کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہم ملازمان دفتر نے احاطہ دفتر میں ایک چھپر کھپریل پوش ڈال کر مسجد بنا رکھی ہے اور یہ مسجد ساگر پیشہ کے پس پشت ایک گوشہ میں واقع ہے اور نماز ظہر و عصر وہاں ادا کرتے ہیں۔ اجازت لینے میں احتمال ہے کہ مسجد اٹھاوی جاوے، سردست اسی کو غنیمت جان کر نماز پڑھ لیا کرتے ہیں۔ اور نماز جمعہ دفتر سے کچھ دور کچہری کی مسجد میں ہوتی ہے وہاں ہم لوگ نوکری کی پابندی کی وجہ سے جا نہیں سکتے، اس صورت میں اور ایسی مسجد میں نماز جمعہ بھی درست ہے یا نہیں اور یہ مسجد جو کہ بغیر حکم احکام بالا بنائی گئی ہے مسجد کا حکم رکھی ہے یا نہیں، اس کے حکم سے یعنی جواب سے آگہی بخشی جاوے، اللہ تعالیٰ آپ کو اجرِ عظیم عطا فرماوے گا۔ فقط
______________________________________________________
جواب:… درصورتے کہ اجازت طلب کرنے میں یہ احتمال ہے کہ مالک زمین مسجد کو اٹھوا دے ، تو معلوم ہوا کہ مالک زمین اس مقام پر مسجد کا ہونا روا نہیں رکھتا، پس ایسی حالت میں وہ مسجد حکم مسجد میں نہیں ہے بلکہ ایک عام عمارت کے حکم میں ہے۔ اس واسطے کہ کوئی زمین و عمارت حکم مسجد میں نہیں ہو سکتی، تاوقتیکہ مالک کی طرف سے بصراحت اقامت اذان و جماعت کا اذن حاصل نہ ہو جاوے، یا آنکہ وہ بصراحت یہ نہ کہہ دے کہ میں نے یہ عمارت یا یہ زمین ہمیشہ مسجد ہونے کو دے دی۔
"وھذا مما لم یختلف فیہ فکیف إذا اتخذا قوم أرض غیر ھم مسجد او تصرفوا فیہ ماشاء واعلی غیر علم المالك"
’’یہ وہ مسئلہ ہے جس میں کسی کا بھی اختلاف نہٰں ہے، پھر اندازہ کرو اگر کوئی قوم کسی زمین کو مسجد بنا لے یا مالک کے علم کے بغیر اس میں اپنی مرضی سے جس طرح چاہے تصرف کرے، تو اس کا کیا حال ہو گا۔‘‘۱۲
بناء علیہ کہا جاتا ہے کہ یہ بقعہ جس کو سائلین نے مسجد تصور کیا ہے، اس میں کوئی نماز بغیر کراہت نہیں ہوتی،تاوقتیکہ مالک سے صرح اجازت حاصل نہ کر لیں، اس لیے کہ یہ زمین ایسے دغدغہ کی حالت میں شبیہ النصب کے حکم میں ہے۔ واللہ اعلم (محمد قمر الدین)
چونکہ یہ مسجد بلاحکم صاحب زمین کے بنائی گئی ہے لہٰذا حکم مسجد کا نہیں رکھتی اور اس میں نماز کا وہ ثواب نہیں ہوتا، جو مسجد میں ہوتا ہے اور جمعہ بھی اس میں جائز نہیں ہے فقط الراقم محمد سدید الدین قریشی ۔ اتقوا اللہ وقولوا قولا سدیدا
الجواب وہو الموفق للصواب:… زمین مسئلہ عنہا حکم مسجد کسی نہج سے نہیں ہو سکتی، لیکن اس میں نماز ادا کرنا باجازت ضمنی حاکم وقت جائز ہے، اس لئے کہ انگریزی قانون و اشتہار میں صاف طور پر لکھا ہے، کہ کسی عبادت کو نہ روکا جائے اور جس قدر معابد ہیں، سب سرکاری زمین میں واقع ہیں گو نسبت اضافی زید و محمود کی طرف عاید ہو، اس نسبت اضافی ہی کی وجہ سے معابد وغیرہ بفور طرؤ وقف کے وقف ہو جاتے ہیں۔ اور چونکہ زمین مسئولہ عنہا میں نسبت اضافی اور طرؤ وقف کا تحقیق نہیں ہے۔ اس لیے مسجد نہ قرار دی جائے گی، مگر اس میں نماز ادا کرنا بال کراہت جائز ہے اور اگر اس اجازت ضمن سے قطع نظر کی جاوے، تو بھی یہ زمین فناء مصر اور جنگل میں واقع ہے اور جنگل میں نماز گزارنا بلا اجازت لینے کے کسی سے بالاتفاق فقہا بلا کراہت جائز ہے، کیوں کہ جنگل علی سبیل الخصوصیت کسی کے ملک میں نہیں ہوتا ہے۔
"کما قال صاحب الھدایة فی باب المعاون الرکاز وان وجدہ فی الصحرأ فھو له لأنه لیس فی ید أحد علی الخصوص انتھیٰ"
’’اگر اس (خزانہ) کو صحراء میں اپئے، تو وہ اسی کا ہے، اس لیے کہ وہ جگہ کسی خاص آدمی کی نہیں ہے‘‘۱۲
اور جمعہ بھی اس زمین میں جیسا ہندوستان میں ہوتا ہے جائز ہے کیونکہ زمین مبحوثہ فناء مصر میں واقع ہے۔
"وکما یجواز أداء الجمعة فی المصر یجوز أداء ھا فی فناء المصر وھو الموضع العد لمصالح المصر متصلا باالمصر انتھیٰ ما فی العالمگیری حررہ ااجربہ احمد حسن عفی عنہ"
’’جس طرح شہر میں جمعہ جائز ہے، شہر کے صحن میں بھی جمعہ جائز ہے اور شہر کا صحن وہ گرائونڈ وغیرہ ہوتی ہے، جو شہر سے متصل شہری ضرورتوں کے لیے تیار کی گئی ہو‘‘۱۲
الجواب صحیح شھاب الدین۔ اصاب فیما اجاب واللہ الموفق للصواب والیہ المرجع والمااب عبد الغفور عفی عنہ مدرس مدرسہ درگاہ۔ الجواب صحیح غلام یحییٰ، سید محمد نذیر حسین۔
جناب میاں صاحب مدظلہم کو بعد سنانے دو جوابوں کے دوسرے جواب پر ان کی مہر ثبت کی گئی۔
(الجواب الثانی صحیح سید ابو الحسن)