سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(288) مرتکبِ کبیرہ کی توبہ؟

  • 23657
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2099

سوال

(288) مرتکبِ کبیرہ کی توبہ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کبیرہ گناہوں کا مرتکب اگر توبہ کر لے تو اس کی توبہ مقبول ہو گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن و حدیث کے صریح دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ سے تمام قسم کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے کی چند آیات درج ذیل ہیں:

1۔ توبۃ النصوح کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا توبوا إِلَى اللَّهِ تَوبَةً نَصوحًا عَسىٰ رَبُّكُم أَن يُكَفِّرَ عَنكُم سَيِّـٔاتِكُم وَيُدخِلَكُم جَنّـٰتٍ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ يَومَ لا يُخزِى اللَّهُ النَّبِىَّ وَالَّذينَ ءامَنوا مَعَهُ نورُهُم يَسعىٰ بَينَ أَيديهِم وَبِأَيمـٰنِهِم يَقولونَ رَبَّنا أَتمِم لَنا نورَنا وَاغفِر لَنا إِنَّكَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿٨﴾... سورة التحريم

’’ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جس دن اللہ نبی کر اور ایمان داروں کو، جو اُن کے ساتھ ہیں، رُسوا نہ کرے گا۔ اُن کا نور اُن کے سامنے اور اُن کے دائیں دوڑ رہا ہو گا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے: ہمارے رب! ہمیں کامل نور عطا کر اور ہمیں بخش دے یقینا تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘

2۔ کبیرہ گناہوں کے مرتکبین کی سزا بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّـٔاتِهِم حَسَنـٰتٍ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٧٠﴾... سورة الفرقان

’’مگر وہ لوگ جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘

3۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَالَّذينَ إِذا فَعَلوا فـٰحِشَةً أَو ظَلَموا أَنفُسَهُم ذَكَرُوا اللَّهَ فَاستَغفَروا لِذُنوبِهِم وَمَن يَغفِرُ الذُّنوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَم يُصِرّوا عَلىٰ ما فَعَلوا وَهُم يَعلَمونَ ﴿١٣٥ أُولـٰئِكَ جَزاؤُهُم مَغفِرَةٌ مِن رَبِّهِم وَجَنّـٰتٌ تَجرى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ خـٰلِدينَ فيها وَنِعمَ أَجرُ العـٰمِلينَ ﴿١٣٦... سورة آل عمران

’’جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے، انہیں کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، ان عمل کرنے والوں کا ثواب کیا ہی اچھا ہے۔‘‘

4۔ گناہ سے توبہ کرنے والے جنت میں داخل ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ فَخَلَفَ مِن بَعدِهِم خَلفٌ أَضاعُوا الصَّلو‌ٰةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَو‌ٰتِ فَسَوفَ يَلقَونَ غَيًّا ﴿٥٩ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا فَأُولـٰئِكَ يَدخُلونَ الجَنَّةَ وَلا يُظلَمونَ شَيـًٔا ﴿٦٠﴾... سورة مريم

’’پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کر دی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، تو عنقریب انہیں گمراہی (کی سزا) ملے گی، بجز ان کے جو توبہ کر لیں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور ان کی ذرا سی بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔‘‘

5۔ قاذف کی سزا 80 کوڑے بیان کرنے اور اس کی گواہی کے غیر مقبول ہونے کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿ إِلَّا الَّذينَ تابوا مِن بَعدِ ذ‌ٰلِكَ وَأَصلَحوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفورٌ رَحيمٌ ﴿٥﴾... سورة النور

’’ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں تو اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘

6۔ کتمانِ حق کے مجرم جنہیں قرآن میں ملعون کہا گیا ہے، اگر توبہ کر لیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہے:

﴿إِلَّا الَّذينَ تابوا وَأَصلَحوا وَبَيَّنوا فَأُولـٰئِكَ أَتوبُ عَلَيهِم وَأَنَا التَّوّابُ الرَّحيمُ ﴿١٦٠﴾... سورةالبقرة

’’مگر وہ لوگ جو توبہ کر لیں، اصلاح کر لیں اور بیان کر دیں تو میں ان کی توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں بہت توبہ قبول کرنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہوں۔‘‘

7۔ مومن کے قاتل کی سزا جہنم تب ہو گی جب اس نے توبہ نہیں کی ہو گی۔ (تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن، ص:138)

مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ نے دلیل میں اصحاب الاخدود کی سزا والی آیت پیش کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ الَّذينَ فَتَنُوا المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنـٰتِ ثُمَّ لَم يَتوبوا فَلَهُم عَذابُ جَهَنَّمَ وَلَهُم عَذابُ الحَريقِ ﴿١٠﴾... سورة البروج

’’بےشک جن لوگوں نے مسلمانوں مردوں اور عورتوں کو ستایا پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے۔‘‘

8۔ انسان خواہ کتنا ہی قصوروار کیوں نہ ہو توبہ کی بنیاد پر اس کی فلاح حتمی اور یقینی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَتوبوا إِلَى اللَّهِ جَميعًا أَيُّهَ المُؤمِنونَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٣١﴾... سورة النور

’’تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو مومنو! تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

9۔ توبہ کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَإِنّى لَغَفّارٌ لِمَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا ثُمَّ اهتَدىٰ ﴿٨٢﴾... سورة طه

’’ہاں بےشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں، ایمان لائیں، نیک عمل کریں اور راہِ راست پر بھی رہیں۔‘‘

10۔ تمام گناہوں کی معافی کا وعدہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿قُل يـٰعِبادِىَ الَّذينَ أَسرَفوا عَلىٰ أَنفُسِهِم لا تَقنَطوا مِن رَحمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغفِرُ الذُّنوبَ جَميعًا إِنَّهُ هُوَ الغَفورُ الرَّحيمُ ﴿٥٣﴾... سورة الزمر

’’(میری جانب سے) کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، یقینا اللہ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی ہی وہی بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے۔‘‘

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

یہ آیت اپنے عموم کے اعتبار سے ہر گناہ کو شامل ہے، خواہ کفروشرک ہو خواہ شک و نفاق ہو، خواہ قتل و فسق ہو، خواہ کچھ بھی ہو، جو اللہ کی طرف رجوع کرے، اللہ اس کی طرف مائل ہو گا، جو توبہ کرے اللہ اسے معاف کر دے گا۔ (ابن کثیر 737/1)

ایک اشکال اور اس کا جواب

بہت سے لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ شرک کرنے والے کو معافی نہیں ملتی، تو واضح رہنا چاہئے یہ بات اس شخص کے بارے میں جو شرک کرتا رہا اور توبہ کے بغیر مر گیا۔ مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ آیت ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ﴾النساء 4/116)) اس مشرک کے بارے میں ہے جو توبہ کے بغیر مرا ہو۔ اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿ إِنَّهُ مَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيهِ الجَنَّةَ وَمَأوىٰهُ النّارُ وَما لِلظّـٰلِمينَ مِن أَنصارٍ ﴿٧٢﴾... سورة المائدة

’’جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے اس پر اللہ نے جنت کو حرام قرار دے دیا ہے۔ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے، ظالموں (مشرکوں) کا کوئی بھی مددگار نہیں۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ وَلَو أَشرَكوا لَحَبِطَ عَنهُم ما كانوا يَعمَلونَ ﴿٨٨﴾... سورة الانعام

’’اگر وہ (انبیاء) بھی شرک کرتے تو ان کے سب اعمال ضائع ہو جاتے۔‘‘

اس مفہوم کی آیات بہت زیادہ ہیں۔

(شبھات و اشکالات حول بعض الاحادیث والایات، ص: 43،14)

احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کرنے والا جب توبہ کے آداب و شرائط کے ساتھ توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ زانی، شرابی اور چور کے بارے میں حدیث میں (والتوبة معروضة بعد) کے الفاظ سے بتا دیا گای کہ کبائر کے مرتکبین کے لیے توبہ کا دروازہ بہرحال کھلا ہے۔ (دیکھیے بخاري، المحاربین، اثم الزناة، ح: 6810)

سو آدمیوں کے قاتل کی توبہ کی قبولیت اور اس کی مغفرت کا تذکرہ احادیث میں موجود ہے۔

(بخاري، الانبیاء باب: 54، ح: 3470، مسلم، التوبة، قبول توبة القاتل، ح: 2766)

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

جب بنی اسرائیل میں تو یہ ہے تو اس امت مرحوم کے لیے قاتل کی توبہ کے دروازے بند کیوں ہوں؟ ہم پر پہلے بہت زیادہ پابندیاں تھیں جن سب سے ہمیں اللہ نے آزاد کر دیا اور رحمۃ للعالمین جیسے سردارِ انبیاء کو بھیج کر وہ دین ہمیں دیا جو آسانیوں اور راحتوں والا، سیدھا، صاف اور سہل ہے۔ (تفسیر ابن کثیر 737/1)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(يضحك الله إلى رجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة، يقاتل هذا في سبيل الله فيقتل ثم يتوب الله على القاتل فيستشهد)(بخاري، الجھاد، الکافر یقتل المسلم ۔۔ح: 2826، مسلم، الامارة، بیان الرجلین یقتل احدھما الاخر یدخلان الجنة، ح: 1890)

’’اللہ دو آدمیوں کی طرف دیکھ کر ہنستا ہے، جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے، وہ دونوں جنت میں داخل ہوتے ہیں۔ قتل ہونے والا اللہ کے راستے میں لڑتا لڑتا قتل (شہید) ہو جاتا ہے، پھر اللہ قاتل کو بھی توبہ کی توفیق دے دیتا ہے وہ مسلمان ہو کر اللہ کی راہ میں جامِ شہادت نوش کرتا ہے۔‘‘

ایک حدیث میں ہے:

(ويتوب الله على من تاب)(بخاري، الرقاق، ما یتقی من فتنة المال، ح: 6436، مسلم، الزکوة، لو کان لابن ادم و ادبیین لا بتغی ثالثا، ح: 1049)

’’اللہ توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘

احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ جس آدمی کو دنیا میں سزا ہو جاتی ہے وہ اس کے گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے۔

شارح عقیدہ طحاویہ لکھتے ہیں:

صغائر اور کبائر گناہ توبہ کے بعد یقینا معاف کر دیے جاتے ہیں وہ مشیت کے ساتھ معلق نہیں ہیں۔ (ص: 473)

اگر کسی کے گناہ دنیا میں مستور رہے تو ایسا شخص اللہ کی مشیت کے ساتھ معلق ہو گا، اللہ تعالیٰ چاہے تو سزا دے یا معاف کرے۔ (بخاري، ح: 6784)

البتہ وہ احادیث جن میں یہ آتا ہے کہ قاتل کو مقتول لے کر آئے گا ان کے بارے میں حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

یہ بالکل ٹھیک ہیں۔ چونکہ اس میں انسانی حق ہے، وہ توبہ سے ٹل نہیں جاتا۔ بلکہ انسانی حق تو توبہ ہونے کی صورت میں بھی حقدار کو پہنچانا ضروری ہے۔ جس طرح قتل ہے، اسی طرح چوری ہے، غصب ہے، تہمت ہے اور دوسرے حقوق انسانی ہیں جن کا توبہ سے معاف نہ ہونا اجماعا ثابت ہے بلکہ توبہ کی صحت کی شرط ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے۔ اور جب ادائیگی محال ہے تو قیامت کے روز اس کا مطالبہ ضروری ہے۔ لیکن مطالبہ سے سزا کا واقع ہونا ضروری نہیں۔ ممکن ہے کہ قاتل کے سب اعمال صالحہ مقتول کو دے دیے جائیں یا بعض دے دیے جائیں اور اس کے پاس پھر بھی کچھ رہ جائیں اور یہ بخش دیا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل کا مطالبہ اللہ اپنے فضل و کرم سے اپنے پاس سے اور اپنی طرف سے حوروقصور اور بلند درجات جنت دے کر پورا کر دے اور اس کے عوض وہ اپنے قاتل سے درگزر کرنے پر خوش ہو جائے اور قاتل کو اللہ بخش دے۔ (تفسیر ابن کثیر 738/1)

ایک اور اشکال کا جواب

قاتل کی توبہ کے بارے میں ایک اشکال باقی رہ جاتا ہے، وہ یہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے نزدیک قاتل مومن کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اسے سب زجروتوبیخ پر محمول کیا جائے گا کیونکہ ابن عباس خود یہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص مومن کو قتل کر دے اس کی توبہ قبول ہو جاتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے آ کر ان سے سوال کیا کہ کیا قاتل مومن کی توبہ قبول ہو جاتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں! اس کے لیے تو صرف جہنم ہے۔ جب وہ شخص چلا گیا تو اہل مجلس نے عرض کیا: آپ تو اس طرح کا فتویٰ نہیں دیتے ہیں آپ تو ہم سے یہ فرمایا کرتے تھے کہ قاتل مومن کی توبہ قبول ہو جاتی ہے، آج کیا بات ہوئی (کہ آپ نے فرما دیا اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی، اس کے لیے صرف جہنم ہے؟) ابن عباس نے فرمایا کہ یہ شخص غصہ میں بھرا ہوا تھا، میرا گمان یہ ہے کہ اس کا رادہ کسی مومن کو قتل کرنے کا تھا (یہ اسی لیے معلوم کرنے آیا تھا کہ اگر قبولیتِ توبہ کی گنجائش نکل آئی تو قتل کرنے کے بعد توبہ کر لوں گا اس لیے میں نے اس سے کہہ دیا کہ قاتل مومن کی توبہ قبول نہیں ہوتی تاکہ یہ قتل سے رُک جائے۔) لوگوں نے کسی کو اِس کے پیچھے بھیجا کہ دیکھ کر آئے وہ کہاں جاتا ہے اس کا کیا ارادہ ہے! معلوم ہوا کہ واقعی اس کا ارادہ کسی مومن کو قتل کرنے کا تھا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

گناہانِ کبیرہ،صفحہ:602

محدث فتویٰ

تبصرے