السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ عید کی نماز سے پہلے تقریر کرتے ہیں، تقریبا گھنٹہ آدھ گھنٹہ وعظ کرنے کے بعد عید کی نماز ادا کرتے ہیں، نماز کے بعد پھر خطبہ دیتے ہیں۔ کیا یہ عمل سنت نبوی کے مطابق ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے نماز عید ادا کرنی چاہئے اور پھر خطبہ دینا چاہئے (واضھ رہے کہ خطبہ اورتقریر میں کوئی فرق نہیں۔)
براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ
"ان اول ما نبدأ فى يومنا هذا ان نصلي"(بخاري، العیدین، الخطبه بعد العیدین، ح: 965)
’’ہم اس دن سب سے پہلے نماز سے ابتدا کریں گے۔‘‘
طلوعِ آفتاب کے بعد سب سے پہلا کام جو کرنا چاہیے وہ نماز عید کی ادائیگی ہے۔ خطبہ اس کے بعد ہو گا (اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سورج نکلنے کے بعد نماز کو زیادہ مؤخر نہیں کرنا چاہئے جیسا کہ بہت سے عجمی ممالک میں آج کل رواج بنتا جا رہا ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
(ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلى فى الاضحى والفطر ثم يخطب بعد الصلوة) (بخاري، ایضا، المشی والرکوط الی العید ۔۔، ح: 957)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحیٰ اور عید الفطر کی نماز پہلے پڑھتے اور خطبہ نماز کے بعد دیتے۔‘‘
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے:
"ان النبى صلى الله عليه وسلم خرج يوم الفطر فبدأ بالصلوة قبل الخطبة"(ایضا، ح: 958)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن (عیدگاہ کی طرف) نکلے اور خطبہ (تقریر) سے پہلے نماز شروع کی۔‘‘
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
"ان النبى صلى الله عليه وسلم قام فبدأ بالصلوة ثم خطب الناس بعد"(بخاري، ایضا، ح: 961)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم (عید کے دن) کھڑے ہوئے اور نماز شروع کی، پھر آپ نے اس کے بعد لوگوں سے خطاب کیا۔‘‘
شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کا عمل بھی اسی سنت کے مطابق تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
(كان رسول الله صلى الله عليه وسلم و ابوبكر و عمر رضى الله عنهما يصلون العيدين قبل الخطبة)(بخاری، ایضا، خطبةبعد العید، ح: 963)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم و ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔‘‘
ایک روایت میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ عثمان رضی اللہ عنہ کا بھی تذکرہ ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(شهدت العيد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم و ابى بكر و عمر و عثمان رضى الله عنهم فكلهم كانوا يصلون قبل الخطبة) (بخاري، ایضا، ح: 962)
’’ہمیں عید کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ گیا ہوں، وہ سب خطبہ سے پہلے عید کی نماز پڑھتے تھے۔‘‘
ان خلفاء کے علاوہ بھی یہ ثابت نہیں کہ کسی صحابی نے نماز عید سے پہلے خطبہ دیا ہو۔
’’ایک روایت میں ہے کہ عبداللہ بن عباس نے عبداللہ بن زبیر کے پاس، جب شروع شروع میں ان کی بیعت کی گئی تھی، ایک شخص کو (یہ بتانے کے لیے) بھیجا کہ نماز عیدالفطر کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی اور خطبہ نماز کے بعد ہوتا تھا۔‘‘(بخاري، ایضا، المشی والرکوب الی العید والصلاة قبل الخطبة ۔۔، ح: 959)
نماز کے بعد خطبہ دینے کی سنت کو مروان بن حکم نے اپنے عہد حکومت میں بدلا تھا۔ ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں:
"كان النبى صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر والاضحى الى المصلى، فأول شىء يبدأ به الصلاة، ثم ينصرف فيقوم مقابل الناس والناس جلوس على صفوفهم- فيعظهم، و يوصيهم، ويامرهم۔ فان كان يريد ان يقطع بعثا قطعه او يامر بشىء امر به، ثم ينصرف ۔۔۔"(بخاري، ایضا، الخروج الی المصلی بغیر منبر، ح: 956)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن (مدینہ کے باہر) عیدگاہ تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے آپ نماز پڑھاتے، نماز سے فارغ ہو کر آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے۔ تمام لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے۔ آپ انہیں وعظ و نصیحت فرماتے، اچھی باتوں کا حکم دیتے۔ اگر جہاد کے لیے کہیں لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوتا تو اسے الگ کرتے۔ کسی اور بات کا حکم دینا ہوتا تو وہ حکم بھی دیتے۔ اس کے بعد شہر کو واپس تشریف لاتے۔‘‘
ابو سعید خدری نے بیان کیا کہ لوگ برابر اسی سنت پر قائم رہے لیکن معاویہ کے زمانے میں مروان، جو مدینہ کا حاکم تھا، میں اس کے ساتھ عیدالفطر یا عید الاضحیٰ کی نماز کے لیے نکلا، ہم جب عیدگاہ پہنچے تو وہاں میں نے کثیر بن صلت کا بنا ہوا ایک منبر دیکھا۔ جاتے ہی مروان نے چاہا کہ نماز سے پہلے اس منبر پر (خطبہ دینے کے لیے) چڑھے، اس لیے میں نے اس کا دامن پکڑ کر کھینچا لیکن وہ جھٹک کر اوپر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے خطبہ دیا۔ میں نے اسے کہا:
"غيرتم والله"
’’اللہ کی قسم! تم نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو) بدل دیا۔‘‘
مروان نے کہا: ابوسعید! اب وہ زمانہ گزر گیا جسے تم جانتے ہو، ابوسعید نے کہا: اللہ کی قسم! میں جس زمانہ کو جانتا ہوں اس زمانہ سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ مروان نے کہا: ہمارے دور میں لوگ نماز کے بعد نہیں بیٹھتے، لہذا میں نے خطبہ کو نماز سے پہلے کر دیا ہے۔
معلوم ہوا کہ وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقریبا آدھی صدی سے بعد تک نماز عید سے پہلے خطبہ دینے کی رسم کا وجود تک نہیں تھا۔ تیس سالہ خلافت راشدہ کے بعد بیس سال (42ھ سے 60ھ) تک معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت رہی۔ 60ھ سے 64ھ تک ان کا بیٹا یزید حکمران رہا۔ یزید کی وفات کے بعد اس کا بیٹا معاویہ ثانی حکمران بنا مگر وہ تین ماہ بعد ہی حکومت سے دستبردار ہو گیا۔ اس کی وفات کے بعد چھ سات ماہ تک تنہا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہی خلیفہ تھے۔ تمام عمال و حکام نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا۔ چھ سات ماہ کے بعد مروان بن حَکم بھرپور کوشش سے ملک شام پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ مروان 64ھ کے آخر سے لے کر 6 رمضان 65ھ (اپنی وفات) تک حکمران رہا۔ یہی مروان تھا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو تبدیل کر دیا جس پر ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"غيرتم والله"
’’اللہ کی قسم! تم نے (سنتِ رسول کو) بدل دیا ہے۔‘‘
ابوسعدی خدری رضی اللہ عنہ نے حاکمِ مدینہ کا دامن کھینچا اور اسے خلافِ سنت عمل کرنے سے روکا، کاش! آج بھی صحابہ رضی اللہ عنھم کی سوچ رکھنے والے افرادہوں جو لوگوں کو سنت کے خلاف چلنے سے روکیں۔
نوٹ: الناس جلوس على صفوفهم (لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوتے) سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں لوگ خطبہ عید سننے سے پہلے نہ جاتے بلکہ جیسے صفیں باندھ کر نماز پڑھتے اسی طرح صفوں میں بیٹھ کر خطبہ عہد سنتے تھے۔ اللہ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ رضی اللہ عنھم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی گزاریں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب