سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(271) کیا انفرادی اصلاح سے کچھ فرق نہیں پڑتا؟

  • 23641
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 863

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگ انفرادی اصلاح کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے کہ ایک دو یا چند اشخاص کی اصلاح ہونے یا نیک بننے سے ایک بگڑے ہوئے معاشرے پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ ان افراد کی ایسی سوچ کی اصلاح کے لیے راہنمائی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تمام افراد معاشرے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ انفرادی اصلاح سے ہی اجتماعی اور معاشرتی اصلاح کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ تاریخ انسانی ایسے افراد سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اکیلے یا کم ہونے کے باوجود کایا پلٹ کر رکھ دی۔ انبیاء و رسل کی دعوت اسی حقیقت کی غماز ہے۔ جو تربیت و اصلاح کا عَلم اٹھائے ﴿إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ﴾(ھود 11/88)  کی صدا بلند کرتے رہے۔ یہ ایک ہی شخص تھا جس کے بارے میں الطاف حسین حالی مسدس میں لکھتے ہیں:

اُتر کر حرا سے سُوئے قوم آیا

اور اس نسخہ کیمیا ساتھ لایا

مسِ خام کو جس نے کندن بنایا

کھرا اور کجوٹا الگ کر دکھایا

عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا

پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا

رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا

اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا

انفرادی اصلاح کے کس قدر دُور رس نتائج برآمد ہوتے ہیں، اس سلسلے میں درج ذیل باتیں ملحوظ رکھنا ضروری ہیں:

1۔ جو لوگ اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے معاشرے میں اچھے فرد بنیں گے وہ خود دنیا میں بھی سکون کی زندگی گزاریں گے اور آخرت میں بھی اجروثواب کے مستحق ہوں گے۔

2۔ برائی کر کے جو وہ شر پھیلاتے اس سے بچیں گے اور اس طرح لوگ ان کے شر سے محفوظ رہیں گے۔

3۔ نیکی کی مثال ایک روشنی کی سی ہے۔ اگر چند لوگ بھی نیکیاں کریں گے تو گو مدھم ہی سہی مگر نیکیوں کی روشنی ضرور پھیلے گی۔ اس روشنی یعنی نیکی سے لوگ فائدہ اٹھائیں گے۔

4۔ ہو سکتا ہے ان کی دیکھا دیکھی کچھ اور لوگ بھی اچھے عمل کرنے لگیں۔ اسی طرح دیے سے دیا جلتا آیا ہے۔ بہرحال ایک شخص بھی اگر یہ تہیہ کر لے کہ اسلامی تعلیمات کو اپنے اوپر نافذ کرے گا تو اس کے بھی بہت سے فائدے ہیں۔

اس دور میں عموما رواج ہو گیا ہے کہ جب کچھ لوگ مل کر بیٹھتے ہیں تو معاشرے پر تنقید کرتے ہیں۔ ہر شخص کو دوسروں کی اصلاح کی فکر رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو، جو خود بھی کسی نہ کسی برائی میں مبتلا ہوتے ہیں، دوسروں کی برائیں زیادہ بھیانک دکھائی دیتی ہیں اور جو کچھ وہ خود کرتے ہیں وہ انہیں بہت ہلکی بات معلوم ہوتی ہے۔ مثلا جو رشوت خور ہے وہ دواؤں اور غذاؤں میں ملاوٹ کرنے والے کر برا کہتا ہے۔ جو ملاوٹ کرنے کا مجرم ہے وہ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں پر برہم ہوتا ہے۔ جو ذخیرہ اندوز ہے وہ ان سرکاری ملازمین سے نالاں ہے جو اپنے فرائض منصبی سے غفلت برتتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے مجرم بھی اپنے سے مختلف جرم کرنے والوں کو برا بھلا کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر محض دوسروں کی اصلاح کی بجائے ہر ایک کو اپنی اصلاح کی فکر ہو جائے تو معاشرہ درست ہو سکتا ہے۔ انسان کے اختیار میں سب سے زیادہ اس کی اپنی ذات ہے۔ جو شخص اپنی ذات پر اسلام نافذ نہیں کر سکتا وہ دوسروں پر کیا نافذ کرے گا۔ (مجلہ فکرونظر، مارچ، اپریل 1983ء، نفاذِ شریعت نمبر)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

اصلاح عقائد و اعمال اور رسومات،صفحہ:570

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ