السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا شریعت میں حجِ بدل کا کوئی ثبوت ملتا ہے؟ نیز اس کے لیے کیا شرائط ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حج بدل کئی احادیث سے ثابت ہے، خثعم قبیلہ کی عورت کا ذکر حدیث میں موجود ہے، اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع کے موقع پر سوال کیا:
يا رسول الله ان فريضة الله على عباده فى الحج ادركت ابى شيخا كبيرا لا يستطيع ان يستوى على الراحلة فهل يقضى عنه ان احج عنه؟ قال: «نعم»(بخاری، جزاء الصید، الحج عمن لا یستطیع الثبوت علی الراحلۃ، ح: 1854، حج المراة عن الرجل، ح: 1855)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ کی طرف سے فریضہ حج، جو اُس کے بندوں پر ہے، اس نے میرے بوڑھے والد کو پا لیا ہے لیکن ان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ سواری پر بھی بیٹھ سکیں۔ اگر میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو کیا ان کا حج ادا ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: میری بہن نے نذر مانی تھی کہ حج کرے گی لیکن اس کا انتقال ہو گیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لو كان عليها دين اكنت قاضية؟» قال: نعم قال: «فاقض الله فهو أحق بالقضاء»(بخاري، الایمان والنذور، من مات و علیہ نذر، ح: 6699)
’’اگر اس پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ اس نے عرض کی: ضرور ادا کرتا۔ آپ نے فرمایا: اللہ کا قرض بھی ادا کرو کیونکہ وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کا قرض پورا ادا کیا جائے۔‘‘
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ایک روایت میں ہے:
جہینہ قبیلہ کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کرنے لگی: میری والدہ نے حج کی نذر مانی تھی مگر حج کرنے سے پہلے ہی فوت ہو گیا، کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا:
(نعم حجي عنها أرأيت لو كان على أمك دين أكنت قاضيته قالت نعم فقال اقضوا الله الذي له فإن الله أحق بالوفاء)(بخاري، جزاء الصید، الحج والنذور عن المیت والرجل یحج عن المراة، ح: 1852)
’’ہاں آپ اس کی طرف سے حج کریں۔ اگر آپ کی ماں پر قرض ہوتا تو کیا آپ اسے ادا نہ کرتیں؟ اللہ کا قرض ادا کرو۔ اللہ وفا کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔‘‘
عبداللہ بن بریدہ اپنے باپ (بریدہ رضی اللہ عنہ) سے بیان کرتے ہین:
میں ایک دفعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اور عرض گزار ہوئی:
میں نے ایک لونڈی بطور صدقہ اپنی والدہ کو دی تھی۔ اب والدہ وفات پا گئی ہیں۔ آپ نے فرمایا:
(وجب اجرك وردها عليك بالميراث)
’’آپ کو اجر بھی مل گیا ہے۔ اور بطور وراثت وہ لونڈی آپ کو دوبارہ مل چکی ہے۔‘‘
اس عورت نے کہا: میری والدہ کے ذمے ایک ماہ کے روزے بھی ہیں۔ کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھ لوں؟ آپ نے فرمایا:
(صومى عنها)
’’اس کی طرف سے روزے رکھ لو۔‘‘
وہ عورت عرض کرتی ہے: اس نے تو حج بھی نہیں کیا، کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا:
(حجى عنها) (مسلم، الصیام، قضاء الصوم عن المیت، ح: 1149)
’’اس کی طرف سے تم حج کر لو۔‘‘
ابو زرین بن عقیلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا:
اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ حج و عمرہ ادا نہیں کر سکتے کیونکہ وہ سواری نہیں کر سکتے۔ آپ نے فرمایا:
(حج عن ابيك واعتمر)(نسائي، الحج، العمرة عمن لا یستطیع الحج، ح: 2637)
’’تم اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ ادا کرو۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا وہ لبیک پکارتے وقت شبرمہ نامی آدمی کی طرف سے لبیک کہہ رہا ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا:
(من شبرمة؟)
’’شبرمہ کون ہے؟‘‘
اس نے کہا؛ شبرمہ میرا بھائی یا عزیز ہے۔ آپ نے اس سے دریافت کیا:
(حججت عن نفسك؟)
’’تم نے کبھی اپنا حج ادا کیا ہے؟‘‘
اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا:
(حج عن نفسك ثم حج عن شبرمة)(ابوداؤد، المناسک، الرجل یحج عن غیرہ، ح: 1811)
’’پہلے اپنا حج ادا کر لو پھر (آئندہ سال) شبرمہ کی طرف سے ادا کرنا۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث سے درج ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں:
1۔ حجِ بدل معتبر احادیث سے ثابت ہے۔
2۔ عہد نبوی میں صحابہ رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حجِ بدل کیا کرتے تھے۔
3۔ وہ امیر آدمی جو استطاعت رکھتا ہو مگر سفر کرنے سے معذور ہو اُس کی طرف سے حج ادا کرنے کا حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔
4۔ حجِ بدل جس طرح زندہ شخص کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے اسی طرح فوت شدہ کی طرف سے بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔
5۔ مرد مرد کی طرف سے، عورت عورت کی طرف سے، عورت مرد کی طرف سے اور اسی طرح مرد عورت کی طرف سے حج ادا کر سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تبویب میں بھی اسے واضح کیا ہے۔
6۔ جس کی طرف سے حج کیا جا رہا ہو تلبیہ میں اسی کا نام پکارا جائے گا جیسا کہ لبيك عن شبرمة سے ظاہر ہے۔
7۔ حج بدل کے لیے ایک اہم شرط یہ ہے کہ حج بدل کرنے والا پہلے خود حج کر چکا ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب