سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(169) موانع شرعیہ سے جو مسجد پاک ہو وہ شرعاً مسجد کا حکم رکھتی ہے

  • 2363
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1689

سوال

(169) موانع شرعیہ سے جو مسجد پاک ہو وہ شرعاً مسجد کا حکم رکھتی ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک جمعدار فوج نے خاص اپنے روپے سے مسجد تیار کروائی، آیا وہ مسجد شرعاً حکم مسجد کا رکھتی ہے یا نہ، اور اس مسجد میں مصلیوں کے نماز پڑھنے سے اس کو ثواب ملے گایا نہ۔  بینوا توجروا

____________________________________________________________________

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر اس مسجد میں کوئی مانع شرعی نہ ہو، تو بے شک وہ مسجد شرعاً مسجد کا حکم رکھتی ہے، اور اس میں مصلیوں کے نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا، موانعات شرعیہ یہ ہیں، کہ مالِ حرام سے یا زمین مغصوبہ میں بنائی گئی ہو، یا زمین مشترکہ میں بلا اجازت شریک ثابت بنائی گئی ہو، یا بقصد فخر و مباہاۃ دریا کے بنائی گئی ہو، یا ضرر رسانی و ضداً و مخالفت مسجد ثانی بنائی گئی ہو، تو ایسی مسجد شرعاً حکم مسجد کا نہیں رکھتی، تفسیر مدارک میں ہے۔
"کل مسجد بنی مباھاة اوریاء او سمعة او لغرض سوی ابتغاء وجہ اللّٰہ او بمال غیر طیّب فھو لا حق بمسجد الضرار"
تفسیر کثاف میں ہے:
"عن عطاء لما فتح اللہ الامصار علی ید عمر رضی اللہ عنہ امر المسلمین ان یبنو المساجد ولا یتخذوا فی المدینة مسجدین یضار احدھما صاحب الخ"
تفسیر احمدی میں ہے:
"فالعجب من المشائخ المتعصبین فی زماننا یبنون فی کل ناحیة مسجدا طلبا للاسم والرسم واستیلاء لشافھم واقتداء بابائھم ولم یتأملوا ما فی ھذہ الآیة والقصة من شناعتہ احوالھم وافعالھم انتھیٰ"
’’ہمارے زمانے کے متعصب مشائخ سے تعجب ہے، کہ وہ اپنے نام اور مشہوری اور برتری کے لیے آبائی رسم کے مطابق ہر گوشہ میں مسجد بنا لیتے ہیں، کیا وہ آیت پر غور نہیں کرتے اور منافقین کے حالات و افعال سے واقف نہیں ہوتے۔‘‘۱۲
پس اگر مسجد مذکور ان امور سے خالی ہو اور خالص لوجہ اللہ بنائی گئی ہو، تو بے شک وہ مسجد، مسجد کا حکم رکھتی ہے۔ اور اس میں مصلیوں کے نماز پڑھنے سے اس کے بانی جمعدار مذکورہ کو ثواب ملے گا۔ واللہ اعلم بالصواب، حررہ عبد الحق ملتانی عفی عنہ۔
(سید نذیر حسین (فتاویٰ نذیریہ ص ۲۱۶ جلد اول)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 09 ص 

تبصرے