باندھتا اور اس پر مسح کر لیتا اور باقی جسم دھولیتا تو یہ اسے کافی تھا۔"[6]


[1]۔صحیح البخاری الوضوء باب اذاادخل رجیلہ وھما طاہرقان حدیث 206۔وصحیح مسلم الطہارۃ باب المسح علی الخفین حدیث274۔

[2]۔مسند احمد 4/240واصل الحدیث عندالترمذی والنسائی وابن ماجہ بالا ختصار ۔

[3]۔سنن ابی داؤد الطہارۃ باب المسح علی الجوربین حدیث 159وجامع الترمذی الطہارۃ باب ماجاء فی المسح علی الجوربین النعلین حدیث 99 وسنن ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب ماجہ فی المسح علی الجوربین والنعلین حدیث559 ومسند احمد4/252صحیح روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہو گیا ۔باقی رہا مسئلہ جرابوں کا باریک یا موٹا ہونا تو روایت میں اس کی کوئی وضاحت نہیں۔ واللہ اعلم۔(صارم)

[4]۔مولف نے ان دوشرطوں کی کوئی دلیل پیش نہیں کی۔

[5]۔صحیح البخاری الوضو باب المسح علی الخفین حدیث 205۔وصحیح مسلم الطہارۃ باب المسح علی الناصیہ والعمامۃ حدیث (81۔83۔)274۔وسنن ابی داؤد الطہارۃ باب المسح علی العمامۃ حدیث 150وباب المسح علی الخفین 146۔وسنن النسائی الطہارۃ باب المسح علی العمامۃ مع الناصیۃ حدیث 107۔108۔وباب کیف المسح علی العمامۃ حدیث 109۔150۔

[6]۔سنن ابی داؤد الطہارۃ باب الحدور یتیمم حدیث:336۔وسنن ابن ماجہ الطہارۃ وسننھا باب فی المجروح تصیۃ الجنابۃ فیخاف علی نفسہ ان الغسل حدیث 572قال الالبانی رحمۃ اللہ علیہ  حسن دون إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ.....۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

جلد 01: صفحہ 53

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ