السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اہل مغرب کی نقالی میں بعض ’’تعلیم یافتہ‘‘ لوگوں میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ جب کسی کو لوگوں کے سامنے چھینک آتی ہے تو وہ I am Sorry کہتا ہے۔ کیا ایک مسلمان ایسے موقع پر اس طرح کے الفاظ استعمال کر سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
چھینک کو عربی زبان میں عطاس کہتے ہیں جس کا معنی کِھلنا اور پُھوٹنا ہے۔ چھینک آنے پر انسان کی طبیعت کھل جاتی ہے۔ سر کی گرانی دُور ہو جاتی ہے اور وہ تازم دم ہو جاتا ہے۔ قوائے انسانی میں جلا پیدا ہوتی ہے، دماغ کی رگوں اور اس کے پٹھوں کی رکاوٹیں دُور ہو جاتی ہیں تو انسان فرحت محسوس کرتا ہے۔ لہذا چھینک آنے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
چھینک کا جواب دینا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے:
(واذا عطس فحمدالله فتشمته)(مسلم، السلام، من حق المسلم للمسلم رد السلام، ح: 2162)
’’اور جب اسے چھینک آئے اور وہ اللہ کی حمد کرے تو اسے الحمدلله کہو۔‘‘
عہد نبوی میں چھینک آنے پر الحمدلله کا رواج عام تھا۔ انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو آدمیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں چھینکا ان میں سے ایک کی چھینک پر آپ نے يرحمك الله کہا اور دوسرے کی چھینک پر نہیں کہا۔ اس پر دوسرا شخص بولا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی چھینک پر يرحمك الله کہا جبکہ میری چھینک پر نہیں کہا؟ آپ نے جوابا فرمایا:
(ان هذا حمدالله ولم تحمدالله)(بخاري، الادب، لا یشمت العاطس اذا لم یحمداللہ، ح: 6225)
’’اس نے الحمدلله کہا تھا اور تم نے نہیں کہا تھا۔‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ : الْحَمْدُ لِلَّهِ ، وَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهُ : يَرْحَمُكَ اللَّهُ ، فَإِذَا قَالَ لَهُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَلْيَقُلْ : يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ) (ایضا، اذا عطس کیف یشمت، ح: 6224)
’’جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمدلله کہے اور اس کا بھائی یا ساتھی يرحمك الله (اللہ آپ پر رحم کرے) جب اسے يرحمك الله کہہ دیا جائے تو وہ (چھینکنے والا) کہے: (يهديكم الله ويصلح بالكم)
’’اللہ تمہیں سیدھے راستے پر رکھے اور تمہارے حالات درست کرے۔‘‘
ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو یوں کہے: (الحمدلله على كل حال)(ترمذي، الادب، ما یقول العاطس اذا عطس، ح: 2741)
’’ہر حالت میں اللہ کا شکر اور تعریف ہے۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے:
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی مجھے چھینک آئی تو میں نے کہا:
"الحمدلله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا و يرضٰى"
’’ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے، تعریف بہت زیادہ پاکیزہ، جس میں برکت کی گئی ہے جس پر برکت نازل کی گئی ہے۔ جس طرح ہمارا رب محبت کرتا ہے اور پسند کرتا ہے۔‘‘
’’جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا: نماز میں یہ الفاظ کس نے کہے ہیں ۔۔ تین دفعہ پوچھا ۔۔ میں نے عرض کیا؛ میں نے کہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تیس سے زیادہ فرشتے اس کی طرف جلدی سے بڑھے کہ ان میں سے کون اسے لے کر اوپر چڑھے۔‘‘(ابوداؤد، الصلاة، ما یستفتح بہ الصلاة من الدعاء، ح: 773، ترمذي، ح: 404)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ جب ایک مسلمان کو چھینک آئے تو وہ (الحمدلله) (الحمدلله على كل حال) اور "الحمدلله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا و يرضٰى" میں سے جو بھی چاہے کلمات کہہ سکتا ہے۔ I am Sorry کہنے کا کوئی تُک نہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ حدیث نبوی میں ہے کہ (ان الله يحب العطاس)(بخاري، الادب، ما یستحب من العطاس وما یکرہ من التثاؤب، ح: 6223)
’’اللہ چھینک کو پسند کرتا ہے۔‘‘
مگر اَن پڑھ لوگ Sorry (افسوس) کرتے ہیں۔ نیز انسان کو چھینک سے کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
اس پر پڑھے لکھے جہلاء کا I am Sorry کہنا چہ معنی دارد؟
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب