سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(235) کیا عورت کا ذبیحہ حلال ہے؟

  • 23605
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2537

سوال

(235) کیا عورت کا ذبیحہ حلال ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورتیں اگر جانور ذبح کریں تو آج کل اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔ کیا شریعتِ اسلامیہ عورت کو منع کرتی ہے کہ وہ جانور ذبح کرے؟ کیا عورت کا ذبیحہ حلال ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کا ذبیحہ بالکل جائز اور حلال ہے۔ مسلمانوں کے لیے تو اہل کتاب کا ذبیحہ بھی حلال ہے مسلمان عورت کا ذبیحہ کیونکر حلال نہیں ہو گا! عورت اگر جانور ذبح کر سکتی ہو تو اس کا ذبیحہ حلال ہے۔ ابن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی والد سے بیان کرتے ہیں:

ان کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑ تھا۔ جو سلع پہاڑی پر چرنے جاتا تھا۔ (انہوں نے بیان کیا کہ) ہماری ایک باندی نے ہماری ہی ریوڑ کی ایک بکری کو (جب وہ چر رہی تھی) دیکھا کہ مرنے کے قریب ہے۔ اس نے ایک پتھر توڑ کر اس سے بکری کو ذبح کر دیا۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب تک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھ نہ لوں اس کا گوشت نہ کھانا۔ یا (یوں کہا کہ) جب تک میں کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کے بارے میں پوچھنے کے لیے نہ بھیجوں، چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا، یا کسی کو (پوچھنے کے لیے) بھیجا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا گوشت کھانے کے لیے حکم دیا۔ عبیداللہ نے کہا کہ مجھے یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ باندی (عورت) ہونے کے باوجود اس نے ذبح کر دیا۔ (بخاري، الوکالة، اذا ابصر الراعي ۔۔، ح: 2304)

حدیث کی عربی عبارت (فامره باكلها) کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا ذبح کردہ جانور حلال ہے۔ اس حدیث کی شرح میں مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا ثبوت ملتا ہے کہ بوقتِ ضرورت مسلمان عورت کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور عورت اگر لونڈی ہو تب بھی اس کا ذبیحہ حلال ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ چاقو، چھری پاس نہ ہونے کی صورت میں تیز دھار پتھر سے بھی ذبیحہ درست ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی حلال جانور اگر اچانک کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو مرنے سے پہلے اس کا ذبح کر دینا ہی بہتر ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی مسئلہ کی تحقیق مزید کر لینا بہرحال بہتر ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ ریوڑ کی بکریاں سلع پہاڑی پر چرانے کے لیے ایک عورت (باندی) بھیجی جاتی تھی۔ جس سے بوقت ضرورت جنگلوں میں پردہ اور ادب کے ساتھ عورتوں کا جانا بھی ثابت ہوا۔ عبیداللہ کے قول سے معلوم ہوا کہ اس دور میں بھی باندی عورت کے ذبیحہ پر اظہار تعجب کیا جایا کرتا تھا کیونکہ دستور عام ہر قرن میں مردوں ہی کے ساتھ سے ذبح کرنا ہے۔ (شرح بخاری 451/3)

بعض صحابیات رضی اللہ عنھن بھی اپنے جانوروں کو خود ذبح کیا کرتی تھیں:

"امر ابو موسى بناته ان يضحين بايديهن"(بخاري، الاضاحي، من ذبح ضحیة غیرہ)

’’ابوموسیٰ اشعری (رضی اللہ عنہ) نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیا کہ وہ (اپنے جانوروں کی) قربانی اپنے ہاتھ سے کریں۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ افکارِ اسلامی

ذبح کرنے کے مسائل،صفحہ:509

محدث فتویٰ

تبصرے