السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کچھ لوگ بینک میں ایک مقررہ رقم رکھ کر مثلا پچاس ہزار یا لاکھ، دو لاکھ رکھ کر ہر ماہ اس رقم پر پانچ ہزار یا دس ہزار روپے لیتے ہیں اور اس کا جواز یہ بتاتے ہیں کہ بینک ہمارے روپے سے کاروبار کرتا ہے، اس واسطے ہمارے لیے ہر ماہ یہ رقم لینی جائز ہے جبکہ اصل رقم، جو کہ جمع کی گئی ہے، وہ جوں کی توں قائم رہتی ہے اور مقررہ مدت کے بعد وہ تمام رقم جو کہ جمع کی گئی تھی، واپس مل جاتی ہے تو کیا شرعی اعتبار سے ایسا کرنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایسا کرنا جائز نہیں، اس لیے کہ اس رقم پر وہ پر وہ ہر ماہ جو پانچ یا دس ہزار روپے لیتا ہے وہ شرعی نقطہ نظر سے سود ہے۔ گویا اس نے ایک رقم دی ہے اور ماہانہ یا سالانہ اس رقم پر جو سود ملتا ہے اسے لے کر وہ استعمال کرتا ہے تو یہ شرعی نقطہ نظر سے سود خوری ہوئی اور یہ جائز نہیں ہے۔ (سود اور اس کے احکام و مسائل، ص: 91، از ڈاکٹر فضل الرحمٰن مدنی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب