السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لڑکے یا لڑکی کی پیدائش کا دن منانا، اس پر کیک کاٹنا اور کھانا وغیرہ کھلانا جائز ہے یا ناجائز؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ سالگرہ منانے کا تعلق اسلام سے نہیں ہے یہ دنیاداری کا ایک طریقہ ہے جیسے ہم محمد علی جناح وغیرہ کے دن مناتے ہیں۔ اب تو کئی راسخ العقیدہ اور کتاب و سنت کے علمبردار گھرانے بھی سالگرہ منانے میں شامل ہو گئے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کر دیں تاکہ میری اور باقی حضرات کی اصلاح ہو سکے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پیدائش کا دن (سالگرہ) منانا عیسائیوں کا طریقہ ہے۔ وہ Birth Day مناتے ہیں، کیک کاٹنے کی رسم بھی عیسائیوں کی ہے۔ بعض عاقبت نا اندیش مسلمان بھی عیسائیوں کی اندھی تقلید میں سالگرہ منانے لگے ہیں، بلکہ نصرانیوں کے ساتھ مل کر کرسمس کیک بھی کاٹتے ہیں۔ حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہدونصاریٰ اور دیگر کافر قوموں کی مشابہت کرنے سے روکا بلکہ ان کی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
(من تشبه بقوم فهو منهم)(ابوداؤد، اللباس، فی لبس الشھرة، ح: 4031)
’’جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں سے ہے۔‘‘
یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جب کوئی شخص ظاہری طور پر کسی قوم سے وجع قطع اور چال چلن میں مشابہت اختیار کرتا ہے تو آہستہ آہستہ غیر محسوس انداز میں اس کا باطن بھی انہیں کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور اس کی اپنی شناخت اور پہچان ختم ہو جاتی ہے، اسی لیے ہمیں کفار کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔
بعض حضرات کی یہ بات بڑی عجیب ہے کہ سالگرہ منانا دنیاداری کا ایک طریقہ ہے، اس طرح تو ہر ناجائز کام "دنیاداری" کہہ کر جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ جیسے بعض لوگ کسی کے فوت ہونے پر قل دسواں چالیسواں وغیرہ کی رسمیں ادا کرتے ہیں جب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ طریقہ غلط ہے تو کہتے ہیں کہ جناب دنیاداری ہے کیا کریں، "ناک" بھی تو رکھنی ہے! کھانے پر قرآن پڑھتے ہیں، لوگوں میں قرآن کے پارے اور سورتیں تقسیم کروا کر پڑھواتے ہیں جسے وہ ایصال ثواب سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جی دنیاداری ہے۔ عجیب بات ہے! بدعات کو دنیاداری کا نام دے کر جائز قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ہم سب جانتے اور مانتے ہیں کہ اسلام مکمل جابطہ حیات ہے اور دنیاداری کا طریقہ بھی ہمیں اسلام ہی بتاتا ہے، یہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ "ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں "ورنہ سالگرہ منانے اور کیک کاٹنے کے علاوہ ہمیں کوئی کام نہ ہوتا، مثلا ایک دیہات یا محلے کی آبادی اگر تین چار سو نفوس پر مشتمل ہے تو وہاں تقریبا روزانہ کسی نہ کسی کی سالگرہ منائی جا رہی ہو گی۔ اس کے ساتھ اگر بڑوں اور بزرگوں کی برسیاں بھی شامل کر لی جائیں تو سارا وقت انہی کاموں میں لگ جائے۔ کیونکہ کوئی دن ایسا نہیں ہو گا جس دن دسیوں بیسیوں بڑے پیدا یا فوت نہ ہوئے ہوں، دُور نہ جائیں سوا چودہ صدیوں سے تو ہماری اپنی تاریخ متجاوز ہے، کتنے پیدا ہوئے اور کیسے کیسے عظیم لوگ اس دارفانی سے رحلت کر گئے۔
ہم اگر اپنے چند ’’بزرگوں‘‘ کی ولادت یا وفات کا دن منانا شروعکر دیں تو یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ واقعتا وہ کام درست بھی ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا کسی کی سالگرہ فی الحقیقت منائی بھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ مثلا ایک شخص 15 ربیع الاول، 19 مئی بروز اتوار پیدا ہوا، اب اگر کوئی آدمی اس کی سالگرہ منانا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ 15 ربیع الاول، 18 مئی بروز اتوار کو منائے، اب ظاہر ہے کہ یہ ناممکن ہے، پیدا اتوار کو ہوا اور اس کا یوم ولادت بدھ کر منایا جا رہا ہے، کیا بدھ اس کی پیدائش کا دن ہے؟ویسے ہم مسلمان اگر سوچیں تو جب کوئی سالگرہ منا رہا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے سال سے کئی دن اوپر گزر چکے ہوتے ہیں۔ اگر ایک 35،40 سالہ مسلمان شخص اپنا یوم ولادت منائے تو کیا یہ واقعتا اپنا یومِ ولادت منا رہا ہوتا ہے جبکہ قمری سن (اسلامی سن) کے اعتبار سے (عیسوی سن کے مقابلے میں) اتنے عرصے میں تقریبا ایک سال کا فرق واقع ہو چکا ہوتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب