السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عاشوراء کے روزہ کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ منسوخ کر دیا گیا ہے، لہذا یہ روزہ رکھنا مکروہ ہے، کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عاشوراء سے مراد نو محرم ہے۔ لہذا اب نو محرم کا ہی روزہ رکھنا چاہئے۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ دس محرم کے روزے کے ساتھ ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھنا چاہئے، ان میں سے کون سی بات درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صومِ عاشوراء کا آغاز موسیٰ علیہ السلام سے ہوا تھا، انہیں اس دن اللہ تعالیٰ نے فرعون سے نجات عطا کی تھی تو اُنہوں نے شکراانے کے طور پر روزہ رکھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے، آپ نے یہود کو دیکھا کہ وہ یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، آپ نے ان سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے، اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن سے نجات دی تھی، اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے (بطورِ شکر) اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا:
«انا احق بموسى منكم» فصامه و امر بصيامه»(بخاري، الصوم، صیام یوم عاشوراء، ح: 2004، مسلم، ح: 1130، ابوداؤد، ح؛ 2444، ابن ماجه، ح: 1734)
’’موسیٰ کا میں تم سے زیادہ حق دار ہوں، لہذا آپ نے خود اس دن کا یہ روزہ رکھا اور یہ روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔‘‘
احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قریش بھی یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے۔ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو بھی آپ نے یہ روزہ رکھا اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا مگر جب رمضان فرض ہوا تو یہ دن چھوڑ دیا گیا، اب جس کا جی چاہے اس دن کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
(بخاري، ایضا، ح: 2002، مسلم، ح: 1125، ابوداؤد، ح: 2442، 2443، ترمذي، ح: 753، ابن ماجه، ح: 1737)
احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قریش بھی یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے۔ جب آپ مدینہ تشریف لائے تو بھی آپ نے یہ روزہ رکھا اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا مگر جب رمضان فرض ہوا تو یہ دن چھوڑ دیا گیا، اب جس کا جی چاہے اس دن کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔
(بخاری، ایضا، ح: 2002، مسلم، ح: 1125، ابوداؤد، ح: 2442، 2443، ترمذی، ح: 753، ابن ماجہ، ح: 1737)
احادیث میں اس روزہ کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے، ارشاد نبوی ہے:
(صيام يوم عاشوراء احتسب على الله ان يكفر السنة التى قبله) (مسلم، الصیام، استحباب صیام ثلاثة ایام ۔۔، ح: 1162)
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
(يكفر السنة الماضية) (ایضا)
’’یہ روزہ گزرے ہوئے ایک سال کا کفارہ ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ جو اِس دن کا روزہ رکھتا ہے اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
یہودی اس دن کو عید اورتہوار کے طور پر مناتے تھے جبکہ مسلمانوں کو اس دن کا روزہ رکھنے کا ہی حکم ملا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل خیبر (یہود) یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اوراس دن کو عید کا دن بنا لیتے، اپنی عورتوں کو زیورات پہناتے اور انہیں سنوارتے اور سنگارتے تھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(فصوموه انتم)(بخاري، الصوم، صوم یوم عاشوراء، ح: 2005، مسلم، ح: 1131)
’’تم لوگ اس دن کا روزہ (ہی) رکھو۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نو محرم کا روزہ رکھنے کا بھی عزم ظاہر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(فاذا كان العام المقبل۔ ان شاء الله۔ صمنا اليوم التاسع)(مسلم، الصیام، ای یوم یصام فی عاشوراء، ح: 1134، ابوداؤد، ح: 2445)
’’جب آئندہ سال آئے گا تو ہم ان شاءاللہ نو تاریخ کا (بھی) روزہ رکھیں گے۔‘‘
مگر اگلا سال آنے سے پہلے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔
ایک اور حدیث میں ہے:
(لئن بقيت الى قابل لا صومن التاسع)(مسلم، ح: 1134، ابن ماجه، ح: 1736)
’’اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نو تاریخ کا ضرور روزہ رکھوں گا۔‘‘
حکم بن اعرج کہتے ہیں: میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ زمزم کے کنارے اپنی چادر کا تکیہ بنائے تشریف فرما تھے، میں نے آپ سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب ماہ محرم کا چاند دیکھو تو دن شمار کرتے رہو جب نویں تاریخ ہو تو روزہ رکھو۔ (مسلم، ح: 1133، ابوداؤد، ح: 2446، ترمذي، ح: 754)
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کا صحیح مفہوم یہی معلوم ہوتا ہے کہ نو محرم کا روزہ رکھا جائے، اس فرمان اور دیگر کسی بھی حدیث میں دس تاریخ کا روزہ منسوخ قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ احادیث سے بالصراحت ثابت ہے کہ عاشوراء کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی شامل کر لیا جائے۔ دریں صورت یہود سے مشابہت نہیں ہو گی۔
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
(صوموا التاسع والعاشر و خالفوا اليهود)(السنن الاثآر للبیہقی: 8966، 350/6، الفتح الربانی 189/1، الشیخ احمد عبدالرحمٰن البنا نے اس موقوف روایت کی سند کو صحیح کہا ہے۔)
’’نو اور دس محرم کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔‘‘
اس روایت کی وجہ سے امام شوکانی رحمہ اللہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جو شخص عاشوراء کا روزہ رکھنا چاہتا ہو وہ نو محرم کا روزہ بھی رکھ لے۔ (السیل الجرار 148/2)
بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ عاشوراء سے مراد نو محرم لیتے تھے جبکہ یہ غلط فہمی ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں:
"امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بصوم عاشوراء يوم العاشر"(ترمذي، الصوم، ما جاء فی عاشوراء ای یوم ھو؟ ح: 755، ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح کہا ہے۔)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء یعنی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔‘‘
جمہور علمائے سلف و خلف اس بات کے قائل ہیں کہ عاشوراء سے مراد محرم کی دسویں تاریخ ہے۔ امام قرطبی نے اس مسئلہ کو کافی وضاحت سے بیان کیا ہے، ان کا میلان اس قول کی طرف ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا پوچھنے والے سے یہ کہنا کہ ’’تاریخیں گن لو اور نویں دن روزہ رکھو‘‘ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ دسویں دن کا روزہ چھوڑ دیا جائے بلکہ اس فرمان کا مقصد یہ تھا کہ دس کے ساتھ ساتھ نو کا روزہ بھی رکھا جائے۔ علماء کا کہنا ہے کہ دونوں دنوں کا روزہ رکھنے سے احادیث میں جمع و تطبیق بھی ہو جاتی ہے۔ (تفسیر القرطبی، تفسیر البقرة:50)
ابن قدامہ رحمہ اللہ احادیث اور فرامین ابن عباس بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’یہی وجہ ہے کہ نو اور دس تاریخ کا روزہ مستحب ہے ۔۔‘‘
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اگر کسی کو مہینے کیا ابتداء کے بارے میں اشتباہ یا شک پایا جاتا ہو تو وہ تین دن کے روزے رکھے، ایسا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا بھی روزہ یقینی طور پر رکھا جا سکے۔‘‘ (المغنی 239/4، دارالحدیث، القاھرة)
اکثر شارحینِ حدیث اور علماء نے بھی نو اور دس کے روزے کو ترجیح دی ہے:
1۔ امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم (ح: 1133) میں لکھتے ہیں: مشاہیر علمائے سلف و خلف کا موقف یہ ہے کہ عاشوراء دسویں تاریخ ہے اور سعید بن مسیب، حسن بصری، امام احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہم کا یہی قول ہے، ظاہر احادیث سے اور متقضائے لفظ سے یہی ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ عاشوراء عشر سے مشتق ہے اور عشر دس کو کہتے ہیں اور امام شافعی، ان کے اصحاب، امام احمد، اسحاق رحمۃ اللہ علیہم اور دوسرے علماء کا قول ہے کہ نویں اور دسویں دونوں کا روزہ مستحب ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں کا روزہ رکھا تھا اور نویں تاریخ کو روزہ رکھنے کی نیت کی تھی۔ اتنے میں آپ کی وفات ہو گئی اور حدیث مسلم میں گزرا ہے کہ افضل صیام بعد رمضان کے صیام (شهر الله المحرم) ہے اور علماء نے کہا ہے کہ نویں تاریخ کا روزہ ملا لینے سے غرض یہ تھی کہ صرف دسویں کے روزے میں یہود کی مشابہت تھی۔
2۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’بعض اہل علم کے بقول مسلم کی حدیث (آئندہ سال اگر میں زندہ رہا تو نو محرم کا ضرور روزہ رکھو گا) کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: دس محرم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو تاریخ کا روزہ بھی مقرر کرنا چاہتے تھے مگر آپ کسی بھی صورت کو متعین کرنے سے پہلے وفات پا گئے۔ لہذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ نو اوردس دونوں دنوں کا روزہ رکھا جائے۔‘‘ (فتح الباری 4/ 773)
3۔ ابوداؤد (853/2 دارالسلام) کے محشی ابو عمارعمر فاروق سعیدی لکھتے ہیں:
’’اس فرمان مبارک کا یہ مفہوم ہے کہ ہم نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے، دیگرروایات کی روشنی میں یہی معنی درست ہے ۔۔‘‘
جناب عطاء ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
’’نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔‘‘ (البیہقی 287/4)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ
’’جب تم محرم کا چاند دیکھو تو شمار کرو، جب نویں تاریخ آئے تو روزہ رکھو‘‘ اس سے مراد یہ نہیں کہ عاشوراء نویں تاریخ کو کہتے ہیں بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ دسویں سے پہلے نویں تاریخ کا روزہ بھی رکھو۔‘‘(از افادات امام ابن قیم)
4۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان بھی دو روزے رکھنے کے موقف کی طرف ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ عاشورے کے دن کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، بعضوں نے کہا نویں تاریخ ہے، بعضوں نے کہا دسویں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
’’نویں اور دسویں کو روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔‘‘
امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق (رحمۃ اللہ علیہم) اسی کے قائل ہیں۔
(ترمذی 285/1، اسلامی کتب خانہ لاہور)
5۔ ابن ماجہ (697/1، ایضا) کی شرح میں مولانا احمد یار لکھتے ہیں:
عاشورہ محرم کا دسواں دن ہے جمہور کا یہی قول ہے اور بعض نے گیارھواں دن کہا ہے۔ محرم کا دسواں دن ہونے کی وجہ سے اسے عاشورہ کہتے ہیں۔ محرم کی نویں اور دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے کیونکہ صرف عاشورہ کا روزہ رکھنے میں یہود کی مشابہت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ نے چاہا (ان شاءاللہ) تو آئندہ سال نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھیں گے لیکن سال آئندہ آنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی، فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ صرف عاشورہ کے دن اکیلا روزہ رکھنا مکروہ ہے اور امامیہ عاشورہ کا روزہ مکروہ جانتے ہیں اور کہتے ہیں امام حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں اس دن فاقہ کرنا چاہئے اور ہم کہتے ہیں کہ روزہ رکھنا غم کے خلاف نہیں پس 'ہم خرما وہم ثواب' پر عمل کیوں نہیں کرتے؟
6۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کہتے ہیں:
’’عاشورہ کا روزہ تین طرح پر ہے ایک افضل وہ یہ کہ نویں سے گیارہویں تک تین روزے رکھے، دوسرے اس سے کم درجے میں، وہ یہ کہ نویں اور دسویں کو رکھے، تیسرے سب سے کم وہ یہ کہ صرف عاشورہ کے دن رکھے۔‘‘
(دیکھیے شرح ابن ماجہ 698/1)
7۔ مسجد نبوی کے مدرس شیخ ابوبکر جابر جزائری نے بھی محرم کی نو اور دس تاریخ کا روزہ مستحب لکھا ہے اور اس سلسلے میں پیش کی گئی احادیث میں سے ایک کا ترجمہ منہاج المسلم کے مترجم شیخ الحدیث مولانا محمد رفیق اثری نے یوں کیا ہے:
’’ان شاءاللہ ہم اگلے سال نو محرم کا (بھی) روزہ رکھیں گے۔‘‘(منہاج المسلم، ص: 438)
بہت سے شارحین اور مترجمین نے دیگر احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے اور احادیث میں تطبیق دینے کے لیے بریکٹوں میں "بھی" کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس حدیث کی شرح میں شارحین حدیث نے عربی میں جو اى معه اور يعنى معه وغیرہ الفاظ استعمال کیے ہیں، یہ "بھی" انہی کا ترجمہ ہے۔
8۔ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے ریاض الصالحین کی شرح میں یہی موقف اختیار کیا ہے کہ اب دو روزے رکھنے چاہئیں، 9، 10 محرم یا 10، 11 محرم کا روزہ۔ افسوس کہ مسلمان اس سنت پر تو عمل نہیں کرتے لیکن اپنی طرف سے گھڑی ہوئی بہت سی بدعات پر نہایت سختی سے عمل کرتے ہیں۔ (لئن بقيت الى قابل لا صومن التاسع) والی حدیث کی شرح میں حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں:
بعض لوگ اس کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ صرف نو محرم کا روزہ رکھوں گا۔ لیکن دوسری حدیث کی رو سے یہ مفہوم صحیح نہیں کیونکہ آپ نے یہود کی مخالفت اختیار کرنے کے لیے دس محرم کے روزے کے ساتھ ایک اور روزہ رکھنے کا عزم ظاہر کیا اور اس کا حکم بھی دیا، جیسا کہ مسند احمد (21/4) کی روایت ہم نے بیان کی ہے۔ اس لیے اس کا وہی مفہوم صحیح ہے جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔
(لا صومن التاسع) کا ترجمہ محترم حافظ صلاح الدین یوسف نے ’’9، 10 محرم کا روزہ (بھی) ضرور رکھوں گا‘‘ کیا ہے۔ (شرح ریاض الصالحین 234/2)
9۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ریاض الصالحین میں عاشوراء کے ساتھ ساتھ تاسوعاء (نویں محرم کا لفظ بھی استعمال کیا ہے جیسا کہ اس باب سے واضح ہے:
باب فضل صوم يوم عرفة و عاشوراء و تاسوعاء(ریاض الصالحین: 233/2)
’’یوم عرفہ، عاشوراء اور نویں محرم کے روزے کی فضیلت۔‘‘
10۔ آخر میں سابق مفتی اعظم (سعودی عرب) عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ پیش کیا جاتا ہے۔ اُن سے عاشوراء اور ماہِ محرم کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا:
’’اللہ کے مہینہ محرم کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ "رمضان کے بعد افضل ترین روزے محرم کے ہیں جو کہ اللہ کا مہینہ ہے۔" اس لیے اگر کوئی شخص پورے مہینے روزے رکھتا ہے تو بہتر ہے یا نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارھویں محرم کے روزے رکھے تو یہ بھی بہتر ہے۔‘‘
(فتاویٰ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ، ص: 358، دارالداعی، ریاض)
ملاحظہ: صومِ عاشوراء کے متعلق روایات کو سامنے رکھتے ہوئے ان سے اس روزے کی چار حالتیں معلوم ہوتی ہیں:
1۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں یہ روزہ رکھا لیکن لوگوں کو حکم نہیں دیا نیز قریش بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ (بخاري، ح: 2002)
2۔ مدینہ آ کر اہل کتاب کو یومِ عاشوراء کی تعظیم میں روزہ رکھتے دیکھا تو اُن کی موافقت میں خود بھی یہ روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی حکم دیا کیونکہ جن چیزوں میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہیں اُترا تھا اُن میں آپ اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے۔
(بخاري، ح: 2004، مسلم، ح: 1130-1131)
3۔ جب ماہِ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے یہ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار دے دیا۔ (بخاری، ح: 1892، مسلم، ح: 1125)
4۔ حیاتِ طیبہ کے آخری دَور میں عاشوراء کا روزہ رکھنے والے کے لیے یہود کی مخالفت کا اعلان کیا یعنی اگر کسی نے یہ روزہ رکھنا ہے تو وہ نو محرم کا بھی رکھے۔
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’اسلامی مہینے اور اُن کا تعارف‘‘ (محمد ارشد کمال)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب