السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا باپ اپنی بیٹی کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر کر سکتا ہے۔ اگر نہیں تو کیوںَ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی باپ کو بیٹی کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح کرنے کی اجازت نہیں، اس سلسلے میں تین احادیث شریفہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے۔
1۔ امام بخاری اور امام مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لا تنكح الايم حتى تستأمر ولا تنكح البكر حتى تستأذن)
’’بیوہ کا نکاح اس کا حکم لیے بغیر نہ کیا جائے اور دوشیزہ کا نکاح اس کی اجازت لیے بغیر نہ کیا جائے۔‘‘
انہوں (صحابہ) نے عرض کیا:
يا رسول الله، و كيف اذنها؟
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس (یعنی دوشیزہ) کی اجازت کیسے ہے؟‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ان تسكت)(بخاري، النکاح، لا ینکح الاب وغیرہ ۔۔ح: 5136، مسلم، النکاح، ح: 1419)
’’یہ کہ وہ خاموش رہے۔‘‘
امام بخاری نے اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
"باب لا ينكح الاب وغيره البكر والثيب الا برضاهما"
’’(اس بارے میں) باب کہ باپ یا کوئی اور (ولی) دوشیزہ یا بیوہ کا نکاح ان کی رضامندی کے بغیر نہ کرے۔‘‘
امام نووی نے مسلم کی روایت پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
"باب استيذان الثيب فى النكاح بالنطق والبكر بالسكوت"
’’بیوہ سے نکاح میں بول کر اور دوشیزہ سے خاموش رہ کر اجازت لینے کے متعلق باب۔‘‘
ب: امام بخاری نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(البكر تستأذن)
’’دوشیزہ سے (اس کا نکاح کرنے کے لیے) اجازت طلب کی جائے گی۔‘‘
میں نے عرض کیا:
ان البكر تستحيى
’’دوشیزہ تو شرماتی ہے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اذنها صماتها)(بخاري، الحیل، فی النکاح، ح: 6971، مسلم، النکاح، استیذان الثیب فی النکاح، والبکر بالسکوت، ح: 1420)
’’اس کی اجازت اس کا سکوت ہے۔‘‘
ج: حضرات ائمہ ابوداؤد، ترمذی اور ابن حبان نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(تستأمر اليتيمة فى نفسها فان سكتت فهو اذنها، وان ابت فلا جواز عليها)(ابوداؤد، النکاح، فی الاستئمار، ح: 2092، ترمذي، النکاح، ما جاء فی اکراہ الیتیمة علی التزویج، ح: 1115، ابن حبان، النکاح، الولی، ح؛ 4097) الفاظ حدیث ابوداؤد کے ہیں۔)
’’یتیم بچی سے اس کی جان (یعنی اس کے نکاح) کے متعلق حکم طلب کیا جائے گا۔ پس اگر وہ خاموش رہے تو یہی اس کی طرف سے اجازت ہے اور اگر وہ انکار کر دے تو اس پر کوئی زنردستی نہیں۔‘‘
(یتیم بچی سے مراد بالغہ دوشیزہ ہے، جس کا باپ اس کے سن بلوغت کو پہنچنے سے پہلے فوت ہو گیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سابقہ حالت کے پیش اسے ’’یتیمہ‘‘ کہا۔)
(ملاحظہ ہو: معالم السنن للامام الخطابی 202/3، و عون المعبود 83/6، و تحفة الاحوذی 204/4)
امام ابن حبان نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
"ذكر الاخبار عما يجب على الاولياء من استئمار النساء اذا ارادوا عقد النكاح عليهن"
’’عورتوں کے نکاح کا ارادہ کرتے وقت اولیاء (سرپرستوں) پر ان سے اجازت لینے کے وجوب کے متعلق احادیث کا ذکر۔‘‘
(الاحسان فی تقریب ابن حبان 392/9)
1۔ بیٹی سے کب اجازت لی جائے؟
عام طور پر تقریب نکاح کے موقع پر بیٹی کے والد یا ماموں وغیرہ اس سے اجازت طلب کرنے کی غرض سے جاتے ہیں۔ اگر اس سے پیشتر بیٹی سے اجازت لی جا چکی ہے تو شاید اس موقع پر طلب کردہ اجازت کی حیثیت ایک رسمی کاروائی سے زیادہ نہ ہو گی۔ لیکن اگر اس سے پیشتر اجازت نہ لی ہو تو یہ موقع اجازت طلب کرنے کے لیے مناسب نہیں، کیونکہ رشتہ کی ناپسندیدگی کی بنا پر اگر لڑکی اس وقت انکار کر دے تو یہ والد اور خاندان کے لیے بہت بڑی پریشانی کا موجب ہو گا اور اگر وہ اپنی ناپسندیدگی کے باوجود اظہار نہ کرے تو اس کا حق مجروح ہو گا۔
درست طریقہ یہ ہے کہ رشتہ طے کرنے سے پیشتر بیٹی سے اجازت لی جائے۔ اس کی طرف سے اجازت ملنے پر ہی معاملہ کو آگے بڑھایا جائے وگرنہ وہیں ختم کر دیا جائے۔
2۔ دوشیزہ کی خاموشی کا معنی اس کے لیے واضح کرنا
دوشیزہ کی خاموشی سے اس کی اجازت سمجھے جانے کے بارے میں علامہ قرطبی نے ایک خوبصورت بات تحریر کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ہمارے بعض علماء نے اس بات کو مستحب قرار دیا ہے کہ دوشیزہ کو بتلایا جائے، کہ اس کی خاموشی کو اِس کی اجازت سمجھا جائے گا، تاکہ وہ صورت حالت سے اچھی طرح آگاہ ہو جائے۔
ہمارے بعض شناسا فقہاء ایسے موقع پر دوشیزہ کو کہا کرتے تھے:
’’اگر تم اس پر راضی ہو تو چپ رہو اور اگر ناپسند ہے تو پھر بولو۔‘‘ اور یہ یاد دہانی اچھی ہے۔
(المفھم 118/4) (بیٹی کی شان و عظمت، از پروفیسر ڈاکٹر فضل الہٰی حفظہ اللہ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب