السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص مختلف سامان پنکھا، گھڑی، کولر اور سائیکل وغیرہ قسط وار فروخت کرتا ہے، مثلا جو سائیکل بازار میں چھ ہزار روپے میں ملتی ہے وہ شخص اس سائیکل کو سات ہزار روپے میں بیچتا ہے اور روپے کی ادائیگی کا یہ طریقہ ہے کہ وہ دو ہزار روپے اول وقت لیتا ہے اور اس کے بعد پانچ سو روپے ماہوار ادا کرنے ہوتے ہیں، تو کیا یہ طریقہ شرعی اعتبار سے درست ہے؟ کیا ہم ہزار روپے زائد دے کر اس سے سائیکل خرید سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خرید سکتے ہیں بشرطیکہ ان شرائط کو بعد میں تبدیل نہ کیا جائے جو خریدتے وقت طے ہوئی تھی، ڈاکٹر فضل الرحمٰن مدنی لکھتے ہیں:
اگر پہلے سے وہ بتا دیتا ہے کہ اس سائیکل کی قیمت سات ہزار روپے ہے اور اس میں سے دو ہزار روپے پہلی قسط میں جمع کروانا پڑیں گے، اس کے بعد پانچ سو یا ہزار روپے ہر ماہ جمع کروانا پڑیں گے اور اسی پر دونوں فریق متفق ہو جاتے ہیں اور بات طے کر لیتے ہیں تو بیع و شراء کا یہ طریقہ جائز ہے اور اس میں کوئی قباحت یا حرمت کی بات نہیں ہے۔ اس واسطے کہ ادھار سامان کا بیچنا جائز ہے۔ یہاں اس نے ادھار بیچا ہے اور اس کی قیمت پہلے مقرر کر دی ہے اور اس کے ادا کرنے کا طریقہ بھی طے ہو گیا ہے، رہا ادھار کی صورت میں قیمت میں اضافہ کا مسئلہ تو آپ نقد بیچنے کی صورت میں بھی دیکھتے ہیں کہ تاجر حضرات مختلف گاہکوں سے کم و بیش قیمت پر سامان بیچتے رہتے ہیں، ایک تاجر ایک سامان یا ایک چیز نقد بیچتا ہے اور ایک گاہک کو پچاس روپے میں دیتا ہے، پھر دوسرا گاہک آتا ہے تو وہی سامان اسے پچپن روپے میں دیتا ہے اور تیسرے کو ساٹھ روپے میں دیتا ہے تو جیسے نقد بیچنے میں کمی بیشی کر سکتے ہیں ادھار بیچنے میں بھی کمی بیشی ہو سکتی ہے، بش شرط یہ ہے کہ پہلے سے ہی طے ہونا چاہئے کہ یہ ادھار ہے اور اس کی قیمت اتنی ہے، یہ نہ ہو کہ بیچنے والا کہے کہ نقد لو گے تو یہ سامان چھ ہزار میں دیں گے اور ادھار لو گے تو سات ہزار میں اور اس کی ادائیگی کی یہ شکل ہو گی۔ اور خریدار اس وقت کچھ نہ طے کرے اور سامان لے کر چلا جائے۔ یہ شکل جائز نہیں، اس لیے کہ اس کے بعد اگر دوبارہ سو روپے دینے کے لیے جائے گا تو ممکن ہے تاجر کہے کہ ہم نے تو آپ کو ادھار سمجھ کر دیا ہے اور خریدار کہے کہ نہیں ہم نے تو نقد سمجھ کر لیا ہے۔ آپ یہ روپیہ لیجیے اور حساب صاف۔ اس کے بعد دونوں میں جھگڑا ہو، اس واسطے پہلے ہی سے تمام باتیں واضح طور پر طے ہو جانی چاہئیں کہ نقد ہے یا ادھار، دونوں صورتوں میں کیا قیمت ہے، ادھار کی شکل میں کب تک اور کس طرح قیمت ادا کرنا ہے تاکہ بعد میں کوئی نزاع اور اختلاف اس کی بنا پر نہ ہو۔(سود اور اس کے احکام و مسائل، ص : 91-93)
اکثر عرب علماء، مفتی اعظم سعودی عرب رحمہ اللہ سمیت کا موقف ایسے کاروبار کے جواز کا ہے۔ (فتاویٰ اسلامیہ 444/2-446، فتاویٰ علامہ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ، ص: 411-413،415،416)
سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ (فتاویٰ نذیریہ 162/2-168)، حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ (فتاویٰ اہل حدیث 2/263-264)، استاذِ محترم ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر شہید رحمہ اللہ (متوفی 24 ربیع الثانی 1433ھ/17 مارچ 2012ء)، شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ (ماہنامہ محدث، اگست 2005ء) اور مفتی حافظ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ (فتاویٰ اصحاب الحدیث 230/1-236) کے نزدیک بھی نقد اور اُدھار کی قیمت میں فرق کرنا جائز ہے۔ حنفی علماء بھی ایسے کاروبار کو جائز قرار دیتے ہیں۔ (آپ کے مسائل اور اُن کا حل از مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ 146/6-155)
تاہم بعض علماء اس قسم کی کاروبار کو ناجائز اورسودی قرار دیتے ہیں۔
(دیکھیے احکام و مسائل 376/1-379، 252/2-556،565-586، از شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ، فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام 2/220-221، از حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ، احکام و مسائل 599/1-616، از مفتی مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ، رسائل و مسائل 251/1، از سید ابولاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ)
نوٹ: استاذِ محترم ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر شہید رحمہ اللہ کی اس مسئلے میں مدلل اور تفصیلی رائے میں نے اُن کی شہادت کے تقریبا پچیس دن قبل فون پر معلوم کی تھی۔ دورانِ گفتگو میں نے حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کے موقف کا بھی حوالہ دیا تھا۔ علم و عمل کا یہ روشن چراغ بھی اسی سال حافظ عبدالرشید اظہر شہید رحمہ اللہ سے صرف تین ہفتے قبل 4 ربیع الثانی (26 فروری) کو گل ہو گیا تھا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب