سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(242) کیا کسی عورت کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر منعقد کیا جا سکتا ہے؟

  • 23612
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 866

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی عورت کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر منعقد کیا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی بھی عورت کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ احادیث میں ایسے نکاح کو مردود قرار دیا گیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر فضل الہٰی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: اگر کوئی والد یا اس کی عدم موجودگی کی صورت میں ولی بیٹی کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف کر دے تو وہ نکاح مردود ہو گا، خواہ بیٹی بیوہ ہو یا دوشیزہ۔

ذیل میں دونوں کے متعلق ایک ایک حدیث ملاحظہ فرمائیے:

1۔ بیوہ کی اجازت کے خلاف نکاح کا مردود ہونا

امام بخاری نے خنساء بنت خدام انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے:

(ان اباها، وهى ثيب، فكرهت ذلك، فاتت رسول الله صلى الله عليه وسلم  فرد نكاحها) (بخاري، النکاح، ح: 5138، 194/9)

’’ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا اور تب وہ بیوہ تھیں، انہیں یہ (نکاح) پسند نہ تھا۔ اس لیے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو آپ نے اس نکاح کو فسخ کر دیا۔‘‘

امام بخاری نے اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:

باب اذا زوج الرجل ابنته، وهى كارهة، فنكاحه مردود(المرجع السابق 194/9)

’’(اس بارے میں) باب، کہ جب آدمی اپنی بیٹی کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف کر دے، تو اس کا کیا ہوا نکاح مردود ہو گا۔‘‘

امام بخاری نے اس حدیث پر ایک دوسرے مقام پر درج ذیل عنوان لکھا ہے:

باب لا يجوز نكاح المكره(المرجع السابق، کتاب الاکراہ 318/12)

’’(اس بارے میں) باب، کہ جبر کیے ہوئے شخص کا نکاح جائز نہیں۔‘‘

2۔ دوشیزہ کی اجازت کے خلاف کیا ہوا نکاح

حضرت ائمہ احمد، ابوداود اور ابن ماجہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے:

ان جارية بكرا اتت النبى صلى الله عليه وسلم فذكرت ان اباها ووجها، وهى كارهة، فخيرها النبى صلى الله عليه وسلم(المسند، ح: 2469، 155/4 (ط، مصر)، ابوداؤد، النکاح، فی البکر یزوجھا ابوھا ولا یستامرھا، ح: 2096، 84/6، ابن ماجه، النکاح، من زوج ابنته وھی کارھة، ح: 1880)

’’بلاشبہ ایک دوشیزہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا ہے اور وہ اسے ناپسند کرتی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔‘‘

بیوہ اور دوشیزہ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے متعلق امام ابن قیم تحریر کرتے ہیں:

"وموجب هذا الحكم انه لا تجبر البكر البالغ على النكاح، ولا تزوج الا برضاها، وهذا قول جمهور السلف، و مذهب ابى حنيفة و احمد فى احدى الروايتين عنه، وهو القول الذى ندين الله به، ولا نعتقد سواه وهو الموافق لحكم رسول الله صلى الله عليه وسلم و امره و نهيه، و قواعد الشريعة و مصالح امته"(زاد المعاد 96/5، نیز ملاحظہ ہو: المرجع السابق 96/5-99، وسبل السلام 236/3-238، و نیل الاوطار 255/6)

’’یہ اس بات کو واجب کرتا ہے کہ دوشیزہ کو (اس کی مرضی کے خلاف جگہ) نکاح کرنے پر مجبور نہ کیا جائے اور اس کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہ کیا جائے۔ یہی جمہور سلف کا قول، ابوحنیفہ اور ایک روایت کے مطابق احمد کا مذہب ہے۔ اور ہم اللہ کے لیے اس قول کو بطور دین اختیار کرتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسری رائے نہیں رکھتے اور یہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ، امرونہی، قواعد شریعت اور مصالح امت کے موافق ہے۔‘‘

ضروری تنبیہ: بعض باپ اور ولی دوشیزہ کی مرضی کے خلاف نکاح کرتے وقت کہتے ہیں کہ:

’’جو رشتہ مل رہا ہے وہ بہت ہی مناسب ہے اور بچی ناسمجھ ہے اور ہمارا مقصود صرف بچی کی خیرخواہی ہے۔‘‘

ایسے نکاح کی شرعی حیثیت جاننے کے لیے درج ذیل ثابت شدہ واقعہ پر غور کرنا ان شاءاللہ مفید ہو گا: امام احمد نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا:

عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور انہوں نے خویلہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کے بطن سے ایک بیٹی چھوڑی۔ انہوں نے اپنے بھائی قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ کو (اپنی بیٹی کا) نگران مقرر کیا۔

عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:

وہ دونوں (عثمان اور قدامہ رضی اللہ عنہما) میرے ماموں ہیں۔ میں نے عثمان بن مظعون کی بیٹی کا رشتہ قدامہ بن مظعون سے طلب کیا تو انہوں نے اس کا نکاح میرے ساتھ کر دیا۔

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس کی ماں کے پاس آئے اور مال کے ذریعے اسے ترغیب دی تو ماں کا میلان ان (کے ساتھ بیٹی کا نکاح کرنے) کی طرف ہو گیا۔ بیٹی بھی اپنی ماں کے پیچھے لگی تو اُن دونوں نے (اسے) نامنظور کیا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوبرُو دونوں کا معاملہ پیش کیا گیا تو قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ نے کہا:

"يا رسول الله! ابنة اخى اوصى بها الى، فزوجتها ابن عمتها عبدالله بن عمر رضى الله عنه فلم اقصر بها فى الصلاح ولا فى الكفاءة، ولكنها امرأة، وانما حطت الى هوى امها"

’’اللہ کے رسول! (وہ) میرے بھائی کی بیٹی ہے، اس نے اس کا معاملہ مجھے سونپا، تو میں نے اس کا نکاح اس کے پھوپھی زاد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کیا۔ میں نے اس کے لیے نیک اور ہم پلہ رشتہ تلاش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، لیکن وہ تو عورت (زاد) ہے اور وہ یقینا اپنی ماں کی خواہش کے پیچھے چل پڑی ہے۔‘‘

انہوں (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(هى يتيمة ولا تنكح الا باذنها)

’’وہ یتیم بچی ہے اور اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہ کیا جائے گا۔‘‘

يتيمة سے یہاں مراد بالغہ ہے، کیونکہ اجازت تو بالغہ عورت ہی سے لی جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سابقہ حیثیت کے پیش نظر اسے یتیمہ کہا ہے۔

انہوں (ابن عمر رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا:

’’اس کے مالک ہونے (یعنی اس کے ساتھ نکاح ہونے) کے بعد وہ مجھ سے چھینی گئی، تو انہوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے اس کا نکاح کر دیا۔‘‘

(المسند، ح: 6136، 9/7-8 باختصار، دارقطنی، النکاح، ح: 37، 230/3، بیہقی، النکاح، ما جاء فی النکاح الیتیمة، ح: 13692، 195/7، المستدرک علی الصحیحین، النکاح 167/2)

اگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایسی عظیم شخصیت کے ساتھ دوشیزہ کی اجازت کے بغیر کیا ہوا نکاح باقی نہ رہا تو اور کسی شخص کے ساتھ دوشیزہ کی مرضی کے خلاف نکاح کرنے کی اجازت کیونکر ہو سکتی ہے؟

تنبیہ: بیٹی کے سابقہ نکاح کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کے اسی بیٹی کا رشتہ طلب کرنے پر احتساب نہ کیا، کیونکہ بیٹی کی اجازت کے بغیر کیا ہوا نکاح شرعا مردود ہوتا ہے۔ (بیٹی کی شان و عظمت، ص: 44-48)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

نکاح کے مسائل،صفحہ:525

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ