کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کسی شخص نے ارادہ کیا، اپنے گاؤں میں مسجد بنانے کا، اور اس کی تعمیر کے لیے اس نے ایک ٹکڑا زمین کی آمدنی وقف کی، اس عرصہ تک کے لیے جب تک مسجد تیار نہ ہو جائے، آمدنی تو جمع ہوتی ہے، مگر مسجد کی تعمیر ابھی شروع نہیں کی گئی، اب وہ شخص اپنے ارادے کو اس خیال سے بدلنا چاہتا ہے۔ کہ جس گاؤں میں اس نے مسجد بنوانے کا ارادہ کیا تھا۔ اس میں آبادی اہل اسلام کی نہیں ہے، صرف ایک یا دو آدمی نماز پڑھنے والے ہیں، باقی گو چند مسلمان بھی آباد ہیں، مگر نام کے مسلمان ہیں، کوئی صورت ان میں دین داری کی نظر نہیں آتی، کیا اگر وہ شخص اس رقم کو کسی دوسری جگہ کی مسجد کی تعمیر میں صرف کر دے، تو کوئی شرعی مواخذہ تو اس پر عاید نہیں ہو جاتا، نیز کیا اس ارادے کو بدلنے کی حالت میں کوئی دین تو اس پر لازم و عاید نہیں آتا، اگر آتا ہے، تو کس قدر؟
____________________________________________________
صورت مرقومہ میں اگر وہ شخص اس رقم کو کسی دوسری جگہ کی مسجد کی تعمیر میں صرف کر دے تو کوئی شرع مواخذہ اس پر نہیں ہے۔ اور نہ کوئی فدیہ و کفارہ اس پر لازم آتا ہے۔
(واللہ أعلم وعلمه أتم۔ کتبہٗ محمد بشیر عفی عنہ۔ سید محمد نذیر حسین (فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص۲۰۶)