السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا باکسنگ (مُکے بازی) ناجائز ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت مطہرہ کی رُو سے باکسنگ ناجائز ہے کیونکہ اس میں چہرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے سے منع کیا ہے۔ اس سلسلے کی چند احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اذا قاتل احدكم فليجتنب الوجه)(مسلم، البر والصلة، النھي عن ضرب الوجه، ح: 2612)
’’جب تم میں سے کوئی شخص لڑے تو چہرے پر مارنے سے گریز کرے۔‘‘
2۔ (اذا قاتل احدكم اخاه فلا يلطمن الوجه) (ایضا)
’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے لڑ پڑے تو چہرے پر طمانچہ نہ مارے۔‘‘
ایسا کھیل کافروں، انسانیت کے دشمنوں اور تہذیب و تمدن کے قاتلوں کے ہاں تو محبوب ہو سکتا ہے مسلمانوں کے ہاں نہیں۔
البتہ دوران جنگ باکسنگ جائز ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿فَاضرِبوا فَوقَ الأَعناقِ وَاضرِبوا مِنهُم كُلَّ بَنانٍ ﴿١٢﴾... سورة الانفال
’’ان (کفار) کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے پور پور پر مارو۔‘‘
اس کی مزید وضاحت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ غزوہ حنین میں جب کفار نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا محاصرہ کر لیا تو آپ اپنے خچر سے اتر پڑے۔ آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مُٹھی لی اور اسے کفار کے چہروں کی طرف پھینک کر فرمایا:
(شاهت الوجوه)
’’چہرے بگڑ جائیں۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کی آنکھوں کو مٹی سے بھر دیا۔ وہ الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوئے اور اللہ نے انہیں شکست دی۔
(مسلم، الجھاد والسیر، غزوة حنین، ح: 1777)
اس حدیث کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے چہروں کو نشانہ بنایا اور ان کے چہرے بگڑنے کی بددعا کی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب