سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(257) صحابیات رضی اللہ عنھن کے حالاتِ زندگی کے بارے میں کتب؟

  • 23627
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3473

سوال

(257) صحابیات رضی اللہ عنھن کے حالاتِ زندگی کے بارے میں کتب؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صحابیات رضی اللہ عنھم کے حالات زندگی کون کون سی کتابوں سے معلوم ہو سکتے ہیں؟ صحابیات رضی اللہ عنھن سے متعلق لکھی گئی مستقل کتب کے بارے میں بھی راہنمائی کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسماء الرجال کی تمام کتب میں صحابیات رضی اللہ عنھن کے حالات زندگی مل جاتے ہیں۔ ابن مندہ (م 395ھ)، ابو نعیم (م 403ھ)، قاضی ابن عبدالبر (م 436) اور ابوموسیٰ اصفہانی (م 581ھ) کی کتب میں صحابیات کے حالات زندگی کی تفصیلات لکھی گئی ہیں۔

قاضی ابن عبدالبر کی ایک کتاب الاستيعاب فى اسماء الاصحاب ہے، جس کے ایک حصے كتاب النساء و كناهن میں 398 صحابیات رضی اللہ عنھن کا حروف تہجی کی ترتیب سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ جو صحابیات ناموں سے مشہور ہیں ان کا تذکرہ ان کے ناموں کے حروف تہجی سے کیا گیا ہے اور جو صحابیات رضی اللہ عنھن کنیتوں سے مشہور ہیں ان کا تذکرہ کنیتوں کے ضمن میں کیا گیا ہے۔

الطبقات الکبری لابن سعد کی آٹھویں جلد صالحات و صحابیات رضی اللہ عنھن کے حالات زندگی کے بارے میں مخصوص ہے۔ محمد بن سعد (م 230ھ) کی اس کتاب کا اردوترجمہ طبقات ابن سعد کے نام سے چھپ چکا ہے۔ اس کتاب میں 627 صحابیات رضی اللہ عنھن کا تذکرہ ہے۔

حصہ ہشتم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دادیوں، نانیوں، والدہ محترمہ، ازواج مطہرات، آپ کی چار صاجزادیوں اور دیگر صحابیات رضی اللہ عنھن کے تذکرے ہیں۔ اس کتاب کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں، پھوپھیوں اور ان کی بیٹیوں اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے حالات بیان کئے گئے ہیں، پھر قریشی خواتین اور عام مہاجرات رضی اللہ عنھم کا تذکرہ ہے۔ مہاجرات رضی اللہ عنھن کے بعد انصاریات رضی اللہ عنھن کے حالات بیان کئے گئے ہیں اور ہر خاندان کی عورتوں کا علیحدہ علیحدہ تذکرہ کیا گیا ہے۔

علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ (م 630ھ) نے ایک ضخیم کتاب اُسُد الغابة فى معرفة الصحابة کے نام سے لکھی ہے، جس کے ایک حصہ میں صحابیات کے حالات بیان کئے گئے ہیں، اس کتاب میں صحابیات کا تذکرہ ان کے ناموں اور پھر مشہور کنیتوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جن میں حروف تہجی کی ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں 1022 صحابیات کے حالات لکھے گئے ہیں۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (م 852ھ) کی اسماء الرجال پر ایک ضخیم کتاب الاصابة فى تمييز الصحابة ہے جس کا آخری حصہ کتاب النساء کے نام سے ہے، جس میں مکررات اور کنیتوں سمیت 1545 صحابیات رضی اللہ عنھن کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس قدر صحابیات رضی اللہ عنھن کا تذکرہ کسی اور کتاب میں نہیں کیا گیا۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔

اس سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ایک اور کتاب تہذیب التہذیب کے نام سے ہے، جس میں بعض تابعیات اور مکررات سمیت 322 صحابیات رضی اللہ عنھن کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

امام شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان ذہبی رحمہ اللہ (م 748ھ/1374ء) نے اپنی ضخیم کتاب سیر اعلم النبلاء کے پہلے تین حصوں میں بعض صحابیات رضی اللہ عنھن کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔

صحابیات رضی اللہ عنھن کے حالات زندگی اور سیرت سے متعلق کتب لکھنے کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ عصر حاضر میں ایک کتاب ’’صحابیات‘‘ علامہ نیاز فتح پوری نے اردو زبان میں تحریر کی ہے۔ سیر الصحابیات مولانا سعید انصاری کی تالیف ہے۔

اسوہ صحابیات مولانا عبدالسلام ندوی کی کاوش ہے، اس کتاب میں مختلف موضوعات کے تحت صحابیات رضی اللہ عنھن کی سیرت بیان کی گئی ہے۔

بعض عرب علماء نے صحابیات رضی اللہ عنھن کے حالات سے متعلق بہت عمدہ کتب تالیف کی ہیں۔ ان میں سے جن کتب کا اردو ترجمہ ہو چکا ہے وہ یہ ہیں:

صحابیات الرسول صلی اللہ علیہ وسلم (گلشنِ رسالت کی مہکتی کلیاں) از ابوعمار محمود مصری۔ صحابیات طیبات رضی اللہ عنھن از احمد خلیل جمعہ، سمیر المومنات از عبداللہ بدران۔ محی الدین بوابیجی۔

مخصوص صحابیات رضی اللہ عنھن کے تذکروں سے متعلق کتب بھی لکھی جا رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک کتاب نساء اهل البيت (خواتین اہل بیت) از احمد خلیل جمعہ ہے۔ مولانا محمود احمد غضنفر رحمۃ اللہ علیہ (جنہوں نے صحابیات رضی اللہ عنھن سے متعلق بہت سی عربی کتب کا اردو ترجمہ کیا ہے) نے ایک کتاب صحابیات مبشرات رضی اللہ عنھن کے نام سے لکھی ہے۔

ایک کتاب ’’حیاتِ صحابیات کے درخشاں پہلو‘‘ بھی مارکیٹ میں آ چکی ہے۔

’’مظلوم صحابیات رضی اللہ عنھن‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب راقم الحروف کی بھی مطبوع ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

خواتین کے مخصوص مسائل،صفحہ:551

محدث فتویٰ

تبصرے