سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(244) کیا سرپرست (ولی) کے بغیر عورت کا نکاح کیا جا سکتا ہے؟

  • 23614
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 741

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا سرپرست (ولی) کی رضامندی کے بغیر عورت کا نکاح کیا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس طرح سرپرست کو قطعی طور پر اس بات کا حق نہیں، کہ وہ کسی عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کرے، اسی طرح کسی بیٹی کو بھی اس بات کا حق نہیں، کہ وہ اپنے باپ یا ولی سے بالا بالا خود ہی اپنا نکاح کروالے۔ ارشاد نبوی ہے:

(لا نكاح الا بولى)(ابوداؤد، النکاح، فی الولی، ح: 2085، ترمذي، النکاح، ح: 1101، ابن ماجه، النکاح، ح: 1887)

’’ولی کے بغیر نکاح ہی نہیں۔‘‘

ایک اور ارشاد نبوی ہے:

(ايما امرأة نكحت بغير اذن وليها فنكاحها باطل فنكاحها باطل فنكاحها باطل)(ابوداؤد، النکاح، فی الولي، ح: 2083، ترمذي، النکاح، ما جاء لا نکاح الا بولی، ح: 1102، ابن ماجه، النکاح، لا نکاح الا بولي، ح: 1879)

’’جس کسی عورت نے بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کیا تو اُس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘

خود کئے گئے نکاح کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تین دفعہ "باطل" کا لفظ بولنا اس جرم کی شدت پر دلالت کرتا ہے۔ مزید برآں عہد رسالت اور عہد صحابہ سے کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ کسی عورت نے اپنا نکاح خود ہی، بغیر کسی سرپرست کے کر لیا ہو اور وہ برقرار رہنے دیا گیا ہو۔ ایک دفعہ ایک عورت نے اصلی ولی اور سرپرست کی بجائے کسی اور کو اپنا بنا لیا جس نے اس عورت کا نکاح کروا دیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اِس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے نکاح کرنے اور کروانے والوں کو درے مارے اور اس عورت کا نکاح ختم کر دیا۔

(مصنف عبدالرزاق، النکاح، النکاح بغیر ولی، ح: 10486، مصنف ابن ابی شیبة، النکاح، فی المراة اذا تزوجت بغیر ولی، ح: 16191)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"لا تنكح المراة نفسها، فان الزانية تنكح نفسها"(مصنف عبدالرزاق، النکاح، النکاح بغیر ولی، ح: 10494)

’’عورت اپنا نکاح خود نہ کروائے، کیونکہ بدکار عورت اپنا نکاح خود کرواتی ہے۔‘‘

اسی سے ملتا جلتا فرمان عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ہے۔ (ایضا، ح: 10481)

نکاح میں ولی کی شرط کیوں ضروری ہے؟ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’نکاح میں سرپرست کی شرط ان کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور عورتوں کا نکاح کو اپنے ہاتھ میں لینے میں بے غیرتی ہے، جس کی وجہ حیاء کی کمی، سرپرستوں پر دست درازی اور ان سے لاپروائی برتنا ہے۔ علاوہ ازیں تشہیر کے ذریعہ نکاح اور بدکاری میں فرق کرنا واجب ہے اور نکاح کی تشہیر میں سب سے اہم بات لڑکی کے سرپرستوں کا بوقتِ نکاح حاضر ہونا ہے۔‘‘ (حجة اللہ البالغة 127/2)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نکاح کے مسائل،صفحہ:532

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ