السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے ایک صاحب سے کہا: آپ مالدار ہیں مگر حج نہیں کرتے؟ موصوف نے جواب دیا: چونکہ پیرومرشد نے (استطاعت ہونے کے باوجود) ابھی تک حج نہیں کیا اس لیے مجھ پر حج فرض نہیں! پیر اگر حج نہ کرے تو کیا اس کے صاحبِ استطاعت مریدوں پر بھی حج فرض نہیں ہوتا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں راہنمائی کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صاحب استطاعت مسلمان پر حج فرض ہے۔ ارشاد باری تعاالیٰ ہے:
﴿فيهِ ءايـٰتٌ بَيِّنـٰتٌ مَقامُ إِبرٰهيمَ وَمَن دَخَلَهُ كانَ ءامِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِىٌّ عَنِ العـٰلَمينَ ﴿٩٧﴾... سورة آل عمران
’’اس میں واضح نشانیاں ہیں، مقامِ ابراہیم ہے، اس میں جو آ جائے امن والا ہو جاتا ہے، اللہ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے، اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ (اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بے پروا ہے۔‘‘
استطاعت میں پیرومرشد کا حاجی ہونا شامل نہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہین: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
(ايها الناس قد فرض عليكم الحج فحجوا)(مسلم، الحج، فرض الحج مرة فی العمر، ح: 1337)
’’لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے لہذا تم حج کرو۔‘‘
ایک لمبی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں:
(وتحج البيت ان استطعت اليه سبيلا) (ایضا، الایمان، ح: 8)
’’اگر تجھے بیت اللہ کی طرف جانے کی طاقت ہے تو اس کا حج کر۔‘‘
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من أراد الحج فليتعجل فإنه قد يمرض المريض ، وتضل الضالة ، وتعرض الحاجة)(ابن ماجة، المناسک، الخروج الی الحج، ح: 2883)
’’جو حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ جلدی کرے کیونکہ آدمی بیمار بھی ہو سکتا ہے، سواری ہاتھوں سے نکل سکتی ہے یا کوئی اور حاجت رکاوٹ بن سکتی ہے۔‘‘
امام ابن قدامہ نے لکھا ہے:
(واجمعت الامة على وجوب الحج على المستطيع فى العمر مرة واحدة) (المغني 6/5)
’’صاحبِ استطاعت پر عمر میں ایک بار حج واجب ہے، اس پر امت کا اجماع ہے۔‘‘
یہ بات بھی ثابت ہے کہ جس سال حج فرض ہوا۔ (حج 9ھ کو فرض ہوا۔ مرعاۃ المفاتیح) تو صحابہ رضی اللہ عنھم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امارت میں حج ادا کیا۔
(نسائي، مناسک الحج، الخطبة قبل یوم الترویة، ح: 2993)
جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج (حجۃ الوداع) 10ھ میں ادا کیا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سمیت بہت سے صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حج کر چکے تھے۔ ان استطاعت رکھنے والے صحابہ نے تو یہ نہ کہا کہ ہم پر ابھی حج فرض نہیں ہوا۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حج کریں گے تب ہم کریں گے۔
سید الاولین والآخرین کے مقابلے میں ان پیروں کی حیثیت ہی کیا ہے؟ لہذا اِن بے عملوں کے حج نہ کرنے سے مریدوں سے حج ساقط نہیں ہوتا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب