سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(261) بینک کے شئیرز پر منافع کی شرعی حیثیت؟

  • 23631
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 951

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بینک کے شئیرز پر جو منافع کے نام پر رقم دی جاتی ہے کیا وہ جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شئیر کا مسئلہ ایسا ہے کہ جب بینک کا پورا نظام ہی سودی کاروبار پر مبنی ہے تو آپ بینک سے جو شئیر پر نفع حاصل کریں گے ظاہر ہے کہ اس میں بھی سودی رقم آئے گی۔ اس واسطے بینکوں کے شئیرز خریدنا اور اس پر منافع کے نام سے رقم لینا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر مسلمان کوئی ایسی کمپنی قائم کریں جو مضاربہ کے اصول پر کام کرے، مضاربہ کے اصول کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دار اپنا سرمایہ لگائیں اور کمپنی میں جو لوگ محنت کرنے والے، کاروبار کرنے والے ہوں وہ اپنی محنت، اپنی عقل و رائے اس میں صرف کریں، علاوہ ازیں جب سرمایہ لگائیں تو فریقین (یعنی کمپنی اور جو لوگ سرمایہ لگاتے ہیں) اسی وقت یہ طے کر لیں کہ ایک کی رقم رہے گی اور دوسرے کی محنت اور پھر دونوں کی محنت اور رقم سے جو نفع حاصل ہو گا اسے اتنے فیصد کے حساب سے آپس میں بانٹ لیں گے اور نفع و نقصان میں دونوں فریق شامل ہوں گے۔ نیز یہ کمپنی سودی کاروبار یا کوئی ایسا کاروبار نہیں کرے گی جو جائز نہیں ہے مثلا شراب سازی اور شراب کی خریدوفروخت کا کاروبار نہیں کرے گی، فلم سازی کا کام نہیں کرے گی، جوا وغیرہ ناجائز کاروبار میں رقم نہیں لگائے گی، اسی طرح اور کوئی حرام کاروبار نہیں کرے گی تو جب اس طرح کی کمپنیوں کا شئیر اور اس کا نفع ہو تو جائز ہے، اگر اس طرح کی کمپنی قائم ہو جائے (اور ایسا کرنا آسان ہے کوئی محال چیز نہیں ہے، صرف تھوڑی سی محنت کرنے کی ضرورت ہے) تو اس کا شئیر لینا جائز ہے اور اس پر جو نفع ملے گا وہ نفع بھی جائز ہو گا۔ لیکن آج کل جو بھی کمپنیاں اور بینک شئیر کا کاروبار کرتے ہیں وہ تقریبا سارے ادارے اپنا کاروبار سودی بنیاد پر کرتے ہیں، وہ اپنی رقم سود پر دیتے ہیں، لوگوں سے سود پر رقم لیتے ہیں، اس واسطے ان کا شئیر لینا جائز نہیں۔ (سود اور اس کے احکام و مسائل، ص: 95-96)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

خریدوفروخت اور حلال و حرام کے مسائل،صفحہ:560

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ