سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(265) دودھ روکے ہوئے جانور کی فروخت کا حکم

  • 23635
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1532

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ جب گائے، بھینس اور بکری وغیرہ بیچنا چاہتے ہیں تو انہیں منڈی میں لانے سے پہلے چند دن ان کا دودھ نہیں دوہتے۔ اسلام کا اس سلسلے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام خیرخواہی کا دین ہے، ایسے معامالات جن میں ضرر و غرر (دھوکہ) پایا جاتا ہو اسلام نے ان سے منع کیا ہے جیسے ہوا میں ارتے ہوئے پرندوں کی بیع، دریا میں موجود مچھلیوں کی بیع، جانور کے پیٹ میں موجود بچہ کی خریدوفروخت اسی اصول کے پیش نظر جائز نہیں، عام طور پر مشاہدہ میں آیا ہے کہ جو بیوپاری دودھ دینے والے جانوروں کو منڈی میں لاتے ہین تو وہ کچھ دن قبل جانور کا دودھ نہیں نکالتے تاکہ تھن بھرے بھرے دکھائی دیں اور خریدار سمجھے کہ یہ جانور زیادہ دودھیلہ ہے۔ لیکن جب وہ ایسے جانور کو اپنے ہاں لے جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے اس کے ساتھ تو فراڈ ہو گیا ہے۔ جانور کا دودھ تو اتنا نہیں جتنا ظاہرا لگ رہا تھا۔ اصطلاح شریعت میں اسے بيع مصراة کا نام دیا جاتا ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس بیع سے روکا ہے۔ ارشاد نبوی ہے:

(لا تصروا الأبل والغنم)(بخاري، البیوع، النھی للبائع ان لا یحفل الابل والبقر والغنم وکل محفلۃ، ح: 2148)

’’اونٹوں اور بکریوں (کو بیچنے کی غرض سے ان) کا دودھ تھنوں میں نہ روک رکھو۔‘‘

دوسری حدیث میں آتا ہے:

(ولا تصروا والغنم) (ایضا، ح: 2150)

اگر کسی نے ایسا جانور خرید لیا ہو تو اسے اختیار ہو گا کہ چاہے تو رکھ لے یا تین دن کے اندر اندر واپس کر دے، ساتھ (ازراہِ تالیفِ قلب یا احسان) ایک صاع کھجور بھی دے۔ ارشاد نبوی ہے:

(فمن ابتاعها بعد فإنه بخير النظرين بين أن يحتلبها ان شاء أمسك إن شاء ردها وصاع تمر) (ایضا، ح: 2148)

دوسری حدیث میں ہے:

(إذا ما أحدكم اشترى لقحة مصراة أو شاة مصراة فهو بخعد أنما هى وإلا فليردها وصاعا من تمر)(مسلم، البیوع، حکم بیع المصراۃ، ح: 1524)

ایک حدیث میں تین دن کا بھی ذکر ہے، ارشاد نبوی ہے:

(من ابتاع شاة مصراة فهو فيها بالخيار ثلثة أيام ۔۔۔) (ایضا)

بعض راویوں نے ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے (وهو بالخيار ثلثا) کے الفاظ بھی نقل کیے ہیں۔

اگر خریدار کو ایسی صورت حال کا تین دن سے پہلے پتا چل جائے تو اسی وقت واپس کر دے مزید تاخیر نہ کرے۔

یہاں ایک مسئلہ قدرے وضاحت طلب ہے کہ کیا کھجور کے علاوہ کسی اور جنس کا غلہ بھی دیا جا سکتا ہے یا صرف کھجور ہی دینی چاہئے۔ زیادہ تر احادیث میں (صاعا من تمر) (کھجور کا ایک صاع) کا ذکر ملتا ہے، اور ان احادیث کے اولین مخاطب عرب تھے کہ جن کی زیادہ تر گزر بسر کھجور پر ہوتی تھی۔ کھجور ایک طرح کا تیار شدہ کھانا ہے۔ ابن سیرین سے (صاعا من طعام) (کھانے کا ایک صاع) کے الفاظ بھی بعض نے نقل کیے ہیں۔

(بخاري، البیوع، النھی للبائع ۔۔، ح: 2148)

مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(من اشترى شاة مصراة وهو بخير النظرين بعد أن يحلبها إما هى وإلا فليردها وصاعا من تمر)

(من اشترى شاة مصراة وهو بالخيار ثلثة أيام فإن ردها رد معها صاعا من طعام لا سمراء) (البیوع، حکم بیع المصراة، ح: 1524)

’’وہ جس نے ایسی بکری خریدی جس کا دودھ تھنوں میں روکا گیا ہوا، اسے تین دن تک واپس کرنے کا اختیار ہو گا۔ اگر واپس کرے تو ایک صاع کھانا بھی دے نہ کہ اناج (گندم وغیرہ)‘‘

جبکہ بعض علماء نے ملکی رائج الوقت خوراک کا ایک صاع دینا بھی جائز قرار دیا ہے۔ جیسا کہ امام نووی شارح صحیح مسلم فرماتے ہیں:

وقال بعض أصحابنا يرد صاعا من قوت البلد ولا يختص بالتمر

اسی طرح ایک صاع کے مطابق قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔

ملاحظہ: ایک صاع (حجازی) کا وزن دوسیر گیارہ چھٹانک ہوتا ہے جو کہ رائج الوقت کلوگرام کے پیمانے کے محتاط حساب سے اڑھائی کلوگرام بنتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

خریدوفروخت اور حلال و حرام کے مسائل،صفحہ:563

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ