السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسلمان پر حج فرض ہونے کی کیا شرائط ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں حج اس شخص پر فرض ہوتا ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا ...﴿٩٧﴾... سورة آل عمران
’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اُس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں وہ اس کا حج کریں۔‘‘
(اللہ تعالیٰ کا حق لوگوں کا فرض بنتا ہے۔) یعنی حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے۔
استطاعت میں زادِ راہ سرفہرست ہے یعنی آدمی کے پاس اتنی دولت ہو کہ وہ مکہ مکرمہ کی آمدورفت اور وہاں پر قیام کے اخراجات کے لیے کافی ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَتَزَوَّدوا فَإِنَّ خَيرَ الزّادِ التَّقوىٰ...﴿١٩٧﴾... سورة البقرة
’’اور سفر خرچ اپنے ساتھ رکھو۔ بہتر زادِ راہ تقویٰ ہے۔‘‘
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
(كان اهل اليمن يحجون ولا يتزودون ويقولون نحن المتوكلون فاذا قدموا مدينة سالوا الناس فانزل الله تعالٰى: «وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ»(بخاري، الحج، قول اللہ تعالیٰ: «وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ»
’’یمن کے لوگ راستے کے خرچ ساتھ لائے بغیر حج کے لیے آ جاتے تھے، کہتے تو یہ تھے کہ ہم توکل کرتے ہیں لیکن جب مدینہ آتے تو لوگوں سے مانگنے لگتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ﴿وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ﴾ ’’اور توشہ لے لیا کرو کہ سب سے بہتر توشہ تو تقویٰ ہی ہے۔‘‘
اس آیت میں تقویٰ سے مراد سوال کرنے سے بچنا مراد ہے۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قيل يا رسول الله ما السبيل قال: «الزاد والرحلة»(دارقطنی 217/2، ابن ماجہ، ح: 2897)
’’اللہ کے رسول سے پوچھا گیا کہ السبیل سے کیا مراد ہے؟
(ارشاد باری تعالیٰ ﴿وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾ آل عمران: 97/3 کی طرف اشارہ ہے)
آپ نے فرمایا: زادِراہ اور سواری۔‘‘
سواری اپنی ہو یا کرائے کی یا کار، بس، بحری جہاز اور ہوائی جہاز وغیرہ کا خرچ برداشت کر سکتا ہو۔
حج کے لیے جانے والی اگر عورت ہو تو اس کے خاوند یا اس کے کسی محرم کا اس کے ساتھ ہونا ضروری ہے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے:
(لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِاِمْرَأَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ, وَلَا تُسَافِرُ اَلْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ)
’’مرد کسی غیر عورت کے ساتھ اس کے محرم کی موجودگی کے بغیر ہرگز تنہائی میں نہ ہو اور نہ کوئی عورت بغیر کسی ذی محرم کو ساتھ لیے سفر ہی کرے۔‘‘
ایک آدمی کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! میرا نام مجاہدین کی فہرست میں آیا ہے اور میری بیوی حج کے لیے جا رہی ہے؟ آپ نے فرمایا:
(انطلق فحج مع امرأتك)(مسلم، الحج، سفر المراة مع محرم الی الحج وغیرہ، ح: 1341)
’’جاؤ تم اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کرو۔‘‘
بیوی کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ اس کی عدت ختم ہو تو پھر حج کرے، دورانِ عدت حج نہ کرے۔ سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں:
"ان عمر بن الخطاب رضى الله عنه كان يرد المتوفى عنهن ازواجهن من البيداء يمنعهن الحج"(موطا امام مالک، الطلاق، مقام المتوفی عنھا زوجھا ۔۔، ح: 1255)
’’عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان بیواؤں کو جن کی عدت وفات پوری نہ ہوئی ہوتی تھی، بیداء سے واپس بھیج دیتے تھے۔ آپ انہیں حج سے روک دیتے تھے۔‘‘
اسی طرح راستے کا پُرامن ہونا بھی استطاعت میں شامل ہے۔ بیت اللہ تک جانے اور آنے کا سفر پُرامن و، کسی جانی یا مالی نقصان کا خطرہ غالب نہ ہو۔
جسمانی معذوری یا بیماری کی شکل میں صاحبِ استطاعت حجِ بدل کروا سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب