سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(294) پیالہ کٹ وغیرہ کی شرعی حیثیت؟

  • 23663
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1104

سوال

(294) پیالہ کٹ وغیرہ کی شرعی حیثیت؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے معاشرے میں جہاں کئی اور فیشن رواج پا رہے ہیں وہاں بالوں کے کاٹنے کے بارے میں بھی کئی نت نئے رواج جنم لے رہی ہیں، کہ جس کے مطابق کچھ بال کاٹ دئیے جاتے ہیں اور بعض چھوڑ دئیے جاتے ہیں، مثلا پیالہ کٹ وغیرہ نیز بچوں کے بال اس انداز سے کاٹے جاتے ہیں کہ چند بالوں کو چھوڑ کر باقی سب بال کاٹ دیے جاتے ہیں، یہ بالون کی چوٹی کسی بزرگ کے نام پر رکھی جاتی ہے۔ کیا اس طرح کا طرزِ عمل درست ہے؟ خصوصا بچوں کے بعض بال کاٹنے اور بعض باقی رکھنے کے حوالے سے راہنمائی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سر کے کچھ بال منڈوانا اور کچھ چھوڑ دینا عربی زبان میں قزع کہلاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع کیا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

نهى رسول الله عن القزع(بخاري، اللباس، القزع، ح: 5921، مسلم، اللباس، کراھیةالقزع، ح: 2120)

"عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

«رائ رسول الله صلى الله عليه وسلم صبيا قد حلق بعض شعره و ترك بعضه فنهاهم عن ذلك وال:«احلقوه كله او اتركوه كله»(ابوداؤد، الترجل، الذؤابة، ح: 4195، مسلم، ح: 2120)

’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا کہ اس کے سر کے کچھ بال مونڈھے ہوئے ہیں اور کچھ چھوڑے ہوئے، تو آپ نے لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کر دیا اور فرمایا: اس کے سارے بال مونڈ دو یا سارے چھوڑ دو۔‘‘

اگر کسی نے سر کے چند بال (چوٹی کی صورت میں) لمبے رکھنے کی کسی بزرگ کے لیے نذر مانی ہو تو اور بھی برا ہے بلکہ یہ شرک کے زمرے میں آ جائے گا۔ کیونکہ غیراللہ کے نام کی نذر ماننا شرک ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اسلامی آداب و اخلاق،صفحہ:620

محدث فتویٰ

تبصرے